محبت، یقین اور خواہش

3K 119 27
                                    

                           قسط: ١٤
""آیان..." وہ نیند سے بیدار ہوٸی اور یک دم اٹھ بیٹھی۔ اس کے اونچی بولنے سے آیان کی آنکھ کھلی اس نے لیمپ آن کیا اور مہرو پہ نظر پڑی جو بیٹھی لمبے لمبے سانس لے رہی تھی چہرہ آنسوٶں سے تر تھا۔
"مہرو" وہ فوراً بیٹھا اور اس کے قریب ہوا۔
"آ۔۔یا۔۔ن آپ۔۔آپ کہاں چلے گٸے تھے" وہ ہچکیوں سمیت رو رہی تھی۔
"میں تو یہیں ہوں" اسے سمجھ آیا اس نے کوٸی بُرا خواب دیکھ لیا ہے۔ آیان نے اسے خود سے لگایا تو مہرو نے اس کی شرٹ اپنے ہاتھوں میں جکڑ لی۔
"آپ۔۔مجھے کیوں۔۔چھوڑ گٸے تھے" آنسو روانگی سے بہ رہے تھے۔
"مہرو میری جان دیکھو میں یہیں ہوں تمہارے پاس تمہارے سامنے" وہ مہرو کے سر پہ پیار کرتا بولا۔
"آپ۔۔آپ مجھے چھوڑ گٸے تھے آیان۔۔میں بہت ڈر گٸی تھی آپ مجھے کیوں چھوڑ کے گٸے تھے؟" وہ اب اس کی طرف دیکھتی بولی۔
"میں کہیں نہیں گیا تھا دیکھو تمہارے سامنے ہوں۔ رونا بند کرو رکو میں تمہیں پانی دیتا ہوں" آیان اس سے الگ ہوا۔
"ن۔۔نہیں کک۔۔کہاں جا رہے ہیں" وہ سہم گٸی۔
"مہرو کہیں نہیں جا رہا پانی دینے لگا ہوں تمہیں" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیتا بولا۔
"مجھے نہیں پینا آپ۔۔آپ میرے پاس رہیں" مہرو نے اس کے سینے پہ سر رکھ کے ایک بازو اس کے گرد حماٸل کر لیا اور دوسرا اس کے سینے پہ رکھ لیا۔ اس کی دھڑکن بہت تیز تھی آیان کو صاف سناٸی دے رہی تھی آیان نے اس کے گرد بازو حماٸل کر کے گرفت مضبوط کر دی۔
"چُپ ہو جاٶ دیکھو میں پاس ہوں تمہارے" وہ نرمی سے بولا۔ مہرو کچھ دیر آنکھیں بند کیے  اس کے ہونے کا احساس کرتی رہی اب اسے نیند آ رہی تھی۔
"سو جاٶ" آیان نے اسے خود سے الگ کیا۔ اس کی آنکھوں میں پھر آنسو آ گٸے۔
"کیا ہوا رو تو نہیں نا" اس نے مہرو کے آنسو صاف کیے۔
"آپ نے مجھے۔۔خود سے الگ کیوں کیا" وہ رھندی آواز میں بولی۔
"اچھا نہیں کرتا الگ چُپ ہو جاٶ۔ میرے سینے پہ سر رکھ کے لیٹ جاٶ پھر آیان لیٹا تو مہرو بھی اس کے سینے پہ سر رکھ کے لیٹ گٸی آیان نے ایک بازو اس کے گرد پھیلا لیا تھا جلد ہی وہ دونوں واپس نیند کے آغوش میں چلے گٸے۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح نو بجے کے قریب آیان کی آنکھ کھلی۔ مہرو کا سر ابھی بھی اس کے سینے پہ تھا۔وہ کچھ دیر یونہی لیٹا مہرو کے اٹھنے کا انتظار کرتا رہا پھر مہرو اٹھی سر اوپر کر کے آیان کو دیکھا تو وہ مسکرا دیا۔
"اٹھ گٸی میڈم"
"جی" وہ بیٹھتی ہوٸی بولی۔ آیان فریش ہونے چلا گیا۔ مہرو نے اٹھ کے بیڈ شیٹ ٹھیک کی اسے اپنا سر بھاری لگ رہا تھا وہ وہیں بیٹھ گٸی خواب یاد آیا تو دل مٹھی میں بند ہوتا محسوس ہوا۔ آیان فریش ہو کے نکلا مہرو کی طرف دیکھا جو سوچوں میں گم نظر آٸی اس کے قریب آیا۔
"کیا ہوا"
"ک۔۔کچھ نہیں" وہ سر جھٹکتے بولی۔
"فریش ہو لو "
"جی" کہتی وہ واش روم میں چلی گٸی۔ فریش ہو کے نکلی تو آیان کمرے میں نہیں تھا وہ گھبرا گٸی۔
"آیان" آواز دیتی باہر نکلی اور آیان کو کچن میں موجود پایا۔ اس کی جان میں جان آٸی۔
کیا کر رہے ہیں وہ کچن میں آتی بولی۔
"اپنی بیوی کے لیے ناشتہ بنا رہا ہوں" وہ پیار سے بولا۔
"کیوں؟ آپ بیٹھیں میں بناتی ہوں"
"جاٶ ہیر ڈراٸی کرو یہ نا ہو سردی لگ جاۓ "
"آپ باہر آٸیں"
"میں نے کیا کہا ہے ۔۔"
"نہیں لگتی سردی" اس نے منہ بنایا۔ آیان نے اسے کندھوں سے پکڑ کے اپنے سامنے کیا۔
"اتنا بُرا نہیں بناٶں گا کے تم سے کھایا نا جاۓ"
"میرا وہ مطلب نہیں پر آپ۔۔۔"
"کچھ نہیں ہوتا میڈم اب جاٸیں آپ روم میں۔ میں پانچ منٹ میں آیا" آیان نے اس کی پیشانی پہ اپنے لب رکھے مہرو نے آنکھیں موند لیں کتنا سکون ملا تھا اسے ۔
"جاٶ اب" آیان نے باٶل میں انڈا توڑا مہرو اسے دیکھ کے مسکرا دی اور روم میں چلے گٸی۔
پانچ منٹ بعد آیان ٹرے میں فرینچ ٹوسٹ اور چاۓ کے دو مگ رکھتا کمرے میں داخل ہوا۔ ٹرے بیڈ پہ رکھی اور خود بھی مہرو کے سامنے بیٹھ گیا۔
"پراٹھے تو نہیں بنانے آتے سو یہی کھاٶ" وہ آنکھیں چھوٹی کیے لب دباتا بولا۔
"بہت شکریہ" وہ مسکراٸی۔ اور ایک سلاٸس اٹھایا۔
"یمی" وہ داد دینے کے سے انداز میں بولی۔
"سچی اچھے بنے؟"
"جی بہت۔۔۔۔آیان۔۔"
"جی مسز آیان "
"آج آفس نا جاٸیں"
"آج آف ہی ہے میڈم" اس کا یہ کہنا تھا اور مہروالنسإ کا تو خوشی سے چہرہ کھل اٹھا
                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بابا آج پھوپھو گھر چلتے ہیں" وہ سب لاٶنج میں بیٹھے تھے  جب عنزہ چہرے میں دنیا بھر کی بیچارگی لاتی بولی۔
"واہ کیا بات کہہ دی عنزہ میں بھی سوچ ہی رہا تھا کہیں جانے کا" زیشان ہاتھ جھلاتا بولا۔
"تو پھر بابا ہویں تیار" وہ خوشی سے بولی۔
"کس نے اجازت دی" ریحانہ بولیں۔
"پوچھ تو رہی ہوں" منہ بن گیا۔
"مان جاٸیں نا بابا" زیشان بولا۔
"اوکے چلتے ہیں" وہ ہلکا سا مسکراۓ
۔"yayyyy ہم تو چلے ریڈی ہونے" عنزہ بولی۔ زیشان بھی اٹھ گیا اور سحر فیضان کو دیکھ رہی تھی کے کیا وہ بھی ہوۓ تیار۔ پر وہ اسے اگنور کر رہا تھا۔ تو اسنے شعبانہ بیگم سے کہا۔
"ماما میں بھی ریڈی ہو جاٶں"
"ہاں بیٹا سب جا رہے ہیں تمہیں چھوڑ کے تو نہیں جاٸیں گے نا"
"پر چچی۔۔۔۔" فیضی بولا۔
"کچھ نہیں ہوتا" وہ مسکراتی ہوٸی بولیں۔
"اوکے پھر میں بھی ریڈی ہو کے آٸی ماما بڑی آپ سب بھی جلدی کریں نا اور فیضی آپ بھی۔۔۔" کہتی وہ کمرے کی جانب بڑھ گٸی۔ کچھ دیر بعد فیضی بھی کمرے میں آیا اور سحر کو ڈریسنگ مرر کے سامنے خوشی خوشی میک اپ کرتے پایا۔
"بہت خوشی ہو رہی ہے تمہیں" وہ اس کے سامنے آتا آنکھیں چھوٹی کیے بولا۔
"جی بہت" وہ لپ اسٹک لگاتی ادا سے بولی۔
"آپ کے کپڑے میں نے نکال دیے ہیں اب جلدی چینج کر لیں"
"جی کرنے لگا ہوں"
"آپ کیوں جل رہے ہیں میرے باہر جانے سے" اس نے ایک آبرو اٹھایا۔ اور یہاں فیضان کے حیرت سے دونوں آبرو اوپر ہوے۔
"میں کیوں جلوں گا"
"تو پھر منہ کیوں بنایا" آنکھیں سکیڑیں۔
"کب بنایا منہ"
"اب"
"اففف پاغل ہو گٸی ہو تم"
"میں وہاں جا کے ہر چیز کھاٶں گی پھر گھورتے رہیے گا جتنا مرضی ہنہہ"
"وہ تو میں تمہیں بتاٶں گا" کہتا وہ واش روم میں چلا گیا۔
کچھ دیر بعد سب تیار ہال میں کھڑے تھے۔
"میں تو آج فیضی بھاٸی کے ساتھ ہی جاٶں گا" زیشان بولا۔
"اور میں بھی" عنزہ نے بھی حصہ لیا۔
"اور میں۔۔۔۔" سحر کہتی کہتی چُپ ہوٸی۔
"کہہ لو تم بھی" شعبانہ بیگم بولیں۔
"جی میں بھی" وہ مسکراتے ہوے بولی۔
"تم بچوں کو کیا میں اکیلا بھیج دوں تا کے گاڑی ہوا میں اُڑاتے جاٶ" عابد صاحب سنجیدگی سے بولے۔
"آہستہ چلاٶں گا بابا جان" فیضان نظریں جھکاۓ بولا۔
"جانے دو بچوں کو" آطف صاحب بولے۔
"تھینکیو چاچو" زیشان چہکتا ہوا بولا۔
"ابھی تمہارے بابا نے جواب نہیں دیا" وہ مسکراتے ہوے بولے اور زیشان کا پھر سے منہ لٹک گیا۔
"بابا جان پلیز جانے دیں سحر آپی ہے نا ہمارے ساتھ"
"وہ تو جیسے بہت سمجھدار ہے تم لوگوں جیسی ہی ہے" بات ختم کر کے وہ مسکراۓ۔
"بڑے پاپا۔۔۔۔۔" اس نے منہ بنایا۔
"کچھ غلط کہا میں نے" وہ شریر مسکراہٹ لیے بولے۔
"جی غلط ہی کہا"
"ہاں غلط ہی کہا ہے میری بیٹی تو بہت سمجھدار ہے" انہوں نے اس کے سر پہ پیار کیا۔
"جاٶ ہم پیچھے ہی ہیں تم لوگوں کے گاڑی تیز چلانے کی تو بالکل نا سوچنا"
"اوکے چلیں فیضی بھاٸی" عنزہ فیضان کا ہاتھ پکڑتے بولی۔
"چلو میری گڑیا" وہ پیار سے بولا۔ اور پھر سب پھوپھو کے گھر جانے کے لیے نکل گٸے۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں لان میں رکھی کرسیوں پہ بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب آیان کے موباٸل کی رنگ ٹون ہوٸی۔ اس نے رسیو کر کے کان سے لگایا۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم"  بھاری آواز آٸی۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام بڑے پاپا کیسے ہیں؟ "
"اللہ کا شکر ہے بیٹا تم سناٶ مہرو بیٹی کیسی ہے"
"وہ بھی ٹھیک ہے"
"اصغر صاحب کو تو جانتے ہی ہو تم"
"جی"
"وہ منیب کے لیے مریم کا رشتہ مانگ رہے ہیں"
"پر مریم کی تو بلال سے ہونی ہے نا"
"تمہاری بڑی ماما نے منع کر دیا"
"اچھا" وہ انکار کی وجہ سمجھ گیا تھا۔
"کیا کہتے ہو تم "
"کر لیں اچھا لڑکا ہے فیملی بھی اچھی ہے پڑھی لکھی ہے"
"وہ آج آنے کا کہہ رہے تھے تو سوچا تم سے پوچھ لوں پھر ہی بات آگے بڑھاٶں"
"بلا لیں آج"
"چلو ٹھیک ہے پھر تم لوگ بھی آ جاٶ"
"ہم"
"جی جلدی آ جاٶ "
"اوکے"
"الله حافظ"
"تیار ہو جاٶ بڑے پاپا کے گھر جانا ہے"
"کیوں"
"مریم کو دیکھنے آنا ہے"
"اوکے "
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حور آپی میرا دل کر رہا ہے کہیں گھومنے چلیں" احمد حور کے پاس چارپاٸی پہ بیٹھتا بولا۔
"کہاں جانا ہے" وہ پیار سے بولی۔
"ہمارے تو رشتے دار بھی نہیں "
"رشتے دار تو بہت ہیں" ساجدہ بیگم سبزی کی ٹوکری پکڑے چارپاٸی پہ بیٹھیں۔
"ہاں پر نا کوٸی آتا ہے ہمارے گھر اور نا ہی ہم کہیں جاتے ہیں"
"میرے بیٹے غریبوں کے گھر کوٸی نہیں آتا"
"پر ماما ہم تھوڑی نا شوق سے غریب ہوے ہیں۔ غریب امیر تو اللہ کرتے ہیں نا"
"ہاں میری جان پر دنیا نہیں سمجھتی نا"
"ماما ہم امیر کب ہوں گے"
"جب میرا بیٹا پڑھ لکھ کے اچھی سی جاب کرے گا"
"اس میں تو ابھی بہت وقت ہے نا"
"تو کیا ہوا ابھی بھی اللہ نے ہمیں ہر چیز تو عطا کی ہے تین وقت کی روٹی بھی کھاتے ہیں"
"لیکن ماما میرا دل کرتا ہے میں بھی ماموں کے گھر جاٶں تایا ابو کے گھر جاٶں اپنے کزنز کے ساتھ کھیلوں"
"تم حور کے ساتھ کھیلا کرو نا اور پھر جب ہم اس کی شادی کریں گے تو تم اس کے گھر جانا کرنا"
"کب کریں گے آپی کی شادی"
"جب کوٸی اچھا رشتہ آیا تو کر دیں گے"
"حور آپی آٶ نا کہیں گھومنے چلتے ہیں"
"کہاں؟"
"آٸسکریم کھانے"
"اس ٹاٸم"
"ہاں نا پہلے تھوڑی دیر پارک گھومیں گے پھر آٸسکریم کھا کے گھر "
"پر بیٹا اتنے پیسے۔۔۔۔"
"کوٸی بات نہیں ماما میرے پاس ہیں۔ چلو آٶ چلیں"
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جاتے ہوے میں اپنی پسند کے گانے لگاٶں گی" عنزہ کار سے اُترتی بولی۔
"میں تمہارے رونے دونے والے گانے تو کبھی نہیں سن سکتا "
"اور میں بھی تمہارے ریپ نہیں سن سکتی ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آتا" اس نے جھرجھری لی۔
"تم جیسے سمجھ بھی نہیں سکتے"
"منہ بند کر کے اندر جاٶ" فیضان تھوڑا سختی سے بولا۔ پھر وہ داخلی دروازے پہ گٸے اور ہلکا سا ناک کر کے اندر داخل ہوے پھوپھو وہیں صوفے پہ بیٹھی مٹر چھیل رہی تھیں۔ انہیں دیکھ کھڑی ہوٸیں۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم" فیضان نے آگے بڑھ کے سلام لی۔
"وَعَلَيْكُم میرا شہزادہ میں صدقے جاٶں آج کیسے یاد آ گٸ پھوپھو کی" وہ اسے گلے لگاتی بولیں۔ پھر سحر اور عنزہ سے ملی ہی تھی کے عابد صاحب، آطف صاحب ریحانہ بیگم اور شعبانہ بیگم داخل ہوے۔
"مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا "
"یقین کر لیں آپا" عابد صاحب ان سے ملتے ہوے بولے پھر معافیہ (بہو) کو کچھ شاپر پکڑاۓ۔ اور سب لاٶنج میں رکھے صوفوں پہ بیٹھ گٸے۔
"تمہیں کیا ہوا ہے عنزہ زیشان کا منہ دیکھتی بولی" جو اچانک ہی بن گیا تھا۔
"کچھ نہیں" وہ دانت پیستا بولا۔
"اوو آٸی سی پھوپھو نہیں ملی نا اس لیے"
"منہ بند رکھو اپنا"
"پھوپھو جان اپنے لاڈلے کو بھی مل لیں منہ بنا کے بیٹھ گیا ہے"
"کیوں بھٸی منہ کیوں بن گیا میرے لال کا" وہ اس کے قریب آٸی تو عنزہ اٹھ کے دوسرے صوفے پہ چلیے گٸی اور پھوپھو اس کے پاس بیٹھ گٸیں۔
"گلے نہیں لگو گے اپنی پھوپھو کے" وہ بانہیں پھیلاتی بولیں۔ تو وہ زور سے ان کے گلے لگ گیا۔
"میرا شیر" وہ اس کے سر پہ بوسہ کرتی بولیں۔
"میری شہزادی پھوپھو" اس نے گال چوما۔
"تم لوگ بتا دیتے تو میں آنے تک کچھ بنا ہی لیتی"
"بتا دیتے تو سرپراٸز ختم ہو جاتا نا"
"ہاں یہ تو ہے"
"نبیل کہاں ہے" عاطف صاحب بولے۔
"کچھ دیر پہلے ہی باہر نکلا ہے معافیہ فون کرو اسے آ جاۓ اور آتے ہوے کچھ لے بھی آۓ"
"جی امی جان" کہتی وہ ساٸڈ پہ چلی گٸ۔
                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسمی علیک سلیک کے بعد وہ سب ہال میں بیٹھ گٸے۔ شازیہ بیگم کچن میں چلے گٸیں تو مہرو بھی ان کے پیچھے ہی چلی گٸی۔
"بیٹا تم کیوں یہاں آٸی جاٶ بیٹھو" شازیہ بیگم پیار سے بولیں۔
"مجھے بتاٸیں نا میں بھی کچھ کرتی ہوں"
"نہیں بیٹا میں کر لیتی ہوں اور مریم ہے نا آپ جاٶ جا کے آیان کے پاس بیٹھو"
"مریم تم جاٶ روم میں تم کیوں کام کر رہی ہو تمہیں تو دیکھنے آ رہے ہیں چلو جاٶ میں اور بڑی ماما کر لیں گے"
"بھابھی جی "
"میں نے کیا کہا بات نہیں مانو گی میری"  پھر وہ چلے گٸی اور مہروالنسإ اور شازیہ بیگم کھانے بنانے لگیں۔
"بات کی بڑے پاپا سے" آیان نے ارہم سے پوچھا۔
"ہاں کی"
"کیا کہتے ہیں"
"کہہ رہے تھے انکل ارشد سے پوچھوں گا اگر اچھے لوگ ہوے تو رشتہ لے جاٸیں گے"
"ہمم"
"تو بتا کیسے یاد آ گٸی اس گھر کی"
"بس ایسے ہی"
"بس ایسے ہی کے کچھ لگتے کبھی کبھار چکر لگا لیا کر"
"اوکے اور کچھ"
"اور یہ کے میرا پیارا بھاٸی مجھے بہت پسند ہے" وہ اس کا گال کھینچتا بولا۔
"اچھا بچوں والی حرکتیں چھوڑ دے"
"نہیں چھوڑوں گا"
"ویسے میں نے ایک چیز غور کی ہے"
"کیا؟"
"جب سے تیری شادی ہوٸی ہے بڑا ہنستا ہے تو"
"اچھاااا"
"جی" وہ آنکھیں میچتا بولا۔
                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب کھانا کھا رہے تھے سحر نے سب سے پہلے بریانی پلیٹ میں ڈالی اور اسے کھانا شروع کیا بیچ بیچ وہ فیضان پہ بھی کچھ اس طرح نظر ڈالتی کے آج میں کھا کے رہوں گی ہنہہ۔
"عنزہ کوک دینا" کہا اس نے عنزہ کو پر دیکھا فیضان کی طرف
"جی آپی" پھر اس نے کوک سحر کی طرف بڑھاٸی سحر دوسرے صوفے پہ بیٹھی تھی۔ وہ اسے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔
"چاول کھانے کے بعد اس نے رشین سیلڈ کھانا شروع کی" اور پھر فیضان کی طرف دیکھا۔
رشین سیلڈ کے بعد اس نے چکن روسٹ کے پیس پلیٹ میں رکھے اور کھانا شروع کیے وہ یوں کھا رہی تھی جیسے کب کی بھوکی ہو پر ایسا کچھ نہیں تھا وہ تو جو اتنے دنوں سے یہ سب اسے بند کیا ہوا تھا پھر آج ایسا کرنا تو بنتا تھا۔
سب کھانا کھا چکے تھے کھا تو سحر نے بھی لیا تھا پر کوک کا گلاس ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔ فیضی صرف اسے گھور ہی سکتا تھا۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ مریم کو پسند کر گٸے تھے اور انہیں آنے کا کہہ گٸے تھے۔ اب سب لاٶنج میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
"مریم" ارہم نے کہا۔
"جی بھاٸی"
"مبارک ہو رشتہ ہو گیا تمہارا" مریم جھینپ گٸی۔
"شرماٶ نہیں میری بہن فراٸز بنا دو بہت دل کر رہا ہے کھانے کا"
"ابھی تو تم نے اتنا کچھ کھایا" مہرو بولی۔
"بھابھی جی گھنٹہ ہو گیا ہے "
"کتنے بھوکے ہو تم" وہ اتنی آواز میں بولی کے ارہم تک ہی پہنچی۔
"دیکھ آیان تیری بیوی کیا کہہ رہی ہے" اس نے منہ بنایا۔
"جو بھی کہا ہو گا ٹھیک ہی کہا ہو گا"
"دیکھ رہا ہوں میں تجھے تو اب اسی کی ساٸڈ لیتا ہے مجھے تو بھول ہی گیا ہنہہ"
"اب ایکٹینگ کرنا شروع ہو جا"
"ہاں میری تو سہی بات بھی تجھے ایکٹینگ ہی لگنی ہے "
"تم لوگ کرو باتیں میں کمرے میں جا رہا ہوں" آصف صاحب اٹھتے ہوے بولے۔
"مریم بنا دو فراٸز"
"اوکے" کہتی وہ اٹھی۔
"رکو مریم میں بھی آتی ہوں" پھر وہ دونوں کچن میں چلے گٸیں۔ شازیہ بیگم بھی کمرے میں چلی گٸیں۔ ارہم آیان کی گود میں سر رکھ کے لیٹ گیا اور موباٸل پہ گیم کھیلنا شروع کر دی۔ آیان بھی گیم کھیلنا شروع ہو گیا کچھ دیر بعد مہروالنسإ نے فراٸز لا کے ٹیبل پہ رکھے۔
"کھا لو اب"
"آیان میرے منہ میں ڈالی جا"
"کیوں تیرے ہاتھ نہیں کیا"
"میں گیم کھیل رہا ہوں"
"تو بند کر لے"
"تو نے کھلانے ہیں کے نہیں"
"کیا چیز ہے تو" پھر آیان نے فراٸز والا باٶل پکڑا اور اس کے منہ میں ڈالے۔
"شکریہ میرے پیارے بھاٸی" وہ دانت دکھاتا بولا۔
"ایک ایک کیوں ڈال رہا ہے خود تو چار چار کھا رہا ہے"
"تیری نظر مجھ پہ ہے یا گیم میں" آیان آنکھیں سکیڑیں بولا۔
"تجھ پہ" وہ ہنستے ہوے بولا پھر موباٸل بند کر کے ساٸڈ پہ رکھ دیا۔
"اب میرے منہ میں پانچ پانچ ڈال"
"خود کھا نا"
"نہیں تو ہی کھلا" تب تک مہروالنسإ اور فراٸز لے کے آٸی اور ان کے باٶل میں ڈالے۔
"بیٹھ کے کھاٶ نا"
"کیوں لیٹ کے کیا ہوتا ہے"
"تم مجھے پاغل لگتے ہو"
"لگتا کیا یہ ہے ہی پاغل" آیان ہنستا ہوا بولا۔
"کہہ لو خوش ہو جاٶ ہنہہ "
"جاٸیں آپ اور بنا کے لاٸیں"
"جا رہی ہوں" کہتی وہ کچن میں چلی گٸی۔
"کھلا بھی"
"کھلا تو رہا ہوں"
"اتنی دیر بعد کیوں منہ میں ڈالتا ہے"
"کیونکہ اپنے منہ میں بھی ڈالنے ہوتے ہیں"
"میرے منہ میں جاۓ تیرے منہ میں جاۓ ایک ہی بات اس لیے بس میرے منہ میں ڈال"
"اچھا تو پھر میں ہی کھاتا جاتا ہوں" آیان باٶل لے کے اٹھا۔
"موٹے کہاں جا رہا ہے"
"فراٸز کھانے لگا ہوں"
"تو بیٹھ کے کھا نا "
"نہیں " کہہ کے آیان ایک ساتھ کتنے کتنے فراٸز منہ میں ڈالنے لگا۔
"مجھے تو کھلا"
"میں کھا رہا ہوں نا ایک ہی تو بات ہے تو نے خود کہا"
"موٹے تو بچ مجھ سے" وہ بھی کھڑا ہوا تو آیان باٶل پکڑتا بھاگ گیا۔
"میرے لیے نا بچے تو پھر اپنا حشر دیکھیں" وہ بھی اس کے پیچھے بھاگا۔
"تو کھاۓ میں کھاٶں ایک ہی بات" وہ دونوں صوفوں کے گرد بھاگنا شروع ہو گٸے۔ آیان ساتھ ساتھ فراٸز بھی منہ میں ڈال رہا تھا۔
"آیان ختم ہوے تو پھر دیکھیں تو"
"میں کھا رہا ہوں نا تو فیل کر"
"موٹے سالے میرے لیے چھوڑ دے" وہ چھلانگ لگاتا اس کے قریب آیا اور باٶل جھپٹنا چاہا پر ندارد آیان نے اسے دوسرے ہاتھ میں کر لیا۔
"آیان دے دے مجھے"
"نا دوں تو"
"ٹھیک ہے نا دے اب جو آٸیں گے وہ میں اکیلا ہی کھاٶں گا"
"کس خوشی میں" تب تک مہروالنسإ فراٸز لے کے آٸی۔
"مہرو اسے نہیں دینا "
"بھابھی جی یہ میرا حصہ ہے پہلے والے سارے اس نے کھاۓ ہیں" وہ مہروالنسإ سے فراٸز جھپٹتا بولا۔
"مہرو کیوس دیے اسے"
"دونوں کھاٸیں نا"
"دونوں نہیں صرف میں"
"کیوں صرف تم۔۔ یہ آخری ہیں "
"کیوں آخری ہیں ابھی دیا ہی کیا ہے"
"تمہرا تو پیٹ کبھی بھرنا نہیں"
"ہاں تو اور بناٸیں نا"
"ہم نے گھر بھی جانا ہے "
"کیوں آج یہی رہ لیں"
"ہاں یار۔۔چل ارہم آ دونوں کھاٸیں" پھر ہم نے گھر بھی جانا ہے۔
"تو نے مجھے دیے تھے"
"ہاں میں نے تو تجھے خود کھلاٸے تھے"
"زیادہ بن نہیں"
"تو دے رہا ہے یا میں جاٶں" وہ اسی کے انداز میں بولا۔
"آ جا چوّل پر تھوڑے تھوڑے کھاٸیں"
"چل ٹھیک ہے" پھر وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور دونوں نے کھانا شروع کیے۔
"ایک ایک لے ہاں" ارہم اس کے ہاتھ پہ ہاتھ مارتا بولا۔
"خود تو دس دس کھا رہا ہے"
"ہاں تو میرے ہیں"
"تو نے بھی تو میرے کھاۓ تھے "
"کھا لے بُھکر "
"کیا ہو تم دونوں" مہرو ان دونوں کو بچووں والی حرکتیں کرتا دیکھ بولی۔
"انسان" ارہم بولا۔
"لگتے تو نہیں"
"پھر اپنی نظر چیک کروا لیں "
"بہت بدتمیز ہو تم "
"ہمم"
"چلو چلیں" آیان نے فراٸز ختم کر کے کہا۔
"جی" مہرو بھی اٹھی۔
"یار آج رہ لو یہیں" ارہم بولا۔
"نہیں میرے بھاٸی صبح آفس بھی جانا ہے"
"تو یہی سے چلے جانا"
"پھر آٶں گا نا" پھر وہ سب سے ملے اور گھر جانے کے لیے نکل گٸے۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بھاٸی اب میری مرضی کے گانے لگانے ہیں" عنزہ گاڑی میں بیٹھتی بولی۔
"اوکے "
"بھاٸی ریپ لگاٸیں آپ" زیشان بولا۔
"نہیں بھاٸی گووا والے بیچ میں لگاٸیں"۔
"نہیں ریپ"
"اب عنزہ کی پسند کے لگے گیں" پھر فیضان نے گوا والے بیچ میں گانا لگایا۔
"بکواس گانا"
"تم سے تو اچھا ہے"
                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آ کے ان دونوں نے کپڑے چینج کیے اور سونے کے لیے لیٹ گٸے مہرو کو پھر سے وہی خواب یاد آیا تو اس نے آیان کا ہاتھ پکڑ لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
"تمہاری طبعیت خراب ہوٸی تو دیکھنا پھر" فیضی بیڈ پہ لیٹتا بولا۔
"کچھ نہیں ہو گا"
"اللہ کرے"
"سو جاٸیں"
"گڈ ناٸیٹ"
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہرو اور آیان  نے اٹھ کے نماز پڑھی۔ آج ہر چیز جیسے خاموش سی تھی یا مہرو کو ہی لگ رہا تھا۔ آیان ٹریک سوٹ پہن کے جاگنگ کے لیے نکل گیا مہرو بھی قرآن پاک پڑھ کے ناشتہ بنانے کچن میں چلی گٸی۔
ان دونوں نے ناشتہ کیا پھر آیان نے مہرو کی پیشانی چومی۔
"خیال رکھنا اپنا"
"آپ بھی "
پھر وہ آفس کے لیے نکل گیا۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"فیضی "
"جی"
"میرا دل خراب ہو رہا ہے"
"کل تمہیں منع بھی کیا تھا اب دیکھ لو اپنا حال آواز بھی نہیں نکل رہی پر تمہیں تو لگتا ہے میں تمہارا دشمن ہوں" وہ اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھ کے اس کا بخار چیک کرنے لگا۔
"بخار تو نہیں ہے چلو آٶ میڈیسن لا دوں "
"نہیں ماما سے کہتی ہوں قہوہ بنا دیں ٹھیک ہو جاٶں گی"
"اگر نا ہوٸی تو"
"ہو جاٶں گی قہوہ سے جلدی آرام آ جاتا ہے"
"سیری یار کیوں کرتی ہو ایسے میں تمہیں گھور بھی رہا تھا پر نہیں۔۔ تم نے تو سب کھانا تھا اب ہو گٸی نا طبعیت خراب" وہ فکر مندی سے بولا۔
"ٹھیک ہو میں آپ جاٸیں آفس"
"دل تو نہیں کر رہا تمہیں اس حال میں چھوڑ کے جانے کا"
"ٹھیک ہوں میں اگر طبعیت خراب ہوٸی تو آپ کو کال کر لوں گی ویسے بھی ماما اور بڑی ماما ہیں نا"
"خیال رکھا کرو اپنا ماۓ سویٹ ہارٹ اپنے لیے نہیں میرے لیے" کہتا وہ چلا گیا۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہرو نے آج بمشکل کام کیے تھے۔ عجیب بے چینی سی ہو رہی تھی اسے۔ وہ خواب اسے بھول نہیں رہا تھا شاید اسی لیے۔
ظہر کی نماز پڑھ کے وہ کمرے میں آ گٸی اور اپنی اور آیان کی تصویر کتنی ہی دیر دیکھتی رہی۔ پھر بیڈ پہ بیٹھی اور آیان کو کال ملاٸی۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم مسز آیان" بھاری خوبصورت آواز۔ پتا نہیں کیوں مہرو کی آنکھیں نم ہو گٸیں۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام" وہ خود کو نارمل کرتی بولی۔
"کیسی ہو؟"
"ٹھیک "
"کیا کر رہی تھی؟"
"آپ کو مس"
"کیوں؟"
"اس میں کیوں والی کیا بات ہے"
"آ جاٶں گھر" مہرو کا دل تو کیا کہہ دے ہاں آ جاٸیں پر کہہ نہیں سکی۔
"نہیں کام کریں آپ"
"چلو آج میں جلدی آ جاٶں گا گھر پھر شاپنگ پہ چلیں گے اور ڈنر بھی باہر کریں گے"
"اوکے "
"الله حافظ ماٸی لو"
"الله حافظ"
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساڈھے سات وہ گھر آیا مہرو کو کتنی خوشی ہوٸی تھی اسے دیکھ کے پھر اس نے بانہیں پھیلاٸی تو وہ اس کے گلے لگ گٸی۔ آیان فریش ہوا اور پھر وہ دونوں شاپنگ کے لیے نکل گٸے۔
دونوں مال میں داخل ہوے اور لیڈیز بوتیک پہ گٸے۔ آیان نے اس کے لیے بلیک ساڑھی پسند کی۔
"میں نے ساڑھی کبھی نہیں پہنی" وہ ابرو اچکاتی بولی۔
"تو اب پہن لینا میرے لیے" وہ مسکراتے ہوے بولا کتنی پیاری تھی اس کی مسکراہٹ۔
"یہ فراک دیکھو" اس نے ٹی پنک شارٹ فراک کی طرف اشارہ کیا۔
"پیاری ہے "
"اوکے ڈن" پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا اور ایک اورنج کرتے کو دیکھ کے آبرو اچکاۓ۔
"میرے منع کرنے سے آپ نے کونسا چھوڑ دینا ہے" اس نے آنکھیں چھوٹی کی۔
"کہا تو تم نے ٹھیک ہے" وہ مسکرایا۔
"اب کوٸی اور نا دیکھیے گا آیان گھر بھی بہت ڈریسز ہیں"
"ہاں تو میری پسند کا تو گھر کوٸی نہیں نا"
"تو اب آپ کی پسند کے لے تو لیے"
"بس ایک اور یہ دیکھو کتنا پیارا ہے" ایک واٸٹ اور پنک فراک تھا بہت خوبصورت۔
"جی.. آیان کتنی دیر ہو گٸی ہے تب سے آپ میرے ڈریسز لیے جا رہے ہیں"
"ہاں تو تمہارے ہی لینے آیا تھا"
"نہیں اب میں آپ کے لیے بھی لوں گی"
"لے لینا پر پہلے تمہارے لیے جوتا تو لے لوں"
"آیان "
"جی مسز آیان"
"مجھے نہیں لینے جوتے"
"کیوں" اس نے بھنویں اٹھاٸیں اور مہرو چُپ کر گٸی جانتی تھی بولنے کا فاٸدہ تو ہونا نہیں آیان بِل پے کر کے آیا اور پھر وہ جوتوں کی دکان پہ گٸے۔
"یہ گولڈن سینڈل" دکاندار نے نکال کے دکھاٸی۔ مہرو نے پہنی اور آیان کی طرف دیکھا۔
"بہت پیاری لگ رہی ہے" پھر اس نے ایک دو اور جوتے پسند کیے بل پے کیا اور دکان سے باہر آۓ۔
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسف ہاٶس میں سب ڈنر کر رہے تھے۔ آیان نے پلیٹ تو اپنے آگے کر لی تھی پر کھانا شروع نہیں کیا۔
"بیٹا کھا کیوں نہیں رہے" شازیہ بیگم بولیں۔
"کھانے لگا ہوں" کہہ کے اس نے چاولوں سے بھرا چمچ منہ کے آگے کیا پر پھر واپس پلیٹ میں رکھ دیا اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی عجیب کیفیت تھی وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔ پھر اٹھ گیا۔
"بیٹا کھانا تو کھا لو"
"ماما دل نہیں کر رہا"
"طبعیت تو ٹھیک ہے "
"جی" کہتا وہ اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاۓ آیان" وہ ابھی جینٹس بوتیک میں داخل ہونے لگے تھے کے آیان کی کلاس فیلو لاٸبہ نے اسے دیکھ لیا اور پھر ان کے قریب آ گٸی۔
"ہاۓ" نا چاہتے ہوے بھی آیان نے جواب دیا۔
"کیسے ہو اور یہ کون ہے" اس نے مہروالنسإ کی طرف دیکھ کے پوچھا۔
"ماٸی واٸف"
"او ہاۓ" پھر اس نے مہرو کی طرف دیکھا۔
"ہاۓ" مہرو نے آیان کی طرف ایسے دیکھا کے یہ کون ہے۔
"میں اس کی فرینڈ لاٸبہ" لاٸبہ مسکراتے ہوے بولی۔
"فرینڈ" آیان ذیر لب بڑبڑایا۔
"ویسے آیان کب کی تم نے شادی اور بلایا بھی نہیں کوٸی ایسا کرتا ہے اپنے فرینڈ کے ساتھ" مہرو کو تو وہ بہت بُری لگی۔ لگنی تو تھی اس کے آیان کی فرینڈ جو تھی وہ کیسے برداشت کرتی کوٸی لڑکی آیان کی فرینڈ ہو وہ تھوڑا ساٸیڈ پہ ہو گٸی۔ آیان نے مہرو کے ایکسریشنز دیکھے تو محفوظ ہوا۔
"بلانا تو تھا پر شادی اتنی جلدی میں ہوٸی اور پھر تمہارا نمبر بھی مجھ سے ڈیلیٹ ہو گیا تھا" وہ اب مسکرا کے گویا ہوا۔ مہرو کو بُرا تو بہت لگ رہا تھا آیان کا اس سے بات کرنا پر وہ اسے کچھ کہہ کے بعد میں یہ نہیں سننا چاہتی تھی کے تم جیلس ہو رہی تھی نا۔
"ابھی لے لو میرا نمبر اور اب سیو کر لینا"
"ہاں دے دو بات ہی کر لیا کریں گے" وہ کہہ تو لاٸبہ سے رہا تھا پر دیکھ مہرو کی طرف رہا تھا۔ لاٸبہ نے اسے نمبر لکھوایا۔
"ارہم کیسا ہے اور اس نے بھی تو شادی نہیں کر لی"
"ٹھیک ہے وہ ایسا ہو سکتا ہے کے تمہارے بغیر شادی کر لے میں نے بھی تمہیں بلانا تھا وہ تو۔۔۔۔" مہرو کی برداشت جواب دے گٸی تو اس نے رُخ بدل لیا۔ آیان اسے دیکھ کے مسکرایا۔
"اتنی دیر بعد ملے ہیں چلو آٶ کچھ کھاٸیں" تھی تو ویسے یہ حد ہی پر اسے مہرو کے تاثرات دیکھنے کا مزہ آ رہا تھا۔
"اوکے چلو آٶ مہرو" وہ مہرو کو دیکھ کے بولا۔
"نہیں آپ لوگ جاٸیں میں کار میں ویٹ کرتی ہوں" وہ آیان کو گھورتی ہوٸی بولی۔
"ہاں ٹھیک ہے آ جاٶ آیان" وہ تو یہی چاہتی تھی۔
"آیان میں جا رہی ہوں" 
"کہاں؟"
"گاڑی میں"
"چابی میرے پاس ہے" وہ مسکراتے ہوے بولا۔
"تو رکھیں اپنے پاس میں روڈ پہ کھڑی انتظار کر لیتی ہوں" غصے میں کہتی وہ مال سے نکل گٸی۔
                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ کیا ہو رہا ہے مجھے" ارہم نے اپنی دل کی جگہ پہ ہاتھ رکھ دیا پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا وہ بالکنی میں آ گیا ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پڑے کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پر گھبراہٹ تھی کے بڑھتی جا رہی تھی دل ایسے بند ہو رہا تھا۔
                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پھر ملیں گے میں چلتا ہوں" وہ لاٸبہ سے کہتا مال سے نکل گیا۔
"فون کر لینا مجھے" پیچھے سے وہ اونچی آواز میں بولی۔ پر آیان نے جواب نہیں دیا۔
"مسز آیان کیا ہوا" وہ مسکراتا ہوا اونچی آواز میں بولا ۔مہرو اس سے بیس قدم آگے تھی۔
مہرو اپنی ہی دھن میں چلتے روڈ تک آ گٸی۔ ایک کار  تیز رفتاری سے آ رہی تھی۔
"مہرو سامنے دیکھو" پر مہرو کو تو ہوش ہی نہیں تھا۔
"مہروووو" آیان نے شاپر وہیں گِراۓ اور بھاگتا اس تک پہنچا اور اسے آگے دھکا دے دیا۔ کار کی سپیڈ تیز ہونے کی وجہ سے بریک لگاتے لگاتے بھی گاڑی آیان سے ٹکڑا گٸی اور وہ سڑک کے اس پار جا گِرا۔
مہرو نے گردن موڑ کے اپنے پیچھے دیکھا اور چلاٸی۔
"آیانننننن۔۔۔۔" وہ دیوانہ وار بھاگتی ہوٸی اس کے قریب گٸی اس کا پورا وجود خون سے لت پت تھا۔سڑک پہ خون پھیل رہا تھا کتنے ہی لوگ جمع ہو گٸے۔
"آ۔۔یا۔۔ن" وہ اس کے قریب بیٹھی۔اس کا سر اپنی گود میں رکھا۔
"آیان"   مہرو نے اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا مہرو نے وہاں اپنا ہاتھ رکھ دیا۔آنسو روانگی سے بہہ رہے تھے اسے اپنی جان نکلتی ہوٸی محسوس ہوٸی پر نہیں۔۔۔اسے ہمت کرنی تھی۔
"مم۔۔مہرو۔۔تم ٹ۔۔ٹھیک ہو" آیان بمشکل بول پایا آنکھیں کھلی ہوٸی تھی وہ مہرو کو دیکھ رہا تھا۔
"آیا۔۔ن آپ۔۔کیوں۔۔آگے۔۔آۓ" مہرو نے اس کا گال تھپتھپایا۔ آیان کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔
"آیان میری طرف دیکھیں" مہرو نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ آیان نے اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا درد کی لہر اس کے جسم سے گزری تو منہ سے کراہ نکلی۔
"آیان آپ۔۔آپ کو کچھ نہیں ہو گا"
"مہ۔۔مہرو۔۔میں۔۔تم" آااا اس نے ہونٹ بھنیچے۔
"آیان۔۔۔کچھ نہیں ہو گا آپ کو وہ اسے کہہ رہی تھی یا خود کو دلاسہ دے رہی تھی۔
"م۔۔مہر۔۔و" اس کی سانس اٹکنے لگی۔
                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)

 

محبت،یقین اور خواہش Completed 💕Where stories live. Discover now