محبت، یقین اور خواہش

5.4K 231 82
                                    

*آخری قسط*
آیان کو گھر آۓ پندرہ دن ہو گٸے تھے۔ وہ اب پہلے سے کافی بہتر تھا۔ پر ابھی آفس جانا شروع نہیں کیا تھا۔ ارہم کی بات پکی ہو گٸی تھی شازیہ بیگم نے تھوڑی بحث کی تھی لیکن آیان اور مہرو کے کہنے پہ وہ مان گٸی تھیں۔ آسف صاحب نے انہیں بھی جہیز دینے سے منع کر دیا تھا۔ شادی کے سارے اخراجات خود اُٹھانے کا کہا تھا۔ پر ساجدہ بیگم کے بار بار کہنے پہ وہ تھوڑا خرچ کرنے پہ راضی ہو گٸے تھے۔ ڈیٹ فکس ہو گٸی تھی مریم اور ارہم کی اکھٹی شادی تھی۔ سحر اور اس کی فیملی بھی ایک دو دفعہ آیان سے مل گٸے تھے۔ حور اور اس کی ماما بھی۔
"یار اب تو ایسے کھانے دینا بند کرو" آیان نے تیوری چڑھاٸی۔
"ابھی آپ ٹھیک نہیں ہوے" مہرو سوپ پکڑ کے اس کے پاس بیٹھی۔
"ٹھیک تو ہوں "
"چُپ کر کے پی لیں" مہرو نے چمچ اس کے آگے کیا۔آیان نے منہ بناتے ہوے ایک چمچ لیا۔ دروازے پہ بیل ہوٸی۔ تو مہرو باٶل ساٸیڈ ٹیبل پہ رکھ کے باہر گٸی۔ دروازہ کھولا تو سامنے دانت نکالتے ارہم کو کھڑا پایا۔ جس کے ہاتھ میں دو شاپنگ بیگ تھے۔
"کیا ہے یہ؟" مہرو دروازہ بند کرتی اس کے ہمراہ چلتی بولی۔
"آیان کا سوٹ" (وہ دو دن پہلے بھی اپنا اور آیان کا سیم تھری پیس لے کے آیا تھا ولیمے پہ پہننے کے لیے جو کے آیان نے ریجیکٹ کر دیا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کے وہ اُس جیسا نہیں پہنے گا۔
"تجھے کیا ہے میرے جیسا پہنتے ہوے"
"میں نہیں چاہتا بیچارے لوگوں کو غلطی لگتی رہے کے دولہا ہے کون"
"کیوں تو نے کیا اسٹیج پہ بیٹھے ہونا ہے" بھنویں سمیٹیں۔
"وہی تو میں کہہ رہا ہوں یہ نا ہو میں ہال میں گھوم رہا ہوں اور لوگ مجھے اُٹھا کے اسٹیج پہ لے آٸیں"
"تو میرا ہم شکل تو نہیں جو لوگوں کو غلطی لگے"
"لگتا تو ہوں نا تجھ پہ"
"ٹھیک ہے نا پہنی موٹے میں کوٸی اور لے آٶں گا"
"تجھے اتنی جلدی کیا ہے ابھی پانچ دن ہیں شادی میں"
"ہاں تو صرف پانچ دن ہی ہیں" )
"دکھاٶ "
"اندر آٸیں پھر دکھاتا ہوں" پھر وہ دونوں کمرے میں گٸے۔ارہم نے شاپر بیڈ پہ رکھے اور اس کے گلے لگا بلکہ بُری طرح اسے دپوچا۔
"چھوڑ دے بھی یا کچومر نکالے گا" آیان خود کو اسے چُھرواتا بولا۔
"اب دیکھ یہ تجھے پسند آۓ یا نا پر تو یہی پہنے گا ولیمے پہ" ارہم نے پینٹ شرٹ اس کی طرف بڑھاٸی۔
"امممم"
"اب یہ نا کہنا نہیں پیارا مہرو بھابھی کا تو تجھے بہت پسند آیا بونگا "
"کہاں سے بونگا.. تم سے تو پیارا ہے خود دیکھو کیسے لاتے ہو ہنہہ" وہ کمر پہ ہاتھ رکھتی بولی۔
"اتنی مہنگی پینٹ شرٹ ہے اور یہ جیکٹ دیکھیں برینڈیڈ مال ہے آپ کی طرح سیل سے نہیں اُٹھا کے لایا"
"ہمم پتا ہے تمہارے برینڈز کا "
"اچھی بات ہے سب کو ہی پتا ہے "
"ارہم تم بہت بدتمیز ہو یہ بھی سب کو پتا ہے"
"ہاں اور جاہل بھی ہوں یہ کہنا کیوں بولیں آپ"
"پاغل تم ہو کس پہ "
"میں۔۔۔۔۔اممم خود پہ پر آپ کے بچے مجھ پہ جاٸیں گے" مہرو جھینپ گٸی آیان مہرو کو دیکھ کے مسکرایا۔
"اللہ معاف کرے تم پہ تو ہر گز نا جاٸیں میں نے تو منت مانگ لینی ہے کے اللہ جی میرا کوٸی بچہ ارہم پاغل پہ نا جاۓ"
"جو مرضی کیجیے گا پر اثر تو ہونا کوٸی نہیں اور ہاں نام بھی میں ہی رکھو گا"
"تم۔۔تم سچ میں پاغل ہو" کہتی وہ کمرے سے نکل گٸی آیان ان کی باتوں سے محفوظ ہو رہا تھا۔
"شرم کیا کر بھابھی ہے تیری"
"ہاں تو میں نے کونسا کچھ غلط کہا نام تو میں نے ہی رکھنا ہے"
"اففف "
"چل اوور نہیں ہو بتا کیسا ہے"
"کیا؟"
"یہ" اس نے پینٹ شرٹ کی طرف اشارہ کیا .
"اچھی ہے"
"بس اچھی" اس نے آنکھیں سکیڑیں۔
"نہیں بہتت اچھی"
"ہمم گڈ "وہ مسکرایا اتنے میں ڈور بیل ہوٸی مہرو ہال میں ہی تھی اس نے دروازہ کھولا تو حور تھی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد مہرو بولی۔
"تم کمرے میں جاٶ میں آتی ہوں" مہرو کچن کی طرف بڑھتی بولی۔
"اوکے" کہتی وہ کمرے کی طرف بڑھی ارہم باہر دیکھنے کے کون آیا ہے کی غرض سے اٹھ کے کمرے سے نکلا آگے سے حور کمرے میں داخل ہوٸی اور اس کا سر ارہم کے سینے سے جا لگا۔حور نے اپنے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے مقابل کو دیکھا دونوں کی نظریں ملیں۔ پیچھے بیڈ پہ بیٹھا آیان انہیں دیکھ کے مسکرایا۔
"س۔۔سوری" ارہم بول کے واپس آیان کے پاس جا بیٹھا۔ حور نے بھی آگے بڑھ کے آیان سے سلام لی اور کمرے سے نکلنے کے لیے پلٹی کے مہرو ٹرے میں کوک اور گلاس رکھ لاٸی۔
"بیٹھو" مہروالنسإ نے حور کو دیکھ کے صوفے کی طرف اشارہ کیا پھر وہ صوفے پہ بیٹھ گٸی مہرو نے ارہم کو کوک گلاس میں ڈال کے دی اور خود حور کے ساتھ صوفے پہ بیٹھ گٸی۔
"بتاٸیں جی کیسے آنا ہوا" مہرو کوک گلاس میں انڈیلتی بولی۔ اور پھر گلاس حور کی طرف بڑھایا۔
"کیوں ایسے نہیں آ سکتی کیا"
"ایسے تو تم آتی نہیں"
"ہاں نا یار میرا ابھی بارات کا ڈریس لانے والا ہے ماما کہہ رہی تھیں مہرو کے ساتھ جا کے لے آٶ تین دن تو رہ گٸے ہیں"
"ہمم چلتے ہیں ابھی چار بجے ہیں چھ بجے تک آ جاٸیں گے"
"ہاں چلو" پھر حور بولی۔
"آیان میں مہرو کے ساتھ بازار جا رہی ہوں"
"کس کے ساتھ جاٶ گی"
"ارہم لے جاٶ ہمیں" مہرو نے ارہم کی طرف دیکھا۔
"میں تو نہیں لے کے جاٶں گا"
"جا یار لے جا" آیان بولا۔
"نو" یک لفظی جواب دیا۔
"اوکے پھر میں لے جاتا ہوں" آیان اُٹھتا ہوا بولا۔
"رہنے دے میں لے جاتا ہوں کا کچھ لگتا چل بیٹھ آرام سے"
"تو لے جاۓ گا"
"جی" وہ دانت پیستا بولا۔
"شکریہ" ارہم مہرو نے کہا۔
"آیان آپ سوپ پی لیں" آیان نے پھر سے منہ بنایا۔
"جب تک آپ ختم نہیں کریں گے میں نہیں جاٶں گی"
"بھابھی جی آپ تیار ہویں میں پلاتا ہوں اسے" ارہم باٶل پکڑتا بولا۔
اوکے
"جلدی پی موٹے "
"خود پی لے ہاں" آیان بولا۔
"میں کیوں پیوں جلدی کر پھر ہم نے جانا بھی ہے" ارہم نے آیان کو سوپ پلایا اور پھر حور اور مہرو کو لے کے مال آ گیا۔
"مہرو تم دیکھو کوٸی مجھے تو سب ہی بہت پیارے لگ رہے ہیں "
"ہاں یار ہیں تو سب ہی پیارے۔۔۔یہ والا دیکھو" مہرو نے ایک ڈریس کی طرف اشارہ کیا۔
"پیارا ہے "
"سہی"
"پتا نہیں "
"اوکے وہ چھوڑو یہ دیکھو" اس نے ایک اور کی طرف اشارہ کیا۔
"یار مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا "
"ارہم ادھر آٶ" مہرو نے چیٸر پہ بیٹھے ارہم کو بلایا۔
"جی" وہ پاس آ کے بولا۔
"یہ ڈریس کیسا ہے"
"مجھے کیا پتا"
"دیکھو نا "
"ہمم اچھا ہے" وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتا بولا۔
"بس اچھا"
"جی" اس نے کندھے اچکاۓ.
"پھر تم کوٸی بہتتت اچھا بتا دو" مہرو نے بھنویں سکیڑیں۔
"بتاٶں؟"
"ہاں"
"وہ والا" ارہم نے سامنے ڈمی پہ بلیو فراک کی طرف اشارہ کیا
"تم پاغل سے یہی امید تھی۔۔بارات کا سوٹ لینا ہے ولیمے کا نہیں"
"تو کیا یہ بارات پہ نہیں پہن سکتے"
"نہیں بارات پہ ریڈ کلر پہنتے ہیں"
"اوو اچھا تو پھر۔۔۔۔ یہ والا"
"زبردست "
"تھنکیو تھنکیو" ارہم سینے پہ ہاتھ رکھتے تھوڑا جھکتا ہوا بولا۔
"ہو گٸی تمہاری اوور ایکٹینگ شروع "
"حور بتاٶ کیسا ہے یہ" حور خاموشی سے ایک ساٸیڈ پہ کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی۔
"ہاں پیارا ہے میں نے کہہ تو دیا" ارہم حور کے بولنے سے پہلے ہی بول پڑا۔
"تم چُپ کرو میں حور سے پوچھ رہی ہوں۔۔بتاٶ حور"
"آپ لوگ جاٸیں میں بل پے کر کے آتا ہوں"
"بہت بد تمیز ہو تم" مہرو کہتی حور کا ہاتھ پکڑتی جیولری شاپ کی طرف بڑھ گٸی۔
"مہرو بل میں پے کروں گی"
"کیوں؟" آبرو اچکاۓ۔
"کیوں کے ڈریس میرا ہے"
"تو وہ بھی تمہارا ہی ہے"
"مجھے نہیں پتا میں جا رہی ہوں بل پے کرنے"
"جاٶ سن لو اس سے باتیں میں یہیں کھڑی ہوں"
"کیوں سناۓ گا باتیں میں جا رہی ہوں" کہتی وہ کاٶنٹر کی طرف بڑھی۔ ارہم بل پے کر کے پلٹا ہی تھا کے حور سامنے سے آتی دکھاٸی دی۔
"بل میں پے کروں گی" وہ اس کے قریب آتی نظریں جھکاۓ بولی۔
"کیوں؟ "
"کیونکہ ڈریس میرا ہے"
"آہاں۔۔چلیں اب"
"میں نے بل پے کرنا ہے"
"وہ تو میں نے کر دیا"
"پھر آپ مجھ سے پیسے لے لیں"
"حور میں تم سے پہلے ہی ناراض ہوں مجھے اور غصہ مت دلاٶ"
"ناراض ہیں تو پھر میرے پیسے کیوں دے رہے ہیں" نظریں ہنوز جھکی ہوٸی تھیں۔
"اپنی ہونے والی بیوی کے دیے ہیں"
"تو وہ کون ہے"
"ہے کوٸی عجیب پاغل سی لڑکی" کہتے اس نے قدم آگے بڑھایا۔ اور حور تو ساکت کھڑی جیسے چلنا ہی بھول گٸی۔
"اب کیا یہیں کھڑے رہنا ہے" ارہم واپس اس کے قریب آ کے بولا۔
"اتنی ہی عجیب اور پاغل ہے تو کیوں کر رہے ہیں شادی"
"کیا کروں دل کو وہ اچھی لگ گٸی ہے"
تو دل سے کہیں نفرت کرے اسے"
"بہت کہتا ہوں پر سمجھتا ہی نہیں"
"ارہمممم" اسے غصہ آیا
"جی" وہ شریر مسکراہٹ لیے نرمی سے بولا۔
"میں۔۔میں نہیں پہنوں گی یہ سوٹ اپنی پسند کا لے کے خود پیسے دوں گی اور وہی پہنوں گی"
"اچھااا ایسا کر سکتی ہو" وہ اسے دیکھ کے محفوظ ہو رہا تھا۔
"جی کر سکتی ہوں اور کروں گی بھی"
"اوکے پھر میں اور مہرو بھابھی چلے جاتے ہیں تم اپنی پسند کا سوٹ لے کے آ جانا" اس نے پسند پہ زور دیا۔
"آ جاٶں گی"
"سوچ لو"
"ضرورت نہیں"
"میں جا رہا ہوں"
"تو جاٸیں" کہتی وہ ایک ڈریس دیکھنے لگی۔
"تمہیں اب کوٸی اور پسند نہیں آۓ گا"
"کیوں؟"
"کیونکہ تمہارا دل اب اس سوٹ پہ آ گیا ہے"
"یہ آپ کو کس نے کہا" وہ دانت پیستی بولی۔
"میرے دل نے "وہ مسکرایا۔
"سنبھال کے رکھیں اپنا دل"
"وہ تو اب تمہارے پاس ہے سنبھالو یا جو مرضی کرو" حور نے کوٸی جواب نہیں دیا۔
"آٶ چلیں مہرو بھابھی ویٹ کر رہی ہوں گی"
"نہیں جانا مجھے آپ کے ساتھ"
"یہ ناراضگیاں بعد میں دکھا لینا ابھی آٶ"
"نہیں جانا آپ کے ساتھ"
"کھنیچ کے لے جاٶں گا"
"میں شور کروں گی"
"حور یار چلو بھابھی ویٹ کر رہی ہیں"
"تو جاٸیں آپ"
"میں سچ میں تمہارا ہاتھ پکڑ لوں گا"
"مجھے ہاتھ نہیں لگایے گا آ رہی ہوں" ہنہہ وہ منہ بناتی آگے بڑھی۔ ارہم مسکراتا ہوا اس کے پیچھے گیا۔
"اتنا ٹاٸم لگا دیا" مہرو انہیں دیکھ کے بولی۔
"وہ بس۔۔۔۔۔" ارہم نے معنی خیزی سے حور کی طرف دیکھا۔
"اچھا چلو اب جلدی ٹاٸم دیکھو کیا ہو گیا ہے اور جیولری ابھی لینی ہے" پھر وہ تینوں جیولری شاپ کی طرف بڑھے۔
"دے دیے پیسے" مہرو نے مسکراتے ہوے حور کے کان میں سرگوشی کی۔
"نہیں" اس نے منہ بنایا۔
"مجھے پتا تھا" وہ ہنسی۔
"چلو اب جیولری لو بعد میں دانتوں کی نماٸیش کر لینا"
"ہاں تو دیکھو تم" ہنستے ہوے کہا گیا۔
"تم نہیں دیکھو گی" غصہ
"ہاں ہاں دیکھتی ہوں ویسے تمہیں کیا ہوا کچھ کہا ارہم نے" وہ معنی خیزی سے بولی۔
"ہاں کہا پاغل لڑکی ہونہہ" مہرو کا پہلے تو منہ کھل گیا پھر زور دار قہقہہ بلند ہوا۔
"اففف کیا نام ملا زبردست داد دینی چاہیے ویسے آیان کو کیا نام رکھا واہ واہ"
"مہرو میں نے تمہیں مارنا شروع کر دینا ہے "
"اسے تو کچھ نہیں کہا" مہرو نے آنکھیں چھوٹی کیں۔
"مہرو منہ بند کر کے نا جیولری دیکھو "
"اچھا اچھا ویسے نام بڑا کمال ہے" وہ ہنستے ہوے گویا ہوٸی۔
"مہرووو "
"ابھی تک لی نہیں" ارہم ان کے قریب آتا بولا۔
"نہیں جی حور کو کچھ پسند ہی نہیں آ رہا"
"میں نے دیکھا کب ابھی"
"تو تب کی کیا کر رہی تھی" ارہم نے آنکھیں بڑی کیں۔وہ بغیر جواب دیے جیولری دیکھنا شروع ہو گٸی۔
"آپ دونوں دیکھو آیان کی کال آ رہی ہے میں باہر ویٹ کرتی ہوں تم دونوں جلدی آٶ "
"مہروو" پر مہروالنسإ نے تو کچھ سنا ہی نہیں تھا۔
"آپ کہاں جا رہی ہیں میڈم" ارہم حور کے سامنے کھڑا ہوا۔
"جہاں مرضی جاٶں"
"جیولری نہیں لینی"
"آپ کو بتانا ضروری نہیں سجھتی"
"اتنا غصہ "
"ہٹے سامنے سے مجھے جانا ہے"
"کہاں؟"
"مہرو کے پاس"
"وہ آیان سے بات کر رہی ہیں"
"ڈرامہ کر رہی ہے"
"او تو عقلمند ہیں آپ"
"مجھے جانے دیں "
"چلو آٶ جیولری لو"
"نہیں لینی"
"ناراض ہو"
"کیوں ہوں گی"
"تو پھر آٶ لے لو"
"آپ جاٸیں میں لے لوں گی"
"نہیں جاٶں گا"
"تو پھر میں بھی نہیں لوں گی"
"اوکے نا لو میں خود لے لیتا ہوں"
"میں آپ کی لاٸی پہنوں گی ہی نہیں"
"وہ تو بعد کی بات ہے" پھر وہ جیولری دیکھنا شروع ہو گیا۔ تھوڑی دیر دیکھتا رہا پر کچھ سمجھ نہیں آیا تو بولا۔
"یار دیکھو مجھے تو سمجھ نہیں آ رہا"
"اب لیں نا"
"حوررر"
"جی" اس نے لب بھینچے
"یار جلدی کرو بہت ٹاٸم ہو گیا ہے"
"دور کھڑے ہوں پھر میں لوں گی"
"اوکے" مسکراتا ہوا وہ تھوڑا پیچھے ہو گیا۔ حور نے جیولری سیلکیٹ کی بل پے کرنے کے لیے کاٶنٹر کی طرف بڑھ گٸی۔ ارہم بھی اس کے پیچھے گیا۔
"میں دیتا ہوں پیسے تم جاٶ مہرو بھابھی کے پاس"
"آپ جاٸیں میں۔۔۔۔۔"
"تمہیں سمجھ نہیں آ رہا میں نے کیا کہا ہے جاٶ اب" ارہم غصے میں بولا۔ تو وہ دو قدم پیچھے ہوٸی۔
"مہرو بھابھی کے پاس جاٶ ایک دفعہ سمجھ نہیں آتا" وہ تھوڑا اونچی بولا۔ حور کی آنکھوں میں آنسو آۓ جنہیں وہ پی گٸی اور حلق کڑوا ہو گیا۔ پھر وہ مہرو کے پاس چلی گٸی۔ ارہم بل پے کر کے ان کے پاس آیا۔
"کچھ کھاٸیں گی مہرو بھابھی "
"نہیں پہلے ہی بہت ٹاٸم ہو گیا ہے گھر چلو مجھے گھر چھوڑ کے پھر حور کو بھی چھوڑ کے آنا ہے"
"میں حود چلے جاٶں گی "
"بیٹھیں" ارہم نے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا۔
مہرو پچھلا دروازہ کھول کے بیٹھی تو مہرو بھی منہ بناتی بیٹھ گٸی۔ ارہم نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
"کیا ہوا" مہرو بغور اس کا منہ دیکھتی بولی۔
"کچھ نہیں" اس نے منہ دوسری جانب کر لیا۔
"کچھ تو ہوا ہے"
"تم مجھ سے بات ہی نہ کرو" اب کی بار وہ اسے دیکھتی بولی۔
"ہوا کیا"
"تم مجھے کیوں چھوڑ کے گٸی تھی"
"کیا ارہم نے کچھ کہا"
"نہیں"
"تو"
"ویسے ہی غصہ آ گیا تم پہ خیر چھوڑو"
"سچ کہہ رہی ہو"
"ہاں "
"میری پیاری" مہرو نے اس کا گال کھنیچا۔
"مسکے نہیں لگایا کرو"
"میں کیوں لگاٶں گی مسکے اب تو ارہم لگایا کرے گا" وہ شریر مسکراہٹ چہرے پہ سجاۓ بولی۔
"ہونہہ مسکے لگاۓ گا تمیز سے بات تو کر نہیں سکتا" وہ بس سوچ کے رہ گٸی۔
ارہم نے مہرو کے گھر گاڑی روکی مہرو اتری تو حور بھی اُترنے لگی۔
"کہاں میڈم گھر نہیں جانا" ارہم بولا۔
"جانا ہے پر آپ کے ساتھ نہیں"
"مہرو بھابھی آپ جاٸیں اندر "
"مہرو آیان بھاٸی سے کہو مجھے چھوڑ آٸیں"
اوکے چلو آٶ میں کہتی ہوں"
"مہرو بھابھی آیان ٹھیک نہیں آپ جاٸیں میں چھوڑ آٶں گا اسے"
"میں۔۔میں ماما کو کال کر لیتی ہوں وہ آ کے مجھے لے جاٸیں گی"
"پاغل ہو حور ٹاٸم دیکھو سات بج گٸے ہیں "
"تو کیا ہے"
"بھابھی جی جاٸیں آپ" ارہم نے حور کو اشارہ کیا کے آپ جاٸیں میں دیکھ لیتا ہوں اسے
مہرو اندر چلی گٸی حور بھی اترنے لگی پر ارہم نے دروازہ بند کر دیا۔
"یہ کیا بدتیمزی ہے "
"اسے بدتمیزی کہتے ہیں اوو اچھااا" کہتا ارہم گاڑی میں بیٹھا چابی اگنیشن میں گھماٸی۔ اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ حور ونڈو سے باہر دیکھنا شروع ہو گٸی۔
"حور" ارہم نرمی سے بولا۔ جواب ندارد۔
"حور" وہ دوبارہ بولا پر جواب نہیں آیا ارہم نے ایک جھٹکے میں گاڑی روکی۔ حور کا سر بہت مشکل سے بچا تھا۔ ارہم گاڑی سے نکلا۔ پچھلا دروازہ کھولا۔اور غصے میں بولا۔
"باہر نکلو " حور تو اس کا یہ روپ دیکھ کے سہم گٸی کیا تھا وہ پہلے اتنے پیار سے بات کرنے والا محبت کے دعوے کرنے والا اب اس سے کیسا بی ہیو کر رہا تھا ابھی تو شادی بھی نہیں ہوٸی تو یہ حال ہے شادی کے بعد پتا نہیں کیا کرے گا
"سناٸی نہیں دیا باہر نکلو" وہ تھوڑا اونچا بولا تو حور اپنی سوچوں سے باہر نکلی اور خاموشی سے گاڑی سے اتر گٸی۔
"بیٹھو" ارہم نے آگے والا دروازہ کھول کے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"تم بہری ہو کیا ایک دفعہ کوٸی بات سمجھ نہیں آتی "
"میں۔۔میں نہیں بیٹھوں گی" ایک موتی ٹوٹ کے اس کے گال پہ گِرا۔
"یہاں کوٸی تماشہ نہیں بنواٶ جو کہا ہے وہ کرو" ارہم دانت پیستا بولا۔
"تم بیٹھ رہی ہو یا میں خود بٹھاٶں "
"آپ۔۔آپ۔۔۔۔۔۔" اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا اس کی آواز بھرا گٸی اور وہ خاموشی سے بیٹھ گٸی۔ ارہم نے حور کی ساٸیڈ سے دروازہ لاک کیا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ اور پھر ساجدہ بیگم کو کال ملاٸی۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم آنٹی "
"وَعَلَيْكُم السَّلَام بیٹا کیسے ہو؟"
"میں بالکل ٹھیک آپ سناٸیں احمد کیسا ہے؟ "وہ جو دوسری جانب منہ کر کے بیٹھی تھی احمد کا نام سن کے ارہم کی طرف دیکھا۔
"ہم بھی ٹھیک ہیں "
"آنٹی حور میرے ساتھ ہے اگر آپ برا نا مانیں تو میں اسے ڈنر پہ لے جاٶں جلد ہی گھر چھوڑ دوں گا" ارہم نے ایک آنکھ بند کر کے زبان دانتوں تلے دباٸی۔
"پر بیٹا۔۔۔۔۔"
"میں۔۔۔" حور کچھ بولنے ہی لگی تھی کے ارہم نے اس کے منہ کے آگے ہاتھ رکھ لیا۔
"پلیززز آنٹی"
"اوکے بیٹا پر جلدی آ جانا"
"تھنکیو سو مچ آنٹی" ارہم نے کال بند کر کے حور کے منہ کے آگے سے ہاتھ ہٹایا۔
"یہ کیا طریقہ ہے" حور غصے میں بولی۔
"اچھا نہیں لگا" وہ نرمی سے گویا ہوا۔
"ارہم مجھے نہیں جانا ڈنر ونر پہ مجھے گھر اتاریں"۔
"کیوں نہیں جانا اب تو میں نے آنٹی سے اجازت بھی لے لی ہے"
"نہیں جانا تو نہیں جانا"
"سوری" حور نے منہ موڑ لیا۔
"سوری یار " جواب ندارد۔
"مجھے ایسا کرنا پرا آرام سے تو تم کوٸی بات مانتی نہیں" حور کی آنکھوں میں آنسو آ گٸے۔
"حور سوری یار" ارہم نے اس کی طرف دیکھا پر وہ تو باہر دیکھ رہی تھی۔
"حور میری طرف تو دیکھو"
"نہیں دیکھوں گی"
"ناراض ہو"
"آپ کو کیا"
"آہاں مجھے نہیں تو کس کو ہے"
"بات نہیں کریں مجھ سے"
"میں تو کروں گا"
کرتے رہیں پھر میں جواب نہیں دوں گی"
"حور یار کر دو معاف اچھا ادھر دیکھو کان پکڑ لیتا ہوں"
"پکڑیں" وہ جھٹ سے بولی جیسے انہیں لفظوں کا انتظار کر رہی تھی۔
"سوریییی حور" وہ کان پکڑتا بولا۔
"اوکے کر دیا معاف" اس نے ایک ادا سے بولا اور چہرہ پھر دوسری جانب گھما لیا۔
"اب ادھر تو دیکھو" ارہم مسکراتا ہوا بولا۔
"کیوں اُدھر کیا ہے"
"تمہارا ہونے والا شوہر" وہ شوخی سے بولا اور ایک ریسٹورینٹ کے سامنے گاڑی روک دی۔
آٸیں باہر ارہم دروازہ کھولتا پیار سے گویا ہوا۔ حور بھی مسکراتی ہوٸی باہر نکلی۔پھر وہ دونوں ریسٹورینٹ میں داخل ہوے اور ایک ٹیبل پہ آمنے سامنے بیٹھ گٸے۔ ویٹر آ کے آڈر لے کے چلا گیا۔
"ویسے حور تمہیں یاد ہو تو ناراض میں تھا تم سے" ارہم بیچارگی سا منہ بناتا بولا۔
"کیوں جی" حور نے ارہم کی طرف دیکھا۔
"بہت جلدی بھول گٸی کے تم نے میرے ساتھ کیا کیا تھا"
"میں نے آپ سے کہا تو تھا جب رشتہ پکہ ہو جاۓ گا تو کہیں بھی چلیں جاٶں گی آپ کے ساتھ"
"تو کونسا کہیں گٸی رشتہ طے ہوے بھی گیارہ دن ہو گٸے ہیں"
"آ تو گٸی اب"
"آٸی نہیں میں لایا ہوں زبردستی" ویٹر لوازمات رکھ کے چلا گیا۔
"ہاں تو میں خود کہتی کیا آٸیں ارہم کہیں باہر گھومنے چلتے ہیں اور آج تو آپ نے ویسے ہی میرے ساتھ بہت بُرا کیا" وہ جوس کا گلاس منہ سے لگاتی بولی۔
"ہاں آج تو میں نے غلط کیا پر یار اگر پیار سے بات کرتا تو تم نے تھوڑی ماننا تھا"
"کرتے تو نا"
"کی تو تھی"
"کب کی تھی بس یہی کہا تھا پاغل عجیب" حور کا دوبارہ منہ بن گیا۔ ارہم کا قہقہہ گونجا۔ جو حور کو اور تپا گیا۔ ارہم نے اس کا منہ دیکھا تو ہنسی پہ قابو کیا۔
"سوری"
"سوری نہیں کہیں بار بار" منہ ہنوز ویسے ہی تھا۔
"تو پھر موڈ ٹھیک کرو"
"آپ باتیں ہی عجیب کرتے ہیں منہ تو بنے گا"
"میں خود ہی عجیب ہوں" وہ مسکرایا۔
"ہمم ہیں تو" وہ بھی مسکراتی ہوٸی بولی۔ پر ارہم کو اچھا نہیں لگا۔
"حورررر "
"جی "
"میں کیا ہوں؟"
"عجیب "
"میں کیا ہوں؟"
"خود تو آپ نے کہا عجیب" اس نے کندھے اچکاۓ۔
"حور میں عجیب ہوں ٹھیک ہے اب بات نہیں کرنا مجھ سے "ارہم کی ایکٹینگ شروع ہو گٸی۔
"اوکے" اس نے ایسے کہا جیسے مجھے تو کوٸی پرواہ نہیں آپ ناراض ہوں نا ہوں۔ ارہم نے پلیٹ ساٸیڈ پہ کر دی ناراضگی دکھانے کا طریقہ اور خود سینے پہ ہاتھ باندہ کے داٸیں جانب دیکھنا شروع ہو گیا حور اس دیکھ کے مسکراٸی کتنا پیارا لگ رہا تھا وہ یوں ناراضگی دکھاتا۔
"ارہم" جواب نہیں آیا اب ناراض ہونے کی باری اس کی تھی۔
"ارہم کھانا کھاٸیں پھر گھر بھی جانا ہے" اس نے تو "جیسے سنا ہی نہیں تھا۔
"ارہم میں بھی سوری کہوں کیا ؟"
"نہیں" یک لفظی جواب دیا گیا۔
"تو"
"کہو تم بہتتت پیارے ہو" حور اس کی بات پہ ہنسی۔
"ارہم آپ بہت پیارے ہیں "
"غلط" چہرہ ابھی بھی داٸیں جانب تھا۔
"اب کیا ہوا" حور نے بنھویں سمیٹیں۔
"تم نے غلط کہا ہے "
"ٹھیک تو کہا ہے"
"میں نے کہا تھا کہو میں بہتتتت پیارا ہوں "
"ہاں تو یہی تو کہا"
"نہیں تم نے کہا میں بہت پیارا ہوں یہ نہیں کہا کے بہتتتت پیارا ہوں" حور اس کی بات پہ دل کھول کے ہنسی کتنا کیوٹ لگ رہا تھا وہ اس کا تو دل کیا کہہ دے آپ بہتتتت پیارے بہتتتتتت کیوٹ بہتتتت اچھے بہتتتت معصوم ہیں۔ پر کہہ نہیں سکی۔
"ارہم آپ بہتتتتت پیارے ہیں" وہ ہنستی ہوٸی بولی۔
"ہنس کیوں رہی ہو" اس نے منہ پھلایا۔
"وہ۔۔۔بس ویسے ہی"
"اوکے تھینکس اتنی تعریف کے لیے ویسے نا بھی کرتی تو میں جانتا ہوں میں بہتتتتت پیارا ہوں" وہ سنجیدہ لہجے میں میں بولا۔ پھر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ہنس دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں گھروں میں مہندی کی تقریب اپنے عروج پہ تھی۔ چوہدری ہاٶس لاٸٹوں سے جگمگا رہا تھا پورے لان کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ حور لوگوں نے مہندی کی تقریب کے لیے مہروالنسإ لوگوں کا لان ڈیکوریٹ کیا تھا حور اپنے گھر میں تیار ہو رہی تھی بیوٹیشن اسے میک اپ کر رہی تھی مہروالنسإ بھی یہیں آٸی ہوٸی تھی تھوڑا فنکشن اٹینڈ کر کے اس نے چوہدری ہاٶس چلے جانا تھا۔
"ماما میرا فیس واش کس نے یوز کیا" عنزہ فیس واش کی خالی بوتل پکڑتی غصے میں باہر نکلی۔
"کیا ہو گیا کیوں چیخ رہی ہو؟" ریحانہ بیگم بولیں۔
"یہ دیکھیں ابھی پرسوں تو لایا تھا تو ختم کیسے ہو گیا" وہ بوتل ان کے سامنے کرتی بولی۔
"اب یہ کسی نے کھا تو جانا نہیں تھا"
"تو پھر کہاں گیا دیکھیں تھوڑا سا بھی نہیں اندر " اتنی دیر میں زیشان سیڑھیاں اترتا دکھاٸی دیا۔ جو مسکراتا ہوا بالوں پہ ہاتھ پھیرتا نیچے اُتر رہا تھا۔ عنزہ نے زیشان کی طرف دیکھا۔ اور پھر اونچی آواز میں بولی۔
"ماما یہ اسی کے کام ہیں اسے کہیں اب جہاں سے مرضی لا کے دے مجھے"
"اوو کیا موٹی کیا کر دیا میں نے" اس نے آنکھیں بڑی کیں۔
"میرا فیس واش۔۔۔۔۔"
"اوو یہ فیس واش ہے "
"نہیں تمہارا منہ"
"اچھا تو پھر میرا منہ تم نے کیوں پکڑا ہوا ہے"
"شانی مجھے ابھی کے ابھی فیس واش لا کے دو اور ویسے تم کیا اندھے ہو فار گرلز لکھا نظر نہیں تھا آیا اور اتنا زیادہ تم نے یوز کیسے کر لیا"
"میں نے تھوڑی نا منہ پہ لگایا ہے "
"تو پھر۔۔۔" اس نے بھنویں سمیٹیں۔
"بال دھوۓ تھے اس سے دراصل مجھے اس کی خوشبو بہت پسند آٸی تو پھر میں لگاتا گیا لگاتا گیا اور وہ ختم ہو گیا" وہ نارمل انداز میں بولا۔
بندر مینڈک تم میں عقل نہیں کیا شیمپو نظر نہیں تھا آیا تمہیں" اس کا غصہ آسمانوں کو چھو گیا۔
"آیا تھا بٹ خوشبو اس کی پسند آٸی"
"ماما جی مجھے ابھی کے ابھی فیس واش چاہیے آااا " عنزہ صوفے پہ بیٹھ کے دھاڑیں مارنا شروع ہو گٸی۔ زیشان دوسرے صوفے پہ بیٹھ کے موبائل یوز کرنا شروع کر دیا۔
"آاااا مجھے فیس واش لا کے دیں" عنزہ نے جب دیکھا کہ اس کے رونے سے کسی کو فرق نہیں پر رہا تو وہ اور اونچا رونا شروع ہو گٸی۔ زیشان نے ہینڈ فری لگا لیے۔
"عنزہ کیا ہوا کیوں رو رہی ہو اور ابھی تک ریڈی کیوں نہیں ہوٸی جانا نہیں کیا مہندی پہ" فیضان ابھی آفس سے آیا ہی تھا عنزہ کو روتے دیکھا تو اس کے قریب آ کے پوچھا۔
"بھاٸی شانی نے میرا سارا فیس واش یوز کر لیا " وہ جھوٹے آنسو صاف کرتی بولی۔
"تو آپ سحر کا یوز کر لو کل نیا لے آنا"
"آپی کوٸی اور یوز کرتی ہیں"
"تو کیا ہوا بس آج کے دن وہ لگا لو کل میں اپنی گڑیا کو دوسرا لا دوں گا"
"پہلے اس بندر کو تھپڑ ماریں اس نے کیوں میرا فیس واش لگایا" کتنی پیاری التجا کی تھی عنزہ نے افف۔
"شانی کیوں یوز کیا تم نے عنزہ کا فیس واش" فیضان شانی کا کان کھنیچتا بولا۔
"آااا بھاٸی آرام سے "
"چلو اسے سوری کرو اور کہو آندہ ایسا نہیں کرو گے"
"پر بھاٸی۔۔۔۔"
"سنا نہیں" اس نے کان تھوڑا اور کھنیچا۔
"بھاٸیییی۔۔۔"
"جو کہا ہے وہ کرو"
"سوری موٹی آٸندہ تمہارا گندا فیس واش یوز نہیں کروں گا " وہ ایک ایک لفظ چبا کے بولا۔
"طریقے سے کہو"
"بھاٸی کہہ تو دیا"
"کہہ رہے ہویا تھپڑ لگاٶں"
"سوری عنزہ میری پیاری بہن آیندہ کبھی بھی تمہارا فیس واش یوز نہیں کروں گا "
"گڈ " فیضان نے اس کا کان چھوڑا۔
"جاٶ اب جلدی ریڈی ہو جاٶ" فیضان عنزہ سے کہتا اپنے روم میں چلا گیا۔ عنزہ بھی زیشان کا منہ چڑاتی کمرے کی طرف بڑھ گٸی۔
"سحر ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی لپ اسٹک لگا رہی تھی " فیضان اس کے پیچھے آ کے کھڑا ہو گیا۔ اور ٹھوڑی اسکے کندھے پہ ٹکا کے بولا۔
"کیسا کپل ہے؟"
"پرفیکٹ " وہ بھی خوشدلی سے بولی۔ فیضان مسکرا دیا۔
"بہت پیاری لگ رہی ہو" وہ اسے کندھوں سے پکڑ کے اپنی طرف گھماتا بولا۔ پھر اس کی پیشانی پہ پیار کیا۔
"تھنکیو۔۔اب جلدی ریڈی ہو جاٸیں پہلے ہی بہت ٹاٸم ہو گیا ہے"
"اوکے میری جان" دل و جان سے کہتا وہ واش روم کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم بھابھی جی" مہرو نے کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا تو ارہم کی آواز آٸی۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام" مہرو نے جواب دیا۔
"ایک کام تھا آپ سے"
"فرماٸیے"
"پہلے بتاٸیں کریں گی یا نہیں"
"کوٸی الٹی فرماٸش نا کرنا"
"کہیں نا کر دوں گی"
"پہلے بتاٶ کیا"
"اممم۔۔۔مجھے ملنا ہے حور سے" اس نے ہونٹ دانتوں تلے دیا۔
"کیاااا پاغل ہو شرم کرو تھوڑی"
"نہیں ہے شرم یہ آپ کا شوہر بہت اچھے سے جانتا ہے"
"کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے بڑے کام کی بات آیان جانتے ہیں"
"ہاں تو اتنی اسپیشل بات ہے" وہ شوخی سے بولا۔
"مجھ سے ایسی کوٸی امید نا رکھنا" کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا۔
"کس کا فون تھا" حور بولی کمرے میں وہ بیوٹیشن اور مہرو ہی تھے۔
"کسی کا نہیں تم چُپ کر کے تیار ہو"
"بدتمیز"
"شکریہ" کال دوبارہ آٸی اس نے ریسیو کر کے موبائل کان سے لگایا اور باہر نکل گٸی۔
"بولیے "
"پلیز بھابھی اپنے دیور کے لیے اتنا نہیں کر سکتیں بس پانچ منٹ رکوں گا" اس نے التجا کی۔
""کل تمہارے پاس ہی ہونا ہے اس نے"
"بھابھی جی" وہ روہانسا ہوا۔
"جییی" اس نے دوبدو جواب دیا۔
"پلیز مان جاٸیں"
"ارہم کسی نے دیکھ لیا تو "
"کوٸی نہیں دیکھتا۔ آپ یہ بتاٸیں حور ہے کہاں پارلر یا گھر"
"گھر ہی ہے"
"اپنے یا آپ کے؟"
"اپنے"
"اور فنکشن تو آپ کے گھر ہے نا"
"ہاں"
"تو پھر تو کوٸی مسلہ ہی نہیں" وہ خوش ہوا۔
"اچھاااا" اس نے طنز کیا۔
"بھابھی یار آپ مان جاٸیں پھر میں اپلان بتاتا ہوں"
"ارہم آیان سے ڈانٹ پرے گی "
"اسے میں منا لوں گا"
"اوکے بتاٶ پھر کب تک آ رہے ہو"
"وہ تیار ہو گٸی "
"ہاں بس دوپٹہ سیٹ کر رہی ہے بیوٹیشن"
"اوکے مطلب وہ میرے آنے تک چلے جاۓ گی"
"ہاں"
"آپ اس کی جو کوٸی بھی کزن یا کوٸی اور آۓ گا تو اسے کہیے گا ابھی وہ تیار ہو رہی ہے میں صرف پانچ منٹ رکوں گا وہاں "
"ارہم تمہیں یہ جتنا آسان لگ رہا ہے اتنا ہے نہیں"
"کچھ نہیں ہوتا بھابھی میں بس دس منٹ میں آیا اور ہاں حور کو نہیں بتاٸیے گا میں آ رہا ہوں "
"اوکے جلدی آٶ"
"آیا بس الله حافظ"
"الله حافظ" پھر وہ فون بند کرتی کمرے میں چلی گٸی۔
"آیان میرے پیارے بھاٸی میری ایک بات سن جلدی" ارہم آیان کو کھینچتا ہوا چٸیر تک لایا۔
"کیا ہے جلدی بول اتنا کام پڑا ہوا ہے "
"پہلے بتا ڈانٹے گا نہیں" اس نے معصوم شکل بنائی .
"ہوا کیا "
"ہوا کچھ نہیں وہ۔۔۔میں نا "
"بول بھی دے"
"یار میں حور سے ملنے جا رہا ہوں" وہ نظریں جھکاۓ شریفانہ انداز میں بولا۔ اور آیان کو اس کی بیوقوفی پہ جھٹکا لگا۔
"پاغل ہے تو "
"پلیزز مہرو بھابھی مان گٸیں بس تو مان جا اب"
"ارہم تیرا دماغ کدھر ہے اور مہرو سے تو میں ابھی بات کرتا ہوں" اسے غصہ آیا۔
"موٹے مان جا نا بس پانچ منٹ رکوں گا "
"نہیں"
"پلیززز چل چار منٹ"
"نہیں مطلب نہیں اب پیچھے ہٹ مجھے جانے دے"
آیان کی ایکٹینگ شروع ہوٸی۔ پر وہ نہیں رکا تو وہ اس کے پیچھے لپکا اور اس کے گلے میں ہاتھ ڈالا۔
"مان جا میری جان آج میری مہندی ہے آج تو مان لے"
"ارہم جا کے اپنا علاج کروا وہاں کسی نے دیکھ لیا تو پتا ہے کتنی باتیں بنٕے گیں"
"کسی کو پتا نہیں چلے گا بس تو مان جا "
"یار یہاں سب تیرے لیے آ رہے ہیں "
"ہاں تو میں کونسا رہنے جا رہا ہوں تم لوگ مریم کو لاٶ اسٹیج پہ"
"بڑے پاپا نے پوچھا کہاں گیا ہے تو کیا کہوں گا"
"کہنا ایک دوست سے ملنے گیا ہے آ جاۓ گا دس منٹ میں"
"تو غلط کر رہا ہے"
"تو مان جا پلیز"
"دفعہ ہو جا اور جلدی آنا"
"ہاۓ شکریہ میرے پارے بھاٸی" ارہم نے اس کا گال چوما اور نکل گیا۔ آیان بھی مسکراتا ہوا مہمانوں کی طرف بڑھ گیا۔
ارہم چھپ چھپا کے گھر میں داخل ہوا گھر خالی ہی تھا سامنے اسے مہرو نظر آ گٸی مہرو نے اسے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا اس کی دھڑکن تیز تھی سانس پھول رہا تھا وہ کمرے میں داخل ہوا حور ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی۔ آہٹ سن کے مڑی۔ اور پھر وہیں ساکت ہو گٸی۔ ارہم نے اسے دیکھا دو قدم آگے بڑھا۔ پھر رُک گیا۔
"ارہم " حور بمشکل بول پاٸی۔ارہم نے جواب نہیں دیا وہ تو اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔ حور نے ییلو شرارے پہ ٹی پنک شارٹ شرٹ پہنی تھی۔ ییلو دوپٹہ جس کے بارڈر پہ خوبصورت کام ہوا تھا اسے ہیر اسٹاٸل سے تھوڑا پیچھے سیٹ کیا تھا اس کے بال سنہری تھے جنہیں کرل کر کے آگے کیا ہوا تھا خوبصورت لاٸیٹ سا میک اپ کیا گیا تھا۔ ارہم نے واٸٹ شلوار قمیض پہ میرون رنگ کی واسکٹ پہنی تھی۔ داٸیں ہاتھ میں ریسٹ واچ باٸیں ہاتھ میں کچھ بینڈز پاٶں میں ملتانی کھسا پہنے بالوں کو نفاست سے سیٹ کیے وہ کسی سلطنت کا بادشاہ لگ رہا تھا۔
"حور" وہ گھمبیر آواز میں بولا۔
"جی" وہ بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتی بولی۔ ہیزل گرین اور ڈارک براٶن آنکھیں بس ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں انہیں تو جیسے اب کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ ارہم کے موبائل پہ میسج ٹیون ہوٸی تو وہ جیسے واپس دنیا میں آۓ۔ حور سر جھٹکتی تھوڑا اور پیچھے ہو گٸی ان میں پہلے ہی پانچ قدم کا فاصلہ تھا۔ ارہم نے میسج دیکھا مہرو کا میسج تھا۔ اس نے اوپن کیا۔
"ارہم جلدی کرو "
"بس ایک منٹ" ارہم نے میسج سینڈ کر کے موبائل جیب میں ڈالا اور حور کے قریب گیا۔
"کیسا لگا" سرپراٸز وہ شوخی سے بولا۔
"بہت اچھا" وہ مسکراٸی۔
"بہت پیاری لگ رہی ہو یار ویسے تمہارا نام کس نے رکھا ہے جس نے بھی رکھا ہے بہت سوچ سمجھ کے رکھا تم سچ میں حور ہی ہو" وہ اسے نظروں کے حصار میں لیتا بولا۔
"بابا نے" وہ روہانسی ہوٸی اور آنکھیں جھکا لیں۔
۔"Hey اب اداس نہیں ہونا اچھا بتاٶ میں کتنا پیارا لگ رہا ہوں" حور نے نظریں اٹھا کے اسے دیکھا۔ اور بولی۔
"بہتتتت پیارے" پھر وہ دونوں مسکرا دیے۔ ارہم نے اپنی جیب سے ایک ڈبیا نکالی۔ اور اس کی طرف بڑھاٸی۔
"ابھی پہنانے کا حق نہیں مجھے سو تم خود پہن لینا بہت پیاری لگ رہی ہو آٸی لو یو" کہتا وہ پلٹ گیا۔
"تھینکس بھابھی" کمرے سے باہر نکل کے اس نے مہرو سے کہا۔
"جاٶ اب جلدی اس سے پہلے کے کوٸی آۓ" پھر ارہم باہر کی طرف بڑھ گیا۔ مہرو کمرے میں آٸی۔ حور کی طرف دیکھا جس کے ہاتھ میں ڈبیا تھی اور چہرے پہ دنیا بھر کی خوشی۔
"واہ جی واہ رنگ ملی ہے" مہرو نےاسے چھیڑا وہ بلش ہوٸی۔
"اچھا دکھاٶ تو کیسی ہے" پھر حور نے کیس کھولا اور منہ سے چیخ نکلی اس میں کاکروچ تھا۔ مہرو کے ہاتھ سے رنگ کیس نیچے گِر گیا مہرو نے بھی چیخ ماری کاکروچ بیچارا تو ان کی چیخ سن کے ہی بھاگ گیا۔ پر وہ دونوں ابھی بھی چیخیں مار رہی تھیں۔ ساجدہ بیگم ان کی چیخیں سن کے اندر آٸیں۔
"کیا ہوا تم دونوں کو چیخ کیوں رہی ہو"
"ماما کاکروچ" حور آنکھیں بند کیے ہی بولی۔
"کہاں ہے "
"نیچے دیکھیں "
"تم آنکھیں کھول کے دیکھو مجھے تو نظر نہیں آ رہا اور مہرو بیٹا آپ بھی اس طرف دیکھ لیں زرا کچھ نہیں ہے یہاں سوائے اس رنگ اور یہ ڈبیا" کے انہوں نے جھک کے رنگ اور اس کی ڈبیا اٹھاٸی۔ حور نے پہلے ایک آنکھ کھولی کاکروچ نظر نہیں آیا پھر دونوں آنکهيں کھولیں۔ مہرو بھی دیرے سے پلٹی۔ پھردونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو فلک شگاف قہقہہ کمرے میں گونجا۔
"کس کی رنگ ہے یہ" ساجدہ بیگم نے رنگ آگے کی۔
"آپ بتاٸیں کیسی ہے ؟" مہرو ان کے گلے میں بانہیں ڈالتی بولی۔
"ہے تو بہت پیاری اور مجھے تو واٸٹ گولڈ لگ رہا ہے"
"ہمم ہو گا۔۔" آپ کے داماد نے بھیجواٸی ہے حور کے لیے.
حور نے اسے گھورا پھر جیسے ہی ساجدہ بیگم نے حور کی طرف دیکھا تو وہ نظریں جھکا گٸی۔ ساجدہ بیگم نے آگے بڑھ کے اسے پیار کیا۔ پھر اس کا ہاتھ پکڑا اور رنگ پہنانے لگیں۔ حور نے ہاتھ جلدی سے پیچھے کر لیا۔
"کیا ہوا پہنو گی نہیں"
"پہن لیتی ہوں ماما آپ یہاں رکھ دیں"
"اوکے سحر کیوں نہیں آٸی ابھی تک؟"
"اس کا فون آیا ہے وہ نکل گٸے ہیں بس پہچنے والے ہیں"
"چلو ٹھیک ہے وہ آتی ہے تو پھر اسے اسٹیج پہ لے آنا" کہتی دل میں حور کو دعائيں دیتی وہ باہر چلے گٸیں۔
"افف اللہ یار کوٸی ایسا بھی کرتا ہے" مہرو ہنستی ہوٸی بولی۔
"آپ کے دیور سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے "
"ہاں یہ تو ہے ایسا گفٹ آج تک کسی دلہن کو نہیں ملا ہو گا جیسا تمہیں ملا"
"اب تم میرا مزاق اڑا رہی ہو" حور نے منہ بنایا۔
"نہیں تو۔۔۔بس ارہم پہ اس وقت مجھے بہت پیار آ رہا ہے واہ کیا گفٹ دیا داد دینی چاہیے اسے" وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔
"مہرووو" حور کو غصہ آیا۔
"اچھا اچھا اب غصہ نہیں کرو اور رنگ کیوں نہیں پہنی تھی تم نے؟"
"میں نہیں پہنوں گی کاکروچ والی پہلے ہی میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں" اس کے ہاتھوں میں سچ میں کپکپاہٹ تھی۔
"جاٶ یار کاکروچ سے ڈر گٸی" مہرو نے تاسف سے سر ہلایا۔
"تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے تم تو ڈری نہیں تھی" حور نے آنکھیں سکیڑیں۔
"ہاں وہ تو بس۔۔۔۔۔۔۔"
"جی وہی۔۔۔"
"یار رنگ تو پہنو اتنے پیار سے لایا ہے میرا دیور"
"میں نہیں پہنوں گی"
"اوۓ دیکھو اس پہ کپڑا لپیٹا ہوا تھا" اس نے رنگ اٹھاٸی جس کے ساتھ چھوٹا سا کپڑے کا پیس اٹکا ہوا تھا۔
"میں پھر بھی نہیں پہنوں گی"
"چل میں صاف کر دیتی ہوں"
"ہاں اچھے سے کرو تب تک میں ہاتھ دھو کے آٸی"
"جاٶ جلدی کرو سیری بھی آنے والی ہے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیسا لگا گفٹ" ارہم کال پک ہوتے ہی شوخی سے بولا۔
"پتا نہیں" اس نے غصہ دکھانا چاہا۔
"کیوں اچھا نہیں لگا میں اتنے پیار سے لایا تھا"
"کاکروچ کسے اچھا لگے گا" اس نے بھنویں سمیٹیں۔
"اوو وہ چھوڑو رنگ کیسی لگی"
"ٹھیک تھی "
"بس ٹھیک"
"جی۔۔۔میرا تو دل کر رہا تھا پہنوں ہی نہیں"
"کیوں جی میں نے اسے کپڑے میں اچھی طرح لپیٹ دیا تھا"
"بہت شکریہ "
"ویسے آج تک ایسا گفٹ کبھی کسی نے کسی کو نہیں دیا ہو گا" وہ مزے سے بولا۔
"دنیا میں کوٸی دوسرا آپ جیسا ہوتا تو دیتا نا"
"ہاں یہ تو ہے دیکھ لو میں یونیک پرسن تمہیں مل گیا جتنا شکر ادا کرو کم ہے"
"مجھے نیند آ رہی ہے میں سونے لگی ہوں"
"پر مجھے نہیں آ رہی"
"تو مجھے کیا" کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا۔ ارہم نے دوبارہ کال کی پر اس نے پک نہیں کی۔ پھر پانچویں کال اس نے ریسیو کی۔
"جی بولیں"
"کیسے بات کر رہی ہو اپنے ہونے والے شوہر سے"
"میں نے سونا ہے"
"اچھا غصہ ختم کرو پہلے"
"مجھے نہیں آیا ہوا غصہ"
"تو پھر مجھے کیوں لگ رہا ہے"
"پتا نہیں"
"اچھا بابا سوری وہ تو بس میں نے چھوٹا سا مزاق کیا تھا"
"آپ کے اس مزاق میں۔۔میں کتنی بُری طرح ڈری تھی"
"سورییی"
"نہیں کہیں"
"تو پھر ناراضگی ختم کرو"
"نہیں ہوں میں ناراض "
"پکا"
"یاہ"
"آٸی لو یو "
"باۓ" حور نے فون بند کر کے پلو کے نیچے رکھ دیا اور تھوڑی دیر ارہم کے بارے میں سوچتی رہی مسکراتی رہی اور پھر سو گٸی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے گھر میں چہل قدمی تھی کوٸی ادھر جا رہا تھا تو کوٸی اُدھر ہر کسی کو تیار ہونے کی جلدی تھی۔ مہرو اور آیان بھی چوہدری ہاٶس ہی رات رکے تھے۔
ارہم نے میرون شیروانی پہنی تھی جس کے اوپر گولڈن ہلکہ سا کام ہوا تھا بالوں کو نفاست سے سیٹ کیے وہ بلا کا خوبصورت لگ رہا تھا آیان اس کے کمرے میں داخل ہوا۔
"ہوا نہیں تیار"
"ہو گیا دیکھ کیسا لگ رہا ہوں" وہ اس کے سامنے کھڑا ہوتا بولا۔ آیان نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چومی۔
"بہت پیارا ماشاءاللہ"
"ویسے اب تو نا بھی کہتا تو مجھے پتا چل ہی گیا تھا تیرے کس کرنے سے" وہ مسکرایا۔
"تو مجھ سے بھی زیادہ پیارا لگ رہا ہے" ارہم نے اس کے گلے میں بانہیں ڈالیں۔
"نہیں آج تو تُو شہزادہ لگ رہا ہے"
"کس کا؟"
"حور کا"
"تیرا نہیں"
"میری تو جان ہے نا" وہ اسے محبت سے دیکھتا بولا۔ پھر دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ گٸے۔ مہروالنسإ پارلر سے تیار ہو کے ابھی کمرے میں آٸی ہی تھی کے آیان بھی پیچھے چلا گیا۔
وہ اب شیشے میں خود کو دیکھ کے دوپٹہ گلے میں ڈال رہی تھی آیان اس کے ساتھ آ کے کھڑا ہو گیا۔ پھر وہ اس کے سامنے ہو گٸی۔
"کیسی لگ رہی ہوں"
"بتاٶں؟"
"ہاں نا"
"بتا دوں؟"
"جی" وہ زچ ہوٸی۔
"پکا؟" وہ محفوظ ہوا۔
"نہیں رہنے دیں" اس نے خفگی دکھاٸی اور پلٹی۔ آیان نے اسے بازو سے کھنیچ کے خود کے قریب کیا۔ پھر اس کے گال پہ جھکا۔
"میری زندگی" وہ سرگوشی میں بولا۔ مہرو مسکراٸی۔
"اب بتاٶ میں کیسا لگ رہا ہوں "
"بتاٶں؟"
"ہاں"
"بتا دوں؟" اس نے بھی اسی کی طرح کیا۔
"یاررر "
"بتاتی ہوں"
"بتا بھی دو"
تھوڑا نیچے ہویں آیان تھوڑا جھکا مہرو نے اس کی پیشانی پہ اپنے لب رکھ دیے۔ اور سرگوشی میں بولی۔
"میری جان" پھر دونوں مسکرا دیے۔
"چلیں اب" آیان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور دونوں باہر کو نکل گٸے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور لہنگا بیڈ پہ پھیلاۓ ارہم کے آنے کا انتظار کر رہی تھی بیٹھ بیٹھ کے اس کی کمر درد کرنا شروع ہو گٸی تھی پھر اس نے پیچھے کراٶن سے ٹیک لگا لی۔ اتنے میں دروازہ کھولا اور ارہم اندر آیا دروازہ لاک کیا اور بیڈ پہ اس کے قریب جا بیٹھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا حور آج سچ میں آسمان سے اُتری حور معلوم ہوتی تھی۔ اور ارہم پہ حسن ایسا ماوراٸی جیسے بنانے والے نے شاہکار بنا دیا ہو۔ آج وہ جی بھر کے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے اور وہ دیکھ رہے تھے۔ کمرے کی ہر چیز نے انہیں جیسے ستاٸشی نظروں سے دیکھا۔اوپر لگے فانوس نے تھوڑا ہل کے جیسے ان کی نظر اُتاری۔ پورے کمرے میں پھول بکھرے تھے اور وہ جیسے حوشبو پھیلا کے ان کو اپنے ہونے کا احساس کروا رہے تھے۔ پر وہ تو ایک دوسرے میں گھم تھے۔
"حور تم سچ میں ہی حور ہو" ارہم اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا۔ حور کے کانوں میں آواز گٸی تو وہ جیسے ہوش میں آٸی اور نظریں جھکا گٸی۔ ارہم تھوڑا آگے ہوا اور پورے استحقاق سے اس کی پیشانی پہ پیار کی مہر ثبت کی۔ حور کی ہارٹ بیٹ مس ہوٸی۔
"میری طرف دیکھو" ارہم نے ٹھوڑی سے پکڑ کے اس کا چہرہ اوپر کیا۔ حور نے اس کی طرف دیکھا پھر شرماتے ہوے نظریں جھکا گٸی۔ ارہم اس کی اِس ادا پہ دل وجان سے قربان ہوا۔
"حور میں منہ دکھاٸی نہیں لایا" اب حور نے اسے دیکھا۔
"مجھے آیان نے کہا تھا لے لینا پر میں نے سوچا میں نے تو اسے دیکھا ہوا ہے پھر کیا فاٸدہ لینے کا" ارہم نے سرسری سے انداز میں کہا۔ حور کو اچھا نہیں لگا بھلا یہ کیا بات ہوٸی دیکھا ہوا ہے رسم تو رسم ہوتی ہے نا حور نے منہ دوسری جانب کر لیا۔ ارہم محفوظ ہوا۔
"تمہیں چاہیے کیا؟" وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"نہیں" اس نے بغیر اسے دیکھے جس طرح کہا اس سے صاف واضح تھا اور نہیں چاہیے کیا؟
"تو پھر میری طرف دیکھو نا" حور نے نہیں دیکھا ارہم نے ایک لمبا کیس اس کے سامنے کیا حور کی آنکھیں چمکیں۔
"یہ رہی تمہاری منہ دکھاٸی دیکھو اب ہے کیا؟"
حور نے پکڑا اور جیسے ہی کھولنے لگی اسے کاکروچ والی حرکت یاد آ گٸی۔
"کھولو بھی"
"میں نہیں کھولوں گی آپ خود کھولیں"
"گفٹ تمہارا ہے میرا تو نہیں"
"پر کھولیں آپ"
"کھولو یار کچھ بُرا نہیں ہے"
"آپ کا کوٸی بھروسہ نہیں "
"حوررر " اس نے آنکھیں دکھاٸیں۔ حور نے ہمت کر کے کھولا۔ اور یہ نکلی چیخ۔
"آاا" ارہم نے اس کے منہ کے آگے ہاتھ رکھ دیا اس میں چھپکلی تھی۔ ارہم کھلکھلا کے ہنسا۔حور کی تو ڈر کے مارےآنکھیں باہر آنے کو تھیں۔ حور نے اس کا ہاتھ پیچھے کرنا چاہا پر ارہم نے نہیں کیا۔
"پہلے بتاٶ چیخ تو نہیں مارو گی" حور کی نظر اس کے سامنے پری چھپکلی پہ تھی۔ ارہم نے وہ اٹھاٸی اور اس کے آگے لہراٸی۔
"نقلی ہے یہ" وہ دانت نکالتا بولا۔ حور کی آنکھوں میں آنسو آ گٸے۔ ارہم نے چھپکلی دور پھینک دی۔
"حور یار نقلی تھی... وہ جسٹ ریلیکسڈ" وہ اس کے منہ سے ہاتھ ہٹاتا نرمی سے بولا۔ حور اٹھنے لگی تو ارہم نے اس کا ہاتھ پکڑ کے بیٹھا لیا۔
"ہاتھ نہیں لگاٸیں مجھے" وہ آنسو صاف کرتی بولی۔
"یاررر"
"اب سوری بھی نا کہیے گا کیونکہ کوٸی فاٸدہ نہیں ہو گا"
"حور" ارہم کو اب اپنا مزاق بُرا لگا۔حور نے جواب نہیں دیا ارہم نے ہاتھ بڑھا کے اس کے آنسو صاف کرنے چاہے پر حور نے اس کا ہاتھ پیچھے کر دیا ۔
"سوریییی" جواب نہیں آیا۔
"سوری یار اب پرامس ایسا کبھی نہیں کروں گا" جواب نہیں آیا۔
"اچھا اب تو کان بھی پکڑ لیے کر دو معاف" حور نے اس کی طرف دیکھا۔
"پلیزز"
"اوکے" وہ مسکرا دی۔ ارہم اس کا ہاتھ پکڑنے لگا تو حور نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔
"پہلے ہاتھ دھو کے آٸیں"
"پر کیوں "
"آپ نے چھپکلی پکڑی تھی"
"پر وہ تو نقلی تھی"
"مجھے نہیں پتا جاٸیں اچھی طرح ہاتھ دھو کے آٸیں" ارہم مسکراتا ہوا ہاتھ دھونے چلا گیا پھر آ کے اس کے پاس بیٹھا پاکٹ سے پینڈنٹ نکال کے اس کے سامنے کیا۔
"کیسا ہے "
"پیارا"
"میں پہناٶں؟" حور نے ہاں میں گردن ہلاٸی۔
"کھڑی ہو"
"کیوں" اسے حیرت ہوٸی۔
ڈریسنگ مرر کے سامنے پہناٶں گا حور مسکرا دی پھر اٹھ کے ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی ہو گٸی۔ارہم نے اس کے پیچھے کھڑے ہو کے پینڈنٹ اسے پہنایا۔پھر اس کے کندھے پہ ٹھوڑی ٹکا کے بولا۔
"بہت پیارا لگ رہا ہے" حور مسکراٸی۔
"تھینکس" ارہم نے اسے حود سے لگایا۔ اور بولا۔
"آٸی لو یو"
"ارہم "
"جی جانِ ارہم"
"میں بہت خوش قسمت ہوں مجھے آپ ملے"
"میں زیادہ خوش قسمت ہو مجھے تم ملی"۔ وہ اس کے سر پہ ٹھوڑی رکھے بولا۔
"ارہم جب آپ پہلے دن مجھے ملے تھے نا پتا نہیں کیوں پر میں نے اللہ کے سامنے اپنی خواہش ظاہر کی کے مجھے آپ جیسا لڑکا ملے۔ پھر میری خواہش آپ جیسے لڑکے کی نہیں بلکہ آپ کی ہی ہو گٸی اور دیکھیں اللہ نے آپ کو مجھے دے بھی دیا۔ میں جتنا اللہ کا شکر ادا کروں کم ہے" وہ آنکھیں موندے اس سے کہہ رہی تھی۔
"حور تم نے مجھے منہ دکھاٸی نہیں دی" حور نے سر اٹھا کے اسے دیکھا۔
"لڑکوں کو نہیں دیتے"
"کیوں لڑکوں کا منہ نہیں ہوتا "
"پتا نہیں" وہ مسکراٸی۔
"مجھے چاہیے لڑکوں کا بھی خق ہے"
"ارہم یہ رسم صرف لڑکیوں کی ہوتی ہے"
"لڑکے بھی تو انسان ہوتے ہیں مجھے دو تم"
"میرے پاس تو کچھ نہیں"
"جو میں کہوں گا وہ کہو گی؟"
"کیا؟"
"آٸی لو یو" کا جواب دو اس نے فرماٸش کی۔
"ارہممم"
"مجھے جواب چاہیے "
"نا دوں تو؟"
"تو۔۔۔میں ناراض ہو جاٶں گا" وہ بچوں کی طرح بولا۔
"ارہم"
"ہمم"
"آپ بہتتتت پیارے ہیں" اس نے دل سے تعریف کی۔
"مجھے جواب دو " ارہم کو تو وہی سننا تھا۔ حور مسکراٸی۔
"آٸی۔۔۔۔" اس نے اسے تنگ کرنا چاہا۔
"بولو بھی"
"آٸی۔۔۔۔۔۔"
"حوررر"
"جی" وہ پیار سے بولی۔
"جلدی دو نا"
"آٸی۔لو۔۔۔۔"
"حور میں ناراض ہو جاٶں گا"
"آٸی لو یو ٹو" اس نے جھٹ سے کہہ دیا۔ ارہم کا چہرہ کھل اٹھا اس نے اسے حود سے لگایا پھر اس کے سر پہ پیار کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی شادی ہوے دس دن ہو گٸے تھے۔ ارہم اور آیان نے آفس جانا شروع کر دیا روٹین پہلے والی ہو گٸی تھی۔ دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔تھا شازیہ بیگم نے مہروالنسإ کو کال کی وہ بیڈ پہ بیٹھی ہوٸی تھی کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم بیٹا کیسی ہو؟" شازیہ بیگم بولیں۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام ٹھیک آپ سناٸیں آنٹی "
"میں بھی ٹھیک اللہ کا شکر ہے تمہیں پتا ہے آج کیا ہے؟"
"کیا؟"
"آیان کا برتھڈے"
"سچییی" وہ پُرجوش ہوٸی۔
"جی اور میں سوچ رہی ہوں سیلیبریٹ کرتے ہیں اسے سرپراٸیز دیں گے "
"واوو آنٹی یہ تو بیسٹ رہے گا "
"میں ڈرائيور کو بھیجتی ہوں اس کے ساتھ آ جاٶ پھر مل کے تیاری کرتے ہیں "
"اوکے میں آیان کو کال کر دیتی ہوں کے میں اُدھر جا رہی ہوں"
"چلو ٹھیک ہے پر یہ نہیں نہیں بتانا کیوں"
"وہ نہیں بتاٶں گی" وہ مسکراتے ہوے بولی۔
"الله حافظ"
"الله حافظ" پھر مہرو نے آیان کو کال کر کے بتا دیا اور اُدھر جانے کے لیے ریڈی ہونے لگی۔ اسے آج صبح سے چکر آ رہے تھے عجیب بے چینی بھی ہو رہی تھی پر اس نے آیان کو نہیں بتایا وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم آنٹی" وہ شازیہ بیگم سے بغلگیر ہوتی بولی۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام" انہوں نے پیار سے جواب دیا۔پھر وہ حور سے ملی اور وہ سب بیٹھ کے برتھڈے سیلیبریشن کے بارے میں ڈسکس کرنے لگے۔ شازیہ بیگم نے غور کیا تھا مہرو نے دو تین دفعہ اپنے سر کو دبایا تھا۔
"بیٹا طبعیت تو ٹھیک ہے"
"جی آنٹی بس آج صبح سے چکر آ رہے ہیں گھبراہٹ بھی ہو رہی ہے"
"تو ڈاکٹر کو دکھانا تھا نا "
"میں نے آیان کو بتایا ہی نہیں بتاتی تو انہوں نے لے ہی جانا تھا"
"چلو آٶ میں لے چلتی ہوں"
"نہیں زیادہ مسلہ نہیں ہے"
اٹھو میرا بیٹا چلیں" پھر وہ اسے ہاسپیٹل لے گٸیں۔
"مجھے لگ رہا تھا یہی نیوز ملے گی بہت بہت مبارک ہو میری بیٹی" شازیہ بیگم مہرو کو گلے لگاتی بولیں۔ مہروالنسإ شرما گٸی۔
"آج تو ایک ساتھ دو دو خوشیاں ہیں میرے گھر میں اللہ بد نظر سے بچاۓ۔ میں ابھی آسف صاحب کو فون کر کے بتاتی ہوں بہت خوش ہوں گے" وہ
"آنٹی آیان کو میں خود بتاٶں گی رات کو"
"ہاں تو بیٹا میں آسف کو کہہ دوں گی آیان کو نہیں بتاٸیے گا اور مجھے آنٹی نہیں بڑی ماما کہا کرو" وہ خوشی سے بولیں۔
"جی بڑی ماما۔۔۔آپ کو ساڑھی باندھنی آتی ہے؟"
"ہاں "
"مجھے سکھا دیں گی"
"کیوں نہیں۔۔ہے تمہارے پاس"
"نہیں۔۔"
"اسلم گاڑی مال میں روکنا زرا" انہوں نے ڈرائيور سے کہا پھر مہروالنسإ کو حوبصورت سی ساڑھی لے کے دی۔ گھر آ کے نوکروں کو مٹھاٸیاں لانے کا کہا پھر وہ پورے ایریا میں بانٹیں۔ صدقہ بھی دیا۔ اور پھر ڈیکوریشن کروانے لگیں۔
"بیٹا مریم کو میں نے کال کر دی ہے وہ تو نکل گٸی ہے گھر سے ساجدہ بیگم احمد اور ربعیہ بیگم ارشد صاحب کے ساتھ آ رہے ہیں آپ سحر کو کال کر کے پوچھو ابھی تک آٸی کیوں نہیں" شازیہ بیگم نے کمرے میں آ کے کےمہروالنسإ سے کہا۔
"جی بڑی ماما میں کرتی ہوں "
"ٹھیک ہے کر دو جلدی آسف صاحب اور ارہم کو میں سب بتا چکی ہوں۔ ارہم إٓیان کو بارہ بجے سے پہلے نہیں لاۓ گا گھر"
"تھنیکس آنٹی"
"اس میں تھنیکس والی کیا بات ہے میں اپنے بیٹے کے لیے کر رہی ہو" سب وہ مسکراتے ہوے گویا ہوٸیں۔ اور اورپھر باہر کو نکل گٸیں۔
"تو پاغل تو نہیں ہو گیا ٹاٸم دیکھ" ارہم آیان کے کیبن میں بیٹھا اسے گھر جانے سے روک رہا تھا۔کبھی کوٸی بات سنانا شروع کردیتا تو کبھی کوٸی۔ پر اب تو آیان اس کی فالتو باتیں سن سن کے تنگ آ گیا تھا۔
"تجھے کیوں جلدی ہے گھر جانے کی"
"جلدی نہیں تو ٹاٸم دیکھ زرا" ارہم نے ٹاٸم دیکھا بیس منٹ رہ گٸے تھے بارہ بجنے میں
"اپنے کپڑے دیکھ کتنے گندے لگ رہے ہیں میں یہ سوٹ لایا ہوں پہن لے"
"کیوں میں نے گھر جانا ہے شادی پہ نہیں اور تو کیوں لایا میرے لیے سوٹ"
"میں بازار سے گزر رہا تھا تو مجھے پسند آ گیا اور میں نے لے لیا"
"چل اب پہن لے "
"میں نہیں پہن رہا"
"پھر میں تجھے یہیں بند کر جاٶں گا"
"ارہم تجھے میں نے پہلے بھی کہا تھا اپنا علاج کروا اب پھر کہتا ہوں اس سے پہلے کے تو بالکل پاغل ہو جاۓ ڈاکٹر کو دکھا لے"
"تو پہن رہا ہے یا میں بند کر جاٶں"
"کیوں میں دودھ پیتا بچہ ہوں جو مجھے بند کر جاۓ گا"
"آیان تو پہن رہا ہے یا نہیں "
"نہیں"
"میں تجھے مارنا شروو کر دوں گا"
"پاغل شخص نکل باہر میں چینج کر لوں"
"گڈ ماۓ برو "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سب سو گٸے ہیں شاید" آیان گھر میں چھاٸی خاموشی اور بند لاٸیٹس کو دیکھ کے بولا۔ ارہم نے ٹاٸم دیکھا پورے بارہ ہو گٸے تھے اس نے اسے اندر جانے کا کہا۔ پھر دونوں نے داخلی دروازے سے اندر قدم رکھا ارہم ایک ساٸیڈ پہ ہو گیا۔
"یار۔۔۔" ابھی وہ پوچھنے ہی لگا تھا کے ساری لاٸیٹس آف کیوں ہیں یک دم گھر روشنیوں میں نہا گیا اور اس کے اوپر پھول اور غبارے گِرے۔ساتھ ہی بہت سلوگوں کے بیک وقت بولنے کی آواز آٸی۔
"ہیپی برتھڈے ٹو یو ہیپی برتھڈے ٹو یو
ہیپی برتھڈے ڈٸیر آیان ہیپی برتھڈے ٹو یو" اس کے داٸیں اور اورباٸیں جانب سب کھڑے بول رہے تھے۔ وہ حیران سا سب کو دیکھ رہا تھا آسف صاحب نے آگے آگےبڑھ کے اسے اسےگلے لگایا پھر اس کی پیشانی چوم کے اسے دعاٶں سے نوازہ۔ شازیہ بیگم کی آنکھیں نم ہوٸی انہوں نے اسے خود سے لگایا وہ شاید معافی مانگنا چاہتی تھیں آیان نے ان کے آنسو صاف کیے اور ان کے سر پہ پیار کیا اس کی اپنی آنکھیں بھی نم ہو گٸیں۔ شازیہ بیگم نے اسے ویشیز دیں باقی سب بھی آ کے ملے عنزہ اور زیشان بھی آۓ ہوے تھے۔ فیضان نے منع تو کیا تھا اس ٹاٸم آنےسے پر نا سحر نے مانی اور نا ہی عنزہ اور زیشان نے۔ ارہم نے اس کے سر پہ غبارہ پھوڑا اور اس کے گلے لگا بولا۔
"صدا خوش رہ میری جان "
آیان نے کیک کاٹا اور سب کو کھلایا پھر سب نے کھانا کھایا گفٹس دیے پکس بناٸیں اور اپنے اپنے گھروں کو نکل گٸے آسف صاحب نے بہت کہا رُکنے کا پر کوٸی رکا نہیں۔ مہروالنسا نے آیان کو کار گفٹ کی تھی۔ سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گٸے مہرو اور آیان بھی روم میں آ گٸے۔ آیان نے مہرو کو اپنے سامنے کھڑا کیا پھر اس کی طرف دیکھا اس نے بلیک ساری جس پہ گولڈن کام ہوا تھا نیچے گولڈن ہاٸی ہیل پہنی تھی ریشمی سیاہ بال ساٸیڈ کی مانگ نکال کے کھلے چھوڑے تھے۔وہ وہ بلا کی خوبصورت لگ رہی تھی۔ آیان نے اس کا ہاتھ پکڑ کے چوما۔ مہرو نے ڈریسنگ مرر پہ پڑی فاٸیل اٹھا کے اس کے سامنے کی آیا نے کھولی اسے پڑھا۔۔اور وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت انسان تصور کرنے لگا خود کو مکمل انسان سمجھنے لگا۔
"مہرو یہ۔۔۔۔۔" وہ آگے کچھ نہیں بولا بولامہرو نے اثبات میں گردن ہلاٸی۔آیان نے اسے زور سے گلے لگا لیا۔
"آٸی لو یو مہرو آٸی لو یو یو سو مچ مہرو میرا دل دل کر رہا ہے میں پوری دنیا میں اعلان کرواٶں کے دیکھو ہے کوٸی اتنا خوش قسمت انسان جس کی بیوی اس سے اتنا پیار کرتی ہے ہے کوٸی اتنا خوش قسمت کے جس کی فیملی اس سے اتنا پیار کرتی ہے ہے کوٸی اتنا خوش قسمت کے جس کے رب نے اگر اسے دو دورشتے چھینے ہیں تو اسے اتنے اچھے رشتے دیے کے وہ جتنا اس زات کا شکر ادا کرے کم ہو مہرو تم۔۔۔تم سچی میری زندگی ہو تم نا ہوتی تو شاید آج میں زندہ نا ہوتا"
"آیان" مہرو نے اسے گھورا۔
"مہرو تم میری زندگی میں آٸی تو میری زندگی خوشیو سے بھر گٸی میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کے جس طرح میں نے تم سے بی ہیو کیاتھا اگر تم مجھے چھوڑ جاتی تو میرا کیا ہوتا"
"آیان مجھے بُوا نے کہا تھا اللہ پہ پہ یقین رکھو وہ جو کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے اور آیان مجھے اپنے رب پہ یقین تھا میں خود کبھی کبھار سوچتی ہوں اگر میں آپ کو چھوڑ دیتی تو میرا کیا ہوتا سہی کہتی ہیں بُوا اللہ کے فیصلوں پہ راضی ہونے والا شخص کبھی پچھتاتا نہیں ہے اگر میں جلد بازی میں کوٸی فیصلہ کر دیتی تو شاید میں پچھتاتی ہی رہتی"
"مہرو" آیان نے اس کے سر پہ ٹھوڑی ٹکاٸی۔
"جی" وہ انگلی سے اس کے دل کی جگہ پہ اپنا نام لکھتی بولی ۔
"کیا لکھ رہی ہو"
"اپنا نام"
"تم ہی رہتی ہو یہاں" وہ وہ مسکرایا۔
"کسی اور کو آنے بھی نہیں دوں گی"
"اگر آ گٸی تو"
"تو میں آپ کو ماروں گی"
"ایسا کبھی نہیں ہو گا تمہارے علاوہ یہاں کوٸی آ بھی نہیں سکتا میری جان"
"ہمم"
"یقین ہے مجھ پہ؟"
"جی"
"کتنا"
"خود سے زیادہ"
"اگر کبھی تمہیں کوٸی آ کے کہے آیان مجھ سے پیار کرتا ہے تو؟"
"میں اس کا قتل کر دوں گی اس کی بات پہ تو بالکل بھی یقین نہیں کروں گی"
"آہاں" اسے خوشی ہوٸی۔
جی میں اپنی جان اپنا آیان کسی کو نہیں دوں گی"
"تمہارا آیان صرف تمہارا ہی ہے" آیان نے اس کے سر پہ پیار کیا۔
"آٸی لو یو"
"آٸی لو یو ٹو"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو سال بعد
"اشعر کہو پھوپھو" عنزہ اشعر کو اپنے سامنے صوفے پہ بیٹھاتی بولی۔
"بابا" اشعر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ ہلاتا بولا۔
"بابا نہیں۔۔کہو پھوپھو"
"بابا" وہ مسکرایا ۔
"اشعر پھوپھو ناراض ہو جاٸیں گی کہو پھوپھو" اشعر پونے دو سال کا تھا گھر کے تقریباً ہر فرد کا نام لے لیتا تھا سواۓ عنزہ اور زیشان کے اور وہ دونوں روزانہ ہی کتنی کتنی دیر اسے نام سکھاتے رہتے جس کا کوٸی فاٸدہ نہیں ہوتا۔ زیشان نے آ کے اسے اٹھا لیا۔
"کیا ہے میں نے پکڑا ہوا تھا نظر نہیں تھا آ رہا" عنزہ غصے میں بولی۔
"مجھے دو "
"پیچھے ہٹو اب میری باری ہے گھنٹے سے تم نے ہی پکڑا ہوا تھا"
"ابھی دو منٹ پہلے ہی پکڑا میں نے" زیشان اس کو اگنور کرتا دوسرے صوفے پہ اشعر کو لے کے بیٹھ گیا۔
"چاچو کا ہیرو تو بڑا ہو گیا ہے یہ دیکھو میں اپنے شیر کے لیے کیا لایا" زیشان نے چاکلیٹ اس کی طرف بڑھاٸی۔ جس پکڑ کے وہ خوشی سے آوازیں نکالنا شروع ہو گیا۔
"چاچو کی جان کہے چاچو" اب وہ اسے سکھانے لگا پر اشعر کو تو اب چاکلیٹ کھانی تھی وہ اسے دانتوں میں دے رہا تھا زیشان نے اسے چاکلیٹ کھول کے دی۔ فیضان بھی ان کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گیا۔ اشعر نے اسے دیکھا تو صوفے سے اتر کے ننھے ننھے قدموں سے بھاگتا بابا بابا کرتا اس کی گود میں جا بیٹھا فیضان نے اس کا گال چوما۔ تب تک سحر فیضان کی چاۓ لے کے آٸی۔
"یہ کیا کیا ماما کی کی جان نے سارے کپڑے گندے کر دیے" سحر اسے اٹھاتی ہوٸی بولی۔چاۓ فیضان فیضان کو دی آج سنڈے تھا تو سب گھر ہی تھے۔
"مجھے نہیں کھانی" اشعر اس کے منہ میں چاکلیٹ ڈال رہا تھا۔
"اب ماما اپنی جان کے کپڑے چینج کریں گی منہ بھی سارا گندا کر دیا میرا گندا بچہ" وہ اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ چومتی پیار سے بولی۔
"مجھے پکڑاٶ میں پہناتی ہوں اسے کپڑے" شعبانہ بیگم سحر سے اشعر کو پکڑتی بولیں۔ وہ سارے گھر کی رونق تھا ایک چھوڑتا تو دوسرا پکڑ لیتا۔ سحر نے کپڑے لا کے شعبانہ بیگم کو پکڑاے۔ اور خود فیضان کے پاس صوفے پہ بیٹھ گٸی۔
"چینی ختم تھی کیا؟" فیضان آہستہ سے بولا۔
"کیوں کم ہے کیا"
"ہے ہی نہیں"
"پر میں نے تو ڈالی تھی"
"نہیں تم بھول گٸی ہو گی"
"فیضی میں نے ڈالی تھی یاد ہے مجھے"
"یہ لو خود چکھ لو" فیضان ے کپ اس کی طرف کیا۔ سحر نے ایک سپ لیا اور بولی ۔
"ٹھیک تو ہے "
"لاٶ دکھاٶ مجھے" فیضان نے چسکی بھری۔
"ہاں اب ٹھیک ہے" وہ مسکراتا ہوا بولا۔ سحر کو اس کی بات سمجھ آٸی تو اس نے اسے گھورا۔
"کہاں دیکھتے رہتے ہیں یہ سب"
"ایک فلم میں دیکھا تھا" فیضان نے باٸیں آنکھ دباتے ہوۓ کہا۔
"فیضی کیا کرتے ہیں سب کے سامنے شروع ہو جاتے ہیں میں جا رہی ہوں روم میں" وہ اسے گھورتی اٹھ گٸی۔
" میری پہلی اور آخری محبت" کہتا فیضان ہنس دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بابا کی ڈال بابا کو کس کرے" آیان بیڈ سے ٹیک لگاٸے بیٹھا تھا اور فاطمہ کو اپنے اوپر کھڑا کیا ہوا تھا۔ وہ اس کی بات پہ ہنسی پھر اس کے اوپر بیٹھ گٸی۔ اور تھوڑا آگے ہو کے اس کا گال چوما اسے ابھی کس بھی نہیں کرنی آتی تھی جب کوٸی اسے کہتا کس کرو تو اس کے گال پہ اپنے ہونٹ رکھ دیتی اور بنا آواز کے مسکراتے ہوے پیچھے ہو جاتی۔پھر کلیپنگ کرتی جیسے اس نے بات مان لی تھی اور اب وہ خوش تھی۔ ابھی بھی وہ اس کی گود میں بیٹھی اپنے ننھے سے ہاتھوں سے کلیپنگ کر رہی تھی۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم بھابھی" ارہم نے اندر آتے کچن میں کھڑی مہرو کو سلام کیا۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام "
"فاطمہ کہاں ہے؟"
"روم میں اپنے بابا کے پاس" پھر ارہم اندر چلا گیا دروازے پہ جاتے ہی فاطمہ کو آواز دی۔
"چاچو کی پرینسیس بھاگ کے آ جاۓ چاچو کے پاس" وہ دروازے کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور بانہیں پھیلاٸیں۔ آیان نے فاطمہ کو نیچے اتارا اور وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے گلے جا لگی۔ پھر اس کے منہ پہ ہاتھ لگانے لگی۔
"چاچو ۔۔چا۔۔چو" وہ دنیا کی واحد بچی ہو گی جس نے سب سے پہلے چاچو کہا تھا۔
"جی میری پرینسیس" وہ اسے اٹھاتا ہوا بیڈ پہ جا کے بیٹھ گیا۔
"سنا موٹے"
"اللہ کا شکر ہے " وہ مسکراتے ہوے بولا۔
"چاچو کی پرینسیس چاچو کو کس کرے" ارہم نے چہرہ تھوڑا نیچے کیا تو فاطمہ نے اس کا گال چوما۔ پھر ہنستی ہوٸی کلیپنگ کرنے لگی۔ارہم نے اس کے سر پہ پیار کیا پھر اسے اٹھاتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
"میں اسے لے کے جا رہا ہوں فاطمہ بابا کو باۓ کر دو" فاطمہ نے اپنا چھوٹا سا ہاتھ ہلایا۔ آیان نے کھڑے ہو کے اسے کس کی پھر ارہم اسے لے کے کمرے سے نکلا اور مہروالنسإ کے پاس لے کے گیا۔
"ماما کو بھی باۓ کر دو" فاطمہ نے اسے باۓ کیا مہروالنسإ نے اس کے گال پہ بوسہ دیا۔ پھر ارہم اسے لے کے چلا گیا۔
مہروالنسإ نے چائے کپوں میں انڈیلی اور ایک کپ آیان کو پکڑایا دوسرا خود پکڑ کے اس کے پاس صوفے پہ بیٹھ گٸی۔
"مہرو" آیان چائے کا کپ لبوں سے لگاتا بولا۔
"جی"
"تم مجھے اب ٹاٸم نہیں دیتی" اس نے شکوہ کیا۔
"دیتی تو ہوں" مہرو نے اسے دیکھا۔
"کب دیتی ہو ہر وقت فاطمہ کو لے کے بیٹھی رہتی ہو " مہرو مسکراٸی۔
"آپ جھیلس ہو رہے ہیں فاطمہ سے"
"میں کیوں ہوں گا جھیلس"
"تو پھر"
"تو پھر یہ کے تم مجھ سے پہلے جتنا پیار نہیں کرتی"
"آیان کیا سوچتے رہتے ہیں۔ ویسے کہا تو آپ نے ٹھیک ہے میں آپ سے پہلے جتنا پیار نہیں کرتی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ کرتی ہوں" آیان مسکرایا چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھا اور بانہیں پھیلاٸی۔ مہرو نے بھی کپ ٹیبل پہ رکھ دیا اور اس کے سینے پہ سر رکھ دیا آیان نے اس کے گرد بازو حماٸل کر دیے۔ اور بولا۔
"آٸی لو یو"
"آٸی لو یو ٹو"
ارہم نے فاطمہ کو شازیہ بیگم کو پکڑایا اور خود روم میں چلا گیا۔ حور داٶد کے کپڑے چینج کر رہی تھی ارہم نے اسے اٹھا لیا۔
"ارہم کپڑے تو پہنانے دیں"
"دو میں پہناتا ہوں اپنے شہزادے کو"
"ارہم "
"جاٶ تم فاطمہ آٸی ہے "
"ٹھیک ہے پھر پہنا دیں میں فاطمہ سے مل کے آٸی"
"حور" ارہم نے آواز دی۔
"جی" وہ پلٹی۔
"بات سنو"
"سناٸیں"
"یہ پینٹ اُلٹی ہے یا سیدھی؟" حور مسکراٸی۔
"سیدھی ہے" پھر پلٹ گٸی۔ ارہم نے پھر آواز دی۔
"حور" وہ واپس آٸی۔
"جی"
"شرٹ کس ساٸیڈ کی پہنانی ہے "
"ارہم آپ کو ابھی تک اتنا نہیں پتا اٹھیں میں پہنا لیتی ہوں"
"نہیں تم مجھے بتاٶ میں پہناٶں گا "
"اس ساٸیڈ کی" حور نے اسے بتایا پر اب گٸی نہیں کھڑی رہی۔ پھر ارہم اسے جوتا پہنانے لگا پر داٶد اتنے پاٶں مار رہا تھا وہ پہنا نہیں سکا ارہم نے حور کی طرف دیکھا پھر پھردونوں مسکرا دیے۔ حور نے اسے جوتا پہنایا ارہم نے اسے اٹھایا پھر دونوں باہر کو چل دیے۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔*
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
میرے پیارے ریڈرز آج محبت، یقین اور خواہش ناول اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے آٸی ہوپ آپ لوگوں کو پسند آیا ہو گا بہت شکریہ اس سفر میں میرا ساتھ دینے کا مجھے سراہنے کا اور بہت شکریہ میرے اللہ کا جس نے مجھے لکھنے کی صلاحيت دی۔ یہاں بہت سے ریڈرز ایسے ہیں جو صرف پڑھنا پسند کرتے ہیں ان سے میری گزارش ہے اپنی قیمتی راۓ کا اظہار ضرور کیجیے گا اور جو کرتے ہیں ان کا بہت شکریہ😙
اب تو ناول ختم ہو گیا ہے تو پلیز چھوٹے چھٹے کامنٹس سے گریز کریں😂 اور لمبے لمبے کامینٹس کریں جس طرح میں نے لمبی ایپیسوڈ دی ہے میں ویٹ کروں گی آپ کے ریویوز کا😍 اپنا فیورٹ کپل بتاٸیں۔ فیورٹ کریکٹر بتاٸیں😉
دعاٶں میں یاد رکھیے گا💞💞💞
love u all my readers and supporters 😘😘
follow me on instagram _mehreen_writes
waiting for your reviews😛😍😘

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: May 21, 2020 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

محبت،یقین اور خواہش Completed 💕Where stories live. Discover now