محبت، یقین اور خواہش

3.4K 123 15
                                    

قسط: ١٢

آیان ابھی جاگنگ سے آیا ہی تھا کے موباٸل پہ رنگ ہوٸی اس نے دیکھا تو ارہم کالنگ جگمگا رہا تھا پک کر کے کان سے لگایا۔
"پوچھا بھابھی سے کیا کہتی ہیں" فون رسیو ہوتے ہی وہ بول پڑا۔
"حوصلہ رکھ میں بہت حیران ہوا تھا تیرا نام دیکھ کے وہ تو اب سمجھ آیا کے اپنا ہی مطلب تھا اسی لیے کال کی"
"اس کا مطلب تو نے نہیں پوچھا"
"نہیں"
"تو کب پوچھے گا"
"پوچھ لیتا ہوں یار"
"پوچھ لیتا ہوں نہیں ابھی پوچھ اور پھر مجھے بتا"
"اچھا اچھا پوچھ کے بتاتا ہوں"
"ہمم جلدی کرنا"
"الله حافظ" کہتے ہی آیان نے فون بند کر دیا اور ارہم موباٸل دیکھ کے منہ بناتا ناشتہ کرنے چلا گیا۔
آیان بھی فریش ہو کے ناشتے کی ٹیبل پہ آیا۔
"مہرو" وہ سینڈوچ کی باٸیٹ لیتا بولا۔
"جی"
"ایک بات پوچھنی تھی تم سے" مہرو نے آبرو اچکاۓ۔
"تمہاری کوٸی دوست ہے نا حور"
"جی"
"کہاں رہتی ہے وہ میرا مطلب کیسے لوگ ہیں وہ خود کیا کرتی ہے"
"کیوں "
"آیان کو پسند ہے وہ شادی کرنا چاہتا ہے اس سے"
"رٸیلی" وہ پر جوش ہوٸی
"یاہ اچھا بتاٶ اس کے بارے میں "
"ہمارے neighbours ہیں وہ" اور اس سے پہلے کے وہ آگے کچھ بولتی آیان کے موباٸل پہ رنگ ہوٸی۔
"سکون نہیں اس کو" ہنستے ہوے اس نے کال پک کی۔
"بول"
"پوچھا"
"پوچھ رہا ہوں"
"چل چل پوچھ پھر مجھے بتا" آیان نے بغیر کوٸی جواب دیے کال کاٹ دی۔
"بتاٶ"
"فرینڈ ہے وہ میری بہت اچھی ہے بہت پیاری بھی ہے اس کے بابا کی ڈیتھ ہو گٸی تھی پچھلے سال ایک چھوٹا بھاٸی ہے اس کا اب وہ ایک اسکول ٹیچنگ کر رہی ہے خود بھی پڑھ رہی ہے ساتھ بہت۔۔۔۔۔۔" پھر سے رنگ ٹیون ہوٸی۔ ارہم کالنگ روشن ہوا۔
"اففف جی بولیں" آیان کال پک کرتے بولا۔
"کیا کہتی ہیں"
"ابھی بتا رہی ہے"
"کیا بتایا" اسے تجسس ہوا
"یہی کے وہ شادی شدہ ہے دو بچے ہیں اس کے" آیان کے یہ کہنے کی دیر تھی اور ارہم کو تو شاک لگ گیا۔
"آیان تو مزاق کر رہا ہے نا" وہ اداسی سے بولا۔
"نہیں سچ کہہ رہا ہوں"
"میں رونا شروع کر دوں گا آیان"
"تو رو لے"
"آیان مجھے ہارٹ اٹیک ہونے لگا ہے اپنے دوست کو بچا لے"
"میں کیسے بچاٶں بھٸی"
"کہہ دے کے تو نے جھوٹ بولا ہے پھر میں بچ جاٶں گا"
"میں نے کوٸی جھوٹ نہیں بولا تو مر جا"
"آ۔۔۔یا۔۔ن آااااا ۔۔۔۔۔ایییییی درد ہو رہا ہے دل پہ۔۔۔۔اوووو بچا لے اپنے یار کو ایک دفعہ کہہ دے کے تو نے مزاق کیا ہے"
"میں نے کوٸی مزاق نہیں کیا تو۔۔۔۔۔" مہرو نے اس کے ہاتھ سے فون لیا اور بولی۔
"پوچھیں ارہم جی کیا پوچھنا ہے"
"ہاۓ بھابھی آپ. زیادہ تو نہیں بس اس کے بارے میں بتاٸیں کیسی ہے. ہے تو بہت پیاری یہ بتاٸیں کیا کرتی ہے کہاں رہتی ہے اس کی فیملی۔۔۔۔۔"
"چپ کرو میں بتاتی ہوں تمہیں سب "
"جی جی عرض کریں سب سے پہلے یہ بتاٸیں آیان نے جو ابھی کہا وہ جھوٹ تھا نا" آخر میں وہ رُندھی آواز نکالتا بولا۔
"ہاں وہ جھوٹ ہے اس کی شادی نہیں ہوٸی انگیجمنٹ بھی نہیں ہوٸی وہ۔۔۔۔۔"
"ہیں مجھے پتا تھا وہ انگیجڈ ہو ہی نہیں سکتی ایویں بکواس کر رہا تھا آیان " وہ خوشی میں اتنی اونچی بول گیا تھا کے مہرو نے موباٸل ہی کان سے دور کر دیا۔
"بتاٸیں بھابھی چپ کیوں ہو گٸیں"
"پہلے تم چیخ لو نا پھر بتا لوں گی میں بھی"
"اوو سوری وہ نا۔۔۔۔۔"
"حور میری بچپن کی فرینڈ ہے بہت اچھی ہے وہ آجکل ایک اسکول میں جاب کر رہی ہے ساتھ تھرڈ اٸیر کی تیاری بھی کر رہی ہے بہت اچھی فیملی ہے ایک چھوٹا بھاٸی ہے اسکا ہمساۓ ہیں ہمارے۔ اس کی ماما بھی بہت اچھی ہیں اور کچھ پوچھنا ہے یا بس"
"نہیں ٹھیک ہے بس اتنا ہی بہت شکریہ میری پیاری بھابھی ایک منٹ آیان موٹے کو موباٸل پکڑایے گا"
ک"یا کہا آیان موٹا وہ تمہیں کہاں سے موٹے لگتے ہیں" مہرو آنکھیں سکیڑ کے بولی ان کے بات کرنے تک آیان ناشتہ کر چکا تھا مہروالنسإ کے اس طرح بولنے پہ وہ مسکرا دیا۔
"وہ تو میں نے بس ایسے ہی کہا"
"ایسے کیوں کہا"
"آٸندہ نہیں کہوں گا بھابھی جان اب موباٸل اسے پکڑا دیں"۔
"ہمم گڈ" پھر اس نے موباٸل آیان کو پکڑایا۔
"ہو گیا سکون پتا چل گیا سب "
"ہاں ہاں سب پتا چل گیا اور سالے ابھی تیرے جھوٹ کی وجہ سے میں مر جاتا تو میری حور کا کیا ہوتا"
"افف کیا کہا کیا کہا میری حور۔۔۔" کہہ کے وہ ہنسا۔
"تیری نہیں میری کہا۔۔۔"
"جی جی تیری میرے پاس میری بیوی ہے مجھے کوٸی حور شور نہیں چاہیے"
"تمیز سے نام لے نا" وہ بھنویں سمیٹے بولا۔
"آہاں ابھی سے ہی یہ حال ہے بعد میں کیا ہو گا"
"وہی ہو گا جو منظورِ خدا ہو گا" ارہم ایک ادا سے بولا۔
"ہمم چل فون رکھ آفس ملاقات ہوتی ہے"
"اوٸے رک ایک اور بات سن"
"جی"
"بھابھی سے کہہ نا اسے آج گھر بلاٸیں پھر میں بھی آٶں گا"
"ویسے مجھے اب تجھے یہ بھی کہتے شرم آتی ہے کے شرم کر کیونکہ شرم تو تجھ میں ہے ہی نہیں"
"جی تھینکس" وہ پلکے جھپکاتے بولا۔
"الله حافظ"
"اوۓ۔۔۔۔۔" فون بند
"کیا کہہ رہا تھا" مہرو بولی۔
"گھر بلانے کا کہہ رہا تھا"
"ہاں تو"
"تو کیا یہ پاغل پن ہے"
"نہیں تو اچھا ہے نا دونوں بات کر لیں گے پھر بات آگے بڑھاٸیں گے"
"پاغل تو نہیں ہو تم مہرو"
"اس میں پاغل والی کیا بات ہے" وہ منہ لٹکاتی بولی۔
"اچھا ٹھیک ہے اب منہ نہیں بناٶ ویسے تمہارے پاس اس کی کوٸی تصویر ہے"
"ہاں نا آیان یہ وہی لڑکی ہے جو ناشتہ لے کے آٸی تھی"
"تب تو سحر بھابھی کے ساتھ دو اور لڑکیاں بھی تھیں"
"ایک تو سانولی تھی وہ میری کزن تھی اور جو واٸٹ تھی وہ حور تھی "
"اچھااا وہ" وہ کچھ یاد آنے والے انداز میں بولا۔
"جی وہی یہ ہے اس کی پک" مہرو موباٸل پہ اس کی تصویر نکالتی آیان کی طرف کرتی بولی۔
"ہے تو سچ میں پیاری لڑکی تو بڑے کمال کی پسند کی ہے" وہ اپنی ہی دھن میں اس کی تعریف کر رہا تھا جو کے مہرو کو بالکل پسند نہیں آٸی "اور یار اس کی آنکھیں کتنی خوب۔۔۔۔" لفظ آدھا منہ میں ہی رہ گیا تھا مہروالنسإ کے منہ کے تیور ہی ایسے تھے کے وہ آگے بول ہی نہیں پایا۔
"کیا ہوا"
"آپ تھوڑی اور تعریفیں کر لیں ابھی لپس نوز چکس وغیرہ رہتی ہیں وہ بھی غور سے دیکھ لیں" وہ اسے گھورتی ہوٸی بولی۔ اور آیان کھکھلا کے ہنسا۔
"ہنس لیں جب دل بھر جاۓ گا نا دیکھ کے تو مجھے دے دیجیے گا موباٸل بلکہ ایسا کریں ساتھ ہی لے جاٸیں" غصے میں کہتی وہ کمرے کی جانب بڑھ گٸی۔
"مہرو پاغل کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔"
"ہاں جی میں تو پاغل ہوں مجھ سے بات نا کیجیے گا اب"
"اففف تم لڑکیاں بھی کیا ہوتی ہو" وہ بھی اٹھتا ہوا کمرے کی طرف گیا۔
"وہیں ہوتی ہیں جنہیں آپ لڑکے دیکھ دیکھ کے تھکتے نہیں" آیان ہنسا۔ پھر اس کے پاس صوفے پہ بیٹھا۔
"کیا ہوا"
"کچھ نہیں"
"یہ لو اپنا موباٸل نہیں دیکھتا میں اسے"
"دیکھ لیں میں نے کچھ کہا ہے" منہ ہنوز بنا ہوا تھا۔
"ابھی باتیں سنا کے تو آٸی ہو اور پھر منہ بھی بنا لیا"
"ہنہہ"
"میں جاٶں"
"جاٸیں"
"میری طرف نہیں دیکھو گی"
"نہیں"
"میں سچ میں چلا جاٶں گا" وہ اٹھا۔
"آیان" مہرو نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ وہ مسکراتا ہوا بیٹھ گیا۔
"جی مسز آیان"
"ناراض ہوں میں آپ سے"
"نظر آ رہا ہے۔۔ اب کبھی کسی لڑکی کی تعریف نہیں کروں گا یار وہ تو میری بہن ہوٸی نا اور تم تو میری جان ہو" محبت بھرے لہجے میں کہا گیا۔ یہ لیں میڈم آپ کی فرینڈ کی کال آ رہی ہے۔ اسے موباٸل دیتا وہ اٹھنے لگا پر مہرو نے ہاتھ پکڑ کے بٹھا لیا اور کال پک کر کے سحر سے بات کرنے لگی۔
"کیسی ہو"
"ٹھیک تم سناٶ آیان بھاٸی ٹھیک ہوے"
"ہاں اب ٹھیک ہیں"
"تو پھر آج تم لوگ ہمارے گھر ڈنر کرو گے"
"امممم رکو ایک منٹ" پھر وہ موباٸل تھوڑا پیچھے کر کے آیان سے بولی "ڈنر پہ انواٸیٹ کر رہی ہے کیا کہوں"
"آج"
"جی"
"ٹھیک ہے"
"چلو ٹھیک ہے آج آ جاٸیں گے ہم اور تمہیں ایک مزے والی بات بھی بتاٶں گی "
"کونسی"
"آ کے بتاٶں گی"
"مہرو"
"تھوڑا صبر کرو گھر آ کے بتاٶں گی"
"یار ابھی بتا دو نا کہیں تم۔۔۔۔" وہ معنی خیزی سے بولی۔
"شرم کرو اتنی دور کی نا سوچو "
"تو پھر بتا دو نا"
ا"ففف نہیں ہے کوٸی بات الله حافظ"
"الله حافظ جاہل لڑکی" مہروالنسإ نے ہنس کے کال بند کر دی۔
"مجھے کیوں روکا ہوا ہے" آیان بولا۔
"بلا لوں حور کو"
"نہیں"
"کیوں"
"یار اچھا نہیں لگتا نا"
"کیوں وہ میری دوست ہے"
"بلا کے کیا کرو گی"
"وہ میرا اور ارہم کا معاملہ ہے"
"بلا لینا میں لیٹ ہو رہا ہوں الله حافظ" وہ اس کے ماتھے پہ بوسا کرتا بولا۔
"الله حافظ" اس کے جاتے ہی مہرو نے گھر کی صفاٸی کی اور موباٸل لے کے لان میں آ گٸی۔ حور کو کال کی۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم"
"وَعَلَيْكُم السَّلَام کیسی ہو؟"
"الحَمْدُ ِلله ٹھیک تم نے تو کبھی فون کرنا نہیں تھا سوچا خود ہی کر لیتی ہوں" مہرو نے شکوہ کیا۔
"یار بہت بی زی رہتی ہوں پتا ہی نہیں چلتا اور دن گزر جاتا ہے"
"ویسے کہو نا دل نہیں کرتا تم سے بات کرنے کا"
"نہیں یار ایسی کوٸی بات نہیں"
"اچھا تو پھر آج مجھ سے ملنے آٶ"
"آج۔۔۔۔۔ چلو ٹھیک ہے میں اسکول سے تمہاری طرف ہی آ جاٶں گی بٹ مجھے چھوڑنے کون جاۓ گا۔۔۔۔۔"
"اس کی تم فکر نہیں کرو آیان چھوڑ آٸیں گے"
"آیان بھاٸی۔۔۔۔۔۔۔"
"اوکے باۓ" مہرو نے جلدی سے فون بند کر دیا۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم دیور صاحب" اس نے حور سے بات کرنے کے بعد ارہم کو کال کی پہلی ہی کال پہ فون اٹھا لیا گیا۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام بھابھی جی" وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔
"میں نے حور کو گھر بلا لیا ہے اسکول کے بعد وہ یہیں آۓ گی اس کے آنے کے آدھے گھنٹے بعد میں تمہیں کال کروں گی پھر تم بھی آ جانا"
"ہاۓ بھابھی آپ کتنی اچھی ہیں ایک آپ کا چول شوہر ہے کوٸی بات ہی نہیں مانتا"
"کیا کہا میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا تمیز سے بلایا کرو انہیں"
"کیوں جی وہ میرا بھاٸی بھی ہے میں جو مرضی کہوں"
"ہاں تو کہا کرو پر میرے سامنے نہیں"
"آہاں آ لینے دے میری بیوی کو پھر بتاٶں گا آپ کو"
"افف اتنی دور کی سوچ" وہ ہنستی ہوٸی بولی
"دور کی نہیں بہت جلد ہو گی میری شادی ہنہہ"
"اچھا دیکھوں گی اب تم ایسا کرو کچھ اچھا سے کھانے کے لیے دے جاٶ میرا کوٸی موڈ نہیں کچھ بنانے کا "
"میں آفس میں ہوں ابھی نہیں آ سکتا جب حور آۓ گی تو ہی آٶں گا"
"او ہیلو نہیں آ سکتا جلدی سے کچھ لے کے دے جاٶ ورنہ میں ملنے نہیں دوں گی"
"بھابھی جی" وہ دانت پیستا بولا۔
"جی کہیں"
"بہت۔۔۔۔۔۔"
"بولنے سے پہلے سوچ لینا گیم میرے ہاتھ میں ہے کچھ بھی کر سکتی ہوں" وہ مزے سے بولی۔
"کیا لینا ہے یہ تو بتا دیں"
"کے ایف سی سے ہر مزے والی چیز اٹھا لینا"
"پیسے کون دے گا"
"تم ہی دو گے یہ بھی کوٸی پوچھنے والی بات ہے"
"میں۔۔۔۔لیکن کیوں میری نہیں آپ کی دوست آ رہی ہے" وہ آنکھیں چھوٹی کیے بولا۔
"پر آ تمہارے لیے رہی ہے"
"اچھا ٹھیک ہے لے آٶں گا الله حافظ"
"الله حافظ" اس نے مسکراتے ہوے فون بند کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارہم آیان کے کیبن میں آیا اور اس کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گیا۔
"بولیے جی اب کیا ہوا"
"تمہاری بیوی بہت چول ہے"
"کیوں اس نے کیا تمہاری پراپرٹی اپنے نام کروا لی" وہ ٹیبل پہ کہنی ٹکاۓ بولا۔
"مجھے کہہ رہی ہے کے میرا کچھ بنانے کا دل نہیں کر رہا کچھ لے کے دے جاٶ"
"ہاں تو جاٶ"
"پیسے تم دو"
"میں کیوں دوں" وہ بھنویں سمیٹے بولا۔
"تمہاری بیوی کے لیے ہی سب لینا ہے"
"او بھاٸی میں پاغل نہیں مجھے مہرو سب بتا چکی ہے کال کر کے اور چونکہ وہ تم کنجوس کو بہت اچھے سے جانتی ہے اس لیے اس نے مجھے تمہارے یہاں آنے سے پہلے ہی فون کر کے سب بتا دیا اور پیسے دینے سے تو سختی سے منع کیا ہے اور جہاں تک رہی بات چیزوں کی تو وہ تم میری بیوی کے لیے نہیں اپنی ہونے والی بیوی کے لیے لے کے جا رہے ہو اگر وہ بیچاری مان گٸی تو۔۔۔۔۔" وہ مطمٸین انداز میں بولا۔
"بہت تیز ہو تم دونوں ایک جیسے مل گٸے ہنہہ"
"تھینکس اور کچھ"
"نہیں جی جا رہا ہوں میں بھی صرف ایک برگر ایک اسینڈوچ ایک شوارما ایک پیزے کا پیس ایک پلیٹ بریانی ایک پین کیک ایک گول گپہ نہیں بلکہ ایک پلیٹ گول گپے ایک گلاس بوتل دو تین پیٹیز اور بھی سب تھوڑا تھوڑا لے کے جاٶں گا" آیان ہنسا ۔
"پہلے تو مجھے یہ بتا کیا اس کی دعوت ہے جو اتنا سب لے کے جاۓ گا اور یہ لے پیسے کنجوس آدمی" آیان نے اس کی طرف پانچ ہزار کا نوٹ بڑھایا جسے اس نے سیکنڈ ضاٸع کیے بغیر پکر لیا۔
"تھینکس ماٸی برو"
"ہمم نکل اب"
"جا رہا ہوں" وہ دانت نکلاتا بولا۔ اور پھر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارہم کو چیزیں دے کے گٸے ابھی دس منٹ ہی ہوے تھے کے حور آ گٸی۔ مہروالنسإ نے دروازہ کھولا رسمی علیک سلیک کے بعد دونوں اندر چلے گٸیں۔
"روم میں بیٹھیں یا یہیں" مہروالنسإ نے حور سے پوچھا۔
"روم میں ہی چلتے ہیں"
"ٹھیک ہے تم جاٶ میں تمہارے لیے جوس لاتی ہوں"
"نہیں یار صرف پانی لے آٶ"
"تم جاٶ میں لے کے آتی ہوں" پھر حور کمرے میں چلی گٸی اور مہروالنسإ کچن میں۔
گلاس میں جوس ڈالا اسینڈوچیز، پیٹیز اور پزہ چکن اور چاٸنیز رول ٹرے میں رکھے اور روم میں لے گٸی۔
"اتنا کچھ۔۔۔" حور نے منہ بنایا
"بسم اللہ پڑھ کے کھانا شروع کرو تھکی آٸی ہو"
"کوک پیو گی یا جوس ہی ٹھیک ہے"
"کوک لے آٶ "
"اوکے" پھر وہ مسکراتی ہوٸی باہر نکل آٸی ارہم کو میسج کیا فریج سے کوک نکاکی اور حور کے پاس چلے گٸی۔
"پیپرز کب ہیں ؟"
"دو ماہ تک"
"تیاری کیسی ہے"
"ٹھیک ہی ہے"
"اور اسکول۔۔۔کیسی جا رہی ہے ٹیچنگ"
"ہاۓۓ کچھ نا پوچھو یار اتنے نالاٸق بچے سر درد لگا دیتے ہیں" وہ جھرجھری لیتی بولی۔
"ہمم یہ تو ہے رشتہ وشتہ دیکھ رہی ہیں آنٹی۔۔۔"
"نہیں جی"
"تمہیں کوٸی پسند ہے"
"نہیں"
"کوٸی پسند کرتا ہے" ارہم کا سایہ اس کے سامنے لہرایہ
"جس طرح تم کھو گٸی ہو لگتا ہے کچھ گربڑ ہے"
"کیا ہو تم"
"انسان اب بتاٶ کون میری پیاری دوست کو پسند کرتا ہے"
"کوٸی نہیں یار"
"کوٸی تو ہے اب نہیں بتانا چاہتی تو کہہ دو"
"کوٸی ہوتا تو بتا بھی دیتی ہے ہی نہیں تو کیا بتاٶں"
"حور سوچ لو"
"کیا یا"ر وہ کوفت سے بولی۔
"ٹھیک ہے نا بتاٶ اتنے نہرے کرنے کی ضرورت نہیں"
"بہت تیز ہو تم۔۔"
"وہ تو میں ہوں اب بتاٶ وہ کون ہے"
"بتا دوں گی پر ابھی نہیں"
"تو کب" مہرو نے آنکھیں چھوٹی کیں
"پھر کسی دن"
"ہنہہ ٹھیک ہے چلو مان تو گٸی چھپی رستم"
"چھپی رستم ہوتی تو بتاتی نہیں"
"ہاں ہاں ٹھیک ہے اب اتنی بنو نہیں بتایا کیا ہے ہاں"
"اتنا بڑا راز آشکار کیا ہے تم پہ اور تم کہہ رہی ہو بتایا کیا ہے" وہ اداکاری کرتے بولی۔
"واہ گریٹ بہت بڑی بات بتاٸی تمہیں تو داد دینی چاہیے "
"اچھا نا یار چھوڑو یہ فضول باتیں کوٸی اور بات کرو آیان بھاٸی کی سناٶ کیسے ہیں تمہارے ساتھ کیسا behaviour ہے پیار کرتے ہیں۔۔۔۔"
"ٹھیک ہیں وہ بہت اچھے ہیں اور بہت پیار بھی کرتے ہیں "
"نظر آ گیا ہے ان کا نام لیتے ہی تم کیسے بلش کر رہی ہو" وہ اسے کندھا مارتے بولی۔
"وہ دن دور نہیں جب تم بھی اس طرح بلش کیا کرو گی" مہروالنسإ کی بات پہ وہ جھینپ گٸی۔
"چلو آٶ لان میں چلتے ہیں"
"ہاں آٶ"
"تم جاٶ میں برتن اٹھا کے آٸی"
میں بھی اٹھاتی ہوں پھر ان دونوں نے برتن اٹھا کے کچن میں رکھے اور لان میں آ گٸیں۔
"کتنا پیارا ہے یہ" حور لان کا معاٸنہ کرتی بولی۔
"ہمم مجھے بھی بہت پسند ہے یہاں آ کے بیٹھنا"
"ان کی دیکھ بال کون کرتا ہے"
"میں پانی دے دیتی ہوں اور ہفتے بعد مالی آ کے صفاٸی کر جاتا ہے"
"یہ دیکھو یہ والا پھول کتنا پیارا ہے" وہ ایک ریڈ پھول کی طرف اشارہ کرتی بولی
"ہاں یار کتنا خوبصورت ہے "
"ہمم" پھر حور نے اسے سونگھا
"احمد اور آنٹی کیسی ہیں"
"ٹھیک ہیں تم بتاٶ سحر سے بات ہوتی ہے کیا مجھے تو کتنے ہی دن ہو گٸے بات ہی نہیں کر پاٸی" وہ کرسی پہ بیٹھتی بولی۔
"ہاں میری تو روزانہ ہو جاتی ہے ٹھیک ہے وہ۔۔ آج ہم نے اُدھر جانا ہے"
"کس ٹاٸم"
آیان آفس سے آٸیں گے تو پھر۔ ڈنر پہ انواٸیٹ کیا ہے اس نے"
"ہمم "
"تم بیٹھو میں کھانا لے کے آٸی"
"ابھی تو اتنا کچھ کھایا"
"تھوڑا سا تو کھایا تھا میں بس دو منٹ میں آٸی"
"یارر"
"چپ کر کے بیٹھی رہو" کہتی وہ کچن میں چلے گٸی دروازے پہ بیل ہوٸی جانتی تھی ارہم ہی ہو گا اور وہی تھا۔
"آدھے گھنٹے بعد کہا تھا تم پندرہ منٹ بعد ہی آ گٸے"
"ٹاٸم ہی نہیں گزر رہا تھا مجھے تو لگا شاید گھڑی ہی خراب ہو گٸی ہے پھر موباٸل پہ دیکھا وہاں بھی یہی تھا پھر سمجھ آیا انتظار کی گھڑیاں کٹھن ہوتی ہیں۔ کہاں ہے وہ "
"لان میں"
"میں جاٶں"
"بات تو سنو وہاں جا کے کرو گے کیا"
"بات کروں گا"
"کیا؟"
"آپ کو کیوں بتاٶں" مہرو نے اسے گھورا۔
"مجھے ابھی خود نہیں پتا تو آپ کو کیا بتاٶ"
"میں کیا کہوں گی اس سے"
"اس کے سامنے ایسے شو کیجیے گا کے جیسے میں اچانک آیا ہوں"۔
"رکو میں تمہارے ساتھ چلتی ہوں پھر دو منٹ رک کے میں آ جاٶں گی اور تم بات کر لینا اور ہاں فضول گوٸی سے پرہیز کرنا"
"جو حکم میری پیاری بھابھی"
" اب مکھن نہیں لگاٶ"
"یہ راٸتے والا باٶل پکڑو"
"اب کیا کہوں میں آپ کو بھلا میں ایسے جاٶں گا اس کے سامنے"
"اچھا چلو آٶ جو تمہاری personality پہ اثر پڑنے لگا ہے"
"چلیں" پھر وہ دونوں لان کی طرف بڑھ گٸے۔
"کہاں رہ گٸی تھی یار اور کون آیا۔۔۔۔" باقی کے لفظ منہ میں ہی رہ گٸے۔ مہروالنسإ نے ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور پھر بولی۔
"یہ میرا دیور ہے ارہم"
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم" ارہم نے سلام لی۔ پر وہ تو بت بنی اسے دیکھ رہی تھی۔
"کیا ہوا حور جواب تو دو"
"ک۔۔کیا۔۔میرا مطلب کس کا جواب" وہ خود کی سنبھالتی ہوٸی گویا ہوٸی۔
"سلام لی ہے ارہم نے"
"او وَعَلَيْكُم السَّلَام" اس نے نظریں چڑاتے جواب دیا۔
"ارہم یہ میری فرینڈ ہے حور"
حور نے گردن کو خم دینے پر ہی اکتفا کیا۔ پھر ارہم اس کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گیا اور مہروالنسإ ساٸیڈ والی کرسی پہ۔
"کھانا کھاٶ حور اس نے پلیٹ میں بریانی ڈال کے حور کی طرف بڑھاٸی پھر ارہم کو بھی ڈال کے دیے۔
"کم کر دو مہرو"
"میں نے ڈالے ہی کم ہیں اب کھانا شروع کرو" ارہم کے سامنے اس سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا اس نے خاموشی سے کھانا شروع کر دیے ۔
ارہم تو مزے سے کھا رہا تھا۔
"تم لوگ بیٹھو آیان کی کال آ رہی ہے میں بات کر کے آٸی" وہ اٹھتی ہوٸی بولی۔
"پر مہرو۔۔۔۔" حور بولی پر وہ چلی گٸی۔
ارہم نے حور کی طرف دیکھا اس نے پرپل دوپٹے کو حجاب کی طرح لپیٹا ہوا تھا یہ رنگ اس کی گوری رنگت کو اور نکھار رہا تھا اور اس کی خوبصورت سی آنکھیں جنہیں وہ جھکاۓ ہوے تھی کنفیوژن چہرے پہ صاف واضع تھی وہ انگلیوں کو دبا رہی تھی شاید خود کو کمپوز کر رہی تھی۔ کچھ پل خاموشی سے گزرے۔ پھر ارہم بولا۔
"کیسی ہیں"
"ٹ۔۔ٹھیک" پھر دو پل خاموشی
"مجھ سے نہیں پوچھیں گی میں کیسا ہوں"
خاموشی۔۔
"ڈر کیوں رہی ہیں کھا نہیں جاٶں گا آپ کو "
خاموشی۔۔۔
"اسٹڈی کیسی جا رہی ہے"
"م۔۔میں مہرو کے پاس جا رہی ہوں" وہ اٹھی۔
"بیٹھ جاٸیں وہ اپنے شوہر سے بات کر رہی ہیں تو کیا آپ ان کی باتیں سنیں گی" وہ واپس بیٹھ گٸی۔ چہرے پہ پسینا آیا جسے اس نے دوپٹے سے ہی صاف کر لیا۔
"محبت کرتا ہوں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟"
خاموشی۔۔۔
"کچھ بولیں تو۔۔۔" اس نے تو نظر اٹھا کے اسے دیکھا نہیں تھا تو بولنے کی ہمت کہاں سے لاتی۔
"ریلکس کریں میں آپ سے کچھ غلط تو نہیں کہہ رہا" پھر اس نے پانی کا گلاس حور کی طرف بڑھایا۔
"پانی پی لیں" حور نے نظریں اٹھاٸیں گلاس پکڑنا چاہا ہاتھوں میں کپکپاہٹ صاف واضع تھی گلاس تک ہاتھ لے کے گٸی پھر پیچھے کر لیا۔
"میں۔۔میں جا رہی ہوں"
"حور رکیں بات تو سنیں بیٹھیں"۔ وہ پھر سے بیٹھ گٸی۔
"ڈر لگ رہا ہے مجھ سے" وہ نرمی سے بولا۔ اس نے نا میں گردن ہلاٸی۔
"پھر کچھ بول کیوں نہیں رہیں"
اس کی آنکھ سے ایک موتی ٹوٹ کے گِرا
"ارے یار۔۔۔رو کیوں رہی ہیں اوکے اب کچھ نہیں بولوں گا بیٹھیں آپ میں مہرو بھابھی کو بلا کے لاتا ہوں" پھر وہ اٹھ کے ہال میں آیا وہ وہیں صوفے پہ بیٹھی موباٸل یوز کر رہی تھی ارہم مہروالنسإ کے سامنے جا بیٹھا۔
"کیا ہوا"
"یار بھابھی وہ تو کچھ بول ہی نہیں رہی"
"تو پھر اب۔۔۔۔"
"اس نے گھر کس کے ساتھ جانا ہے میرا مطلب کسی نے لینے آنا ہے"
"نہیں میں نے سوچا تھا آیان چھوڑ آٸیں گے"
"نہیں میں چھوڑ کے آٶں گا"
"ارہم پاغل ہو وہ نہیں جاۓ گی تمہارے ساتھ ویسے بھی اچھا نہیں لگتا"
"پلیز بھابھی آپ کہیں نا اس سے وہ مان جاۓ گی مجھے بس کچھ بات کرنی ہے اس سے "
"تو ادھر کر لو"
"نہیں یہاں نہیں یقین کریں یار کچھ غلط نہیں کہوں گا اسے"
"پر۔۔۔۔ چلو کہتی ہوں میں اسے"
"ہاں پلیز میں یہیں ہوں"
"اوکے" کہتی وہ لان کی طرف بڑھ گٸی۔
"کیا ہوا اتنی چپ چپ کیوں ہو"
"تو یہاں کیا اکیلی خود سے باتیں کرتی"
"ہاہاہا ارہم کو اسی لیے چھوڑ کے گٸی تھی تا کہ اس سے کر لیتی اس نے کیا کوٸی بات نہیں کی؟"
"کی ہیں۔۔مہرو بہت ٹاٸم ہو گیا ہے تم آیان بھاٸی کو کال کرو نا"
"انہوں نے ہی ارہم کو بھیجا ہے انہیں کوٸی کام تھا اس لیے نہیں آۓ"
"کیا مطلب اب میں ارہم کے ساتھ جاٶں گی"
"ہاں"
"مجھے نہیں جانا اس کے ساتھ میں اکیلی چلے جاتی ہوں"
"پاغل ہو اکیلی کیوں جاٶ گی وہ باہر ویٹ کر رہا ہے تمہارا"
"مہرو میں نہیں جاٶں گی اس کے ساتھ"
"کیوں نہیں جاٶ گی اس نے کیا کچھ کہا ہے تم سے"
"ن۔۔نہیں تو"
"پھر؟"
"میں۔۔میں ماما کو کال کرتی ہوں وہ لینے آ جاٸیں گی"
"پاغل ہو وہ اب تمہیں لینے آٸیں چھوڑ آتا ہے ارہم چلو آٶ" پھر وہ دونوں ہال میں آٸیں ۔
مہروالنسإ نے کمرے میں جا کے نقاب کیا چادر اپنے شانوں پہ پھیلاٸی اور ہال میں آٸی مہروالنسإ کے گلے لگی۔
"مہرو۔۔۔۔"
"جاٶ وہ کوٸی آوارہ لڑکا نہیں جس کے ساتھ جانے سے تم ڈر رہی ہو۔ الله حافظ"
"الله حافظ" پھر وہ دونوں باہر نکل گٸے ارہم نے گاڑی کا اگلا دروازہ کھولا اور حور کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ حور اس کو اگنور کر کے پچھلا دروازہ کھولنے لگی پر وہ نہیں کھلا۔ پھر اس نے مہرو کی طرف دیکھا وہ بھی انہیں چھوڑنے پورچ تک آٸی تھی۔
"یہ دروازہ لاک ہے کل خراب ہو گیا تھا اور ارہم تم نے ابھی تک ٹھیک نہیں کروایا" مہرو اس کی چال سمجھتے ہوے جلدی سے بات بنا گٸی۔
"نہیں بھابھی آج کروا لوں گا" وہ مسکرایا۔
"اور دوسری ساٸیڈ والا" حور بولی۔
"وہ بھی لاکڈ ہے"
"لاکڈ ہے تو کھول لو"
"نہیں کھلتا نا جلدی بیٹھیں آپ کو چھوڑ کے میں نے کہیں اور بھی جانا ہے" حور نے مہروالنسإ کی طرف دیکھا اس نے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گٸی۔ ارہم بھی مہروالنسإ کو الله حافظ کہتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔ چابی اگنیشن میں گھماٸی اور نکل گیا۔
حور منہ موڑے شیشے کے اس پار دیکھ رہی تھی ارہم نے تھوڑا سا راستہ گاڑی تیز چلاٸی اور پھر آہستہ کر دی حور کی طرف دیکھا وہ ابھی بھی باہر دیکھ رہی تھی۔
"حور" ارہم نے بلایا۔
"جی" وہ سیدھی ہو کے بیٹھی۔
"کچھ بات کرنا چاہتا ہوں آپ سے"
"جی کیجیے"
"کسی ریسٹورینٹ میں چلیں"
"نہیں"
"پلیز"
"نہیں کوٸی دیکھ لے گا تو باتیں بنیں گی"
"کوٸی نہیں دیکھتا "
"ماما انتظار کر رہی ہوں گی گاڑی تیز چلاٸیں"
"میں نے بات کرنی ہے آپ سے"
"تو کریں"
"محبت کرتا ہوں"
"تو؟" وہ شاید خود کو اس کے سوالوں کے لیے تیار کر چکی تھی۔
"آپ اجازت دیں تو آپ کے گھر رشتہ بھیج دوں"
"آپ مجھے جانتے ہیں میں کون ہوں کس گھرانے سے ہوں کیا کرتی ہوں کیسی لڑکی ہوں"
"جی سب جانتا ہوں"
"پھر؟"
"پھر کیا شادی کرنا چاہتا ہوں آپ سے" وہ بات کرتے کبھی کبھی نظر حور پہ بھی ڈال لیتا تھا۔
"آپ کے گھر والے کبھی نہیں مانیں گے۔ ہم بہت غریب ہیں اور آپ بہت امیر" وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔
"غریبی امیری کہاں سے آ گٸی بیچ میں آپ بس مجھے یہ بتاٸیں شادی کریں گی مجھ سے"
خاموشی۔۔۔
"یار پلیز کچھ بولا تو کرو"
خاموشی۔۔۔۔۔ ارہم نے گاڑی ایک ساٸیڈ پہ روکی باہر نکلا وہاں بوکے شاپ تھی ایک بوکے خریدا گاڑی میں آ کے بیٹھا۔ حور کی طرف بوکے بڑھایا جو اس نے نہیں پکڑا ارہم نے ڈش بورڈ پہ بوکے رکھا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔
"میری بات کا جواب نہیں دیں گی تو میں گاڑی یونہی سڑکوں پہ گھماتا رہوں گا" حور نے حیرانگی سے اسے دیکھا
"ٹھیک کہہ رہا ہوں" وہ بھی اس کی ہیزل گرین آنکھوں میں دیکھتا بولا۔ حور نے فوراً نظریں چڑا لیں۔ ارہم مسکرایا۔
"جواب دے رہی ہیں یا نہیں"
"کونسا جواب"
"یہی کے مجھ سے شادی کریں گی اور ہاں جواب مثبت ہی ہو"
"نہیں دوں گی جواب کیا کر لیں گے" وہ ہمت کرتی بولی۔
"اوکے نا دیں میں بھی یونہی گھومتا رہوں گا مجھے تو ویسے بھی بہت اچھا لگ رہا ہے آپ کے ساتھ سفر کرنا"
"آپ۔۔۔۔میں۔۔میں چھلانگ لگا لوں گی"
"او اچھا پر وہ کیسے"
"دروازہ کھول کے"
"دروازہ میں نے لاک کیا تھا بھول گٸیں" وہ مزے سے بولا۔
"آپ کیا چاہتے ہیں"
"آپ سے شادی"
"آپ کی اور ہماری فیملی میں بہت فرق ہے آپ کے گھر والے نہیں مانیں گے" وہ رُندھی آواز میں بولی۔
"ابھی صرف اپنی بات کریں"
خاموشی۔۔۔۔
"حور یار مجھے کوٸی آوارہ لڑکا نہیں سمجھو سچی محبت کرتا ہوں آپ سے دل سے چاہتا ہوں میں آپ کو اور جہاں تک رہی میری فیملی کے ماننے کی بات تو ماما ہی تھوڑا مسلہ کریں گی انہیں میں منا لوں گا پہلے آپ تو مان جاٸیں"
"پر۔۔۔۔"
"ابھی بھی پر پہلے ہی کٸی راتیں آپ کی وجہ سے سو نہیں پایا ہر وقت آپ کی یاد۔۔۔ اب اور برداشت نہیں کر سکتا میں دوری "
"اوکے"
"کیا اوکے مطلب ہاں۔۔آپ ۔۔آپ تیار ہیں مجھ سے شادی کرنے کے لیے آپ مان گٸیں سچی" وہ پُر جوش ہوتا اونچی آواز میں بولا حور اس کے اس طرح بولنے پر مسکرا دی۔
"سچ کہہ رہی ہیں نا آپ اب انکار تو نہیں کریں گی نا" وہ اسے دیکھتا بولا۔
"نہیں کروں گی انکار" حور نے بھی اسے دیکھتے جواب دیا۔
"یہ بوکے بھی رکھ لیں اب پلیز "خوشی اس کے ایک ایک عضو سے چھلک رہی تھی۔
"نہیں یہ میں نہیں رکھوں گی"
"کیوں" وہ اداس ہوا۔
"کیوں کے ابھی میں یہ لینے کی حقدار نہیں"
"پلیز لے لیں پیار سے لیا ہے آپ کے لیے"
"سوری بٹ میں نہیں لے سکتی"
"اوکے میں شادی کے بعد آپ کو دے دوں گا"
"تب تک تو یہ مرجھا جاٸیں گے" ارہم اس کی بات پہ مسکرا دیا تو اسے بھی اپنی بات سمجھ آٸی اور اس نے شرمندہ ہوتے ہوے نظریں جھکا دیں۔
"تب نیا لے کے دوں گا" وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"تھینکس"
"کس لیے"
"ہاں کرنے کے لیے "
"بس یہاں اتار دیں"
"اوکے۔۔۔گھر آنے کو نہیں کہیں گی"
"نہیں الله حافظ"
"الله حافظ" اس نے بھی مسکراتے ہوے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیان کے آنے تک مہروالنسإ نے اس کے کپڑے نکال دیے اور خود بھی فریش ہو گٸی تھی۔ آیان کمرے میں آیا تو وہ میک اپ کر رہی تھی۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم مسز آیان کیسی ہیں؟" وہ خوشدلی سے بولا۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام ٹھیک ہوں اب آپ فریش ہو جاٸیں پہلے ہی بہت ٹاٸم ہو گیا ہے"
"اوکے میڈم" پھر وہ کپڑے پکڑتا واش روم میں چلا گیا۔ جب وہ نکلا تو وہ بیڈ پہ بیٹھی ہوٸی تھی۔
"آیان پونی کروں یا بال کھلے ہی چھوڑ دوں" وہ بھی اس کے پاس ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی ہوتی بولی۔
"جو دل کرے کر لو تو تم جو بھی کرو پیاری ہی لگتی ہو" وہ بالوں پہ برش کرتا بولا۔
"اممم۔۔۔کھول ہی لیتی ہوں" پھر اس نے ساٸیڈ کی مانگ نکال کے بال سیٹ کیے اور بولی۔
"چلیں"
"جی رکو ایک منٹ" پھر اس نے موباٸل نکالا مہرو کو اپنے قریب کیا اور پک بناٸی۔ پھر وہ دونوں چلے گٸے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنر کے بعد اب وہ سب لاٶنج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے سحر بار بار مہرو سے بات پوچھ رہی تھی پر وہ بتا ہی نہیں رہی تھی۔
"تم نے بتانا ہے یا نہیں" اب کی بار وہ تھوڑا غصے میں بولی۔
"کیا ہے صبر کرو"
"اور کتنا صبر کروں"
ا"چھا سنو پھر ارہم نا۔۔۔۔۔"
"کیا "
"وہ۔۔۔۔"
"میں نے تمہیں سب کے سامنے مارنا شروع کر دینا ہے" وہ دانت پیستی بولی۔
"ارہم حور کو پسند کرتا ہے اس سے شادی کرنا چاہتا ہے"
"رٸیلی" وہ خوشی میں اتنا اونچی بولی باقی سب بھی اسے دیکھنا شروع ہو گٸے اور آیان تو جان گیا تھا کے وہی بات بتاٸی ہو گی۔ سحر نے جب سب کو خود کو دیکھتا پایا تو شرمندہ سی ہو کے نظریں دوسری ساٸیڈ پہ کر لیں۔
"جاہل لڑکی آہستہ نہیں بولا گیا "
"نہیں اب بتاٶ کیا ارہم نے اسے پرپوز کیا "
"ہاں"
"اس نے کیا کہا"
"پہلے تھوڑی دیڑ تو نہیں مانی پھر ہاں کر ہی دی"
"ہاۓ اللہ یارررر مجھے تو یقین نہیں ہو رہا"
"کر لو" وہ لب بھینچتی بولی۔
"بہت گھٹیا ہو تم"
ہ"مم سامنے دیکھو نا سب بار بار ادھر دیکھ رہے ہیں"
"آٶ ہم ہال میں چلیں"
"ہاں چلو" پھر وہ دونوں ہال میں آ گٸیں کچھ دیر باتیں کرتی رہیں پھر زیشان ان کے پاس آیا۔
"مہرو آپی بس بھی کریں اب" جب سے مہروالنسإ آٸی تھی وہ اس سے بار بار بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا پر وہ تو ناراض ہو کے بیٹھی تھی
"تمہیں کیا جب سے میری شادی ہوٸی ہے نا تم مجھ سے ملنے آۓ ہو نا کال کی اب بڑا خیال آ رہا ہے"
"میں بہت بی زی تھا اور آج تو میں نے آنا تھا پھر پتا چلا کے آپ نے یہاں آنا ہے اس لیے نہیں آیا "
"بہت اچھے سے جانتی ہوں میں تمہیں"
"مہرو آپی مان جاٸیں نا "
"ٹھیک ہے "
"ایسے نہیں نا خوش ہو کے کہیں"
"اب زیادہ اوور نہیں ہو"
"مہرو آپی اس سے رزلٹ تو پوچھیں" عنزہ نے بھی بولنا فرض سمجھا۔
"آ گیا رزلٹ"
"جی جی آ گیا اور گیارہ سو میں سے چھ سو ستاٸیس نمبر آٸیں ہیں "
"موٹی تم تو اپنا منہ بند ہی رکھا کرو"
"کیوں سچ سنتے تکلیف ہوتی ہے"
"منہ بند رکھو گی تو بہتر ہو گا ورنہ۔۔۔۔"
"کیا ورنہ بابا گھر ہی ہیں یاد رکھنا"
"تمہیں ادھر بلایا کس نے ہے؟"
"میرا گھر ہے جہاں مرضی جاٶں جو مرضی کروں اینی پرابلم" وہ ڈھٹاٸی سے بولی۔
"تم سے تو بات کرنا ہی بیوقوفی ہے"
"جب جواب دینا نا آۓ تو بس یہ کہہ دیا کرو ہنہہ"
"کیا ہو رہا ہے یہاں کیوں لڑ رہے ہو" آیان وہاں آتا بولا۔
"ایویں آیان بھاٸی بیچارے کے نمبر کم آۓ ہیں نا تو غصہ ہم پہ نکال رہا ہے فضول "
"عنزہ میں بڑا ہوں تم سے تمیز سے بات کرو" زیشان غصے میں بولا۔
"میں بھی چھوٹی ہوں تم سے پیار سے بات کیا کرو" وہ کہاں کم تھی۔
"موٹیییی"
"جی بندررر"
"عنزہ بڑا بھاٸی ہے آپ کا ایسے نہیں کہتے" آیان بولا۔
"میں بھی تو اس کی چھوٹی بہن ہوں نا ہر وقت لڑتا رہتا ہے مجھ سے"
"تو تم کونسا بڑے پیار سے بات کرتی ہو"
"دیکھ لیں پھر بدتمیزی کر رہا ہے"
"ادھر آٶ دونوں میرے پاس بیٹھو" پھر وہ تینوں صوفے پہ بیٹھے۔
"زیشان اب آپ بتاٶ کیا ایسے بات کرتے ہیں بہن سے"
"بھاٸی وہ بلاوجہ بدتمیزی کرتی ہے"
"ہاں تو تم۔۔۔۔۔ "
"عنزہ آپ چُپ کرو میں ابھی اس سے بات کر رہا ہوں"۔
"اگر وہ بدتمیزی کرتی ہے تو آپ برداشت کر لیا کرو چھوٹی بہن ہے پیار سے سمجھایا کرو"
"بھاٸی یہ اور سمجھیں۔۔۔۔ Impossibe" وہ نا میں گردن ہلاتا بولا۔
"کیوں وہ کیوں نہیں سمجھے گی کیا تم نے کبھی اسے سمجھایا ہے جو وہ نہیں سمجھی"
"نہیں سمجھایا تو نہیں پر۔۔۔۔۔"
"بڑے ہو بڑے بن کے دکھاٶ اور یہ ایک دوسرے کے نام کیوں بگاڑتے ہو اتنے پیارے نام ہیں اگر آپ دونوں کو نہیں پسند تو پھر تمہارا بندر اور عنزہ آپ کا موٹی رکھ دیتے ہیں" وہ سنجیدگی سے بولا پر مہرو اور سحر کا قہقہہ ہال میں گونجا تو اس کے لیے بھی ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا اور جب عنزہ اور زیشان نے آیان کو مسکراتے دیکھا تو وہ بھی ہنس دیے۔
"ہاں آیان بھاٸی یہ نام بیسٹ ہیں" سحر ہنستی ہوٸی بولی۔
"تو پھر آج سے انکے یہی نام ہیں مہرالنسإ جاٶ روم میں اناٶنس کر آٶ"
"نہیں بھاٸی ہم آٸندہ الٹے نام نہیں ڈالیں گے اور نا ہی بدتمیزی کریں گے" عنزہ بولی۔
"پرامس"
"نو پرامس نہیں کروں گی کیونکہ یہ مشکل ہے پر کوشش ضرور کروں گی" وہ مسکراتی ہوٸی بولی۔
"اور تم زیشان"
"میں بھی کوشش کروں گا"
"آیان بھاٸی آپ کن کے ساتھ شروع ہو گٸے ان دونوں نے کبھی ٹھیک نہیں ہونا ہر دفعہ یہی کہتے ہیں پر پھر وہی کرتے ہیں جو ان کا دل چاہے" سحر بولی۔
"نہیں جی اس دفعہ ہم ضرور کوشش کریں گے کیوں مو۔۔۔" اس نے زبان دانتوں تلے دباٸی "میرا مطلب عنزہ"
"ییس ماٸی برو" وہ تھمب اپ کرتی بولی۔
"مہروالنسإ چلو اب چلیں"
"بھاٸی اتنی جلدی"
"یہ جلدی ہے ساڈھے دس ہو گٸے ہیں"
"تو کیا ہے" عنزہ اداس ہوٸی
"میری گڑیا اب آپ آنا ہمارے گھر" وہ اسے ساٸیڈ ہگ کرتا بولا۔
"اوکے" پھر وہ دونوں لاٶنج میں سب سے مل کے آۓ
"بہت مس کرتا ہوں میں مہرو آپی آپ کو" زیشان بولا۔
"پتا ہے مجھے بہت نہیں بلکہ بہت زیادہ کرتے ہو ہے نا" اس نے طنز کیا جسے زیشان نے خوشدلی سے قبول کیا۔
"جی بہت زیادہ" پھر وہ سحر سے گلے ملی باقی سب کو الله حافظ کہا اور دونوں گھر کے لیے نکل گٸے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آ کے دونوں نے کپڑے چینج کیے اور آیان لیپ ٹاپ لے کے بیٹھ گیا۔
"آیان تھکتے نہیں آپ" وہ بیڈ پہ بیٹھتی بولی۔
"نہیں" اسکرین پہ نظریں جماۓ ہی جواب دیا۔
"میں تو وہاں سے ہو کے آٸی ہو اور تھک بھی گٸی"۔
"ہمم تم لڑکیاں بہت نازک ہوتی ہو نا"
"جی بالکل ایک پھول جیسی"
"کچھ لڑکیاں"
"کیا مطلب ہے آپ کا"
"کچھ نہیں سو جاٶ"
"آپ کب تک سوٶۓ گے"
"آدھے گھنٹے تک"
"چاۓ بناٶں"
"تم تو تھک گٸی ہو اس لیے سو جاٶ"
"نہیں میں بنا دیتی ہوں"
"اپنے لیے بھی بنا لینا "
"اوکے "پھر وہ چاۓ بنانے چلے گٸی۔ چاۓ بناٸی کپوں میں انڈیلی کپ ٹرے میں رکھے اور کمرے میں چلے گٸی کمرے میں جاتے ہی پچھلی باتیں زہن میں آٸیں (اندھی ہو اللہ نے آنلھیں استعمال کرنے کے لیے دی ہیں تو پھر کرتی کیوں نہیں ہر وقت ٹکڑاتی رہتی ہو۔۔۔۔) آیان نے اسے دروازے کے پاس کھڑا دیکھا تو بولا۔
"اندر کیوں نہیں آ رہی" اس کہ آواز جیسے مہرو کو ہوش میں لاٸی۔
آ"نے لگی ہوں" پھر وہ اندر گٸی آیان کو چاۓ پکڑاٸی آیان کو بھی اپنی باتیں یاد آٸیں کیا ہوتی ہیں یہ یادیں اچھی ہوں یا بُری پیچھا ہی نہیں چھوڑتیں۔
"آپ کام کریں میں آتی ہوں" مہرو اپنا کپ پکڑتی ہال میں آ گٸی۔ کپ سینٹر ٹیبل پہ رکھا اور خود سوچوں میں گم ہو گٸی۔ آیان نے لیپ ٹاپ بند کر کے ساٸیڈ ٹیبل پہ رکھا اور ہال میں آیا مہرو کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ وہ اس کے پاس بیٹھا مہرو نے جلدی سے آنکھیں صاف کیں۔
"کیا ہوا چاۓ کیوں نہیں پی" وہ ٹیبل پہ پڑے کپ کی طرف دیکھتا بولا جو ویسے کا ویسے ہی تھا۔
"دل نہیں کیا "
"کیوں "
"ویسے ہی"
"میری طرف دیکھو"
"مجھے نیند آ رہی ہے سونے جا رہی ہوں" وہ اٹھی پر آیان نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنے پاس بیٹھا لیا۔ پھر اس کا چہرہ اپنی جانب کیا اور بولا۔
"کیا ہوا "
"کچھ نہیں" اس کی آواز بھڑا گٸی۔
"میری باتیں یاد آٸی ہیں نا" اس کا یہ کہنا تھا اور مہرو کی آنکھیں چھلک پڑی۔
"مجھے پتا ہے بہت غلط کرتا رہا ہوں میں تمہارے ساتھ پر اب کبھی نہیں کروں گا اور یار رویا نہیں کرو مجھ سے نہیں دیکھا جاتا" آیان نے اس کے آنسو صاف کیے۔
"معاف کر دو مجھے "
"آیان معافی نہیں مانگیں "
"کیوں اب اپنی اتنی پیاری بیوی کے ساتھ غلط کیا ہے تو معافی تو مانگوں گا نا" وہ پیار بھرے لہجے میں بولا۔
"نہیں نا آٸیں سونے جاٸیں"
"پہلے میری طرف دیکھو "
"آیان "
"جی مسز آیان "
"نیند آ رہی ہے مجھے"
بہت اچھے سے جانتا ہوں تمہیں کوٸی نیند نہیں آ رہی۔۔ میری طرف تو دیکھو" آیان نے ٹھوڑی سے پکڑ اس کا چہرہ اوپر کیا پھر مہرو نے آیان کی طرف دیکھا۔
"آیان"
"جی "
"آیان آپ کی آنکھیں بہت پیاری ہیں" وہ گھمبیر آواز میں اس کی آنکھوں میں دیکھتی بولی۔
"اچھا تو کیا میں نہیں پیارا"
"آپ بھی پیارے ہیں پر آپ کی آنکھیں۔۔۔" مہرو نے اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔
"سونے چلیں "
"نہیں اب مجھے آپ کی آنکھیں دیکھنی ہیں" وہ ابھی بھی ان پہ ہی نظریں گاڑھے ہوٸے تھی۔
"تو تب سے کیا دیکھ رہی ہو"
"آیان آپ کی آنکھیں بہت گہری ہیں مجھے لگتا ہے میں ان میں ڈوب جاٶں گی" وہ کھوۓ کھوۓ انداز میں بولی۔
"تو ڈوب جاٶ" وہ ہنستے ہوے بولا۔
"مہروالنسإ یار چلو بھی اور تم نے چاۓ بھی نہیں پی گرم کر کے لا دوں؟"
"نہیں اب بس سونا ہے میں نے" وہ اٹھتی ہوٸی بولی۔
"جاٶ روم میں میں کپ کچن میں رکھ کے آیا" مہروالنسإ کمرے میں چلے گٸی آیان بھی کپ کچن میں رکھ کے کمرے میں آ گیا لاٸیٹ آف کی اور بیڈ پہ آیا۔
"مہرو"
"جی"
"یار اب کبھی رونا نہیں کوٸی بھی دکھ ہو پریشانی ہو مجھے بتانا پر کبھی بھی آنسو بہانے نا بیٹھ جانا میں کوشش کروں گا اپنی زات سے تمہیں کوٸی تکلیف نا پہچاٶں۔۔میں تمہارے سارے غم خود پہ لے لوں گا ساری پریشانیاں ساری تکلیفیں پر اب تمہیں کبھی رونے نہیں دوں گا" مہرو جو لیٹ چکی تھی اس کی باتیں سن کے بیٹھ گٸی۔
"کیسی باتیں کر رہے ہیں آیان اوکے اب میں کبھی نہیں روٶں گی سو جاٸیں اب آٸی لو یو" مہرو نے اس کا ہاتھ چوما.
"آٸی لو یو ٹو" وہ بھی اس کی پیشانی چومتا لیٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)

محبت،یقین اور خواہش Completed 💕Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang