محبت، یقین اور خواہش

2.5K 116 6
                                    

                        قسط: ٤
عابد ہاٶس میں مہندی کی تقریب شروع ہو چکی تھی۔تقریب گھر کے لان میں منعقد کی گٸی تھی۔ لان کو ییلو اور واٸٹ پھولوں سےسجایا گیا تھا۔برقی قمقموں سے سارا لان جگمگا رہا تھا۔
"مہرو یار میں اچھی تو لگ رہی ہوں نا"
سحر ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔ اس نے شارٹ گولڈن قمیض کے نیچے لاٸٹ گولڈن لہنگا پہنا تھا لہنگے پہ گلوڈن تلے کا کام ہوا تھا جگہ جگہ پہ گولڈن موتی بھی لگے تھے۔ لیمن ییلو دوپٹے کے باڈر پہ لاٸٹ گرین اور گولڈن تلے کا کام تھا۔بالوں کی درمیان سے مانگ نکالے دونوں ساٸڈوں سے فرینچ کیے نیچے سے بالوں کو کرل کر کے کھلا چھوڑا گیا تھا۔مانگ میں واٸٹ پھول کی بِندیا سیٹ کی گٸی تھی دوپٹے کو فرینچ ہیر سٹاٸل سے تھوڑا پیچھے سیٹ کیا تھا۔ کانوں میں اورنج کلر کے پھول سے بنے بُندھے پہناٸے گٸے تھے ہاتھوں میں واٸٹ اور اورنج کلر کے گجرے پہناٸے لاٸٹ سا میک اپ کیے وہ بہت حسین لگ رہی تھی پر پھر بھی وہ اپنی تیاری سے مطمٸن نہیں تھی۔
"ہاں ہاں بہت اچھی لگ رہی ہو فیضی بھاٸی تو تمہیں دیکھتے ہی رہ جاٸیں گے" اس کے ایسا کہنے پر سحر نظریں جھکا گٸی۔
"افف یہ تمہارا شرمانا اب یہاں سے تھوڑا ساٸڈ پہ ہو جاٶ تا کہ میں بھی ہلکہ ہلکہ تیار ہوجاٶں" وہ اسے کندھے سے پیچھے کرتی بولی۔
"بدتیمز" سحر کہتی بیڈ پہ جا بیٹھی۔
مہروالنسإ نے ہلکے اورنج کلر کی شارٹ قمیض پہ جس پہ گولڈن کام ہوا تھا نیچے گرین شرارا پہنا تھا ہلکے اورنج کلر کا دوپٹہ  جس کے باڈر پہ گرین اور گولڈن کام ہوا تھا اسے اس نے داٸیں کندھے پہ ڈالا تھا۔بالوں کی درمیان سے مانگ نکالے نیچے بڑے بڑے کرل ڈال کے کھلا چھوڑا تھا۔سیاہ خوبصورت آنکھوں میں کاجل ڈال کے لاٸنر اور مسکارا لگایا تھا۔بلش آن لگاٸے ہونٹوں پہ اورنج لپ اسٹک لگاٸے وہ اب خود کو دیکھ رہی تھی۔
"ماشاءاللہ کتنی پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی اللہ نظرِ بد سے بچاٸے " شعبانہ کمرے میں داخل ہوتے بولیں.
"پیارے تو لگنا ہی تھا اسے میں نے جو تیار کیے" مہروالنسإ نے داد وصول کرنا چاہی۔
"ہاں یہ تو تم نے ٹھیک کہا تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو ماشاءاللہ میں عنزہ اور اس کی کزنز کو بھیجتی ہوں پھر تم لوگ اسے اسٹیج پہ لے آنا سب انتظار کر رہے ہیں" کہتی ہوٸی وہ کمرے سے باہر نکل گٸیں۔
فیضان خود پہ پرفیوم چھڑک کے شیشے کے سامنے کھڑا اپنا جاٸزہ لے رہا تھا کاموں میں  مصروف صرف پانچ منٹ ملے تھے اسے تیار ہونے کے لیے اور ان پانچ منٹوں میں بھی دو تین بلاوے آ گٸے تھے۔اس نے واٸٹ شلوار قمیض کے اوپر لاٸٹ گولڈن واسکٹ پہنی تھی۔پاٶں میں ملتانی کُھسا پہن رکھا تھا۔ہلکی ہلکی شیو ستواں ناک گندمی رنگت براون آنکھیں سیاہ بال جنہیں سپرے لگا کے سیٹ کیا گیا تھا وہ اب بالکل تیار تھا۔
وہ اسٹیج پہ بیٹھا تھا جب مہروالنسإ اور عنزہ کو سحر کو لاتے دیکھا اس کے پیچپے کچھ اور کزنز بھی تھیں سحر کو اسٹیج کی طرف آتا دیکھ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔سحر نے اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا اور پھر پورے لان میں ہوٹنگ کی آوازیں گونجی۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے اس کے ساتھ صوفے پہ بیٹھی۔ لان میں ایک دفعہ پھر شور ہوا لیکن اس دفعہ ہوٹنگ کی بجاٸے تالیوں کی آواز تھی۔ اب وہ اس کا ہاتھ چھوڑ چکا تھا۔ رسم شروع ہو گٸی تھی مووی میکر کیمرا پکڑے اسٹیج کے قریب کھڑا مووی بنا رہا تھا۔باری باری سب آتے رسم کرتے اور چلے جاتے ۔فیضان کے لیے سحر پر سے نظریں ہٹانا مشکل ہو رہا تھا وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔
"اگر دیدار ختم ہو گیا ہو تو مٹھاٸی کھا لیں" شانی مسکراتا ہوا مٹھاٸی والا چمچ اس کے آگے کیے بولا۔
فیضان نے منہ کھولا اور زیشان نے گلاب جامن اس کے منہ میں ڈالا ۔
"بس ایک دن ویٹ کر لیں پھر آپی آپ کے پاس ہی ہوں گی جی بھر کے دیکھیے گا" وہ باٸیں آنکھ دباتا اٹھ کھڑا ہوا اور فیضی مسکرا دیا.
"لوکنگ بیوٹیفل" سحر نے شانی سے کہا۔
"تھینکیو ویسے آپی مجھے لگ رہا ہے میں کچھ زیادہ ہی پیارا لگ رہا ہوں جہاں جہاں سے گزر رہا ہوں سب آنکھے پھاڑ پھاڑ کے دیکھ رہے ہیں مجھے تو ڈر ہے کہیں نظر ہی نا لگ جاٸے۔آپ ایک کام کریں میری نظر اتار دیں"۔
"کون تمہیں آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے مجھے بھی تو دکھاٶ زرا اور مجھے نہیں آتی نظر وظر اُتارنی"
"حد ہے آپی آپ نے دیکھا نہیں ٹی وی میں انگلی پہ کاجل لگا کے ٹھوڑی کے نیچے لگاٸیں تو پھر نظر نہیں لگتی"۔
"اچھااا تو اب میں تمہارے لیےکاجل کہاں سے لاٶں"
"لگایا تو ہوے آپ نے"
"تو اب میں تمہارے لیے اپنی آنکھ خراب کروں اتنے بھی کوٸی خوبصورت نہیں لگ رہے تم" مہرو آنکھیں سکیڑیں بولی۔
"کیا ہو رہے یہاں" عنزہ ان کے قریب کھڑی ہوٸی۔
"نظر نہیں آ رہا دو خوبصورت لوگ بات کر رہے ہیں"
"ایک سیکینڈ کیا کہا دوبارہ کہنا "خوبصورت لوگ" مہرو آپی تو مانا خوبصورت ہیں پر تم۔۔۔ " وہ کھلکھلا کر ہنسی۔
"ناٸس جوک"
"جلو تم موٹی تمہاری کسی نے تعریف نہیں نا کی ویسے مہرو آپی آپ کو جلنے کی بُو نہیں آ رہی" وہ ناک پہ ہاتھ رکھتا بولا۔
نہیں تو" مہرو نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"مجھے تو آ رہی ہے ایسے جیسے کسی کا دل جل رہے بہت بُری طرح" شانی ہاتھ ہوا میں لہرا کے بولا۔
"ہاں ہاں تم جل رہے ہو گے مجھ خوبصورت لڑکی کو دیکھ کے"
مہرو ان دونوں کو دیکھ کے مسکراٸی اور پھر بولی "چھوڑو یہ سب آٶ پکس بناتے ہیں"
"ہاں ٹھیک ہیں چلے آٸیں فیضان بھاٸی کے ساتھ بناٸیں" فیضی ان ہی کی طرف آ رہا تھا جب عنزہ نے کہا۔
"میں مہرو آپی اور فیضی بھاٸی کھڑے ہوتے ہیں شانی تم ہماری پک بناٶ" عنزہ موباٸل شانی کی طرف بڑھاتی بولی۔
"کیوں جی تمہیں میں کیا تصویریں بنانے والا نظر آ رہا ہوں موٹی" وہ آبرو سکیڑیں بولا۔
"چلو آٶ سیلفی لیتے ہیں" فیضی سیلفی کیمرہ آن کرتے ہوے بولا ۔
پھر سب ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوے اور فیضی نے سیلفی کلک کی۔
اتنی دیر میں ارہم اور آیان اُن کے نزدیک آٸے۔
"اچھا فیضان اب ہمیں اجازت دو"
"اتنی جلدی یار تھوڑی دیر رُک جاتے"
"نہیں اب ہم چلتے ہیں" آیان بولا اور پھر اس کی نظر اس کے قریب کھڑی مہرو پہ پڑی لمحہ بھر کو دونوں کی نظریں ملیں۔ یہ کہاں سے ٹپک گیا مہرو نے دل میں سوچا ان دونوں کو ایک دوسرے کو دیکھتا دیکھ فیضان مخاطب ہوا۔
"یہ سحر کی بیسٹ فرینڈ اور میری بہن اور مہرو یہ میرے آفس فرینڈ آیان اور ارہم ہماری کمپنی بہت سے شیٸرز ان کی کمپنی سے کر چُکی ہے" مہرو نے صرف سر ہلانے میں اکتفا کیا۔
"یہ میری چھوٹی سسٹر عنزہ"
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم" عنزہ نے سلام کیا۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام" دونوں نے بیک وقت جواب دیا۔
"اور میں ان کا کیوٹ سا چھوٹا بھاٸی" زیشان سینے پہ ہاتھ رکھتا بولا۔
اس کی بات پہ سب مسکرا دیے۔
"کل ٹاٸم پہ آ جانا" فیضان ان دونوں کو دیکھتا بولا "انکل آنٹی کو بھی ضرور لانا"
"ہاں کیوں نہیں" ان کے آپس میں بات کرتے وہ تینوں سحر کے پاس چلے گٸے ۔
"یار میں بہت تھک گٸی ہوں مجھے کمرے میں جانا ہے" سحر تھکے تھکے لہجے میں بولی۔
"ہاں ٹھیک ہے میں آنٹی سے پوچھتی ہوں" مہرو نے ریحانہ سے پوچھا اور پھر اسے کمرے میں لے گٸی۔
وہ آ کہ بیڈ پہ بیٹھی ہی تھی کے اس کے موباٸل کی اسکرین چمکی ۔
"سیری مجھے تم سے ملنا ہے تمہارے کمرے میں آ جاٶں" فیضی کا میسج تھا۔
ایک پل کو تو وہ گھبرا گٸی کے جیسے وہ سچ میں ہی آنے لگے ۔
"نہیں نہیں کسی نے دیکھ لیا تو"
"تو کیا ہم کزنز بھی تو ہیں نا"
"ایک دن ہی تو رہ گیے "
"اور میرے لیے ایک لمحہ گزارانا بھی مشکل ہو رہے"
"اچھا اب ایک دن تو انتظار کرنا پڑے گا"
"ہاٸے کب گزرے گا یہ دن "
"چند گھنٹوں میں" وہ مسکراٸی۔
فیضی کو پتا چل گیا تھا ملے گی تو وہ نہیں ویسے بھی اسے بار بار آوازیں دی جا رہی تھیں تو پھر اس نے میسج کیا "آٸی لو یو سیری ماٸی سویٹ ہارٹ"
میسج پڑھتے ہی سحر کی آنکھیں چمکیں چہرہ سرخ ہوا منہ پہ مسکراہٹ پھیلی اور پھر اس کا میسج گیا "آٸی لو یو ٹو"
فیضی نے میسج پڑھا موباٸل کی اسکرین چومی اور پھر مسکراتا ہوا ریحانہ کی بات سننے چلا گیا۔
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارات ہوٹل میں رکھی گٸی تھی سب تیار ہو کے ہوٹل پہنچ چکے تھے۔ مہرو اور سحر کو پارلر سے پک کرنا تھا۔
فیضان نے سامنے سے آیان کو آتا دیکھا تو بولا۔ "آیان ایک کام تو کرو سحر اور مہرو کو پارلر سے لے آٶ۔شانی تو کہیں نظر نہیں آ رہا ابو گھر کچھ مہمان رہ گٸے تھے انہیں لینے گٸے ہیں۔چاچو یہاں مہمانوں کو دیکھ رہے ہیں تو انہیں لے آٶ پلیز"
"کوٸی بات نہیں میں لے آتا ہوں کونسا پارلر ہے" فیضان نے اسے پارلر کا اڈریس بتایا اس نے ارہم کو اِدھر اُدھر دیکھا وہ کہیں نظر نہیں آیا تو پھر وہ اکیلا ہی لینے چلا گیا۔
پارلر پہنچ کر اس نے دروازہ ناک کیا تو اندر سے ایک لڑکی نکلی۔
"جی سر"
"سحر اور مہروالنسإ کو بھیج دیں"۔
"شیور" کہتی وہ واپس پلٹ گٸی۔
"میم آپ کو لینے آٸے ہیں"۔
"کون لینے آیا ہے" مہروالنسإ نے لڑکی سے پوچھا ۔
"کوٸی لڑکا ہے" مہروالنسإ پارلر سے باہر دیکھنے نکلی کے کون لینے آیا ہے اور آیان کو پارلر سے تھوڑا آگے کار کے بونٹ سے ٹیک لگاٸے کھڑا پایا لمحہ بھر کے لیے دونوں کی نظریں ملیں۔آیان نے واٸٹ پینٹ شرٹ کے اوپر بلیو کوٹ پہنا تھا باٸیں ہاتھ میں سلور برینڈڈ واچ اور داٸیں ہاتھ میں بلیک اور بڑاٶن بریسلٹ پہنے تھے۔ ہلکی ہلکی شیو گوری رنگت مغرور ناک گلابی ہونٹ ڈارک براٶن گہری چمک دار آنکھیں جو اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتی تھیں ان پہ بلیک گلاسز لگاٸے تھے۔ سیاہ بال جنہیں جیل لگا کے سیٹ کیا گیا تھا وہ انتہا کا خوبصورت لگ رہا تھا۔
مہروانسإ نے نیوی بلیو کلر کا شارٹ فراک پہنا تھا تنگ پاجامہ واٸٹ کلر کا دوپٹہ گلے میں ڈالا تھا بالوں کو سٹریٹ کر کے ساٸڈ سے مانگ نکالے کھلا چھوڑا تھا۔اس کی محویت میں خلل تب پڑا جب ایک عورت اسکے سامنے سے گزر کر پارلر کی جانب بڑھی۔
"آپ لینے آٸے ہیں ہمیں" وہ اس کے قریب پہنچتی بولی۔
"جی" آیان نے گلاسز بالوں پہ کرتے جواب دیا۔
"انکل یا شانی کیوں نہیں آٸے"
"وہ تھوڑا مصروف تھے اس لیے فیضان نے مجھے بھیجا"
"تو کیا اب ہم آپ کے ساتھ جاٸیں گے"
"افکورس میں لینے آیا ہوں تو میرے ساتھ ہی جانا ہے ویسے اگر آپ نہیں جانا چاہتی تو ٹھیک ہے ٹیکسی میں آ جاٸیے گا"
"نہیں نہیں رُکیں میں سحر کو لے کے آتی ہوں"
وہ کار میں بیٹھے شیشا نیچے کیے ان دونوں کا انتظار کرنے لگا ۔مہرو نے پچھلا دروازہ کھول کے سحر کو بٹھایا اور پھر خود اس کے ساتھ بیٹھ گٸی۔وہ شیشا اوپر کرنے ہی لگا تھا کے ایک گیارہ سالہ بچہ نے اُدھر ہاتھ رکھ دیا۔
"اللہ کے نام پہ پنج (پانچھ) دس روپے دے دے" وہ ایک ہاتھ شیشے پہ رکھے دوسرا ہاتھ اس کے آگے پھیلاٸے بولا۔
"اللہ تمہیں خوش رکھے تمہیں لمبی عمر دے ۔اللہ تمہیں حج عمرہ کرواٸے کوٸی پنج دس رپے دے دو"
آیان نے پچاس روپے اس کے ہاتھ میں رکھے
"اللہ تمہاری مرادیں پوری کرے بہت پیارے لگ رہے ہو بھاٸی" وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا بولا۔
مہرو نے اپنے بیگ سے پانچ سو کا نوٹ اس کی ہتھیلی میں رکھا۔
"تمہیں میں اتنے پیسے پتا ہے کیوں دے رہی ہوں" وہ اب اس کی ساٸڈ پہ کھڑا ہو گیا تھا اور سوالیہ نظروں سے مہرو کو دیکھا ۔
"میری دوست کے لیے دعا کرنا کے وہ ہمیشہ خوش رہے اور اپنی آنکھوں کا علاج بھی کروا لینا"
"دعا تو میں کر دوں گا باجی پر یہ میری آنکھوں کو کیا ہوا۔میری آنکھیں بالکل ٹھیک ہیں" وہ حیران ہوا اسے دیکھ رہا تھا آیان کو اس کی بات سمجھ آ گٸی تھی اس نے غصے میں گاڑی آگے بڑھا دی۔
گاڑی ہال کے پارکنگ ایریا میں رُکی مہرو نے سحر کو گاڑی سے باہر نکالا اور پھر عنزہ اور اس کی کچھ اور کزنز بھی اس کے قریب آٸی۔ اور اسے اسٹیج پہ لے کے گٸیں۔ اس نے بھاڑی گولڈن فراک کے نیچے ہم رنگ تنگ پاجامہ پہنا تھا ریڈ دوپٹہ جس کے باڈر پہ گولڈن کام ہوا تھا پورے دوپٹے پہ تھوڑے تھوڑے فاصلے میں گولڈن موتی لگے تھے دوپٹے کو اونچا جھوڑا کر کے اس پہ اٹکایا گیا تھا اسے لا کے صوفے پہ فیضان کے قریب بٹھایا ۔فیضان نے آف واٸٹ تنگ پاجامے کےاوپر آف واٸٹ شیروانی جس پہ لاٸٹ گولڈن کڑھاٸی ہوٸی تھی شیروانی کے بین پہ ڈارک گولڈن کڑھاٸی تھی باٸیں ہاتھ میں گولڈن واچ پہن رکھی تھی۔ پاٶوں میں کھسا پہنا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کسی اور کو دیکھنا بھول گٸے۔
"بس بھی کریں اب سب آپ دونوں کو ہی دیکھ رہے ہیں" شانی قریب رکھے صوفے پہ بیٹھتا مسکراتا ہوا بولا۔
فیضان اس کی بات پہ جیسے خوش میں آیا اور شرمندہ سا ہوتا سامنے دیکھنے لگا۔
مولوی نکاح پڑھانے آ گیا تھا ۔سحر کے چہرے کے آگے گھونگھٹ کر دیا گیا تھا۔ مولوی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا۔
"سحر خالد ولد محمد خالد کیا آپ کو فیضان عابد ولد محمد عابد سے سکہ راٸج الوقت بیس لاکھ روپے حق مہر میں یہ نکاح قبول ہے "۔نکاح خواں کے بولنے پر ارد گرد بیٹھے سب لوگ خاموش ہو گٸے اور سحر کی طرف دیکھنے لگے ۔ہر لڑکی کی طرح سحر کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گٸے دھڑکن تیز ہو گٸی کے جیسے پھٹ کے باہر ہی آ جاٸے گی بیشک اس شادی میں اس کی مرضی شامل تھی وہ خوش تھی لیکن یہ وقت ہی ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
"ق۔۔قبول ہے" اس نے بھڑاٸی ہوٸی آواز میں کہا۔
"قبول ہے" نکاح خواں نے دوبارہ کہا۔
"قبول ہے" آنسو کی لڑی اس کی آنکھ سے نکلی۔
"کہیے قبول ہے"
"قبول ہے" اس کے ہاتھ کانپنا شروع ہو گٸے۔اس نے دونوں ہاتھ اپنی گود میں رکھ لیے۔
پھر اس کے آگے نکاح نامہ کیا گیا بیٹا اِدھر دستخط کریں نکاح خواں نے دستخط والی جگہ پہ انگلی رکھتے ہوے کہا۔
سحر نے کانپتے ہاتھوں سے دستخط کیے۔ اور پھر سب کے چہروں پر مسکراہٹیں پھیل گٸیں۔نکاح خواں اب نکاح کے کلمات فیضان سے کہہ رہا تھا۔
"فیضان عابد ولد محمد عابد کیا آپ کو سحر خالد ولد محمد خالد سے نکاح قبول ہے"۔
"قبول ہے" اس نے مسکراتے ہوے کہا
"کیا آپ کو قبول ہے"
"قبول ہے" آنکھوں میں چمک بڑھی۔
"قبول ہے"
"قبول ہے" اس نے دل سے کہا۔
سب نے مبارک باد دیتے ہوے اسے گلے سے لگایا۔
"آج تو سیم سیم ڈریسنگ کیا بات ہے" مہرو ان کے پاس سے گزری جب ارہم نے ان دونوں کے سیم کلر کے ڈریس پہننے پر چوٹ کی۔
"یہ اتفاقاً ہوا ہے" آیان منہ بسورتا بولا۔
"تو میں نے کب کہا کےتم لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھ کے پہنے" وہ مسکراتا ہوا بولا۔
"ہمم ایسا کبھی ہو بھی نہیں سکتا "
"وقت کا پتا نہیں ہوتا کب کیا ہو جاٸے" ارہم ایک ادا سے بولا۔
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابد ہاٶس میں خوشیوں بھرا سورج اپنی پوری آب و تاب لیے طلوع ہو چکا تھا ۔ سحر فریش ہو کے شیشے کے سامنے کھڑی پینڈنٹ باندھنے کی کوشش کر رہی تھی جو اسے فیضان نے اس کے پاس ہونے پہ دیا تھا۔ تب فیضان کی آنکھ کھلی وہ اٹھ کے فریش ہونے واش روم میں چلا گیا اور جب نکلا تو سحر وہی کھڑی پینڈٹ لاک کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔وہ اس کے قریب آیا اس کے بال پیچھے کیے اور پینڈنٹ لاک کیا پھر اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا اور اس کے بالوں پر اپنے لب رکھے سحر نے آنکھیں میچ لیں پھر دروازہ ناک ہوا اور وہ جٹ سے پیچھے ہوٸی فیضان نے دروازہ کھولا تو سامنے شعبانہ تھی ۔
"جلدی آ کہ ناشتہ کرو سحر بیٹا پھر پارلر بھی جانا ہے فیضان تم بھی جلدی آٶ" آج ولیمہ کی تقریب بھی ہوٹل میں رکھی گٸی تھی۔ وہ دونوں نیچے گٸے ناشتہ کیا اور پھر شانی سحر اور مہروالنسإ کو پارلر لے گیا شادی کے دنوں مہروالنسإ سحر کے گھر ہی رکی تھی۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سحر خوبصورت سے ہیوی فراک میں ملبوس تھی اور فیضان نے بلیک کلر کا تھری پیس زیب تن کیا تھا دونوں بے حد خوبصورت لگ رہے تھے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے میرج ہال میں داخل ہوے جیسے ہی وہ آٸے ساری لاٸٹس آف کر دی گٸیں صرف ایک لاٸٹ آن تھی جس میں صرف وہ دونوں نظر آ رہے تھے۔مووی میکر ان حسین لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر رہا تھا۔
جیسے ہی ان دونوں نے قدم آگے بڑھایا ہال میں گانے کی آواز گونجنے لگی۔
میرے ہاتھ میں تیرا ہاتھ ہو ساری جنتیں میرے ساتھ ہوں۔۔
میرے ہاتھ میں تیرا ہاتھ ہو ساری جنتیں میرے ساتھ ہوں
تو جو پاس ہو پھر کیا یہ جہاں تیرے پیار میں ہو جاٶں فنا۔۔
میرے ہاتھ میں تیرا ہاتھ ہو ساری جنتيں ميرے ساتھ ہوں۔۔
میرے ہاتھ میں تیرا ہاتھ ہو ساری جنتیں میرے ساتھ ہوں۔۔
تیرے دل میں میری سانسوں کو پناہ مل جاٸے۔۔
تیرے عشق میں میری جاں فنا ہو جاٸے۔۔
جتنے پاس ہے خوشبو سانس کے
جتنے پاس ہونٹوں کے سرگم
جیسے ساتھ ہے کروٹ یاد کے
جیسے ساتھ بانہوں کے سنگم

جتنے پاس پاس خوابوں کے نظر
اتنے پاس تو رہنا ہمسفر
تو جو پاس ہو پھر کیا یہ جہاں تیرے پیار میں ہو جاٶں فنا۔۔
میرے ہاتھ میں تیرا ہاتھ ہو ساری جنتیں میرے ساتھ ہوں
جیسے ہی گانا ختم ہوا وہ دونوں سامنے اسٹیج پہ رکھے صوفے پہ بیٹھ گٸے۔
مہروالنسإ نے لانگ فراک پہن رکھا تھا وہ کھڑی عنزہ سے باتیں کر رہی تھی جب اس کو خود پہ نظروں کی تپش محسوس ہوٸی اس نے داٸیں باٸیں نظریں دوڑاٸی تو اسے اسٹیج کے داٸیں طرف لڑکا نظر آ گیا جو مسلسل اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔وہ اُلجھن کا شکار ہوٸی اور ادھر سے ہٹ کر اپنی ماما کے قریب جا بیٹھی ۔لڑکا بھی وہاں سے ہٹ کر اس کے ٹیبل سے دو ٹیبل چھوڑ کے کھڑا اسے دیکھنا شروع ہو گیا ۔مہرو چاہ کے بھی اسے اگنور نہیں کر پا رہی تھی اس کی گندی نظر سے تنگ آ کہ وہ غصے میں اٹھ کھڑی ہوٸی اور اپنی فراک کو دونوں ہاتھوں سے تھوڑا اوپر کیے تیز تیز چلتی اسٹیج کی طرف بڑھی۔ اس کا فراک اس کے پاٶں کے نیچے آ گیا وہ گرنے ہی لگی تھی کے کسی نے اسے تھام لیا۔ آیان نے اس کا فراک اس کے پاٶں کے نیچے آتا دیکھ لیا اور جلدی سے اس کی طرف بڑھ کے ایک بازو اس کے آگے پھیلا دیا اور دوسرا اس کے کندھے پہ رکھ کے اس کو گرنے سے بچایا۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے" مہرو بجاٸے اس کے شکر گزار ہونے کے اس پہ بھڑکی۔ وہ اس لڑکے کا غصہ اب آیان پہ نکالنے لگی تھی۔
"آپ گرنے لگی تھی تو بس اسی لیے میں نے آپ کو پکڑا" وہ اسے چھوڑتا سیدھا ہوتا بولا۔
"بہت اچھے سے جانتی ہوں میں آپ لڑکوں کو لڑکی کہیں دیکھ لی تو بس پھر اس کے پیچھے آ گٸے" وہ اونچی آواز میں بولی۔
"میں نے آپ کو بس گرنے سے بچایا ہے" وہ غصہ ضبط کرتا بولا۔
"کس نے کہا تھا بچاٸیں" اب لوگ ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔ فیضی ان کے قریب آیا۔
"کیا ہو گیا ہے مہرو"
"کچھ نہیں فیضی بھاٸی" کہتی وہ آگے بڑھ گٸی ۔آیان غصے میں باہر کی طرف چل دیا۔
"آیان میری بات سنو" فیضان نے آواز دی۔ وہ رک گیا ۔فیضان اس کے قریب گیا ۔
"کیا ہو گیا ہے کھانا تو کھا لو نا"
"نہیں میرا موڈ نہیں ہے میں چلتا ہوں"
"اس کی طرف سے میں معزرت کرتا ہوں وہ غصے میں یہ سب کہہ گٸی"
"اٹس اوکے" کہتا وہ باہر چلا گیا کار کے پاس جا کے اس نے ارہم کو بھی کال کر کے بلا لیا ۔
ارہم جانتا تھا وہ بہت غصے میں ہے اس لیے وہ کوٸی بات کیے بغیر ہی کار میں بیٹھ گیا۔
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
Do vote and comment😉

محبت،یقین اور خواہش Completed 💕Where stories live. Discover now