محبت، یقین اور خواہش

3.8K 150 25
                                    

                       قسط:١٠
آیان اور مہروالنسإ ناشتہ کر رہے تھے جب مہرو بولی۔
"آیان ماما کی کال آٸی تھی ڈنر پہ انواٸیٹ کیا ہے۔ تو تم مجھے آفس جاتے ہوے وہاں چھوڑ آنا اور رات کو وہیں آ جانا"۔
"اوکے ریڈی ہو جاٶ جلدی" تھوڑی دیر بعد جواب دیا گیا۔
"اوکے" کہتی وہ کمرے کی جانب بڑھ گٸی۔ آیان نے اسے ارشد ہاٶس اُتارا ۔
"ملو گے نہیں" وہ گاڑی سے اُترتے ہوے بولی۔
"لیٹ ہو رہا ہوں رات کو یہی تو آنا ہے پھر مل لوں گا تم معزرت کر لینا میری طرف سے"
"اوکے" وہ اندر چلی گٸی تو آیان نے بھی گاڑی آگے بڑھا دی۔ ارشد صاحب اور ربعیہ بیگم ناشتہ کر رہے تھے جب مہروالنسإ داخل ہوٸی۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم ماما کیسی ہیں" وہ ان کے گلے لگتی بولی۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام میری جان میں ٹھیک آپ کیسی" ہو وہ اس کا گال چومتی پیار سے بولیں۔
"میں بھی ٹھیک"
"مجھ سی بھی مل لو بھٸی میں بھی ہوں یہاں پہ" ارشد صاحب نے ہنستے ہوے اپنی موجودگی کا احساس کروایا۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم بابا" پھر وہ ان کے گلے ملی۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام میرا بیٹا کیسا ہے"
"بالکل ٹھیک "
"مجھے تو کمزور لگ رہی ہو" وہ بغور اس کو دیکھتے بولے۔
"کہاں بابا ویسی ہی ہوں"
"اچھا چلو آٶ ناشتہ کریں" وہ کرسی پہ بیٹھتے بولے۔
"نہیں بابا میں کر کے آٸی ہوں"
"تھوڑا سا کر لو نا اپنے بابا کے ساتھ" وہ محبت بھرے لہجے میں بولے تو وہ بھی ان کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گٸی۔
اور دو ہی نوالے لے کے چھوڑ دیا۔
"مہروالنسإ آیان نہیں آیا؟" ربعیہ بیگم نے پوچھا۔
"نہیں ماما وہ لیٹ ہو رہے تھے تو مجھے چھوڑ کے چلے گٸے۔ بوا کہاں ہیں؟"
"کچن میں"
"اچھا بیٹا میں چلتا ہوں الله حافظ" ارشد صاحب اس کی پیشانی چومتے اٹھ کھڑے ہوے۔
"الله حافظ...   ماما میں بوا سے مل کے آٸی" کہتی وہ کچن کی طرف بڑھ گٸی۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بتاٶں یا نا بتاٶں کیا کروں؟" سحر خود سے ہی مخاطب تھی ناشتہ کر کے وہ کمرے میں آ گٸی تھی۔ آج اس کا رزلٹ تھا۔
"نہیں بتاٶں گی ابھی ہفتہ پہلے ہی تو بتایا تھا  بھول گٸے ہیں نا تو بھول جاٸیں پچھلی دفعہ تو میں نے بتایا بھی نہیں تھا خود ہی پتہ تھا اور یہاں تک کے رولنمبر بھی چوڑی کر لیا تھا۔ اور اس دفعہ۔۔۔۔ہنہ" فیضان کمرے میں آیا تو سحر منہ بنا کے بیڈ پہ بیٹھی ہوٸی تھی۔ وہ اس کے قریب بیٹھا۔
"کیا ہوا"
(کچھ نہیں ہوا جی) دل کی آواز۔
"بولو بھی کیا ہوا" وہ نرمی سے بولا۔
"آپ کو کیا" وہ منہ پھلا کے بولی۔
"کیا میں نے کچھ کہا ہے ویسے مجھے یاد تو نہیں کے میں نے کچھ کہا ہو" وہ پر سوچ انداز میں بولا۔
(بتا دوں۔۔نہیں۔۔نہیں بتاٶں گی)
"بتاٶ بھی یار میں لیٹ ہو رہا ہوں" وہ اس کا ہاتھ پکڑتا بولا۔
"کچھ نہیں ہوا۔ مجھے کیا ہو گا"
"تو پھر یہ منہ کیوں بنایا ہوا ہے"
"کچھ نہیں ہوا جاٸیں آپ"
پکا
"ہاں نا" فیضان نے اس کے سر پہ بوسا دیا اور چلا گیا۔ اور یہاں سحر منہ پھلا کے بیٹھ گٸی۔ رزلٹ آنے میں کچھ ہی ٹاٸم بچا تھا اب تو ہارٹ بیٹ بھی تیز ہو گٸی تھی۔ وہ ٹی۔وہ لاٶنج میں آ گٸی زیشان وہیں بیٹھا میچ دیکھ رہا تھا۔ سحر بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گٸی۔
"شانی"
"جی "
"آج میرا رزلٹ ہے"
"او اچھا" مصروف انداز میں جواب دیا گیا۔ وہ بھی کندھے اُچکاتی میچ دیکھنے لگی۔ شعبانہ بیگم بھی وہی آ کے بیٹھ گٸیں۔ ان کو بیٹھے پانچ منٹ ہوے تھے کے سحر بولی۔
"ماما آج میرا رزلٹ ہے"
"اللہ تمہیں پاس کرے" کہتے انہوں نے بھی نظریں ٹی۔وی پہ ٹکا دیں۔ "کسی کو پرواہ ہی نہیں" سوچتے وہ اٹھ گٸی۔
"کہاں جا رہی ہو"
"کمرے میں"
"اچھا" پھر وہ کمرے میں چلے گٸی۔ اس حال میں اسے سیڑھیاں چڑھنے سے منع کیا گیا تھا تو وہ نیچے والے کمرے میں شفٹ ہو گٸے تھے۔
"پتا نہیں کیا ہو گیا ہے سب کو اور فیضی بھی بھول گٸے۔ سہی کہتے ہیں لوگ چیز مل جاٸے تو اس کی قدر کم ہو جاتی ہے۔ ویسے میں چیز تو نہیں ہوں پر جو بھی ہوں بات تو وہی ہے نا" وہ خود سے ہی الجھ رہی تھی۔ آج تو ویب ساٸٹ بھی وہ خود ہی اوپن کر کے بیٹھی تھی اور رول نمبر اینٹر کر دیا تھا۔ دھڑکن اتنی تیز ہو گٸی تھی کے خود کو آواز صاف سناٸی دے رہی تھی۔ مہرو کو آج کوٸی ٹینشن نہیں تھی اور ٹینشنیں تھوڑی تھی جو یہ بھی لیتی۔
۔" yayyyy پاس ہو گٸی میں" اس نے ہاتھ کی مٹھی بنا کے ہوا میں بلند کی اور بھاگتی ہوٸی لاٶنج میں گٸی۔
"ماما بڑی ماما شانی پاس ہو گٸی میں" خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔
"بہت بہت مبارک ہو میری بچی" شعبانہ بیگم نے اٹھتے ہوے گلے لگایا۔ شعبانہ بیگم نے بھی مبارکباد دی۔ "سحر زیادہ گھوموں نہیں ایک جگہ آرام سے بیٹھ جاٶ" ریحانہ بیگم نے پیار سے کہا۔ سحر زیشان کے پاس بیٹھ گٸی۔
"شانی پاس ہو گٸی میں"
"ہمم پتہ چل گیا ہے" اب وہ اپنا میچ چھوڑ کے اسے مبارک تو نہیں دے سکتا تھا نا۔
"کتنے بدتمیز ہو تم بندہ مبارک باد ہی دے دیتے"
۔"congrats" کمرشل ہونے پہ اس نے ایک لفظ منہ سے نکالا۔
"سنبھال کے رکھو اپنا congrats ہنہہ" پھر وہ اٹھ کے واپس اپنے کمرے میں آ گٸی مہرو کو بتانا اور اس سے پوچھنا بھی تو تھا۔ پہلی بیل پہ ہی فون اٹھا لیا گیا۔
"کیا بنا چڑیل"
"پاس ہو گٸی ہوں بندہ سلام ہی لے لیتے" مہرو بولی۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ ڈٸیر کیسی ہو" اب ٹھیک ہے۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ جی اب ٹھیک ہے" وہ ہنستے ہوے بولی "تم بتاٶ؟"
"میں بھی ہو گٸی پاس" وہ بھی خوشی سے بولی۔ آیان بھاٸی کو بتایا؟"
"نہیں وہ آفس ہے جب آٸے گا تو بتا دوں گی" وہ بے نیازی سے بولی۔
"جب آۓ گا نہیں جب آٸیں گے شوہر ہیں تمہارے عزت کیا کرو"
ا"چھا اچھا اب تم شروع نا ہو جانا تم بتاٶ تم نے بتایا فیضی بھاٸی کو"
"نہیں تمہارے بعد انہیں ہی کال کروں گی"
چلو ٹھیک ہے تم بات کرو ان سے الله حافظ"
"الله حافظ"
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ہر سو اپنے ساۓ پھیلا رہی تھی۔ پرندے اپنے گھروں کو روانہ ہو رہے تھے۔ سڑکوں پر گاڑیاں دوڑ رہی تھیں۔ کچھ لوگ کہیں آ رہے تھے تو کچھ جا رہے تھے۔ مہروالنسإ بُوا کے کمرے میں آٸی وہ پلنگ پہ بیٹھی ہوٸی تسبیح پڑھ رہی تھیں وہ ان کے قریب جا بیٹھی۔ وہ خاموشی سے نظریں جھکا کے بیٹھ گٸی تو انہوں نے تسبیح ایک ساٸڈ پہ رکھی اور اس سے مخاطب ہوٸیں۔
"کیا ہوا بیٹا پریشان لگ رہی ہو"
"ایک بات کرنی تھی"
"ہاں ہاں کہو بیٹا" پھر اس نے اپنی اور آیان کی ہر بات انہیں بتا دی۔
"بوا جی اب آپ بتاٸیں میں کیا کروں۔ ان۔۔ان کچھ دنوں میں۔۔میں جتنا روٸی ہوں اپنی پوری زندگی میں نہیں۔۔روٸی" وہ اب بھی رو رہی تھی آنسو بد ستور بہہ رہے تھے۔ وہ خاموشی سے اسے سن رہی تھیں۔
"بوا جی۔۔جب میں نے اس سے بدتمیزی کی تھی تو اس کی بھی تو غلطی تھی نا۔۔اور اگر نہیں بھی تھی تو معاف تو کر۔۔سکتا ہے نا۔۔وہ۔۔وہ اتنی بُری طرح پیش آتا ہے مجھ سے۔۔کل بھی اتنی لیٹ آیا تھا گھر۔۔اور آ کے کہتا ہے سوری موباٸل ساٸلنٹ پہ۔۔تھا بوا موباٸل ساٸلنٹ پہ تھا اس کا دماغ تو نہیں نا۔۔کیا اسے یاد نہیں تھا کے اس کی بیوی گھر اکیلی ہے۔۔خیر بیوی تو وہ مجھے سمجھتا ہی نہیں" کہہ کے وہ استہزاٸیہ ہنسی۔
"بُوا جی مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھک گٸی ہوں میں۔۔۔تھک گٸی ہوں" اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھے۔
"آپ بتاٸیں میں کیا کروں۔۔ماما بابا کو نہیں بتا سکتی میں یہ سب۔۔میں نہیں چاہتی وہ میری وجہ سے وہ پریشان ہوں"
"رو نہیں میرا بچا" وہ اس کے آنسو صاف کرتی اسے خود سے لگاتی بولیں۔
"رونا نہیں اب اور میری بات غور سے سنو۔ سنو گی نا؟" اس نے ہاں میں گردن ہلاٸی۔ تو انہوں نے بات شروع کی۔
"آج کل معاشرے میں یہی سب چل رہا ہے کہیں عورت اپنی زبان کی شدت کی وجہ سے گھر برباد کر رہی ہے تو کہیں مرد اپنی بد اخلاقی کی وجہ سے گھر اُجاڑ رہا ہے۔ حالانکہ اگر ہم صبر سے کام لیں برداشت کریں تو ایسا کبھی نہیں ہو۔۔۔یہ ایک بنیادی رشتہ ہے جس سے ایک خاندان بنتا ہے تو شریعیت نے بھی اس رشتے کو سب سے زیادہ بیان کیا ہے۔ اور میرے نبیﷺ نے بھی اس کو اُجاگر کیا۔ میرے نبیﷺ نے اپنی تقریر اپنے آخری خطبہ حجتہ الوادع کا۔۔صرف ایک رشتے کو بیان کیا اور وہ ہے میاں بیوی کا۔۔۔اچھا اس بات پہ زرا غور کرنا ایک لڑکی آٸی میرے نبیﷺ کے پاس بولی یا رسول اللہﷺ میری شادی ہونے والی ہے تو بتاٸیے میرے خاوند کا مجھ پہ کیا حق ہے۔ میرے نبیﷺ نے فرمایا! تیرے خاوند کے جسم پہ پھوڑے نکل آٸیں اور ان میں گندا پانی جمع ہو جاۓ۔ پیپ جمع ہو جاۓ اور تو زبان سے چاٹ چاٹ کے ان زخموں کو دھوۓ تو بھی تو نے خاوند کا حق ادا نہیں کیا۔ میری جان شوہر کی بہت عزت ہے بہت احترام ہے کیا ہوا جو وہ تم سے غصے میں بات کرتے۔صبر کرو۔ اگر سارے اخلاق کو میں جمع کروں ایک لفظ میں۔ تو وہ برداشت ہے۔شکایتوں کو دفن کر کے ہونٹ سی لو۔
وہ بولتا ہے غصہ کرتا ہے چپ ہو جاٶ صبر کرو۔ صبر انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔خاموش رہنا سیکھو درگزر کرنا سیکھو یہی نہیں شوہر کے آگے کوٸی بھی رشتہ ہو باپ بیٹی ماں بہن بھاٸی دوست۔۔۔ غصہ نکال دینا وقتی ایک راحت ہوتی ہے۔پر بعد میں شرمندگی اور ندامت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ پی جانا ہے سہہ جانا ہے یہ آپ کو ایک عظیم و شان ہستی بنا دیتا ہے۔ آپ کی دعاٸیں عرش سے جا ٹکڑاتی ہیں۔ ایمان کی سب سے بڑی صفت صبر ہی ہے۔
قیامت کے دن اعلان ہو گا صبر والے کھڑے ہو جاٶ تو ایک چھوٹی سی جماعت کھڑی ہو گی۔ اور میرے اللہ ان سے کہیں گے "جاٶ جنت میں چلے جاٶ تمہارا کوٸی حساب نہیں"
کیا کہا تھا تم نے کے تھک گٸی ہوں میں۔۔مجھ سے برداشت نہیں ہوتا اب۔۔۔میری جان کچھ دنوں میں ہی برداشت ختم ہو گٸی۔۔ ایسا نہیں کرنا پیار سے بات کیا کرو اس سے۔۔خیال رکھا کرو اس کا۔۔دیکھو کل وہ لیٹ ہوا تھا تو اس نے سوری بھی تو کیا تھا نا۔۔۔ٹھیک ہو جاۓ گا۔۔اور ہاں آپ اسے تم کہہ کے بلاتی ہو۔
میرا بیٹا وہ شوہر ہے تمہارا عزت سے بلایا کرو آٸندہ سے آپ کہنا ہے۔ اوکے"  مہرو نے سر کو تھوڑی سی جنبش دی۔
"میری باتیں سمجھ بھی آٸی ہیں یا نہیں؟"
"جی سمجھ گٸی"
"گڈ آج آپ کا رزلٹ آیا ہے اسے بتانا اور اللہ سے دعا مانگا کرو سب ٹھیک ہو جاۓ گا  ان شاء اللہ"
"شکریہ بُوا "
"کس لیے"
"مجھے اتنا سمجھانے کے لیے"
"شکریہ کی ضرورت نہیں مجھے. میں بس تم دونوں کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں"
"چلیں آٸیں آیان بھی آنے والا ہے" بوا نے اسے آنکھیں دکھاٸیں۔
"آنے والے ہیں" پھر وہ دونوں مسکرا گٸیں۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم فیضی کہاں تھے آپ صبح کی میں آپ کو کالز کر رہی ہوں" فون رسیو ہوتے ہی سحر کے شکوے شروع ہو گٸے۔
"تھوڑا مصروف تھا بلکہ ہوں بھی آج لیٹ آٶں گا تم سو جانا"
"کیوں لیٹ آٸیں گے" وہ اداس ہوتے بولی۔
"کام زیادہ ہے نا آج اس لیے۔ پاپا اور بڑے پاپا آ جاٸیں گے"
"پر۔۔۔۔ کب تک آٸیں گے"
"بارہ بجے تک"
"کیاااا اتنا لیٹ"
"کیوں نہیں رہا جا رہا میرے بغیر" وہ شرارتی انداز میں بولا۔
"یہ بات نہیں" فٹ سے جواب دیا۔
"اچھاااا تو پھر کیا بات ہے" وہ مزے سے بولا۔
"تھوڑا جلدی آ جاٸیے گا"
"نہیں میری جان بارہ بجے سے پہلے تو نہیں آ سکوں گا تم ڈنر کر کے سو جانا "
"مجھے نہیں کرنا آپ کے بغیر"
"اہممم یہ کیا بات ہوٸی پرامس کرو کے تم ڈنر کر کے سو گی"
"فیضییی"
"جی میری جان" وہ دل و جان سے بولا۔
"اچھا ٹھیک ہے"
"آٸی لو یو سو مچ میری جان ڈنر ضرور کرنا الله حافظ"
"الله حافظ"
                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈنر کر کے وہ واپس گھر آ گٸے تھے آیان سونے کے لیے لیٹنے لگا تھا جب مہرو بولی۔
"آیان آج رزلٹ آیا ہے میرا"
"اچھا "
"پاس ہو گٸی ہوں"
"مبارک ہو" کہتا وہ لیٹ گیا مہرو نے بھی لاٸٹس آف کی اور لیٹ گٸی۔  
                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ منٹ کم بارہ بجے فیضان کمرے میں داخل ہوا۔ سحر سوٸی ہوٸی تھی جیسے ہی فیضان نے لاٸٹ آن کی وہ اٹھ گٸی۔
"آ گٸے آپ کب آۓ؟"
"ابھی ہی آیا ہوں" پھر فیضان فریش ہونے چلا گیا۔ سحر بیڈ کڑاٶن سے ٹیک لگا کے بیٹھ گٸی۔ رزلٹ بھی تو بتانا تھا اسے۔ فیضان باہر نکلا اور بیڈ پہ آ کے بیٹھا ٹاٸم دیکھا تو ایک منٹ کم بارہ ہوے تھے۔
"فیضی کھانا لاٶں"
"نہیں میں نے آفس کھا لیا تھا پانی لا دو بس"
اس نے ساٸیڈ ٹیبل سے جگ اٹھایا جو کے خالی تھا وہ تھوڑی حیران ہوٸی پھر سر جھٹک کے جگ پکڑ کے باہر نکل گٸی۔ پورے بارہ ہو گٸے تھے جیسے ہی اس نے ہال میں قدم رکھا تو گھر یکدم روشن ہو گیا۔ اس کے ہاتھ سے جگ گرنے سے بمشکل بچا تھا۔ اور پھر سب داٸرے کی صورت میں اس کے قریب آٸے۔
"ہیپی برتھڈے ٹو یو ۔ ہیپی برتھڈے ڈٸیر سحر ہیپی برتھڈے ٹو یو" فیضان بھی ان لوگوں میں کھڑا خوشی سے بول رہا تھا۔ وہ حیران تھی اس کا برتھڈے تھا اور وہ بھول گٸی تھی۔ اور خوش تھی بلکہ بہت خوش تھی سب کو اپنے لیے اٹھتا دیکھ یہ سب کرتے دیکھ۔ گھر کے سب افراد تو تھے وہاں کوٸی ایک بھی سویا ہوا نہیں تھا۔ سب موجود تھے۔ ماما بڑی ماما، پاپا بڑے پاپا، شانی عنزہ اور اس کا فیضی۔
"کیسا لگا سرپراٸیز" شانی چہکتے ہوے بولا۔
"بہتتت اچھا" اس نے ہال میں نظر دوڑاٸی وہ ڈیکوریٹ تھا غبارے لگاٸے گٸے تھے لاٸٹنگ بھی ایکسٹرا تھی اور ہال کے سامنے والی دیوار پہ ہیپی برتھڈے سحر لکھا ہوا تھا۔
"جگ تو پکڑا دیں مجھے" عنزہ نے اس سے جگ پکڑتے ہوے کہا۔ سب نے آگے بھر کے اسے گلے لگایا اور دعاٶں سے نوازا۔
پھر سب ہال میں رکھے صوفوں پہ بیٹھ گٸے۔
"آپی جلدی جلدی کیک کاٹے مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا اب"
"جی آپی کاٹ دیں یہ نا ہو یہ بھکر اسے دیکھ دیکھ کے ہی بے ہوش ہو جاٸے۔ تب کا کبھی کسی ساٸڈ پہ انگلی مار کے کریم کھا رہا تھا تو کبھی کسی ساٸڈ سے۔ یہ تو کیک بھی کھا جاتا پر فیضی بھاٸی نے سختی سے منع کیا تھا"  سحر کا تو منہ ہی کھل گیا تھا "فیضی۔۔۔"
"جی جی فیضی بھاٸی نے ہی یہ سب کروایا ہے انہیں کا پلان تھا ڈیکوریشن بھی میں نے عنزہ نے اور بھاٸی نے کی ہے" شانی آنکھیں گھوما گھوما کے بولا۔
"پر فیضی تو ابھی۔۔۔۔"
"نہیں وہ ساڈھے دس بجے کے آٸے ہوے ہیں" "آپی کاٹ بھی دیں اب بعد میں یہ سب پوچھ لیجیے گا۔ آپ نے نا کاٹا تو میں نے کاٹ دینے  "
"چلیں میں کینڈل جلاتا ہوں موٹی تم ہماری پکس بناٶ"
"بندر پہلے لاٸیٹس تو آف کر لو وہ بھی اسی کے انداز میں بولی" بڑے سب بچوں کی باتوں سے خوش ہو رہے تھے۔
"کر دی ہیں اب پکس بنانا اور فیضی بھاٸی آپ ویڈیو اور ہاں میں سب سے پیارا آٶں"
"اففف عجیب جوک سناتے رہتے ہو تم اب بھلا جیسے ہو ویسے ہی آٶ گے نا اور یہ تم بہتر جانتے ہو کے تم کیسے ہو" عنزہ ہنستے ہوے بولی۔
"تم تو بس جھلتی رہنا مجھ سے۔ فیضی بھاٸی ویڈیو پلے کریں ایک ساتھ دو دو چیزیں جلنے لگی ہیں نہیں بلکہ ایک تو جھل رہی ہے اور دوسری جھلنے لگی ہے" اس نے عنزہ کو بات لگاٸی اور وہ سمجھ بھی گٸی۔
"بیٹا اب تم کچھ مت بولنا چھوڑو اسے وہ تو پاغل ہے" ریحانہ بیگم بولیں۔ تو عنزہ نے اسے منہ چڑھایا۔ اسے کیک کھانے کی جلدی تھی ورنہ وہ بدلہ تو ضرور لیتا۔ اس نے اسپارکل کینڈلز جھلاٸی تو اس کی چنگاریاں ہوا میں بلند ہوٸی اور اس کی چمک سے سحر کا منہ بھی چمک اٹھا
"پک بناٸی ہے میری"
"ہاں ہاں بناٸی ہے آپی کیک کٹ کریں اب اور بندر تم ساٸڈ پہ ہو جاٶ" وہ بھی شانی تھا جس کام سے منع کیا جاٸے اور خاص عنزہ منع کرے وہ تو وہ ضرور کرتا تھا وہ سحر کے اور قریب ہو گیا۔ پھر سحر نے ناٸف کیک پہ رکھی تو برتھڈے سانگ کی اونچی آواز ہال میں گونجی وہ اسپیکر پہ لگایا گیا تھا۔ پھر اس نے کیک کا پیس سب سے پہلے بڑے پاپا کے منہ میں ڈالا کیوں کے وہ گھر کے بڑے تھے پھر بڑی ماما کے اس کے بعد بابا اور ماما کے اور پھر فیضان کے منہ میں ڈالا تو اس نے اسے آنکھ ماری وہ ہڑبڑاتی ہوٸی پیچھے ہوٸی "پتہ بھی نہیں چلتا کے سب پاس ہیں" آنکھوں سے ہی اسے کہتی شانی کی طرف گٸی اس کے منہ کے آگے کیا تو اس نے سارا ہی منہ میں ڈال لیا "سہی کہتی ہے تمہیں عنزہ بھکر" سحر نے کہہ کے دوسرا پیس اٹھا کے عنزہ کو کھلایا ۔ پھر سب نے کیک اور دوسری چیزیں کھاٸیں۔ عنزہ اور شانی نے گفٹ دیا اور سب بڑوں نے پیسے دیے۔
"تھینکیو سو مچ ٹو آل.. بہت خوش ہوں میں آج یہ میری لاٸف کا سب سے اچھا دن ہے"۔ "تھینکیو بڑے پاپا بڑی ماما ماما بابا شانی عنزہ"
"میری جان یہ سب فیضان نے کیا ہے اس لیے شکریہ اس کا ادا کرو" شعبانہ بیگم اس کے سر پہ بوسہ کرتی بولیں باقی سب بھی کمروں میں جانے کے لیے کھڑے ہو گٸے۔
"رک تو جاٸیں پکس تو بنوا لیں تھوڑی" شانی بولا۔
"بنواٸی تو ہیں اب اور کتنی بناٶ گے" عابد صاحب بولے۔
"بابا ایک سب کی اکھٹی" پھر سب اکھٹے ہوے تو فیضی نے سیلفی اسٹیک پہ موباٸل لگا کے سیلفی لی۔
"آپ سب جاٸیں میں اور عنزہ کچھ پکس بنا لیں آپی کے ساتھ" زیشان بولا بڑے سب چلے گٸے۔
تو زیشان نے ٹرے پہ لگی کریم انگلی پہ لگاٸی۔
"شانی ایسی حرکت نا کرنا" وہ پیچھے ہوتی بولی۔
"کیا ہے آپی برتھڈے پہ منہ پہ کیک نا لگاٸیں تو برتھڈے ادھوڑی سی لگتی ہے"۔ وہ اس کے قریب گیا۔
"شانییی میں بڑے پاپا کو آواز دے لوں گی" فیضان کھڑا مسکرا رہا تھا۔
"فیضی منع کریں"
" زیشان پیچھے ہو جاٶ ایسی کوٸی حرکت نہیں کرنا" پھر اسنے آنکھ کے اشارے سے اسے کچھ کہا اور وہ سمجھتے ہوے پیچھے ہو گیا۔ پھر فیضان نے عنزہ کو اشارے سے ہی ویڈیو بنانے کا کہا۔
"چلو سیری کمرے میں چلیں" سحر جیسے ہی پلٹی فیضان نے اپنے دونوں ہاتھوں پہ لگی کریم اس کے منہ پہ لگا دی "فیضییی" وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔ اتنی دیر میں شانی نے بھی کریم سے بھرے ہاتھ اس کے چہرے پہ مل دیے۔ عنزہ کا ہنس ہنس کے بُرا ہال ہو رہا تھا۔
"بہت بدتمیز ہو تم شانی" وہ غصے میں بولی۔
"تو اپنے شوہر کے بارے میں کیا خیالات ہیں" وہ آنکھیں سکیڑیں بولا۔
"دونوں ہی۔۔۔۔"
"ہاں اب تو بولا ہی نہیں جانا" سحر دوپٹے سے چہرہ صاف کرنے لگی تو شانی جلدی سے بول پڑا۔
"آپی آپی رکیں اب لگ تو گٸی ہے تو پھر پکس تو بنانے دیں"۔
"کیوں تمہیں میں پاغل نظر آ رہی ہوں جو اس حال میں پکس بنواٶں تا کے تم لوگ بعد میں مزاق اڑاتے رہو"
"آپی ہم کیوں اڑاٸیں گے مزاق چلیں آٸیں اب" پھر فیضی نے اسے اشارہ کیا تو پکس بنوانے کے لیے تیار ہو گٸی۔ زیشان نے عجیب و غریب اسٹاٸل بنا اور بنوا کے پکس بناٸیں کچھ فیضی اور سحر کی بناٸیں اور پھر وہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں چلے گٸے اور سحر اور فیضان اپنے کمرے میں۔ کمرے میں آتے ہی سحر کپڑے پکڑ کے واش روم میں چلی گٸی پھر کپڑے چینج کر کے منہ ہاتھ دھو کے باہر آٸی۔
ٹاول سے چہرہ صاف کیا اور فیضان کے پاس بیڈ پہ بیٹھ گٸی۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا اور سحر نظریں جھکاۓ شکریہ کے الفاظ ڈھونڈ رہی تھی کچھ دیر دونوں میں خاموشی رہی پھر فیضی  اس کا ہاتھ پکڑ کے بولا۔
"خاموش کیوں ہو"
"لفظ ہی نہیں مل رہے"
"کس لیے؟"
خاموشی۔۔۔
"بولو بھی"
"فیضی آپ بہت اچھے ہیں آپ کو یاد تھا کے میرا برتھڈے ہے اور یہ بھی یاد تھا کے رزلٹ ہے۔ اور میں ایسے ہی۔۔۔۔" وہ نظریں جھکاۓ بولی۔
"کیا" اس نے اسے قریب کیا۔
"ک۔۔کچھ نہیں" وہ شرماٸی۔ فیضان نے اسے خود سے لگایا۔
"فیضی۔۔"
"جی فیضی کی جان"
"آپ بہت اچھے ہیں" سر اس کے سینے پہ دھرے ہی کہا گیا۔
"آہاں کتنا اچھا ہوں" وہ شریر مسکراہٹ لیے بولا۔
"بہتتتت"
"اچھا یہ چھوڑو بتاٶ مجھ سے پیار کرتی ہو؟" جانتا تو وہ تھا پر اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔
"فیضی کیا آپ نہیں جانتے؟" وہ سر اونچا کر کے خفگی سے بولی۔
"نہیں" وہ بھی مزے سے بولا۔
"فیضییی" منہ بن گیا۔
"کیا ہے یار بتاٶ نا پیار کرتی ہو میں تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہوں شادی کے بعد تم نے ایک دفعہ بھی مجھ سے نہیں کہا کے تمہیں مجھ سے پیار ہے ۔۔۔یہ وہ" مصنوعی خفگی سے کہا گیا۔ بات تو ٹھیک تھی اس نے ایک دفعہ بھی اظہار نہیں کیا تھا محبت کا۔
"مجھے نہیں لگتا کے مجھے بتانے کی ضرورت ہے پھر بھی اگر آپ سننا چاہتے ہیں تو ہاں "کرتی ہوں"
"کتنا؟"
"یہ کیسا سوال ہوا؟"
"بتاٶ نا" وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیتا بولا۔
"خود سے زیادہ" کہتے نظریں جھک گٸیں۔اور فیضی کی خوشی کی انتہا نہیں تھی آج اس کی شرمیلی بیوی اظہارِ محبت کر رہی تھی۔ فیضی نے اس کی پیشانی پہ لب رکھے تو سحر کی پلکیں رخساروں پر سایہ فگن ہو گٸیں۔
"تمہارے لیے کچھ لایا ہوں"
"کیا"
تہارا گفٹ پھر اس نے جیب سے مخملی ڈبیہ نکال کے اس میں سے خوبصورت سی ڈاٸمنڈ رنگ نکالی۔
"ہاتھ آگے کرو" اس نے ہاتھ آگے کیا تو فیضی نے اسے رنگ پہناٸی
"کیسی لگی"
"بہت پیاری" وہ اس پہ ہاتھ پھیر رہی تھی
"فیضی یہ ڈاٸمنڈ۔۔۔۔۔"
"جی" وہ پلکیں جھپکاتا بولا۔
اور پھر اس کا ہاتھ پکڑ کے چوما۔
"فیضی کیا کہوں میں آپ سے؟ مجھے سمجھ نہیں آ رہا"
"کیوں" آبرو سمیٹے
"آپ بہت بہت بہتتتت اچھے ہیں" وہ دل و جان سے بولی۔
"سیری تم جہاں مجھے یہ کہتی ہو آٸی لو یو ہی کہہ دیا کرو" وہ منہ پھلا کے بولا۔
"آٸی لو یو" اس نے جھٹ سے کہہ دیا اور فیضی کی تو آنکھیں ہی پھٹ گٸیں اسے یقین نہیں آ رہا تھا کے اس کے ایک دفعہ کہنے پہ سحر نے اسے آٸی لو یو کہہ دیا۔
"کیا ہے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں"
"مجھے یقین نہیں آ رہا سیری"
"تو کر لیں"
"ایک دفعہ اور کہو نہ"
"آٸی لو یو" فوراً جواب آیا۔ فیضان کو لگ رہا تو کے وہ ضرور کوٸی خواب دیکھ رہا ہے۔
"فیضی" وہ جو اسے گھورے جا رہا تھا اسکے بلانے پہ جیسے خوش میں آیا۔
"تم۔۔تم نے مجھے آٸی لو یو کہا "
"کیا ہو گیا ہے فیضی آپ نے ایسے ہی کرنا ہے تو اب میں کبھی کہوں گی ہی نہیں" وہ منہ بناتی بولی۔
"سیری مجھے یقین نہیں ہو رہا یار بس ایک دفعہ اور کہہ دو پلیز"
"نہیں"
"پلیز"
"نہیں"
"پلیز پلیز"
"نہیں تو نہیں"
"ٹھیک ہے مجھے نا بلانا اب" وہ منہ پھلاتا لیٹ گیا۔ وہ بھی کندھے اچکاتی لیٹ گٸی اور ساٸیڈ ٹیبل پہ پڑا لیمپ آف کر دیا۔ لاٸیٹ وہ پہلے ہی آف کر چکی تھی۔ اسے پورا یقین تھا وہ اس سے ناراض ہو کے نہیں لیٹ سکتا اور ہوا بھی یہی تھا دو منٹ بعد ہی وہ اٹھ بیٹھا۔ لیکن سحر اگنور کرتی لیٹی رہی۔ پھر اس نے سحر کا کندھا ہلایا۔
"کیا ہے اب"
"بہت بری ہو تم سحر" وہ پھر بھی نہیں اٹھی
سو جاٸیں ڈھاٸی ہو گٸے ہیں صبح آفس بھی جانا ہے
"تم کہہ رہی ہو یا نہیں"
"نہیں" آنکھیں بند کیے ہی جواب آیا
"میں ناراض ہو جاٶں گا"
خاموشی۔۔۔
"میں سچ کہہ رہا ہوں"
خاموشی۔۔۔۔
پھر وہ بھی لیٹ گیا۔
                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیان اٹھا اور اپنے پاس دیکھا مہرو سو رہی تھی۔پھر موباٸل پہ ٹاٸم دیکھا ساڈھے چھ ہو رہے تھے آج وہ اٹھی نہیں تھی نماز کے لیے شاید رات کو لیٹ سونے کی وجہ سے۔ آیان اٹھ کے وضو کر کے نکلا مہرو ابھی بھی سوٸی ہوٸی تھی۔ پھر اس نے اسے آواز دی لیکن وہ نہیں ہلی اس نے دوبارہ آواز دی وہ پھر بھی نہیں اٹھی پھر اس نے اس کا کندھا ہلایا
"مہرو"
"ج۔۔جی" وہ یک دم اٹھ بیٹھی۔
"کیا ہوا کچھ چاہیے تھا" اس نے قریب آیان کو کھڑا دیکھا تو بولی۔
"نہیں اٹھ کے نماز پڑھ لو" اس نے اثبات میں گردن ہلاٸی اور آیان جاٸے نماز بچھا کے نماز پڑھنا شروع ہو گیا وہ بھی وضو کر کے آٸی اور اس کے قریب ہی جاۓ نماز بچھا لیا۔
نماز پڑھ کے قرآن پاک پڑھا اور پھر جاگنگ ڈریس پہن کے جوگنگ کے لیے نکل گیا۔ اس کے آنے تک مہروالنسإ نے ناشتہ بنایا پھر ان دونوں نے ناشتہ کیا اور وہ آفس کے لیے نکل گیا۔
                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیضان نے اٹھ کے اس سے کوٸی بات نہیں کی تھی ناشتے کے ٹاٸم بھی وہ خاموش ہی رہا تھا۔ سحر نے بھی کوٸی بات نہیں کی ناشتہ کر کے کمرے میں آ گٸی اسے یقین تھا کے وہ اسے مل کے ہی جاۓ گا۔ وہ کمرے میں آیا گاڑی کی چابی پکڑی ریسٹ واچ پہنی گلاسز لگاٸے اور اسے کس کرنا تو دوڑ کی بات اسے دیکھے بنا ہی نکل گیا۔
"اتنی بڑی بات تو نہیں تھی جو ناراض ہو رہے ہیں کہا تو ہے تھا میں نے وہ بھی ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ ہنہہ دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا"۔
"کیا تھا جو تم ایک دفعہ اور کہہ دیتی وہ بھی تو تم سے کتنی دفعہ کہتا ہے آفس جاتے ہوے وہاں سے آ کے اور اس کے دوران میسجیز پہ بھی تو کہتا رہتا ہے" ضمیر کی آواز آٸی۔
"کہا تو تھا میں نے"
"تو ایک دفعہ اور کہہ دیتی  ۔ ہو گیا نا وہ ناراض"
"تو کہنا ضروری ہے کیا؟ کیا کہنے سے ہی پتا چلتا ہے کے محبت ہے؟"
"ہاں کبھی کبھی کہنا ضروری ہوتا ہے خوشی ہوتی ہے یہ سب سن کے۔ وہ تمہیں آج کچھ نہیں کہہ کے گیا تو بُرا لگ رہا ہے نا؟"
ہممم۔اب؟
"اب کیا آۓ گا تو کہہ دینا منا لینا اسے"
"مجھ سے نہیں ہوتا یہ سب"
"پھر بیٹھی رہو ایسے ہی" ضمیر سوال کرتا تو وہ جواب دیتی وہ سوال کرتی تو وہ جواب دیتا۔
کتنی ہی دیڑ یوں بیٹھی رہی اسے بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا فیضی کا اسے یوں اگنور کر کے جانا۔
                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ہر سو اپنے ساٸے پھیلا رہی تھی مہروالنسإ مغرب کی نماز پر کے اٹھی ہی تھی کے موباٸل پہ بیل ہوٸی۔ اس نے نمبر دیکھا تو انجان تھا پھر اس نے پک کر کے کان سے لگایا اور چُپ رہی۔ سامنے سے ایک خاتون کی آواز آٸی۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم  بیٹا کیسی ہو؟" اسے آواز شناسا لگی۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام میں ٹھیک آپ سناٸیں؟"
"اللہ کا شکر ہے پہچانا مجھے؟ "
"نہیں" وہ پیشانی مسلتی بولی۔
"بیٹا میں ارہم کی ماما بات کر رہی ہوں"
"او اچھا آنٹی آپ"
"جی بیٹا میں نے آپ کو ڈنر پہ انواٸیٹ کرنے کے لیے کال کی تھی آج آپ اور آیان ڈنر ہمارے ساتھ کرو گے"
"اوکے آنٹی"
"میں آیان کو بھی کال کر کے کہتی ہوں"
"جی"
"آپ سناٶ ماما کیسی ہیں اور دل تو لگ گیا ہے نا" وہ اپناٸیت سے پوچھ رہی تھیں ایکنٹنگ تو ویسے ہی وہ بہت اچھی کر لیتی تھیں۔ اگر ڈرامہ بناتی تو ضرور آوارڈ لے چکی ہوتیں۔
"جی ٹھیک ہیں ماما اور دل بھی لگ گیا ہے"
"گڈ آ جایا کرو یہاں بھی"
"جی آنٹی ضرور"
"اوکے الله حافظ"
"الله حافظ"
                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ فون پکڑے بیٹھی ہوٸی تھی صبح سے فیضی کا کوٸی میسج نہیں آیا تھا کتنی ہی دفعہ تو وہ موباٸل دیکھ چکی تھی ابھی بھی کوٸی میسج نہیں آیا تھا اب اسے دکھ ہو رہا تھا کے اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔

محبت،یقین اور خواہش Completed 💕Unde poveștirile trăiesc. Descoperă acum