محبت، یقین اور خواہش

2.7K 133 18
                                    

                  قسط:٧
چوہدری ہاوس میں سب ڈنر کر رہے تھے جب آسف صاحب شازیہ بیگم سے مخاطب ہوے۔
"ارشد صاحب یاد ہیں" تمہیں انہوں نے سوالیہ نظروں سے شازیہ بیگم کو دیکھا۔
"جی کیوں"
"کچھ دن پہلے ملا تھا میں ان سے" وہ ٹہرے اور پھر بولے "ان کی بیٹی کا رشتہ مانگنا ہے آیان کے لیے"
ارہم جو پانی پی رہا تھا بُری طرح چونکا اور پانی منہ سے باہر اگل دیا۔
"کیا ہو گیا ہے بیٹا آرام سے پانی پیو" شازیہ بیگم بولیں۔
"بابا خیریت تو ہے اتنی جلدی رشتہ اور یوں اچانک" ارہم بولا۔
"ہاں بیٹا بہت اچھی لڑکی لگی مجھے ایسے رشتے روز روز نہیں ملتے۔ کچھ دن پہلے وہ آیان سے بھی ملے تھے۔فون پہ تو بات ہو چکی ہے اب کل باقاعدہ گھر رشتہ لے کے جانا ہے"۔ آیان اٹھ کے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کہاں مر گٸی تھی" سحر کے چار دفعہ کال کرنے پر مہرو نے کال پک کی اور کال پک ہوتے ہی سحر غصے میں بولی۔
"یہیں تھی اور تمہیں کیا کیوں کال کر رہی ہو" مہرو مصنوعی خفگی سے بولی۔
"کیا مطلب کیوں کال کی تم سے بات کرنے کے لیے ہی کی"
"میں ناراض ہوں تم سے بات نہیں کرنی مجھے" وہ منہ بناتی بولی۔
"ناراض اور وہ بھی مجھ سے پر کیوں" سحر آنکھیں سکیڑیں بولی۔
"کیوں کے تم نے مجھے بتایا نہیں کے میں خالہ بننے والی ہوں" وہ بچوں کی طرح بولی۔
"اوو تو تمہیں پتا چل گیا کس نے بتایا"
"جس نے بھی بتایا بتا ہی دیا اب میں کال بند کرنے لگی ہوں"
"اوٸے مہرو بات تو سنو"
"ہمم بولو"
"یار مجھے شرم آ رہی تھی تم سے" وہ شرماتے ہوے بولی۔ اور ادھر مہرو کا زور دار قہقہہ کمرے میں گونجہ۔
"دیکھ لو مجھے پتا تھا تم یہی کرو گی اس لیے نہیں بتایا میں نے"
"کیا پتا تھا ہاں میں تو بس تمہارے شرمانے پہ ہنس رہی ہوں۔ خالہ بننے کی جتنی مجھے خوشی ہے نا میں بتا نہیں سکتی بس وہ دن جلدی جلدی آ جاٸے" اس کی خوشی اس کے لہجے میں صاف واضع تھی۔
"اچھا اچھا ٹھیک ہے ابھی بہت ٹاٸم ہے تم مجھے یہ بتاٶ تمہیں بتایا کس نے"
"ماما نے آنٹی کو کال کی تھی تو انہوں نے ماما کو بتایا تھا اور ماما نے مجھے۔ یار میرا بہت دل کر رہے تم سے ملنے کا کل گیسٹ آنے ہیں اگر ٹاٸم پہ چلے گٸے تو میں اور حور آٸیں گے"
"کس نے آنا ہے"
"بابا کے فرینڈ نے"
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آہاں برو شادی واہ واہ" آیان بیڈ پہ بیٹھا آنکھیں سامنے دیوار پہ ٹکاٸے گہری سوچ میں گم تھا جب ارہم اس کے قریب بیٹھتا بولا۔
"کدھر گُم ہو جناب ابھی تو بھابھی کو دیکھا بھی نہیں تو یہ خال ہے جب دیکھو گے تو کیا ہو گا"
"کیا بکواس کر رہا ہے میں کچھ اور سوچ رہا تھا"
"اب مجھ سے کیا چھپانا بتا دے بھابھی کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا" ارہم شرارتی انداز میں بولا۔
آیان نے اس کی فالتو بات کا جواب دینا بہتر نہیں سمجھا وہ خاموش رہا۔
"اتنا بھی کیا سوچنا چل میں بابا سے کہوں گا کے پک بنا لاٸیں یہ نا ہو میرا بھاٸی سوچ سوچ کے پاغل ہو جاٸے"
آیان نے اس ایک جھٹکے سے بیڈ پہ گرایا اور خود اس پہ بیٹھ کے اس کی گردن دپوچ کے بولا۔
"اب بتا کیا سوچ رہا تھا میں"
"پہلے پیچھے ہٹ پھر بتاتا ہوں"
"نہیں پہلے بتا"
"یار پیچھے ہو جان لے گا کیا"
آیان اس پر سے اٹھ کے اس کے سامنے بیٹھ گیا پر اس کی گردن نہیں چھوڑی۔
"بتا اب کیا سوچ رہا تھا" میں وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا۔
"آیان جان کیسے دیکھ رہے ہیں مجھے شرم آ رہی ہے" وہ نظریں جھکاٸے لڑکی کے انداز میں بولا۔
آیان کو اس کے اس انداز پہ ہنسی آ گٸی۔
"زلیل انسان دفع ہو یہاں سے" وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"جان جی اب آپ مجھے ایسا کہیں گے جاٸیں میں ناراض ہوں آپ سے" وہ لڑکی کی آواز نکالتا ہاتھ ہلاتا باہر نکل گیا۔
اس کے جاتے ہی آیان اونچی آواز میں ہنسہ اور پھر لیپ ٹاپ لے کے بیٹھ گیا۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں آ رہی تھیں سورج اپنی روشنی پھیلا رہا تھا ہلکی ہلکی ہوا سے پتے پھرپھڑا رہے تھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ بھی اللہ کا زکر کر رہے ہیں۔
"حور بیٹا اٹھی نہیں ابھی تک اب تو نماز میں بہت کم وقت رہ گیا ہے جلدی اٹھو میرا بیٹا پھر سکول بھی جانا ہے" ساجدہ بیگم اسے کندھے سے ہلاتی بولیں۔
"بس اُٹھنے لگی ہوں ماما" اس نے انگڑاٸی لی اور پھر اٹھ کے واش روم چلے گٸی ۔اور ساجدہ بیگم ناشتہ بنانے۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد شازیہ بیگم کچھ گفٹس خریدنے چلے گٸیں جب آٸی تو دو بج رہے تھے "جلدی کرو شازیہ ٹاٸم دیکھو کیا ہو گیا ہے" آسف صاحب ان کے گھر داخل ہوتے ہی بولے۔
"جی بس میں دو منٹ میں تیار ہو کے آٸی" کہتی وہ کمرے کی طرف بڑھ گٸیں۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم" آسف صاحب کے داخل ہوتے ہی ارشد صاحب نے سلام کیا اور ان سے بغل گیر ہوے۔ گرم جوشی سے سب ایک دوسرے سے ملے اور پھر لیونگ روم میں بیٹھ گٸے۔
آسف صاحب اور ارشد صاحب بزنس کی باتیں کرنا شروع ہو گٸے۔ اور شازیہ بیگم ربیعہ بیگم کو آیان کے متعلق بتانے لگ گٸیں۔
"آپ کو تو پتا ہی ہو گا کے آطف صاحب کے انتقال کے کچھ ماہ بعد ہی عفت بھاگ گٸی تھی۔آیان کو تو سنبھلتے بہت ٹاٸم لگ گیا تھا اسے میں نے ماں سے بڑھ کر پیار دیا ہے۔ آسف صاحب سے بھی جو مانگیں وہ اسی وقت لا دیتے ہیں ماشاءاللہ بہت اچھا بچہ ہے اسٹڈی کمپلیٹ کرنے کے بعد اب آسف صاحب کے ساتھ آفس جاتا ہے" ان کے باتیں کرتے ہوے بوا چاٸے کے ساتھ کچھ اور لوازمات رکھ کے پلٹی ہی تھیں کے شازیہ بیگم بولیں مہروالنسإ کو بلاٸیں۔
"بُوا مہروالنسإ کو بھیجیے گا"
"جی" کہتی وہ کمرے سے نکل گٸیں بوا کی عمر تقریباً چھپن سال تھی اور گیارہ سال سے وہ ان کے گھر کام کر رہی تھیں۔ پچھلے دو ماہ سے ان کی طبعیت خراب تھی جس وجہ سے وہ نہیں تھی آٸیں۔ ان دو ماہ میں مہرو نے ہی گھر کے کام کیے تھے کوکنگ کا ویسے بھی اسے بہت شوق تھا آج بھی بہت سی ڈیشز اس نے خود بناٸی تھیں بُوا کی طبعیت جیسے ہی تھوڑی بہتر ہوٸی تھی انہوں نے آنا شروع کر دیا تھا۔
مہرو نے آسف صاحب سے سلام لینے کے بعد شازیہ بیگم سے سلام لی شازیہ بیگم نے اسے اپنے قریب ہی بیٹھا لیا۔ اس نے سی گرین کڑھاٸی والے شارٹ فراک کے ساتھ واٸٹ پاجامہ اور واٸٹ ہی دوپٹہ لیا تھا میک اپ کے نام پہ لاٸٹ پنک لپ اسٹک لگاٸی تھی۔ اس کے انکار کرنے کے باوجود ربعیہ نے اسے لگواٸی تھی۔
"کیا کرتی ہے میری بیٹی" آسف صاحب محبت بھرے لہجے میں بولے۔
"بی ایس سی کی ہے انکل"
"آگے کیا کرنا ہے"
"ابھی رزلٹ نہیں آیا آٸے گا تو پھر Msc کروں گی" وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں پھنساٸے نظریں جھکاٸے بولی۔
"ویری گُڈ" کچھ اور باتیں کرنے کے بعد انہوں نے اسے باہر جانے کا کہہ دیا اور پھر ارشد صاحب سے مخاطب ہوۓ۔
"ارشد فون پہ تو میں تم سے بات کر چکا ہوں تم بھی آیان سے مل چکے ہو۔ مہروالنسإ کو میں اپنی بیٹی بنانا چاہتا ہوں تو پھر کیا سوچا ہے تم نے" وہ چاٸے کا گھونٹ لیتے ہوے بولے ۔
ارشد صاحب دو منٹ چپ رہے پھر بولے۔
"مجھے کوٸی اعتراض نہیں"
سب کے چہروں پہ خوشی پھیل گٸی۔ اور ربعیہ بیگم کی آنکھیں نم ہو گٸیں ۔
"یہ کیا بات ہوٸی بھابھی جی آپ بالکل ٹینشن نہیں لیں مہرو اب میری بیٹی ہے ہم اسے بہو نہیں بیٹی بنا کے لے کے جا رہے ہیں اب بس شادی کی تیاریاں شروع کریں" شازیہ بیگم نے مسکراتے ہوے ربیعہ بیگم سے کہا۔
"ارشد میں شادی سے پہلے ہی تمہیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں شادی کے بعد مہروالنسإ بیٹی الگ گھر میں رہے گی یہ آیان کی مرضی ہے۔
اور میں چاہتا ہوں شادی پندرہ دن بعد کر دی جاٸے"
"یہ تو بالکل ٹھیک کہا آپ نے" شازیہ بولیں ان کی تو دلی خواہش پوری ہو رہی تھی۔
"پر بھاٸی صاحب اتنی جلدی تیاریاں کیسے ہوں گی" ربعیہ بولی
"بھابھی جی پندرہ دن بہت ہیں آپ آج سے ہی شاپنگ سٹارٹ کر دیں" آسف صاحب مسکراتے ہوے بولے۔  "اور ہاں جہیز ہم نہیں لے گے"
"نہیں آسف وہ تو میں دوں گا میری ایک ہی بیٹی ہے اتنا پیسا میں کہاں لے کے جاٶں گا "
"ارشد وہ تم اس کے اکاٶنٹ میں جمع کروا دینا پر میں جہیز نہیں لوں گا"
ڈیٹ فکس کرنے کے بعد سب ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوے گلے ملے آسف صاحب نے ڈراٸیور کو کال کر کے مٹھاٸیاں اور گفٹس اندر لانے کو کہا جو وہ کار میں رکھ کے آٸے تھے۔ سب نے منہ میٹھا کیا باتیں کی پھر کھانا کھانے کے بعد وہ مہرو کے سر پہ پیار دے کے چلے گٸے۔ ان کے جاتے ہی مہرو بولی۔
"ماما آج بابا کی گاڑی گھر ہے سحر سے ملے کتنے دن ہو گٸے ہیں۔میں حور کو بلانے جا رہی ہوں آپ بابا سے پوچھیں تب تک میں حور کو بلا کے لاٸی" کہتی وہ باہر نکل گٸی۔
"ارشد صاحب مہرو سحر کے گھر جانے کا کہہ رہی ہے"
"ٹھیک ہے تم بھی ساتھ جاٶ"
"میں تو نہیں جا رہی حور ساتھ ہی ہے اس کے گھنٹے تک آ جاٸے گی"
"چلو ٹھیک ہے اسے کہنا جلدی آ جاٸے میں ڈراٸیور سے بھی کہہ دیتا ہوں"
"ٹھیک ہے"
                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب لاٶنج میں ہی بیٹھے تھے جب حور اور مہرو نے سلام لی۔ سب نے ایک ساتھ جواب دیا پھر وہ وہی بیٹھ گٸیں۔ مہرو کی تو سحر کو دیکھ کے ہنسی ہی کنٹرول نہیں تھی ہو رہی۔ سحر اس کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھی تھی حور مہرو اور شعبانہ ایک صوفے پہ تھیں۔
"تمہیں زیادہ ہنسی نہیں آ رہی اور وہ بھی فضول" حور مہرو کو کہنی مارتے بولی۔
"وہ بس ویسے ہی" وہ سحر کو دیکھ کے مسکراتے ہوے بولی۔ سحر اس کی ہنسی کو بہت اچھے سے سمجھ رہی تھی اس لیے بولی۔
"چلو آٶ روم میں چلیں "
"ہاں چلو" پھر وہ روم میں چلے گٸیں۔
روم میں جاتے ہی سحر نے بیڈ سے تکیہ پکڑ کے مہرو کو مارا
"شرم کرو سحر اب تو ماما بننے والی ہو پھر بھی بچوں والی حرکتیں" اس کے یہ کہتے حور بھی مسکراٸی۔
"تم دونوں یہاں ہنسنے آٸی ہو" سحر آنکھیں سکیڑیں بولی۔
"نہیں ہم تو اپنی دوست سے ملنے آٸے ہیں" وہ بیڈ پہ لیٹنے کے سے انداز میں بیٹھتے بولی۔
"کیوں مہرو"
ہاں ہاں ان دونوں نے پھر سحر کو دیکھا اور ہنسی۔
سحر نے پھر پلّو اسے مارا جو کے اس نے کیچ کر لیا۔
"کیا ہے جاہل لڑکی تم تو مارنے پہ اتر آٸی ہو ۔مہمانوں کی عزت کرتے ہیں چلو کچھ لے کے آٶ ہمارے لیے چاٸے کے بعد کچھ پوچھا ہی نہیں"
"ان مہمانوں کی عزت کرتے ہیں جو بے زبان ہوتے ہیں اور تم توبہ توبہ۔۔۔" وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی بولی۔
"چلو یار اب کچھ منگواٶ بھی بہت بھوک لگی ہے مجھے" وہ پیٹ پہ ہاتھ رکھتی بولی۔
"کیوں کچھ کھا کے نہیں آٸی"
"تمہیں بتایا تو تھا مہمانوں نے آنا ہے اور جیسے ہی وہ نکلے میں یہاں آ گٸی"
"کون تھا کہیں تمہارا رشتہ تو لے کے نہیں آٸے" سحر آنکھیں چھوٹی کیے بولی۔
"یہ فالتو سوچیں اپنے زہن سے نکال دو تمہیں بتایا تو تھا اپنی مرضی سے کروں گی"
"اچھا تو کہاں ہے تمہاری مرضی "
"وہ ابھی پتا نہیں" ان کے باتیں کرتے ہوے فیضان کمرے میں داخل ہوا۔ اور فیضی کو دیکھ کے مہرو پھر ہنسی سحر نے اسے گھورا۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم" اس نے سلام کیا
"وَعَلَيْكُم السَّلَام" دونوں نے جواب دیا وہ بیڈ کے داٸیں جانب رکھے صوفے پہ بیٹھ گیا۔
"سناٸیں فیضی بھاٸی کیسے ہیں"
"الحَمْدُ ِلله ٹھیک آپ دونوں سناٶ "
"ہم بھی ٹھیک" اتنی دیر میں میڈ ٹرالی پکڑے اندر داخل ہوٸی اور چیزیں ٹیبل پہ رکھ کے چلے گٸی
" تم لوگ کھاٶ میں ابو کے پاس جا رہا ہوں اور سحر تم ان میں سے کچھ نہیں کھاٶ گی"۔ وہ سب فاسٹ فوڈ تھیں اس لیے فیضان نے سحر سے کہا۔
"اوکے"
"آہاں آہاں سحر تم کچھ نہیں کھاٶ گی کیا پیار ہے زبردست  میری زندگی میں کب آٸے گا ایسا مرد جو مجھے کہے گا مہرو یہ نا کھاٶ طبعیت خراب ہو جاٸے گی"  وہ فل اداکاری کرتے بولی۔
اس کے ایسا کہنے پہ حور اور سحر مسکرا دیں۔
"آ جاٸے گا وہ دن بھی ٹینشن نہیں لو۔ اور حور تم بھی کھاٶ اسے دیکھو کیسے کھا رہی ہے" سحر بولی۔
"مہرو آپی اکیلے اکیلے" شانی کمرے میں آتا بولا۔
"جی بالکل اکیلے اکلیلے" وہ گول گپہ منہ میں ڈالتی بولی "ویسے تم کہاں تھے بہت سکون تھا گھر میں"
" عنزہ کو اکیڈمی سے لینے گیا تھا اس نے تو مجھے اپنا ڈراٸیور ہی بنا لیا ہے"
"ہاں تو تم ڈراٸیور ہی ہو میرے" عنزہ حور کے پاس بیٹھتی بولی۔
"موٹی ابھی میرا  لڑنے کا موڈ نہیں کیوں کے میری آپیاں آٸی ہوٸی ہیں"
"آپیاں نہیں کہو ابھی میں نے کھانا ہے اس لیے لڑنا بعد میں" مہرو بولی۔
"افففف کتنی عقلمند ہیں آپ آپی "
"وہ تو میں ہوں" مہرو شوخ لہجے میں بولی۔
"افف خوش تو ایسے ہو رہی ہے جیسے پتا نہیں کس نے تعریف کر دی" سحر بولی۔
"تم جھلو شانی آٶ ہم گول گپے کھاٸیں"
ہاں آپی پھر وہ ایک پلیٹ میں کھانا شروع ہو گٸے۔
"موٹی اپنی گندی نظریں ہٹاٶ نظر لگاٶ کی کیا" شانی عنزہ کو دیکھتا بولا۔
"اففف خوش فہمیاں وہ سامنے ہی ہے شیشا دیکھ لو پھر یہ الفاظ کہنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑے گی"
"عنزہ تم میرے ساتھ کھاٶ" حور بولی پھر وہ ایک ساتھ کھانا شروع ہو گٸیں۔
"سحر آپی آپ کیوں نہیں کھا رہی" شانی بولا۔
"میرا دل نہیں کر رہا"
"سیدھی طرح بتاٶ نا فیضی بھاٸی نے منع کیا ہے میرا دل نہیں کر رہا" وہ اس کی نقل اتارتی بولی۔
"اوو اچھااا"  شانی باٸیں آنکھ دباتا بولا۔
"شانی تمہیں تو میں سیٹ کرواٶں گی بہت زبان چلنے لگی ہے تمہاری" سحر آنکھیں سکیڑیں بولی۔
"آپی میں نے کیا کہا کچھ کہا میں نے حور آپی" وہ چہرے پر معصومیت سجاٸے بولا۔
"نہیں" حور نے نا میں گردن ہلاٸی۔
"دیکھ لیں ایویں مجھ معصوم پہ الزام لگاتی ہیں"
"اتنے تم معصوم" سحر اس کے کندھے پہ تھپڑ مارتی بولی۔
"چلو حور چلیں بہت ٹاٸم ہو گیا ہے" مہرو کھڑی ہوتی بولی۔
"تھوڑی دیر رک جاٶ یار" سحر بولی۔
"نہیں بابا سے ڈانٹ پر جانی ہے" پھر وہ سب سے ملی باہر نکل کے سب کو سلام کیا اور گاڑی میں بیٹھ گٸیں۔
"انکل آٸسکریم پارلر رکیے گا"
"مہرو ابھی اتنا کچھ تم کھا کے آٸی ہو پیٹ ہے یا کنواں"
"پیٹ ہی ہے تم بتاٶ کون سا فلیور لو گی"
"میں تو نہیں کھاٶں گی میری بیلی فُل ہے"
"ویسے مہرو تم انسان ہی ہو نا"
"کیا مطلب ہے تمہارا" مہرو آنکھیں چھوٹی کیے بولی
"عقلمند ہو سمجھ جاٶ"
"حور کی بچی" کار رک گٸی آٸسکریم پارلر آ گیا تھا۔ "تمہیں تو میں آ کے بتاتی ہوں فلیور بتاٶ جلدی" وہ کار سے اترتی بولی
"میں نہیں کھاٶ گی"
"ٹھیک ہے پھر میں مینگو لے آٶں گی"
"نہیں چاکلیٹ لے آنا" پیچھے سے اس نے حور کی آواز سنی اور مسکرا دی۔
"جی میم"
"دو کون"
"فلیور"
"چاکلیٹ"
"اوکے یہ لے میم" اس نے کونیں اس کی طرف بڑھاٸیں
مہرو نے پیسے دیے اور کونیں ہاتھ میں پکڑ کے ادھر اُدھر دیکھ کے چلنے لگی اور پھر کسی سے ٹکڑاٸی کونیں نیچے گِر گٸیں پر دونوں کے کپڑوں پہ اپنے نشان چھوڑ گٸیں۔
"یو بلڈ۔۔۔۔۔" الفاظ منہ میں ہی تھے جب وہ سامنے والے کو پہچان گٸی۔ اور آنکھوں کے سامنے سے پچھلی ملاقات کا سین گزرا۔
اس سے پہلے کے مہرو کچھ بولتی آیان بولا۔
"دیکھ کے نہیں چل سکتیں اللہ نے آنکھیں استعمال کرنے کے لیے دی ہیں یہی کہتی ہیں نا آپ تو پھر استعمال کیوں نہیں کرتی" وہ درشتی سے بولا
"سوری وہ۔۔۔۔۔۔"
"کیا سوری آپ تو بہت اچھی ہیں نا ہم جیسے آوارہ بدتمیز لڑکے نکلے ہوتے ہیں آپ جیسی نیک پارسا لڑکیوں کو تنگ کرنے"
"سوری وہ اس دن میں نے غصے میں۔۔۔۔۔۔۔"
"کیا غصے میں غصہ ہمیں بھی بہت آتا ہے پر ہم جانتے ہیں لڑکیوں کی عزت کرنا پر آپ عزت کروانے کے قابل ہی نہیں ہیں" وہ اونچی آواز میں بولا قریب کھڑے لوگ اب انہیں دیکھ رہے تھے۔
"شٹ اپ بہت کر لی آپ نے باتیں ساٸڈ پہ ہوں" وہ ساٸڈ سے ہو کے گزرنے لگی تھی پر وہ سامنے آ گیا۔
"یہ کیا بد تمیزی ہے" وہ غصے میں بولی۔
"اوو بُرا لگ رہا ہے مجھے بھی بہت بُرا لگا تھا" وہ استہزاٸیہ مسکرایا۔
مہرو کی آنکھوں سے چند آنسو ٹوٹ کے اس کے گال پہ گِرے ۔ آیان کی نظر اس کے چہرے پر پڑی تو خاموشی سے ایک ساٸڈ پہ ہو گیا۔ مہرو بھاگتی ہوٸی کار کی طرف بڑھ گٸی۔ گاڑی روڈ کے دوسری ساٸڈ پہ کھڑی تھی اس لیے حور اور ڈراٸیور کو کچھ پتہ نہیں چلا۔
آیان شرم نہیں آٸی تمہیں تم نے ایک لڑکی سے بدتمیزی کی وہ بھی اتنے لوگوں میں اور سوری کہا تو تھا اس نے آج تمہاری وجہ سے وہ لڑکی روتی ہوٸی گٸی ہو کیا گیا ہے تمہیں آیان اس کے ضمیر کی آواز آٸی۔
وہ وہیں پارلر میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا تھا اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔
کیا ہو گیا ہے کیوں کیا تم نے ایسا اس نے کیا ہی کیا تھا جو تم نے ایسا کیا اس نے سر کرسی کی پشت سے ٹکا لیا اور آنکھیں موند لیں۔
"لاٸی نہیں آٸسکریم" مہرو گاڑی میں بیٹھی تو حور بولی۔
"گِر گٸی تھی" اندھیرے کی وجہ سے حور مہرو کی نم آنکھیں دیکھ نہیں پاٸی۔
"آنکھیں کھول کے چلا کرو نا" مہرو نے کوٸی جواب نہیں دیا وہ ونڈو سے باہر دیکھنا شروع ہو گٸی۔
گھر آتے ہی وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلے گٸی پتہ نہیں کیوں پر آیان کی باتیں اسے بہت بُری لگی تھیں سوچتے ہوے آنکھیں پھر نمکیں پانی سے بھر گٸ۔ ربیعہ بیگم دروازے پر دستک دے کے اندر داخل ہوٸیں اس نے جلدی سے آنسو صاف کیے اور سیدھی ہو کے بیٹھ گٸی۔
"کیسی ہے سحر" وہ بیڈ پہ اس کے قریب بیٹھتی بولیں۔
"ٹھیک ہے"
"کیا ہوا پریشان لگ رہی ہو" وہ بغور اس کا چہرہ دیکھتے بولیں۔
"نہیں تو" لہجہ حتی المکان نارمل تھا۔
"بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے" وہ سنجیدگی سے بولیں۔
"جی ماما کہیں کیا بات ہے"
"بیٹا آصف صاحب اور ربیعہ بیگم تمہیں پسند کر گٸے ہیں۔ تمہارے بابا کو بھی کوٸی اعتراض نہیں ماشاءاللہ بہت اچھا لڑکا ہے اسٹڈی کمپلیٹ کر کے اب آصف صاحب کے ساتھ  بزنس سنبھال رہا ہے تمہارے بابا کچھ دن پہلے ملے تھے اس سے"
"ماما یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ مجھ سے پوچھا بھی نہیں آپ نے اور رشتہ کر دیا" وہ حیرانی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات لیے بولی۔
"بیٹا لڑکا بہت اچھا ہے فیملی کو بھی ہم جانتے ہیں روز روز ایسے رشتے نہیں آتے"
"پر ماما۔۔۔۔" وہ تو جیسے رو دینے کو تھی
"ڈیٹ فکس ہو گٸی ہے پندرہ دنوں بعد شادی ہے"
اب تو جیسے اس پہ بم پھوٹا تھا یوں اچانک اس کا رشتہ وہ بھی پوچھے یا بتاٸے بغیر اور پھر اتنی جلدی شادی۔۔۔
"ماما اتنی جلدی شادی پر کیوں" اس کی آواز بھڑا گٸی۔
"میری جان بیٹیوں کا فرض جتنی جلدی ادا ہو جاٸے بہتر ہے"
"پر ماما اتنی جلدی کیا تھی" کچھ موتی ٹوٹ کے اس کے گال پہ گٍرے
"انہوں نے اسے اپنے سینے سے لگایا خود ان کی آنکھوں سے بھی آنسوں نکل کے ان کا چہرہ بھیگو گٸے۔
کچھ دیر دونوں خاموشی سے آنسو بہاتی رہی پھر ربیعہ بیگم بولیں۔
"بیٹا شادی کے بعد آپ الگ گھر میں رہو گی آیان نے الگ اپارٹمنٹ خریدا ہے"
آیان پل بھر کو تو وہ ٹھٹھکی لیکن پھر سر جھٹک دیا۔
"پر کیوں ماما وہ اپنی فیملی کے ساتھ کیوں نہیں رہے گا" اس نے سر ربیعہ بیگم کی گود میں رکھ لیا۔
"بیٹا وہ اس کے بڑے پاپا اور بڑی ماما ہیں عاطف صاحب یاد نہیں آپ کو"
"نہیں ماما بس نام ہی یاد ہے ایک دو دفعہ تو ملی تھی ان سے وہ بھی اتنی دیر پہلے"
"ہمم ان کی ڈیتھ کے کچھ ماہ بعد ہی ان کی بیوی گھر چھوڑ گٸی تھیں وہ اکلوتا بیٹا ہے آصف صاحب اسے اپنے بیٹے سے بڑھ کر پیار کرتے ہیں آپ کے بابا ملے تھے آیان سے انہیں وہ بہت پسند آیا۔ گفٹس لاٸے تھے وہ"
"کیا تھا ان میں"
"ڈریسز تھے ہم سب کے آپ کے لیے گولڈ کا سیٹ تھا میں نے آپ کی الماری میں رکھوا دیا ہے ڈریسز بھی دیکھ لینا۔ پرسوں ہم بھی جاٸیں گے چلو بیٹا سو جاٶ اب صبح سے شاپنگ بھی سٹارٹ کر دینا" وہ اس کے ماتھے پہ بوسہ کرتی بولیں۔
"اوکے ماما ویسے آپ کچھ زیادہ ہی جلدی کر رہی ہیں" وہ منہ بناتی بولی۔
"میری جان آج نہیں تو کل ہونی ہی تھی اپنے اچھے نصیبوں کی دعا کرو اللہ تمہیں خوش رکھے" وہ اسے دعا دیتی باہر نکل گٸیں ۔مہرو نے بھی دل میں آمین کہا پھر سونے کے لیے لیٹ گٸی پر نیند کسے آنی تھی کبھی آیان سے ہوٸی آج کی ملاقات یاد آتی تو کبھی اپنی شادی کے خیال. سحر کو کال کرنے کے لیے فون اُٹھایا لیکن پھر وہیں رکھ دیا ٹاٸم بہت ہو گیا تھا اس ٹاٸم تو وی سو چکی ہو گی سوچوں میں ناجانے کب اس کی آنکھ لگی اور وہ نیند کی وادیوں میں چلے گٸی۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اٹھتے ہی اس نے موباٸل پکڑا ٹاٸم دیکھا تو دس بج رہے تھے رات کو لیٹ سونے کی وجہ سے اس کی آنکھ اس ٹاٸم کھلی۔ وہ فریش ہو کے واپس بیڈ پہ بیٹھ گٸی اور سحر کو کال کی پہلی بیل پہ ہی کال ریسیو کر لی گٸی۔ اس نے موباٸل کان سے لگایا تو سپیکر سے سحر کی آواز آٸی ۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم مہرو کیسی ہو" سحر کی آواز سنتے ہی اس کی آنکھو میں آنسو آ گٸے۔
"موٹی بولو بھی"
"سحر " بھڑاٸی ہوٸی آواز میں کہا۔
"مہرو تم ٹھیک تو ہو کیا ہوا وہ فکر مندی سے بولی"۔
"سحر ماما لوگوں نے میرا رشتہ کر دیا" آنسو گالوں پہ گِرے۔
"کیا رشتہ یوں اچانک"
"ہاں بابا کے جو فرینڈ کل آٸے تھے انہوں نے مجھے پسند کر لیا"
"واہ واہ کیا بات ہے تم چڑیل کو پسند کر لیا ضرور ان کی آنکھیں خراب ہوں گی"
"سیری"
"کیا ہے اچھا بتاٶ شادی کب ہے"
"پندرہ دنوں بعد"
"کیااا اتنی جلدی میں تیاری کیسے کروں گی"
"شرم تو نہیں آ رہی میں پریشان ہوں اور تمہیں تیاری کی ٹینشن لگ گٸی"
"ہاں تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ماں باپ نے فیصلہ کیا ہے بہتر ہی ہو گا"
"ہممم"
"لڑکا دیکھا کیسا ہے نام کیا ہے"
"نہیں دیکھا آیان نام ہے"
"کیاا آیان کہیں یہ وہی آیان تو نہیں"
"نہیں وہ کیسے ہو سکتے"
"ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتے"
"نہیں یار یہ اکلوتا ہے اور اس آیان کا تو بھاٸی بھی تھا ارہم"   آیان اور ارہم کی آنکھیں ڈارک براٶن تھی نقش بھی بہت ملتے تھے یونی میں سب انہیں سگا بھاٸی ہی سمجھتے تھے
"ہاں یار پک تو دیکھنی تھی پتہ تو چلتا کیسا ہے کالا ہے لمبا ہے سکڑا ہے"
"ہاں کوٸی اچھا لفظ نا بولنا" مہرو بنھویں سکیڑیں بولی اب وہ کافی حد تک بہتر محسوس کر رہی تھی یہی تو ہوتی ہے دوستی اتنی بڑی ٹینشن کو چٹکی میں اُڑا دیتی ہے۔
"اب میں اس حال میں شادی بھی انجواۓ نہیں کر پاٶں گی"
"کیوں اس حال میں شادی انجواۓ کرنا منع ہوتا ہے کیا"
"ہاں نا زیادہ گھوم نہیں سکتے اور فیضی تو مجھے اوپر سے نیچے بھی نہیں جانے دیتے میں شاپنگ کیسے کروں گی" وہ اداس ہوتی بولی۔
"میں اور حور کریں گے تمہاری شاپنگ تم آرام سے گھر بیٹھنا"
"ہاں جی تم لوگ مزے کرو اور میں..."
"چلو اب منہ نہیں بناٶ میں فیضی بھاٸی کو کہوں گی دو دن پہلے لے آٸیں تمہیں یہاں پھر ہم خوب مزہ کریں گے سیری یار مجھے بہت ٹینشن ہو رہی ہے"
"کیوں "
"یار اتنی جلدی شادی"
"کچھ نہیں ہوتا میری جان بس دعا کرو اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے" دونوں نے آمین کہا "چلو ٹھیک ہے بعد میں بات کروں گی ابھی میں ناشتہ کر لوں الله حافظ"
"الله حافظ"
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کی تیاریاں زورو شور پہ تھیں مہروالنسإ کے دھدیال اور نھنیال سے کچھ کزنز آ گٸے تھے شادی میں صرف چار دن رہ گٸے تھے۔
"مہرو بیٹا جو لانے آج لے آٶ پھر کل سے تم باہر نہیں نکلو گی" ربیعہ بیگم اس کے کمرے میں آتی بولیں جہاں حور مہرو اور اس کی کچھ کزنز بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔
"اوکے مام میری کچھ جیولری اور سینڈلز رہ گٸیں ہیں میں تھوڑی دیر تک جا کے لے آٶں گی"
"نہیں بیٹا ابھی جاٶ چار تو بج گٸے ہیں پھر تم ٹاٸم بھی بہت لگاتی ہو "
"اوکے چلو آٶ چلیں" اس نے اپنی کزنز سے کہا
"نہیں یار تم دونوں چلی جاٶ ہم یہیں رہتے ہیں "
"چلو ٹھیک ہے آٶ حور" پھر وہ اور حور  ڈراٸیور کے ساتھ چلیں گٸیں گاڑی سیدھی شاپنگ مال میں رکی.
وہ دونوں جیولری سٹال پہ چلیں گٸیں کچھ جیولری خریدنے کے بعد وہ جوتا لینے چلی گٸیں
"دیکھو کیسا لگ رہی ہے" اس نے سینڈل پہن کے مہرو سے پوچھا
"زبردست"
"چلو ٹھیک ہے بھاٸی یہ کر دیں" اس نے دکاندار سے کہا پھر حور سے مخاطب ہوٸی
"حور تم نے ولیمے کا ڈریس لے لیا"
"نہیں یار پچھلا ہی کوٸی پہن لوں گی"
"مجھے پتہ تھا تمہارا اس لیے میں نے پوچھا" "چلو آٶ اب لیں  وہ بوتیک  پہ بڑھتی بولی۔
"نہیں مہرو مجھے نہیں لینا پہلے بھی تم نے مجھے لے کے دیا ہے"
"تو کیے چلو اب چپ کر کے" پھر وہ اس کا ہاتھ پکڑتی بوتیک میں چلی گٸی جس کے ایک ساٸڈ پہ لیڈیز ڈریسز تھے اور دوسری ساٸڈ پہ جینٹس آیان اور ارہم بھی وہیں تھے آیان ارہم کے لیے ڈریس سیلیکٹ کر رہا تھا جب اس نے مہرو کو دیکھ لیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے سے پچھلی ملاقات گزری۔ وہ سر جھٹک کے ڈریس سیلیکٹ کرنا شروع ہو گیا ۔
مہروالنسإ اپنے دیھان ڈریسز دیکھ رہی تھی جب اسے خود پہ نظروں کی تپش محسوس ہوٸی اس نے اپنی داٸیں جانب دیکھا تو ایک لڑکا اسے ہی گھور رہا تھا حور وہیں ڈیسک پہ بیٹھ کے دیکھ رہی تھی۔ مہرو وہاں سے تھوڑا ساٸڈ پہ ہو گٸی اسے ایک سوٹ پسند آ گیا اس نے حور کو دکھایا تو اس نے اثبات میں گردن ہلا دی اس نے وہ پیک کروایا اور فوراً وہاں سے نکل گٸی۔
"چلیں اب حور بولی"۔
"نہیں جوتا تو لے لو"
"لیا تو تھا پہلے" وہ آنکھیں بڑی کیے بولی۔
"ہاں تو وہ میرا تھا اب تمہارے لیے لینا ہے اب کچھ بولنا مت چپ چاپ میرے ساتھ آٶ" وہ دونوں جوتوں کی دوکان پہ  چلیے گٸیں۔
"حور تم دیکھو میں آتی ہوں"
"تم کہاں چلی مجھے ایک رنگ پسند آٸی ہے بس وہ لے لوں"
"کچھ نہیں ہو سکتا تمہارا جلدی لینا"
"اوکے میں بس دو منٹ میں آٸی تب تک تم جوتا لو" کہتی وہ جیولری سٹال کی طرف بڑھ گٸی۔
وہ حور کے لیے جیولری خرید رہی تھی بھاٸی وہ بریسلٹ دیکھاٸیں اس نے انگلی سے اشارہ کر کے بتایا وہ لڑکا اس کا پیچھا کرتا وہاں تک آ گیا تھا اس نے جلدی سے جیولری لی اور تیز تیز چلنے لگی کے وہ اس کے سامنے آ گیا وہ ساٸڈ سے ہو کے گزرنے لگی وہ پھر سے سامنے ہو گیا
"کیا بدتمیزی ہے" وہ غصے میں بولی۔
"بدتمیزی تو نہیں مجھے آپ بہت اچھی لگی میں تو بس آپ کو نمبر دینے آیا تھا" اس نے ہاتھ میں پکڑی پرچی اس کے آگے کی۔
"What nonsense" وہ درشتی سے بولی
"ارے ارے غصہ کیوں کر رہی ہیں آپ پہ غصہ بالکل سوٹ نہیں کرتا" وہ اس کی گال چھونے ہی لگا تھا کے آیان نے زوردار تھپڑ اس کے منہ پہ رسید کیا۔ آیان نے اس لڑکے کو مہرو کے پیچھے آتا دیکھ لیا تھا تو ارہم کو وہیں روک کے کال سننے کا کہہ کے آیا تھا۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوٸی اس طرح لڑکی کو تنگ کرنے کی" ایک اور تھپڑ اس کے منہ پہ پڑا تھپڑ اتنا زور کا تھا کے نشان چھوڑ گیا۔
"تم ہوتے کون ہو مجھے مارنے والے" اس لڑکے نے آیان کا گریبان پکڑ لیا۔
آیان نے دو تین گھونسے اس کے منہ پہ جھڑے یہاں تک کے اس کے منہ سے خون نکلنا شروع ہو گیا دوسرے لڑکے نے اچانک آیان کی گردن دپوچ لی اور اس کے پیٹ پہ گھٹنا مارا پھر اس کے منہ پہ زوردار مکا مار کے اس کا منہ اپنے ہاتھ سے دپوچ لیا کچھ لوگوں نے انہیں چھڑوایا مہرو ساکت کھڑی آیان کو دیکھ رہی تھی۔ آیان نے اس کا بازو پکڑ کے اسے اپنی طرف کھینچا "میرے سامنے تو تمہاری بہت زبان چلتی ہے تو پھر اب کیا ہوا" وہ اونچی آواز میں بولا اس کی آنکھیں سرخ ہو گٸی تھی۔
"وہ۔۔۔۔۔"
"کیا وہ... اب بولا نہیں جا رہا" بازو پہ گرفت اتنی مضبوط تھی کے مہرو کو اس کی انگلیاں دھنستی ہوٸی محسوس ہوٸیں۔
"س۔۔۔سوری تمہیں میری وجہ سے...."
"منہ بند کرو اپنا اور آٸندہ سے تمہیں میں کہیں اکلیلا نا دیکھوں" غصے میں کہتا ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑ کر وہ آگے بڑھ گیا۔
اس نے اپنا بازو دیکھا گرفت مظبوط ہونے کی وجہ سے وہاں نشان بن گٸے تھے۔ اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور حور کے پاس چلے گٸی۔
"کہاں تھی تم اتنا ٹاٸم لگا دیا"
"وہ کچھ اور بھی لوگ تھے تو بس اسی لیے لیٹ ہو گٸی" تم نے جوتا لے لیا
"ہاں"
"چلو میں پیسے دے لوں پھر چلتے ہیں"
"اوکے"
پورا راستہ وہ خاموش رہی اس کے سامنے بار بار آیان کا غصے والا چہرہ آ رہا تھا اس کی سرخ ہوتی آنکھیں ضبط کرنے کی وجہ سے رگیں تن گٸی تھی ۔ اس کی باتیں.
گھر آ کے وہ سیدھی اپنے کمرے میں گٸی اس کی کزنز وہیں بیٹھی تھی اس نے شاپنگ بیگز صوفے پہ رکھے سوچوں کو جھٹکنا چاہا پر وہ ایک سیکنڈ کی لیے بھی بھول نہیں تھی پا رہی وہ کمرے سے نکلی اور اپنی ماما سے کہا
"ماما میں آپ کے کمرے میں سونے لگی ہوں کسی کو آنے مت دیجیے گا"
"بیٹا طبعیت تو ٹھیک ہے"
"جی ماما بس تھک گٸی ہوں"
"چلو ٹھیک ہے آپ جاٶ کوٸی نہیں آٸے گا روم میں"
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)   
If u like
Do vote and comment😉

محبت،یقین اور خواہش Completed 💕Nơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ