قسط ٢
رات کو سب لاٶنج میں بیٹھے چاٸے پینے کے ساتھ ساتھ باتوں میں مصروف تھے جب زیشان بولا "آٶ لڈو کھیلیں"
"ہاں یار کتنے ہی دن ہو گٸے کھیلے ہوے" عنزہ نے کہا۔
"چلیں آ جاٸیں پھر سحر آپی کے روم میں کھیلتے ہیں"
"نہیں میرا موڈ نہیں تم لوگ کھیلو" فیضان چاٸے کا آخری گھونٹ لیتے بولا ۔باقی سب بھی ختم کر چکے تھے۔
"کیوں موڈ نہیں آپ لوگ جاٶ میں کپ کچن میں رکھ کے آتی ہوں" سحر کپ ٹرے میں رکھتی بولی۔
"ساتھی ساتھی او کے" عنزہ بولی۔
"ٹھیک ہے میں اور سحر تم اور عنزہ" فیضان بولا۔
"میں تو اس موٹی کو ساتھی نہیں بناٶں گا" فیضان بولا ۔
"میں بھی اس بندر کو اپنا ساتھی نہیں بناٶں گی" عنزہ اسی کے انداز میں بولی۔
"شرط تو بتاٸیں پہلے"
"پانچ سو" عنزہ نے کہا۔
"نہیں یہ تو بہت کم ہیں ہزار تو ہوناچاہیے" زیشان بولا۔
"بندر دینے بھی ہیں"
"میں لینا جانتا ہوں دینا نہیں"
"یہ تو دیکھیں گے" عنزہ طنزیہ ہنسی۔
"چھ تو سب سے پہلے میرا ہی آٸے گا اور یہ رہا چھ"
"دیھان سے دیکھ اسے دو کہتے ہیں" عنزہ نے قہقہہ لگایا۔
"یہ دیکھیں فیضی بھاٸی یہ بے ایمانی کر رہا ہی اس کی یہ گوٹی کھلی نہیں اور اس نے یہاں رکھ دی"
"فیضی بھاٸی ابھی کھولی ہے اور موٹی ہار رہی ہے تو رونا کیوں شروع کر دیا ۔سحر آپی اسے ٹیشو دیں دیکھیں بیچاری کا کیا حال ہو گیا افففف"
"رو تم رہے ہو میں نہیں چپ کر کے کھیلو" عنزہ غصے میں بولی۔
"عنزہ میڈم پھونکیں مارنے سے نمبر نہیں آتے" وہ جو ڈاٸس پہ پھونکیں مار رہی تھی تو زیشان نے اس سے کہا۔
"دیکھنا آٸیں گے" اور آ بھی گٸے۔
"ہم جیت گٸے yayyyy اب پیسے نکالو زیشان میں لینا جانتا ہوں دینا نہیں" عنزہ نے اس کی نقل اتاری۔
"سحر آپی دیں چول کو پیسے ویسے کی تو اس نے بےایمانی ہے۔ پتا نہیں کیا پڑھ کے پھونکا ہے"
"کون دے پانچ سو تم دو اور پانچ سو میں" سحر بولی۔
"آپیییی" اس نے منہ بنایا۔
"زیادہ ایکٹنگ نہیں کرو تم مجھے دو اور سحر تم عنزہ کو" فیضان بولا۔
"یہ لو اور دونوں لے لو" سحر ہزار روپیہ دیتے ہوے بولی۔
"یہ ہوٸی نہ بات دل خوش کر دیا آپ نے۔فیضی بھاٸی اب آپ جاٸیں اور یہ جو آپی نے پیسے دیے ہیں اس کے برگر لاٸیں" زیشان بالوں پہ ہاتھ پھیرتا بولا۔
"کیوں جی میرا پانچ سو مجھے دیں نا اور اپنے پیسوں کے لے آٸیں" عنزہ نے کہا۔
"پھر تمہارا تو نہیں آنا بھوکی"
"تم دونوں لڑنا چھوڑو گے تو میں لی بھی آٶں گا ۔سیری تمہارے لیے کیا لاٶں" فیضی بولا۔
"بتاٸیں جی سیری آپ کے لیے کیا لاٸیں" زیشان شریر مسکراہٹ لیے بولا۔
"شانی تمہاری آج کل کچھ زیادہ زبان نہیں چلنے لگی"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم دونوں کی اسٹڈی کیسی جا رہی ہے "۔ڈاٸینگ ٹیبل پہ بیٹھے سب ڈنر کر رہے تھے جب آصف صاحب نے آیان اور ارہم سے پوچھا۔
"ٹھیک ہے دو ماہ تک پیپر ہیں" ارہم بولا۔
"چلو ٹھیک ہے پھر تم لوگ باقاعدگی سے آفس آنا شروع کر دینا" ۔ان کا لاسٹ اٸیر چل رہا تھا وہ یونی کے بعد دو تین گھنٹے آفس جایا کرتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاٸے آیان ارہم کیسے ہو"
"الحَمْدُ ِلله آپ سناٸیں" وہ کلاس کے لیے جا رہے تھے جب ان کی کلاس میٹ لاٸبہ ان سے مخاطب ہوٸی۔
"میں نہیں ٹھیک دو دن تو یونی نہیں آٸی ۔آج طبعیت تھوڑی بہتر ہے تو آ گٸی ہوں" لاٸبہ بولی۔
"گڈ" ارہم نے کہا ۔
"آپ لوگ تو کسی کا حال پوچھنا گوارا نہیں کرتے تو میں نے پوچھ لیا" وہ ایسے بات کر رہی تھی جیسے اپنے کسی دوست سے کر رہی ہو۔
"ہم کلاس کے لیے جا رہے تھے پھر بات ہو گی الله حافظ" آیان تب کا ابھی ہی بولا تھا۔
"او میں بھی وہیں جا رہی تھی چلو اکھٹے چلتے ہیں"
"ارہم یہ تو پیچھے ہی پر گٸی" آیان ارہم کو بازو مارتا بولا۔
"میں کیا کر سکتا ہوں" ارہم مسکرایا۔
"تھوڑا آہستہ چلو کلاس میں ابھی ٹاٸم ہے" لاٸبہ ان کے پیچھے چلتی بولی۔
"ہاٸے لاٸبہ کیسی ہو کہاں تھی دو دنوں سے" لاٸبہ کی دوست نے اسے روک کے پوچھا۔
"تھینک گاڈ۔ارہم اب جلدی نکل یہاں سے"
"کیا ہو گیا ہے آیان تم تو ایسے بی ہیو کر رہے ہو جیسے وہ کوٸی لڑکی نہیں چڑیل ہے"
"ہاں تو لڑکیاں چڑیل ہی ہوتی ہیں "
"یار ویسے اُس لڑکی میں تو بہت ہمت تھی" ارہم مسکراتا ہوا بولا ۔
"اسے ہمت نہیں بدتمیزی کہتے ہیں" آیان غصے میں بولا ۔
"نہیں میری نظر میں تو یہ ہمت ہی ہے" ارہم تپا دینی والی مسکراہٹ لیے بولا۔
اس سے پہلے کے آیان کچھ بولتا لاٸبہ ان کے ساتھ والی چٸیر پہ بیٹھتی بولی۔
"بندہ دو منٹ ویٹ ہی کر لیتے" ۔
آیان نے جواب دینے کی بجاٸے ارہم کو گھورا اور ارہم نے مسکراتے ہوے کندھے اچکاٸے۔
"آیان میری طبیعیت تو آج بھی ٹھیک نہیں تھی ماما نے اتنا روکا کے نا جاٶ میں پھر بھی آ گٸی۔ویسے تم بولتے کیوں نہیں تب سے میں ہی بولے جا رہی ہوں "
"میں لیکچر لینے آیا ہوں باتیں کرنے نہیں" آیان نے سامنے لگے واٸٹ بورڈ کی طرف دیکھتے ہی جواب دیا۔
"میرا تو بالکل دل نہیں کر رہا تھا کلاس لینے کو وہ تو میں ویسے ہی آ گٸی"
"کاش تم ٹھیک ہی نا ہوتی" آیان بڑبڑایا۔
"ویسے تمہیں نہیں لگتا تم کچھ زیادہ بولتی ہو" وہ اب اس کی طرف دیکھتے ہوے بولا۔
"مجھے سب گھر والے بھی یہی کہتے ہیں" وہ ہنستے ہوے اسے ایسے بتا رہی تھی جیسے اپنی بہت اچھی بات بتا رہی ہو۔
"ارہم یار کتنا بولتی ہے وہ میرا تو سر درد ہونا شروع ہو گیا" آیان نے کلاس ختم ہوتے ہی ارہم سے کہا۔
"ہاہاہا اتنا بھی نہیں بولتی"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مہرو تم کتنے دنوں سے ہمارے گھر نہیں آٸی" وہ دونوں ایک ہی گاڑی میں آتی جاتی تھیں ۔سحر کا گھر مہرو کے گھر سے بیس منٹ کے فاصلے پہ تھا ۔
"آج آوں گی پہلے یہ بتاٶ کیا بناٶ گی میرے لیے"
"زہر"
"پھر بھی"
"کیا پھر بھی بتایا تو ہے زہر"
"وہ تم کھا لینا مجھے بس بریانی کھلا دینا"
"چوّل لڑکی تم نہیں ٹھیک ہو سکتی" سحر مسکراتی ہوٸی بولی۔
"شام کو شانی کو بھیجنا مجھے لے جاٸے ایک گھنٹہ ہی رُکوں گی میں" مہروالنسإ اکلوتی بیٹی تھی جب کبھی اسے سحر کے گھر جانا ہوتا تو کبھی اپنی ماما کے ساتھ جاتی زیادہ ویسے زیشان ہی پک اینڈ ڈراپ کرتا۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم آنٹی کیسی ہیں" زیشان مہروالنسإ کی ماما سے سر پہ پیار لیتا بولا ۔
"الحَمْدُ ِلله تم سناٶ بیٹا بہت دنوں بعد آٸے"
"میں بھی ٹھیک آج کل ٹیسٹ ہو رہے ہیں بس اسی لیے تھوڑا بزی رہتا ہوں" ۔
"ہاں جی بہت پڑھتے ہو تم بتاتی رہتی ہے مجھے سحر" مہروالنسإ زیشان کے آگے جوس کرتی بولی۔
"اس کی کیا ضرورت تھی ویسے آپ لے آٸی ہیں تو میں پی لیتا ہوں"
"نہیں رہنے دو اگر تمہارا دل نہیں کر رہا تو"
"باتیں بند کریں اور جلدی ہجاب کریں میں نے ٹیسٹ بھی یاد کرنا ہے جا کے" زیشان باٸیں آنکھ دباتا بولا۔
"بہت بدتمیز ہو تم" پھر وہ تیار ہونے چلے گٸی۔
"شانی باٸیک آہستہ چلاٶ"
"کیا ہو گیا ہے مہرو آپی"
"شانی میں نے تمہارے ساتھ آنا ہی نہیں کرنا عنزہ پتا نہیں کیسے چلے جاتی ہے تمہارے ساتھ اور بہت اچھا کر رہے ہیں انکل جو تمہیں گاڑی نہیں لے کے دے رہے" ۔
"وہ بھی لے لوں گا بہت جلد فکر نہ کریں"
"شانی بلیو می میں چھلانگ لگا دوں گی"
"لگا دیں نو پرابلم" شانی مسکراتا ہوا بولا۔
"شانی بتاٶں گی بھاٸی فیضان کو وہی تمہیں سیٹ کریں گے "
"اچھا اب ٹھیک ہے زیشان سپیڈ کم کرتا بولا" اسے پتا تھا کے اگر فیضان کو بتا دیتی تو پھر باٸیک بھی چھین لی جانی تھی اور وین میں جانا پڑنا تھا۔
"کیسی بنی بریانی" سحر ابرو اچکاتی بولی۔
مہروالنسإ اور سحر کمرے میں بیٹھی بریانی کھانے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہی تھیں۔
"بس ٹھیک ہے"
"زیادہ منہ بنانے کی ضرورت نہیں اِدھر دو میں خود کھا لیتی ہوں" سحر اس سے پلیٹ کھینچتی بولی ۔
"کیا ہو گیا ہے بھوکی لڑکی مزاق کر رہی تھی۔ مزے کی بنی ہے"
"تھینک یو ماٸی کیوٹ فرینڈ" اس نے مسکراتے ہوے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آج انکل نے تھوڑا لیٹ آنا پہلے کالج کی لڑکیوں کو پک کرنا ہے پھر ہمیں" مہرو بولی۔
"ہاں تو" سحر داٸیں باٸیں گردن گھماتے لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔
"میں سوچ رہی ہوں مال چلیں پرفیوم لینا ہے مجھے اور جیولری بھی"
"میں تو نہیں جاٶں گی" سحر نے انکار کیا۔
میں کوٸی انکار نہیں سنوں گی دس منٹ کے راستے پہ تو ہے جلدی جلدی آ جاٸیں گے کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا"
"گاڑی کیوں روکی" آیان ارہم کو دیکھتے بولا۔
"آ نا کچھ لیتے ہیں" ارہم گاڑی کا دروازہ کھولتے بولا ۔
"میں تو نہیں جا رہا تم نے جانا ہے تو جاٶ میں یہیں ویٹ کرتا ہوں"
"چُپ چاپ اٹھ اور میرے ساتھ چل" ارہم اب کار کے اندر منہ کر کے کہہ رہا تھا۔
"مہروالنسإ سحر کو پرفیوم دیکھانے کے لیے پلٹی ہی تھی کے کسی سے ٹکڑاٸی۔اور پرفیوم نیچے گر کے ٹوٹ گیا۔
"آپ" اس سے پہلے کے وہ آگے کچھ بولتی دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔اور مہروالنسإ کا غصہ آسمانوں کو چھو گیا۔
"آپ۔۔ آپ اندھے ہیں اب تومجھے یقین ہو گیا ہے" اس سے پہلے کے آیان کچھ بولتا وہ ارہم سے مخاطب ہوٸی۔
"آپ سے میں نے اس دن کیا کہا تھا انہیں ڈاکٹر کو چیک کرواٸیں " پرفیوم کی خوشبو پورے مال میں پھیل رہی تھی۔
" اففف اتنا بُرا ٹیسٹ" آیان کھانستے ہوے بولا۔
"آپ سے تو اچھا ہی ہے" مہرو غصے میں بولی۔
"اور کیا کہا آپ نے مجھے اندھا ۔ہم دیکھ کے ہی آ رہے تھے آپ ہی اندھوں کی طرح ٹکڑاٸی مجھ سے"
"اوٸے کتنے عجیب شخص ہیں آپ ایک تو غلطی کرتے ہیں پھر مانتے بھی نہیں" وہ اس کی طرف انگلی کیے اونچی آواز میں بولی سحر جو رِنگ اپنے ہاتھ میں پہن کے چیک کر رہی تھی مہرو کی آواز سن کر ان کے قریب آٸی۔
"تمہیں تو میں ابھی بتاتی ہوں" مہرو بڑبڑاٸی اور پھر دوکاندار سے مخاطب ہوٸی۔
بھاٸی اس سے پہلے جو آپ نے مجھے پرفیوم دکھایا تھا 7999 والا وہ دی جیے گا وہ کاٶنٹر پہ ہاتھ رکھے بولی۔
"یہ لیجیے میم" دوکاندار نے پرفیوم اس کی طرف بڑھایا۔
"پیسے ان سے لے لیں آپ کے سامنے ان کی وجہ سے پرفیوم ٹوٹا ہے"
"کیوں دیں ہم پیسے" وہ درشت لہجے میں بولا اس سے پہلے کے وہ مزید کچھ کہتا مہرو سحر کا بازو پکڑ کر اسے وہاں سے لے گٸی۔
"او ہیلو" آیان آگے بڑھتا بولا۔
"سر پیسے تو دیتے جاٸیں"
"میں کیوں دوں پیسے جس نے لیا ہے اس سے لو" وہ پلٹتے ہوے بولا۔
"وہ تو چلے گٸیں پیسے تو اب آپ کو ہی دینا پڑیں گے"
آیان نے ارہم کو گھورا۔ ارہم مسکرا دیا ۔
"تمہیں بہت ہنسی آ رہی ہے نا اب دو پیسے تم ہی لاٸے تھے مجھے"
"میں کیوں دوں پرفیوم تم سے ٹوٹا ہے مجھ سے نہیں" ارہم مسکراہٹ دباتا بولا۔
"اس کی تو اب خیر نہیں ایک دفعہ نظر آ جاٸے مجھے" وہ دوکاندار کو پیسے دیتے بڑبڑایا۔
"کچھ کہا آپ نے" دوکاندار بولا۔
"نہیں پیسے کاٹو اور باقی مجھے دو" آیان غصے میں بولا۔
دوکاندار نے کندھے اچکاتے ہوٸے باقی پیسے آیان کو پکڑاٸے۔
"اب چلے گا یا یہیں دیکھتا ہنستا جاٸے گا"
"ابھی تو میں نے کچھ لیا ہی نہیں" ارہم ہنستا ہوا بولا۔
"چل پھر تو لیتا رہ میں تو چلا" آیان باہر کی جانب بڑھا۔
"مہرو تم نے ٹھیک نہیں کیا ویسے" سحر پریشان ہوٸی۔
"بالکل ٹھیک کیا میں نے یہ وہی تھا جس نے اس دن مجھ سے بدتمیزی کی تھی ۔ایسا ہی ہونا چاہیے تھا اس کے ساتھ"
"پر یار مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے اس نے یونی میں ہمیں دیکھ لیا تو؟ اور پھر اگر کوٸی تماشا کر دیا تو؟"
"کچھ نہیں ہو گا تم فالتو ٹینشن نہیں لو پرفیوم دیکھو وہ اس پہ پرفیوم چھڑکتے بولی"
"اچھی خوشبو ہے نا؟"
"ہاں اچھی ہے"
"مجھے تو پہلے ہی یہ پسند آیا تھا پر میرے پاس چھ ہزار روپے تھے۔ اچھا ہوا ٹکڑا گیا ویسے چھ ہزار ضاٸع ہو گیا"
"ارہم یار کتنی عجیب لڑکی ہے مجھے تو پاغل لگتی ہے کوٸی"
"مجھے تو پیاری لگی" ارہم نے اسے تنگ کرنے کے لیے کہا ۔
"فالتو بکواس نہیں کرو" آیان ارہم کی گردن دپوچے بولا ۔
"اچھا چھوڑ بھی دے اب ایکسیڈننٹ کرواٸے گا کیا"
"پیسے تو میں اس سے نکلوا کے رہوں گا تو دیکھی اب میں کرتا کیا ہوں"
_________________
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم پھوپھو کیسی ہیں اور کب آٸیں" سحر ابھی یونی سے آٸی تھی۔وہ پھوپھو کے ماتھے پہ بوسا کرتی بولی ۔
"میں ٹھیک میری بچی تم سناٶ " انہوں نے اسے صوفے پہ اپنے پاس بٹھایا۔
"میں بھی ٹھیک ہوں"
"ریحانہ بچی کو پانی پلاٶ تھک گٸی ہو گی" انہوں نے کچن میں کھڑی ریحانہ بیگم سے کہا۔
"نہیں پھوپھو میں خود لے لیتی ہوں"
سحر پانی پینے کے لیے اٹھی جب عنزہ لنگڑاتی ہوٸی اندر داخل ہوٸی۔زیشان اس کے پیچھے دانت نکالتا آ رہا تھا۔
سحر فوراً اس کی طرف بڑھی اور اسے لا کے صوفے پہ بیٹھایا۔وہ رو رہی تھی۔
عنزہ کی رونے کی آواز سن کر باقی سب بھی اس کے قریب آ گٸے۔
"ہاٸے کیا ہوا میری بچی کو" ریحانہ نے اس کا پاٶں پکڑا ۔پاٶں پہ خراشیں آ گٸی تھیں اور انگوٹھے سے خون بھی نکل رہا تھا ۔سحر تب تک فرسٹ ایڈ باکس لے آٸی۔
"چپ کرو میرا بچہ" پھوپھو نے اُسے اپنے سینے سے لگایا۔
"شانی کیا ہوا اسے" شعبانہ نے شانی سے پوچھا۔
"ہونا کیا ہے چچی میری کمزور باٸیک اس کا وزن نہیں برداشت کر پاٸی اور یہ گر گٸی"
عنزہ ابھی بھی چیخیں مار کے رو رہی تھی آنسو کم اور آوازیں زیادہ تھیں ۔
"کیا ہو گیا ہے موٹی اتنی تو لگی نہیں جتنی تم ایکٹنگ کر رہی ہو" زیشان بولا۔
"آااا ماما آرام سے لگاٸیں بہت جلن ہو رہی ہے"۔
"ماما یہ اتنی تیز باٸیک چلا رہا تھا میں نے کہا بھی تھا آہستہ چلاٶ اور اس نے مجھے گرا دیا آٸی ماما ہاتھ نہیں لگاٸیں بہت درد ہو رہے" وہ روتی ہوٸی بولی۔
"میرا بچہ چپ ہو جاٶ آ لینے دو عابد کو سیٹ کرواتی ہوں اسے" پھوپھو بولیں۔
"پھوپھو آپ بھی آ گٸی اس کی باتوں میں بہت بڑی ایکٹر ہے یہ" زیشان ان کے قریب بیٹھتا ان کے گرد بازو حماٸل کرتا بولا۔
"چھوڑو مجھے پہلے پتا نہیں ہوتا کے پھوپھو سے مل آٶں ان کا حال احوال ہی پوچھ لوں ۔اب تمہیں بڑا پیار آ رہے" انہوں نے اس کا ہاتھ جھٹکتے شکوہ کیا۔
"اب ایسے تو نا کریں نا پھوپھو جان" وہ ان کا گال چومتا بولا۔
"بس بس ٹھیک ہے"
"کچھ کہیں گی نہیں نا ابو سے"
"نہیں جاٶ اب یونیفارم اتارو"
"ہاٸے میری پیاری پھوپھو" وہ دوبارہ ان کا گال چومتا آگے بڑھ گیا۔
"کچھ نہیں ہو سکتا اس بچے کا" وہ مسکراتی ہوٸی بولیں۔
"سحر بیٹا جاٶ اسے کمرے میں لے جاٶ"پھوپھو نے سحر سے کہا۔
" اوکے بڑی ماما"
"میں کھانا کمرے میں ہی لے آتی ہوں" ریحانہ کہتی ہوٸی کچن کی طرف چل دی۔
رات کو سب لاٶنج میں بیٹھے خوشگپیوں میں مصروف تھے جب عابد صاحب بولے۔
"عنزہ بیٹی کہاں ہے" اس سے پہلے کے کوٸی اور جواب دیتا زیشان بولا ۔
"بابا وہ سو گٸی"
"آج بہت جلدی سو گٸی"
"نیند ہے نا کسی بھی ٹاٸم آ جاتی ہے" زیشان بولا۔
"بڑے پاپا یہ جھوٹ بول رہا ہے اس نے عنزہ کو گرایا آج باٸیک سے۔ اس کے پاٶں پہ چوٹ لگی ہے اس لیے وہ باہر نہیں آٸی"
"سحر آپی" زیشان نے سحر کو گھورا ۔
"کیسے گرایا تم نے اسے" عابد صاحب غصے میں بولے۔
"بابا وہ۔۔۔۔"
"اب بولا نہیں جا رہا تم سے"
"بابا وہ ہل رہی تھی تو گر گٸی"
انہوں نے اس کے منہ پہ ایک تھپڑ رسید کیا۔
"کیا ہو گیا ہے عابد" پھوپھو بولیں ۔
"رہنے دیں آپا ۔پہلے بھی اسے میں نے بہت دفعہ منع کیا ہے پر اسے کوٸی اثر نہیں ہوتا"۔
"پر بابا۔۔۔"
"بکواس بند کرو اپنی اور دفعہ ہو جاٶ" وہ غصے میں دھاڑے۔
وہ خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔ سحر کو اب اپنے بتانے پر پچھتاوا ہو رہا تھا اس نے یہ ہر گز نہیں سوچا تھا کے وہ اس پہ ہاتھ اٹھا دیں گے ۔
فیضان اٹھ کے عنزہ کے کمرے میں چلا گیا
"کیسی ہو" وہ اس کے پاس بیڈ پہ بیٹھتا بولا۔
فیضان نے اس کے پیر سے بلینکٹ ہٹا کے اس کا پاٶں دبایا۔
"آاا بھاٸی pain ہوتی ہے"
"چلو آٶ ڈاکٹر کے پاس لے جاٶں "
"نہیں ٹھیک ہو جاٸے گا آپی نے بینڈج کر دی ہے"
"کچھ کھانا ہے" وہ پیار سے اس کے چہرے پہ ہاتھ رکھتا بولا۔
"نہیں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی کھانا کھایا"
"اب نہیں چلاٸے گا تیز باٸیک بابا نے ڈانٹا ہے اسے اور تھپڑ بھی پڑا ہے"
"واقعی" وہ حیران ہوٸی۔
"ہاں "
"پر بھاٸی مجھے زیادہ تو نہیں تھی لگی ویسے بھی غلطی میری تھی میں ہل رہی تھی تو گر گٸی" وہ دونوں جتنا لڑتے تھے پیار بھی اتنا ہی کرتے تھے۔
"اب زیادہ ساٸڈ نہیں لو اس کی چپ کر کے سو جاٶ اور صبح کالج نہیں جانا اوکے"
"شانی" سحر اس کے بیڈ کے قریب پڑی چٸیر پہ بیٹھتی بولی زیشان نے جواب نہیں دیا۔
"شانی"
" جی" وہ سردمہری سے بولا۔
"سوری"
"ضرورت نہیں" وہ بنا اس کی طرف دیکھے بولا۔
"مجھے نہیں تھا پتا بڑے پاپا ہاتھ اٹھا دیں گے" وہ دھیمی آواز میں بولی۔
"پتا چل گیا نا" وہ غصے میں بولا۔
"سوری نا" وہ ٹھوڑی سے اس کا چہرہ اپنی طرف کیے بولی۔ زیشان نے پھر چہرہ دوسری جانب گھما دیا۔
"شانی اب کر بھی دو معاف" وہ بیڈ پہ اس کے قریب بیٹھی۔
"اچھا ٹھیک ہے" وہ مسکراتا ہوا بولا ۔
"کیا باتیں ہو رہی ہیں" فیضان کمرے میں داخل ہوا۔
"بہن بھاٸی کی باتیں ہیں تمہیں کیوں بتاٸیں" سحر بولی۔
"اچھا" وہ بھی بیڈ پہ بیٹھ گیا۔
"عنزہ سو گٸی؟" سحر نے پوچھا۔
"ہاں سونے لگی تھی"
"زیادہ تو نہیں لگی اسے؟" زیشان بولا۔
"لگی تو زیادہ ہے کل کالج نہیں جاٸے گی وہ"
"بھاٸی میں نے جان بوجھ کے نہیں گرایا" وہ نظریں جھکاٸے بولا۔
"شانی تم سے میں نے بھی کتنی دفعہ کہا ہے باٸیک آہستہ چلایا کرو پر تم ہو کے کسی کی سنتے نہیں" وہ سنجیدگی سے بولا۔
"سوری بھاٸی آٸندہ نہیں ہو گا"
"آٸندہ سے ہوا تو تم سے باٸیک لے لی جاٸے گی پھر جانا وین میں. سیری کافی بنا دو بہت تھک گیا ہوں" وہ اٹھتا ہوا بولا۔
"آپی میرے لیے بھی بناٸیے گا" زیشان بولا۔
"اوکے" سحر کہتی ہوٸی کچن کی طرف چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"فیضان بیٹا آج اگر زیادہ کام نہیں ہے تو جلدی آ جانا اور مجھے چھوڑ آنا" سب ناشتہ کر رہے تھے جب پھوپھو بولیں۔
"پھوپھو اتنی دیر بعد آٸی ہیں کچھ دن رک جاٸیں" فیضان بولا۔
"آپا اتنی دیر بعد آٸی ہیں کچھ دن رُک جاتیں" خالد صاحب بھی بولے۔
"نہیں اب تم لوگ لگانا چکر"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ٹیسٹ یاد کیا؟" وہ دونوں کلاس میں جا رہی تھیں جب مہرو نے سحر سے پوچھا۔
"نہیں میں نے تو نہیں کیا دل نہیں تھا کر رہا میرا۔ تم نے کیا؟" سحر بولی۔
"ہاں میں نے تو کیا بہت مشکل تھا"
"ہمم"
"سر نہیں آٸے ابھی تک اور یہ سب باہر کیوں جا رہے ہیں" ۔مہرو نے اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی سے پوچھا ۔
"سر نہیں آٸے آج ٹیسٹ نہیں ہو گا اب Yayy" وہ خوشی سے بولی۔
"ہاں جی آج تو ایسا ہونا ہی تھا میں نے جو یاد کر لیا آج۔اب میں نے یاد ہی نہیں کیا کرنا ہنہہ" مہروانسإ منہ بناتی بولی۔
"آج نہیں ہوا تو کل ہو جاٸے گا اچھا ہی ہوا ویسے میں بھی یاد کر لوں گی اب" سحر مسکراتے ہوے بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم" سحر نے گھر داخل ہوتے سلام کیا ۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام" پھوپھو نے جواب دیا۔
"عنزہ کہاں ہے"
"یہیں بیٹھی تھی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی کمرے میں گٸی"
"میں اس سے مل کے آتی ہوں" سحر کہتی ہوٸی عنزہ کے کمرے کی طرف بڑھ گٸی۔
کھانا کھانے کے بعد سب لاٶنج میں بیٹھے باتوں میں مصروف ہو گٸے جب زیشان عنزہ کے کمرے میں گیا۔
"کیسی ہو؟" وہ اس کے پاس بیٹھتا بولا۔
"ٹھیک ہوں"
"میں آیا تھا صبح تمہارے کمرے میں تم سو رہی تھی تو میں چلا گیا" وہ رُکا اور پھر بولا۔
"سوری عنزہ آٸی سوٸیر میں اب کبھی باٸیک تیز نہیں چلاٶں گا"
"تمہارے لیے کچھ لایا ہوں" وہ اس کی طرف دیکھتا بولا۔
"کیا؟" اس نے آبرو اچکاٸے۔
"ڈیری ملک" وہ اس کی طرف کرتا بولا۔
"تھینک یو سو مچ ماٸی سویٹ برو" وہ مسکراتی ہوٸی بولی۔
"موٹی آج اتنا بور ہوا میں کالج میں تمہاری وجہ سے"
"میں بھی بہت بور ہوٸی"
"چل موٹی اب جلدی ٹھیک ہو کل کالج جانے"
زیشان بولا پھر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کے مسکراٸے۔
"پھوپھو آج نا جاٸیں نا" زیشان پھوپھو کے کندھے پہ سر رکھتا بولا۔
"شادی پہ آٶں گی اب میرا بچہ" وہ اس کا گال چومتی بولیں۔
فیضان بھی فریش ہو کے ان کے قریب آ کے بیٹھ گیا۔
"سحر بیٹا تمہارے پیپر کب ہیں؟" پھوپھو نے پوچھا۔
"اگلے مہینے" سحر بولی۔
"ہاں تو پھر ٹھیک ہے پیپرز کے فوراً بعد شادی کر دیں گے"
فیضان نے سحر کی طرف دیکھ کے باٸیں آنکھ دباٸی۔ زیشان نے اسے یہ کرتے دیکھ لیا۔
"أَسْتَغْفِرُ اللّٰه توبہ توبہ زرا خیال نہیں پاس چھوٹے چھوٹے بچے بیٹھے ہیں ان پہ کیا اثر ہو گا" وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا بولا۔
"کیا ہو گیا ہے میں نے تو ایسی کوٸی بات نہیں کی" پھوپھو کو حیرت ہوٸی۔
فیضان نے زیشان کو گھورا۔
"پھر بھی شادی کی بات تو کی ہے نا" وہ معصوم شکل بناتا بولا۔
"تمہارا سچ میں کچھ نہیں ہو سکتا" انہوں نے زیشان کے سر پر چپت لگاٸی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
Do vote , comment and must share your reviews😄
BẠN ĐANG ĐỌC
محبت،یقین اور خواہش Completed 💕
Teen Fictionاس کہانی میں ہے کسی کی محبت تو کسی کا اللہ پہ یقین اور پھر جب اللہ پہ یقین ہو تو ہر کام بہتر ہی ہوتا ہے۔ کسی کا اللہ کے سامنے خواہش ظاہر کرنا اور اسے جھٹ سے پا لینا۔ اب یہ کس کی محبت ہے کس کا یقین اور کس کی ہے خواہش وہ تو ناول پڑھ کے پتا چلے گا💗😉