محبت، یقین اور خواہش

2.5K 115 14
                                    

قسط:٥
کراچی کا موسم خشگوار تھا۔ہلکی ہلکی ہوا موسم کو ٹھنڈا اور حوبصورت بنا رہی تھی۔آسمان پر سیاہی پھیلنا شروع ہو گٸی۔ عابد ہاٶس میں سب ڈنر پہ جانے کی تیاری کر رہے تھے کیونکہ ربعیہ بیگم (مہرو کی ماما) نے ان سے کہا تھا کے اگر ایک بھی گھر رہا تو میں آپ سے ناراض ہو جاٶں گی مہرو بھی سب کو گھر جا کے کہہ کے آٸی تھی اس لیے سب ہی جا رہے تھے۔
"عنزہ ابھی تک ہوٸی نہیں تیار مجھے پتہ تھا تم ایسا ہی کرو گی اس لیے میں نے تمہیں گھنٹا پہلے ہی کہہ دیا تھا" ریحانہ عنزہ کو جھڑک رہی تھیں
"کیا ماما ابھی دس منٹ پہلے ہی تو آٸی ہوں" وہ لپ گلوز لگاتے بولی۔
"مجھے تو سمجھ نہیں آتی ابھی تو میک اپ نہیں کرتی تو یہ خال ہے جب کرو گی تو پتہ نہیں کیا ہو گا"
"اچھا اب بس بھی کر دیں خود تو آپ نے کپڑے پہنے نہیں ابھی تک" وہ انہیں دیکھتے بولی جو گھر کے سادہ سے سوٹ میں ملبوث تھیں۔
"میں نے تمہاری طرح گھنٹوں نہیں لگانے تیار ہونے میں۔اب پانچ منٹ میں تیار ہو کے باہر نکلو" وہ اسے کہتی کمرے سے نکل گٸیں۔
سحر شیشے کے سامنے کھڑی اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔ اس نے واٸٹ ٹراٶزر کے اوپر پرپل شرٹ جو کے گھٹنوں سے تھوڑا اوپر تھی پہنی تھی۔سلکی سیاہ بال کھلے چھوڑے تھے گلے میں وہی واٸٹ گولڈ کا پینڈنٹ پہنا تھا یہ حقیقت بھی اس پہ شادی کے دو دن بعد ہی کھلی تھی۔
("مہرو تمہارا پینڈنٹ کہاں ہے" وہ سونے کے لیے لیٹنے لگی تھی جب فیضی نے سحر سے پوچھا
"آاا وہ تو میں نے نہاتے ہوے اتار کے واش بیسن پہ رکھا تھا کہ بلیک نا ہو جاٸے"
"نہیں ہوتا بلیک"
"کیوں نہیں ہوتا ہو جاتا ہے" کہتی ہوٸی وہ پینڈنٹ لینے چلے گٸی۔
"یار یہ گولڈ ہے" جب وہ لاٸی تو فیضی نے اس سے کہا۔
"کیااا" وہ حیران ہوتے بولی۔
"ایسی تو میں نے کوٸی بڑی بات کی نہیں جو تم اتنا حیران ہو رہی ہو"
"فیضی آپ کو مجھے پہلے بتانا چاہیے تھا نا" وہ منہ بناتی بولی۔
"بتاتا تو کیا ہوتا" وہ پیار سے بولا۔
"ویسے آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کے گولڈ بھی بلیک ہو جاتے" وہ اسے دیکھتے ہوے بولی۔
"ہاں تو جب ہو گا تو نیا لا دوں گا" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا۔
وہ شرماٸی اور پھر کمبل منہ پہ کر کے لیٹ گٸی۔ فیضی اس کے اس طرح شرمانے پر مسکرایا اور پھر اس کے چہرے سے کمبل ہٹا کے بولا۔
"لاٶ میں پہنا دوں"
"نہیں میں صبح پہن لوں گی" کہہ کر اس نے کمبل دوبارہ منہ پہ کر لیا۔)
کانوں میں ٹاپس پہنے تھے وہ زیادہ جیولری نہیں پہنتی تھی۔لاٸٹ سا میک اپ دوپٹہ کندھے کی ایک ساٸڈ پہ ڈالے وہ پلٹی ہی تھی کے فیضی کے سینے جا لگی۔
"فیضییی"
"جی فیضی کی جان"
"یہاں کیا کر رہے تھے آپ" وہ اس سے الگ ہوتے بولی
"اپنی شریک حیات کو دیکھ رہا تھا" وہ محبت بھرے انداز میں بولا۔
"فیضی"
"جی فیضی کی جان" وہ اسی کے انداز میں بولا۔
"آپ بھی نا اچھا یہ بتاٸیں میں کیسی لگ رہی ہوں" وہ چہکتے ہوے بولی۔
"بہت پیاری" وہ اسے قریب کرتے بولا۔
"چھوڑیں نا کوٸی آ جاٸے گا"
"نہیں آتا میں نے دروازہ لاک کیے اور ویسے بھی تم میری بیوی ہو" پھر اس نے اسے خود سے الگ گیا اور بولا ۔
"بتاٶ میں کیسا لگ رہا ہوں"
اس نے بلیو جینز پہ واٸٹ شرٹ پہنی تھی اور اوپر بلیو جیکٹ بالوں کو نفاست سے سیٹ کیا تھا۔
"بہت پیارے" وہ نظریں جھکاٸے بولی۔
"یار تم مجھ سے اتنا شرماتی کیوں ہوں وہ اس کی چھوٹی سی ناک کو پکڑے داٸیں باٸیں کرتا بولا۔ جیسے فیضی کبھی کبھی پھینی کہتا تھا۔
"تم لوگ ہوے نہیں تیار" شعبانہ دروازہ ناک کرتے ہوے بولیں۔
"آ رہے ہیں ماما" پھر وہ دونوں کمرے سے باہر نکل گٸے۔
"کیسا لگ رہا ہوں آپی" زیشان سحر کے سامنے کھڑا ہوتا بولا۔
"بہت بونگے" سحر کے بولنے سے پہلے ہی عنزہ بولی۔
"تم سے میں نے پوچھا ہے موٹی چڑیل۔ بتاٸیں نا آپی کیسا لگ رہا ہوں" شانی نے واٸٹ جینز کے اوپر میرون ٹی شرٹ پہنی تھی۔
"بہت پیارے لگ رہے ہو ماٸی سویٹ برو"
"پوچھ کے تعریف کروانا بھی کیا کروانا ہنہہ" عنزہ بولی۔
"چلو جیسے بھی ہوٸی ہو تو گٸی تمہیں تو کسی نے دیکھا بھی نہیں"
"کیوں جی میری بہن تو شہزادی لگ رہی ہے" فیضان عنزہ کو گلے لگاتا بولا۔
عنزہ نے منہ چڑا کے شانی کو دیکھا۔
"شہزادی کے نام پہ دبا"
"تم لوگ پھر شروع ہو گٸے چلو نکلیں اب" عابد صاحب بولے۔ "فیضان تم اپنی گاڑی میں سحر عنزہ اور شعبانہ کو لے جاٶ دوسری گاڑی پہ میں عابد ریحانہ اور زیشان آتے ہیں"
"بابا چچی کو آپ اپنی گاڑی میں لے جاٸیں میں فیضی بھاٸی کے ساتھ جاٶں گا" وہ جانتا تھا نا ہی وہ کوٸی گانا لگانے دیں گے اور نا فالتو بولنے دیں گے
"میں نے کہہ دیا نا فیضی چلو تم لوگ نکلو ہم بھی آتے ہیں"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مہرو بیٹا کپڑے چینج کر لو وہ آتے ہی ہوں گے۔ اور حور بیٹا آپ بھی کپڑے چینج کر آٶ" ربیعہ نے ہال میں بیٹھے ہی ان سے کہا وہ دونوں کچن میں کھانا بنا رہی تھیں کام بہت زیادہ تھا اس لیے مہرو نے حور کو بھی بلا لیا تھا اور پھر دونوں نے مل کے سب بنایا ۔
"احمد اور ساجدہ (حور کی ماما) کو بھی لے آنا" وہ اپناٸیت بھرے لہجے میں بولی۔
"نہیں آنٹی آپ کے گیسٹ آنے ہیں ہم پھر کبھی آٸیں گے" وہ ان کے پاس آتی بولی۔
"بیٹا وہ مہمان نہیں ہماری فیملی ہی ہے اور جاٶ اب آپ بھی کپڑے چینج کر کے جلدی آ جانا"
"اوکے آنٹی" کہتی وہ باہر کو چل دی۔
ملنے ملانے کے بعد سب ہال میں ہی صوفوں پہ بیٹھ گٸے۔
"کیسی جا رہی ہے میرڈ لاٸف" مہرو سحر کو کندھا مارتی شرارت سے بولی۔
"اچھی ہے" وہ شرماتی ہوٸی بولی۔
"اففف آپ کا شرمانا۔ اچھا یہ بتاٶ ہنی مون پہ کہاں جا رہی ہو"
"میرا تو کوٸی موڈ نہیں اتنی سردی میں کہیں جانے کا۔ فیضی کہہ رہے تھے مری چلیں گے"
"آہاں فیضی کہہ رہے تھے" مہرو اسے تنگ کرتے ہوے بولی اتنی دیر میں حور اور احمد بھی آ گٸے۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم" اس نے سب کو سلام کیا بڑوں سے سر پہ پیار لیا سحر تو اسے دو تین دفعہ مل چکی تھی باقی سب پہلی دفعہ مل رہے تھے پر سحر اس کے بارے میں گھر بتا چکی تھی۔
"آٶ حور بیٹا میرے پاس بیٹھو شعبانہ پیار سے بولیں" وہ ان کے ساتھ بیٹھ گٸی۔
"کیسی ہو بیٹا"
"ٹھیک ہوں آنٹی"
"ماما کیوں نہیں آٸیں" ربعیہ بیگم مخاطب ہوٸیں۔
"وہ سو گٸی تھیں"
احمد خالد صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔
"کیسے ہو بیٹا "
"ٹھیک ہوں انکل"
"کون سی کلاس میں ہو"
"سیون میں"
"گڈ بواٸے اچھا پڑھتے ہو یا بس گزارا ہی ہے "۔وہ مسکراتے ہوے بولے۔
"اچھا پڑھتا ہوں "
"پوچھتا ہوں تمہاری آپی سے بتاٶ حور بیٹا کیسا پڑھتا ہے یہ" وہ حور کی طرف دیکھتے بولے۔
"ٹھیک پڑھتا ہے انکل میں خود پڑھاتی ہوں اسے "
"شاباش"
"آپ بتاٶ آپ کیا کرتی ہو"
"پراٸیوٹ تھرڈ اٸیر میں ایڈمیشن لیا ہے اور ساتھ والے گاٶں کے سکول میں ٹیچنگ اسٹارٹ کی ہے"
"ویری گڈ"
"کس کلاس کو پڑھاتی ہیں"
"تھری کو"
"بیٹا کبھی بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ بلا جھجک ہم سے کہنا ۔ ہم آپ کے اپنے ہی ہیں"
"جی انکل تھینکس"
"اپنوں کو تھینکس نہیں کہتے بیٹا" ریحانہ بیگم بولیں۔
"جی آپی آپ نے کبھی بھی کچھ منگوانا ہوا یا کوٸی اور کام ہوا تو مجھ سے کہیے گا میں ویلا بندہ حاضر ہوں گا" زیشان مسکراتا ہوا بولا۔ اس کی اس بات پہ سب مسکرا دیے۔
"سچ میں یہ ویلا ہی ہے پڑھتا تو ہے نہیں" عنزہ بولی۔
"اچھا پڑے بغیر ہی انٹر کر لیا ہے میں نے "
"وہ تو اللہ تمہیں پاس کر دیتے ہیں" عنزہ بولی.
"کہیں تو خاموش ہو جایا کرو تم دونوں" ریحانہ بیگم بولیں۔
"حور چلو آٶ کھانا لگاٸیں"
" میں بھی چلتی ہوں" سحر اٹھتی ہوٸی بولی۔
"نہیں بیٹا تم بیٹھو" ساجدہ بیگم نے کہا۔
"کوٸی بات نہیں آنٹی" کہتی وہ ان کے ساتھ کچن کی جانب بڑھ گٸی۔
"چلو سیری تم یہ چاول لے کے آٶ" مہرو نے کچھ اور باٶلز پکڑتے ہوے سحر سے کہا۔
"شرم تو نہیں آتی تمہیں میں مہمان آٸی ہوں تمہارے گھر" سحر آنکھیں سکیڑیں بولی۔
"تم مہمان نہیں میری بہن ہو چل اب پکڑ اور آ"
اس کے کہتے ہوے حور نے وہ چاولوں والا باٶل اٹھا لیا۔
"رہنے دو حور میں تو اسے تنگ کر رہی تھی" سحر بولی۔
"چلیں آ جاٸیں آپ اب" حور کہتی ہوٸی ڈاٸنگ کی طرف بڑھ گٸی۔
"حور مجھے آپ نہیں تم کہا کرو میں تم جتنی ہی ہوں " سحر نے مسکراتے ہوے حور سے کہا۔
"اوکے" حور بولی۔
سب نے کھانا کھایا اور پھر لاٶنج میں آ گٸے۔"بہت مزے کا بنا تھا سب" ریحانہ بولیں۔
"تھینکیو آنٹی میں نے اور حور نے مل کے بنایا ہے" مہرو نے کہا ۔
"ہمم سب بہت اچھا بنا تھا"
بڑے سب صوفوں پہ بیٹھ گٸے اور چھوٹے دوسری ساٸڈ پہ قالین پہ بیٹھ گٸے۔
"ویسے مہرو آپی مجھے سمجھ نہیں آتا یہ ساری خوبصورت لڑکیاں مجھ سے بڑی کیوں ہیں" شانی نے اپنا دکھرا سنایا۔
"کیا مطلب" مہرو نا سمجھی والے انداز میں بولی۔
"مطلب یہ کے آپ بھی مجھ سے بڑی ہیں حور آپی اتنی پیاری ہیں وہ بھی مجھ سے بڑی ہیں" شانی منہ بناتا بولا۔
"شرم تو نہیں آتی تمہیں" مہرو بولی۔
"بالکل بھی نہیں" شانی مسکراتا ہوا بولا۔
"بتاتی ہوں میں فیضی بھاٸی کو کے اس کے دُکھرے بھی سن لیں" عنزہ آنکھیں بڑی کر کے بولی۔
"میں تو مزاق کر رہا ہوں مو۔۔۔"
"کہو کہو جو کہنے لگے تھے اب تو بتا کے رہوں گی"
"حور آپی آپ ٹینشن نا لیں یہ میری پیاری بہن بہت اچھی ہے وہ تو بس مجھے تنگ کر رہی ہے راٸٹ ماٸی سویٹ سیسٹر" شانی عنزہ کو مکھن لگانے لگا۔
"ایک شرط پہ نہیں بتاٶں گی اور شرط تم جانتے ہو"
"دے دوں گا تمہیں ڈیری ملک چوّل"
"ویری گڈ ماٸی برو" عنزہ ڈراماٸی انداز میں بولی۔
"چلو بچو آ جاٶ بہت ٹاٸم ہو گیا ہے" ریحانہ بیگم نے کہا۔
"آنٹی تھوڑی دیر رُک جاٸیں نا" مہرو بولی۔
"نہیں بیٹا اب آپ آنا اور حور اور احمد کو بھی لانا"
"اوکے آنٹی"
"یہ رہا آپ کا انعام بہت اچھا کھانا بنایا آپ دونوں نے حور بیٹا یہ آپ کے پیسے اور مہرو بیٹا یہ آپ کے" عابد صاحب نے دونوں کو پانچ پانچ ہزار روپے پکڑاٸے۔
"تھینکیو انکل" مہرو نے کہا۔
"انکل رہنے دیں آپ لوگوں نے اتنا پیار دیا مجھے اسی میں بہت خوشی ہوٸی" حور پیسے ان کی طرف کیے بولی۔
"بیٹا یہ آپ کا انعام ہے اور میں خوشی سے دے رہا ہوں چلو رکھو اپنے پاس" عابد صاحب اس کے سر پہ پیار دیتے بولے۔ "اور احمد بیٹا یہ آپ رکھو کچھ لے کے کھا لینا" وہ احمد کو ہزار روپیہ دیتے بولے۔
"تھینکس انکل" وہ مسکراتے ہوے بولا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آ گٸی بیٹا" ساجدہ نے پوچھا۔
"جی ماما تھوڑی دیر پہلے ہی آٸی آنٹی نے آپ کے لیے کھانا بھی بھجوایا ہے" حور ان کے قریب چارپاٸی پہ بیٹھتی بولی۔
"بیٹا آپ نے منع کر دینا تھا نا "
"آنٹی کہہ رہی تھیں گھر جا کے پھر بناٶ گی اس لیے یہی لے جاٶ سحر کے بڑے پاپا نے مجھے اور احمد کو پیسے بھی دیے ہیں ماما وہ لوگ بہت اچھے ہیں کہہ رہے تھے مہرو کے ساتھ آنا اور اس کا کزن زیشان مجھے بہت اچا لگا بہت مزاق کرتا ہے سب آپ کو سلام دے رہے تھے" وہ خوش ہوتے ماما کو بتا رہی تھی۔
"جی ماما مجھے بھی سب بہت اچھے لگے میں تو جاٶں گا مہرو آپی کے ساتھ ان کے گھر" احمد بولا۔
"ہاں ہاں ٹھیک ہے چلے جانا اب سو جاٶ صبح اسکول بھی جانا ہے اور مہرو بیٹا آپ بھی سو جاٶ گڈ ناٸیٹ بیٹا" وہ اس کے سر پہ پیار کرتے بولی
"گڈ ناٸیٹ ماما "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما ماما یہ دیکھیں شانی نے میرا چارجر خراب کر دیا لاسٹ ٹاٸم اسی نے لگایا تھا جب ہم مہرو آپی کے گھر جانے لگے تھے مامااا" عنزہ اونچی آواز میں کہہ رہی تھی۔
"کیا ہے آہستہ بولو اور کیا ہو گیا ہے تمہارے چارجر کو" ریحانہ کمرے میں آتی بولیں۔
"ماما یہ دیکھیں نہیں لگ رہا" وہ چارجر کی لیڈ دباتے بولی۔
"ابھی سو جاٶ صبح دیکھوں گی کیا ہوے کیا نہیں" وہ کہتی کمرے سے نکل گٸیں۔
"ماماااا"
"میں نے کہا نا منہ بند کر کے لیٹ جاٶ"
"کیسے لیٹ جاٶں ابھی تو میں نے ڈرامہ دیکھنا ہے بتاتی ہوں میں شانی کے بچے کو" وہ بڑبڑاتی اس کے کمرے کی طرف چل دی۔
"کیا ہے موٹی تمیز نہیں بندہ دروازہ ناک کر کے آتے" شانی جو کے لیٹا موباٸل یوز کر رہا تھا بیٹھتا ہوا بولا۔
"کیوں تم ایسا کیا کر رہے تھے" عنزہ نے مشکوک نظروں سے شانی کو دیکھا۔
"تمہاری بھابھی سے بات آٶ تم بھی کر لو"
"شانی تمہیں شرم نہیں آتی عمر دیکھی ہے تم نے اپنی" عنزہ آنکھیں بڑی کیے بولی۔
"چل اب نکل یہاں سے کال آ رہی ہے اس کی" کہتے ہی فون اس نے کان سے لگا لیا ۔ "کیسی ہو... ہاں تمہاری موٹی نند آ گٸی تھی اس لیے ریپلاٸی نہیں کیا"
"شانی کے بچے" عنزہ موباٸل کھیچتی ہوٸی بولی۔
"کیا ہے عنزہ میرا موباٸل واپس کر" وہ اس سے موباٸل پکڑنے کے لیے اٹھا۔
"میں ابو سے بات تو کرواٶں ان کی ہونے والی بہو کی" وہ کمرے سے باہر بھاگتی ہوٸی بولی۔
"عنزہ اوٸے پاغل" وہ اس کے پیچھے بھاگا اور پھر اس سے موباٸل چھین لیا۔
"اب ڈر کیوں گٸے کروانی تھی نا بات" عنزہ ایک ہاتھ کمر پہ رکھ کے بولی۔
"موٹی میں مزاق کر رہا تھا یہ لے دیکھ لے موباٸل" اس نے عنزہ کی طرف موباٸل بڑھایا ۔
"مجھے پتا تھا" وہ ہنستے ہوے بولی۔ "تم نے میرا چارجر خراب کیے اب اپنا دو مجھے"
"میں نے کب کیا ہے" وہ ایک آبرو اوپر کر کے بولا۔
"تم نے ہی لگایا تھا لاسٹ ٹاٸم اب اپنا دو نہیں تو میں پاپا کو بتاٶں گی کے یہ اس ٹاٸم موباٸل یوز کر رہے"
"جاٶ بتاٶ تم بھی تو اسی ٹاٸم یوز کرنے کے لیے چارجر مانگ رہی ہو نا" وہ بیڈ پہ لیٹتا ہوا بولا۔
"شانی بس آدھے گھنٹے کے لیے دے دو نا" وہ نرمی سے بولی۔
"نہیں اب جاٶ تم بتاٶ جا کہ"
"شانی مجھے نا بلانا اب پوری زندگی" کہتی وہ باہر نکل گٸی۔وہ بھی اس کے پیچھے اس کے کمرے میں گیا۔
"کیا ہے اب"
"چارجر دکھا اپنا زیادہ نہرے کرنے کی ضرورت نہیں"
"وہ لگا ہوا" اس نے موباٸل کی طرف اشارہ کیا زیشان نے چارجر لگایا اور بٹن آن کیا تو چارجر لگ گیا
"کیا ہے اسے سہی تو ہے ضرور تم بٹن آن کرنا بھول گٸی ہو گی ہے ناااا"
"ہاں" اس نے دانت دکھاۓ۔
"اب بہت دانت نکل رہے ہیں تمہارے ایک ہی ڈرامہ دیکھنا اور پھر سو جانا گڈ ناٸیٹ "
"گڈ ناٸیٹ برو"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیان اور ارہم پیپر دے کے فری ہو چکے تھے وہ اب باقاعدگی سے آفس جاتے تھے وہ سب ناشتہ کر رہے تھے جب ارہم بولا۔
"بابا میں آج دوپہر کو آفس آٶں گا مجھے ایک دوست سے ملنا ہے" انہوں نے کچھ دن پہلے ہی آفس جانا شروع کیا تھا اور دونوں ہی بہت اچھے سے کام کرتے تھے اس لیے آصف نے ارہم کو اجازت دے دی ۔
"تھینکس بابا ابھی تو میں سونے لگا ہوں بہت نیند آ رہی ہے"۔
"ناشتہ تو کر لو بیٹا" شازیہ بیگم بولیں۔
"اٹھ کے کر لوں گا ماما"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیز تیز ہوا چل رہی تھی آسمان پر کالے بادل چھانا شروع ہو گٸے۔ حور اسکول گیٹ کے پاس کھڑی رکشے والے کے آنے کا انتظار کر رہی تھی ۔سب اسٹوڈینٹس اور ٹیچرز گھر جا چکے تھے صرف گیٹ کیپر ہی رہ گیا تھا وہ مسلسل حور کو گھور رہا تھا حور نے اسٹالر سے نقاب کیا ہوا تھا اور بڑی سے چادر کندھوں پہ ڈالی ہوٸی تھی جس سے اس کا کافی حد تک جسم چھپ گیا تھا صرف تھوڑی سے قمیض ہی نظر آ رہی تھی۔ دو بکس اس نے اپنے سینے سے لگاٸی ہوٸی تھیں جب وہ اسکول فری ہوتی تو اپنا سبق یاد کر لیتی تھی۔
"بیٹا اگر تمہارے رکشے والا نہیں آیا تو میں چھوڑ آوں تمہیں" گیٹ کیپر عجیب لہجے میں اس سے مخاطب ہوا۔
"نن۔۔نہیں انکل میں چلی جاتی ہوں آگے بہت سے رکشے ہوں گے" کہتی وہ لمبے لمبے ڈگ بڑھتی وہاں سے چلی گٸی۔
موسم بہت خراب ہو رہا تھا اندھیرا چھانا شروع ہو گیا وہ گھبرا رہی تھی اس کی دھڑکن تیز ہو گٸی تھی۔ روڈ سنسان تھا پھر پیچھے سے دو باٸیکس کی آواز آٸی دونوں پہ دو دو لڑکے بیٹھے تھے اور اونچی اونچی ہنس رہے تھے حور نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا باٸیکس قریب آ رہی تھیں لڑکے ویسل بجا رہے تھے۔
"سوہنیو کدھر جا رہے ہو آٶ ہم چھوڑ دیں" وہ اب اس کے نزدیک آ گٸے تھے ایک موٹر ساٸیکل داٸیں ساٸیڈ پہ اور دوسری باٸیں ساٸیڈ پہ۔ وہ کانپنا شروع ہو گٸی اس کو اپنی جان نکلتی ہوٸی محسوس ہوٸی وہ نظریں جھکاٸے چلتی جا رہی تھی اس کے لیے قدم اٹھانا مشکل ہو رہا تھا آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے ۔ پھر ایک لڑکے نے اس کی چادر کھینچی تو چادر ایک شانے سے پھسل گٸی "ہماری طرف تو دیکھو" ایک لڑکا باٸیک سے اترتا بولا۔ اس نے چادر دوبارہ کندھے پہ کی وہ مسلسل کچھ پڑھ رہی تھی شاید اللہ کو پکار رہی تھی اور پھر اللہ تو ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے کیوں نا سنتا۔ پھر ایک اور لڑکا بھی اترا جب ایک کار ان کے قریب رکی وہ دونوں موٹر ساٸیکل پہ بیٹھے اور موٹر ساٸیکل اڑاتے نکل گٸے۔ ایک لڑکا کار سے باہر نکلا ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔
"میم آپ کو کہاں جانا ہے" وہ اس کے قریب آتا بولا۔
لیکن حور سے تو بولا ہی نہیں جا رہا تھا اس نے اپنی ساری ہمت مجتمع کی اور بولی ۔
"سا۔۔۔ساتھ والے گاٶں" آنکھوں سے مسلسل نکلتے آنسوٶں سے اس کا نقاب والا اسٹالر کافی حد تک گیلا ہو گیا تھا اور پھر بارش بھی تیز ہو گٸی تھی۔
"آٸیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں بارش بھی بہت تیز ہو گٸی"
"نن۔۔۔نہیں م۔۔میں چلی جاٶں گی" پھر بجلی چمکی اور اس کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکلی اس نے دونوں ہاتھ کانوں پہ رکھ لیے بکس نیچے گر گٸی تھیں وہ بجلی سے ڈرتی تھی۔
"جسٹ ریلیکسڈ میم کچھ نہیں ہوتا"ا اس نے بکس اٹھا کے کار میں رکھی بجلی ایک دفعہ پھر چمکی اب وہ اونچی اونچی رونا شروع ہو گٸی ہاتھ ابھی بھی کانوں پہ ہی تھے اور پھر وہ گرنے ہی لگی تھی کے سامنے کھڑے شخص نے اسے تھام لیا وہ بے ہوش ہو گٸ تھی اگر ہوش میں ہوتی تو کبھی بھی کسی نا محرم کو خود کو ٹچ کرنے نا دیتی اس نے اسے کار میں بٹھایا اور خود بیٹھ کے کار کا دروازہ بند کر لیا کار ایک ساٸڈ پہ کھڑی کر کے اس نے حور کے ہاتھ ملے وہ بہت گرم تھی شاید بخار تھا اسنے دونوں ہاتھ باری باری ملے مقابل شاید پہلی دفعہ اس سچویشن سے گزر رہا تھا اس لیے اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے نقاب لوز ہو چکا تھا لیکن ابھی بھی چہرہ چھپاٸے ہوے تھا پھر اس نے ڈش بورڈ سے پانی کی بوتل اٹھاٸی اور اس کی آنکھوں پہ چھڑکا حور نے آنکھیں کھولیں اور مقابل کے لیے نظریں ہٹانا مشکل ہو گیا ہیزل گرین بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں۔ اس نے آنکھیں دوبارہ بند کر لیں شاید کھولنا مشکل ہو رہا تھا اس شخص نے سر جھٹک کے اسے کندھے سے ہلایا۔
"میم میم"
وہ ایک دم خوش میں آٸی۔
"ماما ماما میں یہاں" پھر سب اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرا
"دروازہ کھولیں مجھے گھر جانا ہے" وہ دروازے پہ ہاتھ رکھتی بولی۔
"میم بارش بہت تیز ہے اور یہاں تو کوٸی رکشہ بھی نہیں ملے گا میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں میرا یقین کریں میں بُرا لڑکا نہیں ہوں۔ یا آپ ایسا کریں مجھے اپنے بابا یا بھاٸی کا نمبر دیں میں انہیں کال کر کے بلا لیتا ہوں" کیسے دوں میں نمبر بابا کا کیسے وہ تو مجھے چھوڑ کے چلے گٸے ہیں نہیں ہیں میرے بابا نہیں ہیں اور ۔۔۔اور بھاٸی وہ تو ابھی بہت چھوٹا ہے کیسے لینے آٸے گا مجھے سوچتے ہوۓ پھر آنسوٶں کی ندی بہہ نکلی اور نکلتی ہی گٸی۔
"کیا ہوا میم آپ ٹھیک تو ہیں میں آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں"
"نن۔۔ نہیں" اس کی ہچکیاں بندھ گٸی تھیں۔
"تو پھر آپ مجھے نمبر دیں میں آپ کے گھر سے کسی کو بلا لیتا ہوں"
"میرے بابا۔۔اس د۔۔دنیا میں نہیں ہیں" کہتے ہی وہ زاروقطار رونا شروع ہو گٸی۔
اس شخص کو حور کو آنسو اپنے دل پہ گرتے محسوس ہوے "آپ روٸیں نہیں میں چھوڑ آتا ہوں آپ کو"
"کوٸی دیکھ لے گا تو باتیں بناٸے گا" وہ آنسو صاف کرتی بولی۔
"اس کے بلیک شیشے ہیں باہر والوں کو ہم نظر نہیں آٸیں گے میں آپ کو گھر سے تھوڑا پیچھے اتار دوں گا"
حور نے سر ہلایا اور پھر نقاب ٹھیک کر کے ونڈو سے باہر دیکھنا شروع ہو گٸی۔
"بس یہیں اتار دیں" گھر سے تھوڑا پیچھے ہی اس نے اتارنے کا کہہ دیا لڑکے نے دروازہ کھولا اور پھر وہ اپنے گھر کی جانب بڑھ گٸی اور لڑکا اپنی راہ کو چل پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کہاں تھی بیٹا اتنا ٹاٸم لگا دیا کتنی پریشان تھی میں احمد کو آٸے بھی گھنٹا ہو گیا ہے" حور کے داخل ہوتے ہی ساجدہ بیگم نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔اور وہ ان کے سینے لگ کے رونا شروع ہو گٸی۔
"کیا ہوا ہے میرا بچہ بتاٶ بھی میرا دل بیٹھا جا رہے احمد جاٶ آپی کے لیے پانی لے کے آٶ"
انہوں نے اسے برامدے میں پری چارپاٸی پہ بٹھایا اس کا نقاب کھولا تب تک احمد پانی لے آیا انہوں نے پانی کا گلاس اس کے منہ سے لگایا اس نے دو تین گھونٹ ہی لیے
"چلو میرا بیٹا بتاٶ کیا ہوا ہے وہ اس کے آنسو صاف کرتی بولیں"۔ حور نے سب بتایا اور پھر رونا شروع کر دیا۔
"چپ ہو جاٶ میرا بچہ کچھ نہیں ہوتا بس اب تم اسکول نہیں جایا کرو گی" اس نے کوٸی جواب نہیں دیا اور اٹھ کے کمرے میں چلی گٸی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)

محبت،یقین اور خواہش Completed 💕Donde viven las historias. Descúbrelo ahora