محبت، یقین اور خواہش

3.4K 193 45
                                    

قسط:١١
کتنی ہی دیر وہ وہیں کھڑی رہی پھر سر جھٹک کے کچن میں آٸی ساری چیزیں سمیٹیں برتن دھوٸے کمرے میں آ کے کمرا صاف کرنے لگی اسے بار بار آیان یاد آ رہا تھا اس کا خود کے قریب کرنا اسے سر پہ کس کرنا اور یہ کہنا کے اپنا خیال رکھنا اس نے بیڈ شیٹ تیسری دفعہ ٹھیک کی تھی پر اسے تو ہوش ہی نہیں تھا ہوش تو تب آیا جب وہ پرفیوم فریج میں رکھنے لگی تھی
ا"فف کیا ہو گیا ہے مجھے" وہ اپنے سر پہ ہلکا سا تھپڑ لگاتی بولی پھر کمرے میں آ کے پرفیوم ڑریسنگ ٹیبل پہ رکھا خود کو آٸینے میں دیکھا پھر سے وہی سین آنکھوں کے سامنے سے گزرا (خیال رکھنا اپنا) کمرے میں آواز گونجی وہ پلٹی پر کوٸی نظر نہیں آیا وہ مسکرا دی بیڈ ساٸیڈ ٹیبل سے موباٸل پکڑا اور لان میں آ گٸی اسے رہ رہ کے آیان یاد آ رہا تھا دل تھا کے بس اسے پکاڑ رہا تھا آنکھیں تھی کے اسے دیکھنا چاہ رہی تھیں پر کیسے۔۔۔ ابھی تو اسے گٸے کچھ گھنٹے ہوے تھے رات آٹھ بجے تک انتظار کرنا مشکل ہو رہا تھا دیکھ تو نہیں پر بات تو وہ اس سے کر سکتی تھی موباٸل آن کیا آیان کا نمبر نکالا پر۔۔۔۔۔ پھر چھوڑ دیا تھوڑی دیڑ یوں ہی خلا میں دیکھتی رہی پھر موباٸل پکڑا آیان کا نمبر نکالا۔۔۔۔اور پھر وہی ہمت ہی نہیں ہوٸی کال کرنے کی واپس کمرے میں آٸی داٸیں جانب دیوار پہ آیان کی تصویر لگی نظر آٸی تصویر میں تو ارہم بھی تھا پر اسے تو صرف آیان چوہدری نظر آیا صوفے پہ کھڑی ہوٸی تصویر اتاری اور پھر اسے پکڑ کے صوفے پہ بیٹھ گٸی کتنی ہی دیر تصویر دیکھتی رہی پھر اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیڑا پھر اس کی آنکھیں دیکھی کتنی خوبصورت ہیں ڈارک بڑاٶن خوبصورت تو وہ بھی ہے نہیں آنکھیں زیادہ پیاری ہیں دل کی آواز آٸی بے ساختہ ہی تصویر کو لبوں تک لے گٸی اس سے پہلے کے وہ ٹچ ہوتے موباٸل بجا تصویر گرتے گرتے بچی مہروالنسإ نے تصویر صوفے پہ رکھی اور موباٸل دیکھا آیان کی کال تھی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں کال پک کی پر بولا نہیں گیا۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم" خوبصورت سی آواز آٸی
"وَعَلَيْكُم السَّلَام" دھیمے سے جواب دیا
"کیسی ہو؟" آیان نے پوچھا پر مہرو۔۔۔کیا وہ ٹھیک سن رہی تھی؟ کیا آیان نے اس سے پوچھا تھا؟
"بول کیوں نہیں رہی؟"
"ک۔۔کیا کہا تم۔۔۔آپ نے" افف خوشی میں تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔
"میں نے پوچھا کیسی ہو؟" آہاں تو جو مہرو نے سنا تھا وہ ٹھیک تھا۔
"ٹھیک ہو آپ۔۔۔کیسے ہیں ڈاکٹر کے پاس گٸے تھے؟"
"ہاں آج آتے ہوے ڈریسنگ چینج کرواٶں گا "
"ہمم "
"دو لڑکے آٸیں گے ٹیبل چھوڑنے گلاس چینج کر دیا ہے بس یہی بتانے کے لیے کال کی تھی ان کے جاتے ہی دروازہ بند کر لینا اوکے"
"اوکے" باتیں تو وہ بہت کرنا چاہ رہی تھی پر سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے کیسے کرے بات تو آیان بھی کرنا چاہ رہا تھا۔
"کیا کر رہی تھی؟" کیا کر رہی تھی وہ۔۔ن۔نہیں کیسے بتاتی۔۔وہ تو اس کی پک اور پھر اسے۔۔۔نہیں وہ کیسے بتا سکتی تھی۔
"ک۔۔کچھ نہیں"
"چلو ٹھیک ہے خیال رکھنا اپنا الله حافظ" پر مہروالنسإ کو تو ابھی بات کرنی تھی۔
"آیان"
"ہمم کچھ کہنا ہے"
"نن۔نہیں الله حافظ"
"الله حافظ" فون بند کر دیا گیا۔
وہ واپس صوفے پہ بیٹھی تصویر پکڑی (کیسی ہو۔۔خیال رکھنا اپنا جب تم روتی ہو تو مجھے اچھا نہیں لگتا) گہری مسکراہٹ نے لبوں کا احاطہ کیا تصویر کو پھر سے لبوں کے قریب کیا۔۔ نہیں کسی نے دیکھ لیا تو پر گھر تو وہ اکیلی تھی اس نے اِدھر اُدھر دیکھا پھر ہمت کی پر نہیں آیان نے دیکھ لیا تو پر وہ تو آفس ہے۔۔اسے پتا چل گیا تو؟ پتا کیسے چلے گا اور پھر جیسے ہی تصویر ہونٹوں کے قریب کی دروازے پہ بیل ہوٸی یقیناً ٹیبل چھوڑنے آٸیں ہوں گے تصویر کو صوفے پہ رکھا پھر جا کے دروازہ کھولا لڑکے ٹیبل چھوڑ کے گٸے دروازہ بند کیا اور اندر آٸی تصویر کو اٹھا کے اس کی جگہ پہ لگایا اور پردے پیچھے کر کے کھڑکی کے پاس کھڑی ہو گٸی کھڑکی سے لان کا منظر نظر آتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم" شازیہ بیگم بولیں۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام میں بھی تمہیں ہی فون کرنے والی تھی" عطیہ بیگم نے کہا۔
"کہو کیا کہنا تھا" اکھڑے لہجے میں کہا گیا۔
"نہیں تم بتاٶ پھر میں بتاتی ہوں"
"میں نے تو بس اسی لیے فون کیا تھا کے کسی آس پہ مت رہنا میں یہ رشتہ نہیں کروں گی"
"کیا مطلب ہے تمہارا" آنکھیں سکڑیں
"مطلب صاف واضح ہے" تلخی سے کہا گیا۔
"کیوں نہیں کرو گی کیا ہوا؟"
"تمہیں کون سا نہیں پتا ایک ایک بات تمہارا بیٹا بتاتا ہے تمہیں"
"ہاں تو کیا غلط کر رہا تھا بلال. اس کی ہونے والی بیوی ہے"
"تمہیں شرم نہیں آٸی یہ بکواس کرتے ہوے ہونے والی بیوی تھی پر اب یہ کبھی نہیں ہو گا میں کبھی بھی اپنی بیٹی کو بلال جیسے آوارہ لڑکے سے نا بیاہوں"
"زبان سنمبھال کے بات کرو کیا غلط کر دیا میرے بیٹے نے بس۔۔۔۔۔"
"کیا بس اسے شرم نہیں آٸی یوں لوگوں کے سامنے اس سے زبردستی کرتے ہوے اگر ارہم یا آسف کو پتا چلتا تو تمہیں پتا ہے میرے ساتھ کیا ہوتا۔۔"
"اسے شرم نہیں آٸی تو تمہاری بیٹی شرم کر لیتی نا جاتی اس کے ساتھ کیوں گٸی تھی"
"اسے میں نے بھیجا تھا مجھے نہیں پتا تھا کے بلال اس قدر گھٹیا نکلے گا وہ تو شکر ہے آیان وہاں موجود تھا"
"اچھاااا اب آیان بڑا اچھا لگ رہا ہے ویسے تو اس کے خلاف بہت باتیں کرتی ہو "
"تم اپنا منہ بند رکھو یہ میرے گھر کا مسلہ ہے اور ہاں اپنے بیٹے کو بھی سمجھا دینا کے اب ہمارے گھر نا آٸے ویسے مجھے لگتا تو نہیں اب وہ آٸے گا کیونکہ آیان اس کی بہت عزت افزاٸی کر چکا ہے"
"اسے کوٸی ضرورت بھی نہیں آنے کی سنبھال کے رکھو تم اپنی بیٹی اور اپنا آیان ہنہہ" فون بند۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تجھے کیا ہوا" آیان ارہم کے کیبن میں داخل ہوا تو وہ اداس سا بیٹھا کسی سوچ میں گم تھا۔
"کچھ نہیں"
"کچھ تو ہوا ہے" وہ کرسی دھکیل کے اس پہ بیٹھتا بولا۔
"نہیں یار"
"بتا رہا ہے یا نہیں؟"
"کچھ ہے ہی نہیں تو بتاٶں کیا؟"
"کچھ نہیں سوچ لے"
"نہیں ہے"
"ٹھیک ہے جا رہا ہوں میں جب کچھ یاد آٸے تو بتا دینا ورنہ میرے پاس آنے کی کوٸی ضروت نہیں کہتا وہ اٹھ گیا"
"بیٹھ تو"
"یاد آ گیا؟"
"کیا؟"
"اتنا نا بن سیدھی طرح بک"
"یار تجھے کیا نظر آیا میرے منہ پہ"
"یہی کے کچھ تو ہے جو ارہم چوہدری مجھ سے چھپا رہا ہے"
"اچھااا پر یہ تیری غلط فہمی ہے"
"تو نہیں بتا رہا"
"سالے کچھ ہو تو بتاٶں نا"
"شرم کر اور نا بتا مجھے نا بلانا اب "
"اوٸے بات تو سن"
"وہی بات"
"کونسی؟"
"بیٹھا رہ یہیں جا رہا ہوں میں" دروازہ زور سے بند کرتا غصے میں کہتا وہ چلا گیا۔
اور یہاں ارہم سوچوں میں گم ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیان کمرے میں داخل ہوا تو مہروالنسإ موباٸل پہ کچھ دیکھ رہی تھی وہ اس پہ نظر ڈال کے کپڑے پکڑتا واش روم میں چلا گیا۔
فریش ہو کے نکلا مہروالنسإ کمرے میں نہیں تھی وہ یقیناً کچن میں ہو گی وہ بھی وہیں چلا گیا اس نے کھانا لگایا۔
مہروالنسإ کی اس کے ہاتھ پہ نظر پڑی تو پٹی اتری ہوٸی تھی۔
"آیان ڈریسنگ۔۔۔۔۔"
"نہیں ہاتھ ٹھیک تھا پہلے سے اس طرح بہت الجھن ہوتی تھی تو میں اتروا آیا"
"پر۔۔۔"
"ٹھیک ہے اب تم کھاٶ کھانا"
پھر دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا آیان کمرے میں چلا گیا مہرو بھی برتن سمیٹ کے کمرے میں آ گٸی آیان کھڑکی کے پاس کھڑا تھا۔ وہ بیڈ پہ بیٹھ گٸی بات تو دونوں کرنا چاہتے تھے پر دونوں کو ہی کوٸی بات نہیں مل رہی تھی دونوں ایک دوسرے کو دیکھنا بھی تو چاہتے تھے پر ایسا بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ آیان بھی آ کے بیڈ پہ بیٹھ گیا۔ کے اس کے موباٸل کی اسکرین چمکی موباٸل اٹھایا بڑی ماما کالنگ لکھا آ رہا تھا اس نے کال ریسیو کر کے موباٸل کان سے لگایا۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم بیٹا کیسے ہو؟" شازیہ بیگم نرمی سے بولیں اور یہاں آیان کو شاک لگا اسے بیٹا کہا تھا اور وہ بھی شازیہ بیگم نے
"ٹھیک آپ کیسی ہیں؟"
"میں بھی ٹھیک ہوں"
تھوڑی دیڑ خاموشی رہی پھر شازیہ بیگم کی آواز آٸی۔
"بیٹا میں تم سے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔۔بہت غلط کیا میں نے تمہارے ساتھ۔۔۔پرسوں بھی تمہاری وجہ سے میری بچی کی۔۔۔۔۔اور میں نے تم پہ شک کیا تمہیں تھپڑ مارے۔۔۔بہت غلط کرتی رہی ہوں میں بیٹا تمہارے ساتھ مجھے معاف کر دو" آخری لاٸن بولتے ہوے ان کی آواز بھڑا گٸی شاید انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا تھا یا مریم نے کروا دیا تھا۔ آیان خاموش رہا۔
"مجھے پتا ہے تمہیں ابھی بھی یہی لگ رہا ہو گا کے میں کوٸی ڈرامہ کر رہی ہوں کیونکہ میں نے آج تک تمہارے ساتھ کیا ہی کیا ہے معاف کر دو مجھے" ایک موتی ٹوٹ کے ان کی آنکھوں سے گِرا آیان نے بغیر کوٸی جواب دیے فون بند کر دیا۔
(لفنگا مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ شکر ہے جان چھوٹی اس سے مجھے تو ہر وقت اپنی بیٹی کی فکر رہتی تھی) وہ اٹھ کے ہال میں چلا گیا کتنی ہی دیڑ وہیں بیٹھا رہا خود پہ قابو پایا تو اٹھ کے اندر آیا مہروالنسإ ابھی بھی بیڈ پہ بیٹھی خلا میں دیکھ رہی تھی وہ اس کے قریب بیٹھا۔
"سوٸی کیوں نہیں ابھی تک؟"
"تم۔۔آپ کا انتظار کر رہی تھی" نظریں جھکاۓ ہی بولی۔ آیان اس کے تم اور آپ پہ مسکرایا کال پہ بھی تو وہ اسے ایسے ہی کہہ رہی تھی۔
"پہلے بتاٶ تم یا آپ" وہ اسے دیکھتا بولا۔
"تم۔۔۔نن۔۔نہیں آپ"
"تم ہی کہہ لیا کرو"
"نہیں آپ کہوں گی"
"اوکے" پھر آیان نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنے لبوں سے لگایا۔
"سو جاٶ" اس نے اثبات میں گردن ہلاٸی آیان اٹھنے لگا تو مہرو بولی۔
"آیان" اس نے ابرو اچکاۓ
"کس کی کال تھی؟"
"بڑی ماما کی"
"کیا کہہ رہی تھیں؟"
"معافی مانگ رہی تھیں" وہ واپس بیٹھتا ہوا بولا۔
"کیا کہا آپ نے" وہ اسے دیکھتے بولی۔
"کچھ نہیں"
"کیوں؟"
"پتا نہیں"
"کر دیں معاف" وہ مہرو کو بڑی ماما کے بارے میں ہر بات بتا چکا تھا۔
"ہمم"
"ہمم کیا؟"
"سوچوں گا"
"آیان انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو آپ معاف کر دیں نا" وہ اس کا ہاتھ پکڑتے بولی۔
"اچھا" مہروالنسإ نے اس کا زخم دیکھا پھر اس پہ اپنے لب رکھ دیے آیان دیکھ کے مسکرا دیا۔
"سو جاٸیں اب؟" آیان بولا۔
"نہیں"
"کیوں؟" آیان نے بھنویں سمیٹیں
"مجھے۔۔۔۔" وہ شرماٸی۔
"کیا؟"
"ک۔۔کچھ نہیں" آیان اٹھ گیا۔ مہرو پھر بولی۔
"آیان"
"جی بولیں"
وہ بھی بیڈ سے اتری اور اس کے گلے لگ گٸی۔
آیان کی تو حیرت سے آنکھیں پھیل گٸیں۔ پھر مسکراتے ہوے اس کے گرد بازو حماٸل کر دیے۔تھوڑی دیر وہ یوں ہی آنکھیں موندے اس کے سینے سے لگی رہی پھر آیان نے اسے خود سے الگ کرنا چاہا پر مہرو کا کوٸی ارادہ نہیں تھا۔
"میڈم جی سونا نہیں کیا"
خاموشی۔۔
"زیادہ پیار آ رہا ہے مجھ پہ"
"ہمم" اس کو تو شدید دھچکا لگا مس لڑاکا اتنی رومینٹک ہو گی۔
"چلو لیٹ جاٶ مجھے صبح کام پہ بھی جانا ہے" آیان نے اسے خود سے الگ کیا اور اس کے ماتھے پہ پیار کی مہر ثبت کی۔
اور پھر لاٸیٹ آف کر کے وہ دونوں لیٹ گٸے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں نے ناشتہ کیا آیان آج پھر دروازے پہ جا کے پلٹا بانہیں پھیلاٸیں اور مہروالنسإ اس کے گلے لگی اس کے سر پہ پیار کیا "خیال رکھنا اپنا" کہتا وہ نکل گیا مہروالنسإ بھی مسکراتی ہوٸی کچن میں آ گٸی برتن سمیٹ کے گھر کی صفاٸی کی اور لان میں آ گٸی پودوں کو پانی دیا اور پھر وہیں بیٹھ گٸی خوشی چہرے سے صاف چھلک رہی تھی بیٹھے تھوڑی دیڑ ہی ہوٸی تھی کے آیان کی کال آٸی پک کر کے موباٸل کان سے لگایا ۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم"
"وَعَلَيْكُم السَّلَام"
"کیسی ہو؟"
"جیسی چھوڑ کے گٸے تھے" خوشی سے بولی۔
"کیسی چھوڑ کے گیا تھا؟"
"بہت خوش "
"آہاں"
"جی" پھر ڈور بیل کی آواز آٸی۔
"کوٸی آیا ہے میں دیکھ کے آتی ہوں"
"اوکے"
پھر اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک لڑکا فریش پھولوں کا گلدستہ لیے کھڑا تھا۔ اس نے بوکے مہروالنسإ کی طرف بڑھایا۔
"کس نے بھیجا"
"آیان چوہدری نے میم یہاں ساٸن کر دیں" وہ پین اس کی طرف بڑھاتا بولا مہروالنسإ نے ساٸن کیے دروازہ بند کیا اور بکے پکڑتی لان میں آ گٸی موباٸل کان سے لگایا۔
"آیان"
"جی کون تھا؟"
"بوکے آپ نے۔۔۔۔"
"اچھا تو تمہیں مل گیا جی میں نے بھیجا" "کیسا لگا؟"
"بہت پیارا" وہ ان پہ ہاتھ پھیرتی بولی وہ ریڈ اور واٸٹ پھولوں کا تھا۔
"کتنا پیارا؟"
"بہت"
"مجھ سے زیادہ؟" وہ شریر مسکراہٹ لیے بولا۔
"ننن۔۔۔۔ آیان"
"جی"
"یہ کیسا سوال ہے؟"
"کیسا سوال ہے سمپل سا تو ہے"
"ماما کی کال آ رہی ہے۔۔۔پھر بات کروں گی الله حافظ"
"الله حافظ" مسکراتے ہوے اس نے کال بند کر دی جانتا تو وہ تھا کے یہ جواب نا دینے کے لیے کہا گیا ہے۔
مہروالنسإ پھولوں کو لے کے ہال میں آٸی ان کی خوشبو اپنے اندر اتاری وہ بہت خوش تھی اتنی کے کوٸی آتا تو دیکھ کے ہی پتا چل جاتا کے مہروالنسإ بہت خوش ہے۔ پھر اس نے ربعیہ بیگم کو کال کی۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم ماما"
"وَعَلَيْكُم السَّلَام میری جان کیسی ہو؟"
"بالکل ٹھیک آپ کیسی ہیں؟"
"میں بھی ٹھیک بہت خوش لگ رہی ہو"
"جی بہت خوش ہوں"
"مجھے بھی تو بتاٶ کیوں خوش ہو اتنا"
"وہ۔۔۔بس ویسے ہی"
کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ بولی۔
"ماما جان بُوا سے بات کروا دیں"۔ پھر ربعیہ بیگم نے موباٸل بُوا کو پکڑایا۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم بُوا جی کیا خال ہے؟"
"وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ اللہ کا شکر ہے تم سناٶ؟"
"میں بھی ٹھیک بہت خوش ہوں میں آج بُوا جی"
"اچھاا اللہ تمہیں خوش ہی رکھے ویسے کیوں خوش ہو مجھے بھی تو بتاٶ"
"بُوا جی آیان بہت بہتتت اچھے ہیں" خوشی لہجے سے صاف واضح تھی۔
"ہر انسان اچھا ہوتا ہے حالات بُرا بنا دیتے ہیں اور پھر آیان تو مجھے ویسے ہی بہت اچھا
لگتا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرنا۔ نوافل ادا کرنا"۔
"جی بُوا جی کروں گی"
"تیار بھی ہوا کرو تھوڑا بہت"
"نہیں مجھے اچھا نہیں لگتا"
"کیوں؟ وہ محرم ہے تمہارا"
"جی۔۔۔پر"
"پر ور کچھ نہیں ہلکا ہلکا تیار ہوا کرو"
"اوکے بوا جی آپ بہت اچھی ہیں لو یو"
"یہ مجھے نہیں آیان کو کہا کرو" وہ مسکراتے ہوے بولیں۔ مہروالنسإ جھینپ گٸی۔
"اوکے الله حافظ"
"الله حافظ"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"شرم نہیں آٸی ویسے تمہیں اتنے نمبر لیتے ایسا کرو چُلو بھر پانی میں ڈوب مرو" عنزہ جب سے کالج سے آٸی تھی اور اسے شانی کا رزلٹ پتا چلا تھا تب سے بار بار اسے یہی کہہ رہی تھی۔
"دیکھ لوں گا تمہیں بھی موٹی"
"تو ابھی دیکھ لو تمہارے سامنے بیٹھی ہوں" وہ تپانے والی مسکراہٹ لیے بولی۔
"تمہیں دیکھنا کون پسند کرتا ہے تمہارے نمبر کہا ہے ہنہہ"
"مجھے تو پوری دنیا دیکھنا پسند کرتی ہے وہ بھی ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ" اس نے ایک ادا سے اپنی پونی میں قید بال لہراۓ۔
"ہاہاہا جوک آف دا ڈے"
"ہی ہی ہی تم بس جل جل کے مر جانا"
"تمہاری زبان بند نہیں ہو رہی تب سے مر مر لگاٸی ہے ایسے کہتے ہیں بھاٸیوں کو" ریحانہ بیگم سبزی کی ٹوکری لیے صوفے پہ بیٹھتی بولیں۔
"اور جو یہ مجھے کہتا رہتا ہے"
"وہ بھاٸی ہے تمہارا "
"تو میں بھی بہن ہوں اس کی"
"شرم کیا کرو بہت زبان چلنے لگی ہے تمہاری بڑے چھوٹے کا لحاظ ہی نہیں" وہ گاجر چھیلتی ہوٸی بولیں اور زیشان ہنسنے کے ساتھ ساتھ عنزہ کو اشارے بھی کر رہا تھا جس سے اس کا پارا اور ہاٸی ہو رہا تھا۔
"ناچنے کی کوٸی ضرورت نہیں جو میں نے کہا ہے اس پہ عمل کر لو" وہ غصے میں آیان کو دیکھتی بولی۔
"دیکھ لیں ماما پھر وہی کہہ رہی ہے" وہ معصوم شکل بناتا بولا۔
"عنزہ تم نے مار تو نہیں کھانی مجھ سے کیا اول فول بک رہی ہو"
"ماما اسے بھی تو کہیں نا"
"کیا کہوں اسے وہ تو تب سے چپ بیٹھا ہے تمہاری ہی زبان بند نہیں ہو رہی"
"ہاں جی آپ کو تو وہ اچھا ہی لگنا ہے بیٹا جو ہے "
"ہاں ہاں ٹھیک ہے جاٶ جا کے پڑھو"
"بندر ادھر بنگھڑے ڈال رہے ہو باہر جا کے ڈالو تھوڑا کما بھی لو گے حلیا تو ویسے ہی تمہارا بیکاریوں والا ہے" وہ اسے کشن مارتی چلے گٸی۔
"ماما دیکھ لیں اسے" وہ رونی صورت بنا کے بولا۔
"اتنے بنو نہیں تم بہت اچھے سے جانتی ہوں تمہیں"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں ڈنر کر رہے تھے پر آیان کی نظریں مہرو سے ہٹنے سے انکاری تھیں اس نے بلیک ڈریس پہنا ہوا تھا بازو تھری کواٹر تھے بالوں کو کیچر لگا کے پیچھے کھلا چھوڑا تھا لاٸیٹ پنک لپ اسٹک لگاٸی تھی وہ نظروں کی تپش محسوس کر رہی تھی کھانا مشکل ہو رہا تھا اس کیے بول پڑی۔
"کیا دیکھ رہے ہیں؟" اس کی طرف دیکھتے کہا
"تمہیں" گھمبیر آواز میں کہا گیا مہرو نے تھوڑا سا کھانا کھایا اور اٹھ کے کمرے میں چلے گٸی آیان بھی پیچھے آیا وہ بیڈ پہ بیٹھنے لگی تھی آیان نے اس کا بازو پکڑ کے اسے اپنی طرف کھینچا۔
"آیان"
"ہمم" اس نے اسے اپنی بانہوں کے حصار میں لیا۔ پھر اس کے ریشمی سیاہ بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا مہرو کو اس کی انگلیوں کے لمس سے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔
"آیان چھوڑیں" وہ دونوں ہاتھ اس کے سینے پہ رکھتی اسے پیچھے کرنے لگی پر ندارد اس کی دھڑکن تیز ہوٸی سانسیں بے ترتیب۔
" بیوی ہو تم میری" وہ محبت سے چور لہجے میں بولا۔ مہروالنسإ نے بھی خود کو کمپوز کرتے ہوے اس کے سینے پہ سر دھر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نٸی صبح کا آغاز ہوا خوشیوں سے بھری محبت سے بھری. آیان جاگنگ سے واپس آیا تو مہروالنسإ ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑی بالوں پہ برش کر رہی تھی وہ اس کے قریب آیا مہروالنسإ کے چہرے پہ حیا کے رنگ بکھرے ہوے تھے نظریں شرم سے جھکی ہوٸی تھیں آیان نے اسے کندھوں سے پکڑ کے اس کا رخ اپنی جانب کیا مہرو نے نظروں کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی جھکا لیا آیان نے ٹھوڑی سے پکڑ کے اس کا چہرہ اوپر کیا۔
"میری طرف دیکھو"
بے سود
"دیکھو تو" وہ مسکراتا ہوا بولا۔ مہروالنسإ نے نظریں اٹھاتے ہی پھر جھکا لیں۔ آیان ہنسا۔
"جاٶ ناشتہ لگاٶ میں فریش ہو کے آتا ہوں" وہ بغیر کچھ کہے کمرے سے نکل گٸی آیان بھی مسکراتا ہوا واش روم میں چلا گیا۔
آیان کرسی پہ تو بیٹھ گیا پر ناشتہ شروع نہیں کیا۔
"کیا ہوا کھا کیوں نہیں رہے؟" مہرو بولی۔
"اممم تم کھلاٶ" مہرو کا تو منہ ہی کھل گیا۔
"کیا ہے ایسا کیا کہہ دیا جو ایسے دیکھ رہی ہو"
"میں کیوں کھلاٶں خود کھاٸیں"
"نہیں تم کھلاٶ"
"آیان"
"جی مسز آیان" اب منہ کھلنے کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی حیرت سے پھیل گٸیں ۔
"کیا ہے کھلاٶ گی یا میں چلا جاٶں"
(زیادہ فری نہیں ہو رہے) دل کی آواز
"نہیں زیادہ تو نہیں ہو رہا" وہ مسکراتا ہوا بولا۔
اور اب تو مہرو نے سر ہی پکڑ لیا۔ (اسے کیسے پتا چلا)
"بس چل گیا" وہ شریر مسکراہٹ لیے بولا۔
"آیان"
"جی مسز آیان"
"لیٹ ہو رہے ہیں آپ"
"ہاں تو کہتی ہو تو ناشتہ کیے بغیر ہی چلا جاتا ہوں"
"تو کریں نا "
"نہیں تم کھلاٶ"
"اففف پھر وہ اس کے ساتھ والی چٸیر پہ بیٹھی اور اسے کھلانے لگی" اور آیان چوہدری اسے دیکھتے گیا۔
"آیان"
"جی"
"اگر مجھے دیکھیں گے تو میں نہیں کھلاٶں گی"
"کیوں "
"مجھے الجھن ہوتی ہے"
"اچھا نہیں دیکھتا کھلاٶ اب" پر نظریں تو بار بار اس پہ ہی ٹہر رہی تھیں۔
"آیان" وہ دانت پیستی بولی۔
"یار میرا قصور نہیں ان آنکھوں کو سمجھا لو"
"یہ آنکھیں کس کی ہیں؟"
"میری"
"تو پھر انہیں کنٹرول میں رکھیں"
"نہیں رہ رہیں"
"جلدی کھاٸیں" پھر اس نے ناشتہ کیا بلکہ آیان کو کروایا خود تو ابھی کرنا تھا آیان اٹھ کے روم سے چابی لایا گلاسز لگاٸے مہروالنسإ کے ماتھے پہ کس کی اور چلا گیا۔مہروالنسإ نے صفاٸی کی اور اپنی من پسند جگہ لان میں چلی گٸی۔
"آیان" آیان فاٸلز پہ جھکا ہوا تھا جب ارہم اس کے کیبن میں داخل ہوا۔
"کیسا ہے؟"
"نظر نہیں آ رہا" سپاٹ لہجے میں کہا گیا۔
"کیا ہوا اتنا منہ کیوں بنا ہوا ہے؟"
"غلط فہمی ہے تیری اور تو کیا لینے آیا یہاں نظر نہیں آ رہا کام کر رہا ہوں"
"بات کرنے آیا ہوں تجھ سے"
"وہ والی" آیان آبرو اچکاتے بولا۔
"جی جی وہ والی"
"ویری گڈ چل بول اب جلدی" وہ فاٸلز ساٸیڈ پہ کرتا بولا۔
"نہیں تو تو کام کر رہا ہے میں بعد میں کر لوں گا" ارہم اٹھ گیا۔
"زیادہ بن نہیں چپ کر کے بتا" آیان اٹھ کے اس کے قریب آیا اور اس کی کندھے کے گرد بازو حماٸل کرتا بولا۔
"چپ کر کے کیسے بتاتے ہیں" ارہم منہ بناتا بولا۔ تو آیان مسکرا دیا ۔
"چل بول بھی دے"
"اچھا پہلے بیٹھ تو"
"جی بتاٸیں اب" وہ بیٹھتا ہوا بولا ارہم بھی اس کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گیا۔
"یار۔۔۔"
"کیا؟"
"مجھے۔۔۔۔"
"کیا تجھے؟"
"مجھے۔۔۔پ۔۔"
"ارہم تجھے پیار۔۔۔۔یہی نا" وہ اٹھتا ہوا اس کے قریب آیا۔
"ہاں" اثبات میں گردن ہلاٸی۔
"کس سے؟" وہ پر جوش ہوا۔
"لڑکی سے"
"تو میں نے کب کہا لڑکے سے۔نام بتا"
"حور"
"کون حور؟"
"اپنے ماں باپ کی بیٹی"
"کہاں رہتی ہے؟"
"اپنے گھر"
" گھٹیا شخص کبھی سیریس بھی ہو جایا کر سہی طرح بتا سب"
"سیریس ہوں یار" اور وہ پڑا ارہم کے پیٹ پہ مکا
"آاااا"
"اب ٹھیک سے بتاٸے گا یا۔۔۔۔" وہ مکا بناتا بولا۔
"بتاتا ہوں موٹے"
"بول بول"
"پہلے بتا کیا کھلاۓ گا؟" آیان کا تو حیرت سے منہ ہی کھل گیا۔
"کون میں۔۔۔" وہ انگلی اپنی طرف کرتا بولا۔
"جی تم اب اپنا سیکرٹ تمہیں بتا رہا ہوں تو کچھ کھلانا تو بنتا ہے"
"اچھااا تو نا بتا مجھے اپنا سیکرٹ نکلتا ہو یہاں سے"
"کتنا کنجوس ہے تو"
"تجھ سے کم"
"نہیں مجھ سے زیادہ"
"اچھا تو نہیں نا کنجوس تو پھر لنچ کروا مزے والا"
"منہ دھو جا کے"
"اپنی اوقات تو تجھے تیرے الفاظوں سے ہی نظر آ گٸی ہو گی"
"بکواس نہیں کر خاموشی سے سن"
"سنا"
"مہرو بھابھی کی دوست ہے وہ شاید حور نام ہے میں بس اتنا جانتا ہوں اس کے بارے میں باقی تو بھابھی سے پوچھ کے بتانا مجھے"
"آہاں آہاں حور ناٸس نیم "
"آلسو ناٸس گرل"
"واہ واہ کیا کہنے تصویر ہے کوٸی تو دیکھا مجھے بھی"
"نہیں یار تصویر کہاں سے آۓ گی" وہ منہ لٹکاتا بولا۔
"چل چل اتنا منہ بنانے کی ضرورت نہیں ویسے تجھے ملی کہاں"
"تیری شادی پہ اس سے پہلے بھی ایک دن اچانک ملاقات ہو گٸی تھی اسے کچھ لڑکے تنگ کر رہے تھے تو میں نے اس کی مدد کی پھر اسے گھر چھوڑ کے آیا"
"اس کا مطلب تو اسے اپنی گاڑی میں بٹھا چکا ہے"
"جی ہاں"
"ویسے یہ پیار ہے یا بس۔۔۔"
"پیار نہیں عشق ہے"
"لو جی تم تو بہت آگے نکل گٸے عشق ہے عشق کے ع سے واقف بھی ہو"
"تھا تو نہیں پر ہو گیا" وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولا۔
"افففف مجھے تو تو پاغل لگ رہا ہے"
"ہاں ہو گیا ہوں"
"ایکٹنگ بند کر سیدھی بات پہ آ کیا ارادہ ہے"
"شادی کا"
"لڑکی اینگیجڈ ہوٸی تو"
"میں مر جاٶں گا"
"ارہم تو نے سیریس ہونا ہے کے نہیں"
"بتایا تو ہے سیریس ہوں "
"ایسا سیریس اپنے کیبن میں جا کے ہو نکل یہاں سے مجھے کام کرنے دے"
"اچھا اچھا ہو گیا سیریس" وہ بالکل سیدھا بیٹھتا بولا۔
"ہاں تو بتا بڑے پاپا سے بات کی"
"نہیں یار ابھی لڑکی کا تو پتا کروا لوں ہیں کون کرتی کیا ہے یہ وہ"
"کیسے کرواۓ گا"
"تو بھابھی سے پوچھے گا"
"اوکے میں پوچھ کے تجھے بتاٶں گا"
"آج ہی پوچھ لینا"
"اوکے جی "
"جی" وہ آنکھیں میچتا بولا۔
"نکل اب "
"جا رہا ہوں سالے"
"شرم "
"نہیں ہے"
"پتا ہے" ارہم واپس پلٹا اور اس کے گال پہ کس کی۔
"آٸی لو یو"
"بے حیا "وہ سر جھٹک کے فاٸلز دیکھنا شروع ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہروالنسإ کھانا بنا کے ابھی کچن سے نکلی ہی تھی کے آیان داخل ہوا۔
"آج جلدی۔۔۔"
"ہاں سوچا مس لڑاکا ڈر نا جاٸیں" وہ کوٹ صوفے پہ رکھتا بولا۔
"کیا کہا" مہرو آنکھیں چھوٹی کیے بولی۔
لڑاکا وہ کندھے اچکاتا بولا۔
"میں لڑاکا ہوں" وہ کمر پہ ہاتھ رکھتی اس کے سامنے کھڑی ہوتی بولی۔
"ہاں ہو"
"تو پھر تم کیا ہو بندر"
"کیا کہا بندر" اس کی تو حیرت سے آنکھیں ہی پھیل گٸیں۔
"جی بندر ہی کہا کبھی غور کرنا خود پہ میں تو جب ہی تمہیں دیکھوں مجھے بندر ہی یاد آتا ہے" وہ آنکھیں گھماتی بولی۔
"بہت اچھا نام رکھا ہے میں نے تمہارا لڑاکا عورت" آیان کو بُرا ہی تو لگا تھا اتنا خوبصورت لڑکا جسے لڑکیاں کیا لڑکے بھی دوستی کرنا چاہتے تھے اور وہ کسی کو منہ نہیں لگاتا تھا اسے مہروالنسإ اس کی بیوی نے بندر بنا دیا تھا۔
"تم نے مجھے عورت کہا میں عورت لگتی ہوں تمہیں" اب لڑاکا کو بھول کے عورت کہنے کا دکھ لاحق ہو گیا تھا۔
"ہاں تو شادی کے بعد لڑکی عورت ہی کہلاتی ہے"
"تو پھر تم بھی آدمی ہی ہوے بندر آدمی۔۔نہیں بلکہ تم مجھ سے کچھ سال بڑے ہی ہو گے تو تم ہوے بڈھے بندر ہاہاہا بڈھا بندر اففف" وہ قہقہہ لگاتی بولی۔
"ٹھیک ہے میں بڈھا بندر ہوں نا تم جب مجھے دیکھتی ہو تو تمہیں بندر یاد آتا ہے بات نہیں کرنا اب مجھ سے ویسے سوچ لو کچھ رہ تو نہیں گیا کہنے والا"
"ہاں ہاں رہتا ہے یہ جو تمہارے کان ہیں نا میری جب بھی ان پہ نظر پڑتی ہے تو مجھے بکڑا یاد آتا ہے" وہ ہنستے ہوے بولی۔ اور آیان کو تو جھٹکے پہ جھٹکا لگ رہا تھا۔
"کچھ اور بھی سوچ لو"
"تمہاری جو ناک ہے نا میں جب بھی دیکھتی ہوں تو مجھے بھینس یاد آتی ہے" افف اب تو حد ہی کر دی تھی وہ غصے میں اندر چلا گیا اور مہرو میڈم جب ہنس ہنس کے تھک گٸی تو احساس ہوا کے کچھ زیادہ ہی بول گٸی ہے۔ اب خود کو کمپوز کرتی اندر گٸی تو وہ بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا آنکھوں پہ ہاتھ رکھا تھا ایک ٹانگ بیڈ سے نیچے لٹکاٸی ہوٸی تھی شوز پہنے ہوے تھے (شوز بھی نہیں اتارے).
"آیان کھانا کھا لیں" آ کے وہ اس کے نزدیک آتی بولی۔
جواب ندارد
"آیان کھانا کھا لیں پھر سو جاٸیے گا"
"تم کھا لو یہ نا ہو تم مجھے دیکھو اور تمہیں کوٸی اور جانور بھی یاد آ جاۓ اور میری وجہ سے تمہارے لیے کھانا مشکل ہو جاٸے " بازو آنکھوں سے ہٹاۓ بغیر جواب دیا۔
(اچھا تو مسٹر ناراض ہو گٸے ہیں خود بھی تو باتیں کی ہیں نا ان کا نہیں پتا ہنہہ)۔
"آیان میں نے بس ایسے ہی کہہ دیا "
"لاٸیٹ آف کر دو مجھے نیند آ رہی ہے"
"کپڑے تو چینج کر لیں"
"لاٸیٹ آف کر دو سنا نہیں" تھوڑے غصے میں کہا تو وہ بھی لاٸیٹ آف کرتی باہر نکل گٸی کچھ دیر ہال میں صوفے پہ بیٹھی رہی پھر ہمت کر کے اندر گٸی اسے اب بُرا لگ رہا تھا۔
"آیان" وہ اس کا کندھا ہلاتی بولی۔
"ہمم "
"ڈنر کر لیں"
"ضرورت نہیں"
"سوری "
"جاٶ یہاں سے"
"آیان میں نے تو مزاق کیا تھا" اس کی آواز بھڑا گٸی۔
"ہاں تو"
"کھانا کھا لیں پلیز"
"تمہیں کونسا میری فکر ہے" وہ اس کے منہ سے اپنے لیے اچھے الفاظ سننا چاہتا تھا۔
"ہے نا اب اٹھ جاٸیں پلیز"
"جاٶ یہاں سے سنا نہیں تم نے" وہ اونچی آواز میں بولا۔ اور یہاں مہروالنسإ کے آنسو ٹپ ٹپ گرنا شروع ہو گٸے۔ وہ گٸی نہیں وہیں کھڑی آنسو بہاتی رہی آیان کو اس کی سسکیوں کی آواز آٸی تو فوراً اٹھ بیٹھا اس کی طرف دیکھا تو وہ کھڑی آنسو بہانے میں مصروف تھی جیسے ہی آیان کھڑا ہوا مہرو نے قدم باہر کی طرف بڑھا دیے۔ آیان نے اسے بازو سے پکڑ کے اپنی طرف کیا۔ پھر اسے بیڈ پہ بیٹھایا۔
"کیا ہوا رو کیوں رہی ہو" وہ خاموش رہی
"بولو تو" وہ اس کے آنسو پونچھتا بولا مہرو نے اس کا ہاتھ پیچھے کر دیا۔
"بتاٶ یار"
"خود ہی رلاتے ہو اور پھر پوچھتے ہو رو کیوں رہی ہو" چہرہ دوسری جانب کر لیا آیان مسکرا دیا۔
"میں نے کب رولایا" اس کا ہاتھ پکڑا
"تم نے نہیں رولایا مجھے شوق ہے رونے کا چھوڑو مجھے میں دوسرے روم میں جا رہی ہوں" وہ کھڑی ہوتی بولی۔ آیان نے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا۔
"اکیلی سو جاٶ گی"
"ہاں" وہ ہاتھ چھڑواتی بولی۔
"سوچ لو"
"سوچ لیا زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا روتی روتی مر جاٶں گی نا تم تو چاہتے ہی یہ ہو"
"پاغل لڑکی کیا ہو گیا ہے ادھر آٶ میرے پاس "
"نہیں آٶں گی" پھر وہ دوسرے روم میں چلی گٸی آیان کو اس کا مزاق مہنگا پر رہا تھا وہ تو بس اسے تنگ کرنے کے لیے اونچی بولا تھا اسے اچھا لگ رہا تھا مہرو کا اس کے لیے فکر مند ہونا پر یہاں تو سب الٹ ہو گیا تھا۔وہ بھی اس کے پیچھے گیا وہ بیڈ پہ ٹانگیں لٹکاۓ بیٹھی تھی آیان بھی اس کے قریب بیٹھ گیا مہرو تھوڑا دور ہو گٸی آیان مسکرایا پھر اس کا ہاتھ پکڑا جسے مہرو نے چھڑوانا چاہا پر آگے بھی آیان چوہدری تھا۔
"میری باتوں کا بُرا لگا ہے سوری"
اس نے منہ پھلاتے نا میں گردن ہلاٸی۔
"سوری نا کان پکڑوں"
ہاں میں گردن ہلاٸی آیان نے مسکراتے ہوے کان پکڑے "اب کر دو معاف"
"ہمم"
"کھانا کھاٸیں اب"
"ہاں "
"ویسے ناراض میں تھا"
"کیوں بدتمیزی تم نے کی تھی"
"میں نے تو بس لڑاکا کہا تھا تم نے تو مجھے اتنا کچھ بنا دیا" وہ منہ بناتا بولا۔
"میں تو بس تمہیں تنگ کر رہی تھی"
"ہاں تو میں نے بھی بس ویسے ہی تمہیں ایسا کہا"
"میں بھی سوری کروں"
"ہاں"
"سوری "
"نہیں کھانا مجھے تم کھلاٶ گی پھر کروں گا معاف" مہرو نے آنکھیں چھوٹی کیں۔
"ٹھیک ہے چلیں" وہ مسکراتی ہوٸی بولی۔
"بہت اچھی ہو تم"
"آپ بھی" آیان ہنسا
"ہنسے کیوں"
"تمہارے تم اور آپ پہ تب سے تو مجھے تم تم کر کے بلا رہی تھی اور اب آپ"
"ہاں جب بدتمیزی کریں گے تو تم کہوں گی ویسے آپ"
"اچھا جو دل کرے کہنا"
"کھانا روم میں ہی لے آٶ"
اوکے پھر وہ ٹرے میں ویجیٹیبل پلاٶ اور شامی رکھ کے روم میں لاٸی ٹرے بیڈ پہ رکھ کے جگ اور گلاس لاٸی۔
پھر آیان کو چاول کھلانا شروع کیے آیان نے بھی اس کے منہ میں ڈالے پھر برتن کچن میں رکھ کے آٸی۔
"مسز آیان"
"جی"
"آٸی لو یو" لہجے میں دنیا بھر کا پیار سموۓ بولا۔ مہروالنسإ نے لاٸیٹ آف کی اور بیڈ پہ آ گٸی۔
"جواب تو دو"
"مجھے نہیں آتا"
"ہنہہ"
"سو جاٸیں"
"پہلے جواب دو"
"نا دوں تو"
"تو میں لاٸیٹ آن کر کے یہیں بیٹھا رہوں گا" مہروالنسإ مسکراٸی۔
"آٸی لو یو ٹو "
"آٸی لو یو سو مچ" وہ اس کے ہاتھ پہ بوسا کرتا بولا۔
"مجھے نہیں پتا تھا مجھے کبھی تم سے پیار ہو گا اور اتنا زیادہ اور اتنی جلدی ہو گا یہ تو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا بہت اچھی ہو تم"
"مجھے یقین تھا اپنے اللہ پہ اس نے اگر میرے لیے آپ کو چنا ہے تو آپ اچھے ہی ہوں گے اور آپ اچھے نہیں بلکہ بہت اچھے ہیں۔ سو جاٸیں اب گڈ ناٸیٹ"
"گڈ ناٸیٹ ماٸی لو"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
آپ لوگوں کے ووٹ اور کمینٹس نہیں آ رہے۔ کمینٹ کرنے میں زیادہ ٹاٸم تو نہیں لگتا کم از کم بتایا تو کریں آپ کو ناول کیسا لگ رہا ہے اچھا لگ رہا ہے پھر بھی بتاٸیں نہیں اچھا لگ رہا پھر بھی تا کے میں مزید بہتر لکھ سکوں😄

محبت،یقین اور خواہش Completed 💕Where stories live. Discover now