"اوے ارہم یہ وہی لڑکی ہے نا اب دیکھ میں اس کے ساتھ کرتا کیا ہوں"
"ہاں وہی ہے" ارہم آیان کی نظروں کے تعاقب میں دیکھتا بولا جہاں سحر اور مہروالنسإ باتوں میں مگن تھیں۔ اور اپنی چیزوں کے آنے کا انتظار کر رہی تھیں۔
"میرے ساتھ چل"
"کہاں" ارہم نے ابرو اچکاٸے۔
"چپ کر کے چل" آیان اس کا بازو پکڑتا ہوا ان کے سامنے والی ٹیبل پہ بیٹھ گیا اور کینٹین بواٸے کو آواز دی۔
جی سر کیا لاٶں آپ کے لیے" لڑکا مینیو کارڈ ان کی طرف بڑھاتا بولا۔
"رکو باقی فرینڈز کو بھی آنے دو پھر بتاتا ہوں ارہم جاٶ تم علی احمد، سیفی، زریاب اور حمزہ کو بھی بلا لاٶ" آیان نے اپنے کلاس میٹس کے نام لیے ارہم نے اس طرح آیان کو دیکھا کے جیسے یہ سب کیوں۔
"تمہیں جتنا کہا ہے اتنا کرو" آیان نے آنکھیں بڑی کرتے ہوے کہا ۔ ارہم ان سب کو بلانے چلا گیا۔
"سامنے میری فرینڈ بیٹھی ہوٸی ہے آج وہ ہمیں ٹریٹ دے رہی ہے ۔اس کی بہن اس کے ساتھ آٸی ہے اس لیے ساتھ نہیں بیٹھے گی" آیان اس لڑکے سے کہہ رہا تھا اور وہ آیان کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے یہ سب مجھے کیوں بتا رہا ہے۔
"تم نے پیسے لے لیے ان سے"
"نہیں بس وہی لینے جا رہا ہوں"
"چلو آٶ میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ" کہتا ہوا وہ ان کی ٹیبل کی طرف چل دیا۔
"ہاٸے کیسی ہو" وہ مہروالنسإ کے سامنے کھڑا ہوتا بولا وہ حیران پریشان اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے وہ کسی اور سے مخاطب ہو۔
کیا ہو گیا ہے تم سے ہی پوچھ رہا ہوں ابھی کل تو ملے تھے ہم مال میں اچھا وہ سب چھوڑو یہ بتاٶ پرفیوم کیسا لگا وہ ابھی بھی ہکا بکا اسے ایسے دیکھ رہی تھی کے جیسے اسے کیا ہو گیا
"میم پیسے دے دیں" لڑکا بولا مہرو نے اسے پیسے پکڑاٸے اور وہ وہاں سے چلا گیا اس کے جاتے ہی آیان بھی اپنی ٹیبل کی طرف بڑھ گیا اور مہروالنسإ کو عجیب سوچوں میں منتقل کر گیا۔
"آیان کس خوشی میں ٹریٹ دے رہے" ہو احمد بولا۔
"بس ایسے ہی سوچا اپنے بھاٸیوں کو کچھ کھلا ہی دوں"
"کہیں شادی وادی تو نہیں کر رہے" حمزہ مسکراتا ہوا بولا۔
"نہیں جی ایسی کوٸی بات نہیں اب تم لوگ جلدی کھاٶ جو کھانا ہے مجھے پھر کلاس بھی لینی ہے"
"سحر اسے کیا ہو گیا مجھے تو اب سچی ایسا لگتا ہے کے اس کا زہنی توازن ٹھیک نہیں" مہرو نے سحر سے کہا۔
"ہاں ویسے مجھے بھی یہی لگا" وہ مسکراتے ہوے بولی۔
"تم لوگ جاٶ میں بِل پے کر کے آتا ہوں ۔کتنا ہوا بِل" آیان نے لڑکے سے پوچھا۔
"8500"
" سامنے میری فرینڈ بیٹھی ہے اس سے لے لیں اور بہت مزے کا تھا سب" کہتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھڑتا وہاں سے چلا گیا۔
"کیا مطلب میں بِل دوں" وہ غصے میں بولی۔
"میم آپ کے فرینڈ کہہ رہے تھے کے بِل آپ دیں گی"
"کون"
"وہی جو تھوڑی دیر پہلے آپ سے مل کے گٸے تھے"
ایک دم مہرو کو سارا معاملہ سمجھ میں آ گیا۔
"تم سے کس نے کہا ہے کہ وہ میرا دوست ہے" وہ ایک ہاتھ کمر پہ رکھ کے بولی۔
"انہوں نے ہی کہا"
"بل کتنا ہے"
"8500 کیا تم پاغل تو نہیں ہو گٸے اور ایسا کیا کھا لیا اس نے" وہ اونچی آواز میں بولی۔
"میم ان کے کچھ فرینڈز نے بھی کھایا اور کچھ پیک بھی کروایا"
"تم سے کوٸی بھی کہے گا کے وہ میرا دوست ہے اور تم مجھ سے پیسے لینے آ جاٶ گے"
"مہرو آہستہ بولو سب اِدھر ہی دیکھ رہے ہیں" سحر بولی.
"یار کیا آہستہ بولوں دماغ خراب کر دیا ہے اس نے میرا ۔میرے پاس تو فی الحال 7000 ہیں باقی تم دو"
"اوکے" سحر نے پندرہ سو روپے مہرو کو پکڑاٸے۔
"یہ رکھو پیسے اور آٸندہ سے کسی کی بھی بکواس پہ یقین کر کے اس سے پیسے لینے نا چلے جانا" وہ لڑکے کو پیسے تھماتے بولی۔
"آیان تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا" ارہم پریشانی سے بولا
"اسی لاٸق ہے وہ "
"اگر اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوے تو"
"ہوں گے اچھی خاصی امیر لگتی ہے ہاں 500 جو زیادہ لگاوایا ہے وہ میں اسے واپس کر دوں گا"
"اب تم اس کے سامنے گٸے نا تو اس نے تمہیں قتل ہی کر دینے" ارہم مسکراتا ہوا بولا۔
"ہاں ویسے کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو"
"تم سے تو میں نے پہلے ہی کہا تھا تم نے غلط کیے اب بھگتو" سحر مہرو کو دیکھتے بولی۔
"سیری یار چھوڑ دو میرا پہلے ہی بہت دماغ خراب ہو رہے"
_______________
"بابا آپ کیوں مجھے چھوڑ کے چلے گٸے آپ نے کیوں کیا میرے ساتھ ایسا کیوں اپنی حور کو تنہا چھوڑ گٸے۔بابا ہمیں تو پہلے ہی کوٸی نہیں پوچھتا تھا ہماری غریبی کی وجہ سے۔کوٸی رشتہ دار ہمارے گھر نہیں آتا تھا پر بابا آپ تو تھے نا ہمارے پاس"
وہ کمرے کی دیوار سے ٹیک لگاٸے سر گھٹنوں میں دیے دل میں ہی اپنے بابا سے باتیں کر رہی تھی
"بابا لوگ صدقہ دینے آتے ہیں پیسے دیتے ہیں مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا بابا کوٸی آپ کی طرح نہیں.... کوٸی مجھے پیار سے پیسے نہیں دیتا کوٸی میرا ماتھا نہیں چومتا کوٸی میرے لاڈ نہیں اٹھاتا....۔ بابا یہ دنیا بہت ظالم ہے آپ کو تو پتا تھا آپ کی بیٹی بہت نازک ہے اس میں لوگوں کی باتیں برداشت کرنے کی ہمت نہیں تو پھر کیوں مجھے اکیلا چھوڑ گٸے" وہ ہچکیوں سمیت رو رہی تھی۔
"بابا جب کبھی ماما مجھے ڈانٹتی تھیں تو میں رونا شروع کر دیتی تھی پھر آپ مجھے چپ کرواتے تھے میرے آنسو پونچھتے تھے..... میری غلطی ہونے کے باوجود ماما کو ڈانٹتے تھے اور مجھے کہتے تھے جب تم روتی ہو تو مجھے اچھا نہیں لگتا.... تو پھر اب کیوں مجھے چپ نہیں کروا رہے کیوں میرے آنسو صاف نہیں کر رہے.... بابا کیا آپ مجھے بھول گٸے اپنی حور کو بھول گٸے۔۔۔ بابا آ جاٸیں واپس اپنی حور کے پاس۔۔۔بابا ایک دفعہ تو کہیں حور بیٹا رویا مت کرو۔۔۔۔ ایک دفعہ تو مجھے اپنے سینے سے لگاٸیں میرا ماتھا چومیں۔۔۔ایک دفعہ مجھے آواز تو دیں حور بیٹا میرے پاس بیٹھو۔۔۔۔بابا کیوں نہیں کہتے آپ کیوں میرا نام نہیں لیتے بابا پلیز بس ایک دفعہ میرا نام تو لیں حور میری جان کیوں نہیں لے رہے آپ میرا نام۔۔۔۔" وہ اب اونچی اونچی رو رہی تھی۔اس کے بابا کے انتقال کو آٹھ ماہ ہو گٸے تھے پر کوٸی دن ایسا نہیں ہوتا تھا جب وہ روتی نہیں تھی اپنے بابا کو بلاتی نہیں تھی یا اپنے اللہ سے انہیں مانگتی نہیں تھی۔
"حور بیٹا کیا ہو گیا ہے کیوں رو رہی ہو" ساجدہ بیگم نے اسے اپنے گلے لگایا "چپ ہو جاٶ میرا بچہ" وہ اس کے آنسو پونچھ رہی تھیں
"ماما بابا۔۔۔ کک کیوں نہیں آتے۔۔۔ میرے پاس" اس کے منہ سے لفظ بمشکل نکل رہے تھے۔
"میری جان اب وہ نہیں آٸیں گے اور آپ اتنی بڑی ہو کے ایسی باتیں کر رہی ہو. ان کے لیے دعا کیا کرو" وہ اس کے بال سہلاتے ہوے کہہ رہی تھیں۔
"ماما آپ دعا کیا کریں نا"
"کیا"
"کے اللہ مجھے بھی بابا کے پاس بلا لیں" اس نے سر اٹھا کے اپنی ماں کی طرف دیکھتے ہوے کہا۔ساجدہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آ گٸے۔
"میری جان ایسا نہیں کہتے آپ کیا مجھ سے اور احمد سے پیار نہیں کرتی کیا آپ ہمیں چھوڑ جانا چاہتی ہو" کہتے ہوے ان کی آنکھوں سے آنسو نکل گٸے۔
"نہیں ماما میں آپ دونوں کو کبھی نہیں چھوڑوں گی"۔
"مجھے پتا ہے میری بیٹی بہت ہمت والی ہے ہم سے بہت پیار کرتی ہے اب آپ نے بالکل نہیں رونا اوکے"
"اوکے"
"نماز پڑھ لی آپ نے"
"جی"
"اب اٹھو یہاں سے اور جا کے سو جاٶ میں سوچ رہی ہوں آپ کا تھرڈ اٸیر کا ایڈمیشن بیھج دوں پہلے ہی ایک سال ضاٸع ہو گیا "
"ماما مجھے نہیں پڑھنا اب"
"کیوں نہیں پڑھنا"
"میرا دل نہیں کرتا اور ویسے بھی ایڈمیشن فی کے پیسے کہاں سے آٸیں گے "
"آ ہی جاٸیں گے کہیں سے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم آنٹی کیسی ہیں بہت دنوں بعد آٸیں" مہروالنسإ نے گھر آتے ہی ساجدہ بیگم سے سلام لیتے ہوے پوچھا وہ ان کی ہمساٸی تھیں حور بھی اس کی بہت اچھی دوست تھی ان کے گھر آتی رہتی تھی پر اس کے والد کے انتقال کے بعد وہ نہیں تھی آٸی مہروالنسإ ہی ایک دو دفعہ مل آٸی تھی ساجدہ بیگم بھی اب بہت کم آیا کرتی تھیں۔
"وَعَلَيْكُم السَّلَام بیٹا میں ٹھیک تم سناٶ"
"میں بھی ٹھیک ہوں حور کیسی ہے اسے بھی لے آنا تھا" وہ ان کے پاس بیٹھتی بولی۔
"حور کا تو تمہیں پتا ہے اب چُپ چُپ رہتی ہے کسی سے زیادہ بات نہیں کرتی اس لیے میں نے سوچا ہے اس کا تھرڈ اٸیر کا ایڈمیشن بھیج دوں اس طرح وہ پڑھاٸی میں مصروف ہو جاٸے گی"
"جی آنٹی یہ تو بہت اچھی بات ہے کس یونی میں لے گی ایڈمیشن "
"یونی کے تو بیٹا میرے پاس بھی پیسے نہیں ہیں ویسے بھی وہ کہہ رہی ہے پراٸویٹ ہی پڑھوں گی اور ساتھ کوٸی جاب بھی کروں گی"
"پر آنٹی بڑی کلاسز کا سلیبس تو بہت ٹف ہوتا ہے گھر کیسے کرے گی وہ" اتنی دیر میں ربیعہ بیگم چاٸے لے آٸیں اور ان کے پاس بیٹھ گٸیں۔
"ہاں بیٹا یہ تو ہے پر۔۔۔"
"آنٹی کچھ دنوں تک میرے پیپر ہو جانے ہیں پھر میں نے فری ہی ہونے آپ اسے میرے پاس بھیج دیا کرنا"
"چلو ٹھیک ہے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں گراٶنڈ میں درخت کے نیچے بیٹھی باتوں میں مصروف تھیں جب آیان اور ارہم ان کے قریب آٸے۔
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم" آیان نے سلام لی۔ جس کا کوٸی جواب نہیں ملا۔
"میں نے آپ کے پیسے واپس کرنے تھے بس وہی دینے آیا تھا آپ نے میرا آٹھ ہزار لگوایا تھا اور میں نے پانچ سو زیادہ تو بس وہی دینے آیا تھا" وہ پانچ سو روپے اس کے آگے کرتا بولا۔
"ضرورت نہیں" وہ کھڑی ہوتی بولی۔
"پر میرا میرا حق بنتا ہے میں یہ پیسے واپس کروں"
"او رٸیلی ویسے آپ کے منہ سے ایسی باتیں سوٹ نہیں کرتیں" وہ ہاتھ سینے پہ باندھے بولی۔
"او ہیلو اتنا اوور ہونے کی ضرورت نہیں پیسے رکھنے ہیں تو رکھیں نہیں رکھنے تو بھاڑ میں جاٸیں" وہ غصے میں بولا۔
"تم جیسے شخص کے پیسے رکھنے کی مجھے کوٸی ضرورت نہیں "
"اچھاااا تو پھر مجھ جیسے شخص کے پیسوں کا پرفیوم کیوں لیا"۔
"وہ۔۔۔۔"
"کیا وہ اب بولیں نا منہ بند ہو گیا نا"
"تمیز سے بات کریں آپ نے میرا پرفیوم توڑا تھا اس لیے میں نے لیا اور ویسے بھی پیسے تو آپ لے ہی چکے ہیں اب ساٸڈ پہ ہوں اور مجھے گزرنے دیں"
"مجھے بھی کوٸی شوق نہیں یہاں کھڑا رہنے کا بس آپ کے پیسے دینے آیا تھا نہیں لینے تو نہ لیں کسی فقیر کو دے دوں گا" کہتا ہوا وہ مڑ گیا۔
"پاغل کہاں سے آ جاتا ہے ۔ چلو اب تم کے یہیں رہنے کا ارادہ ہے" وہ سحر کو دیکھتے ہوے بولی۔
"مجھ سے کیوں غصے سے بات کر رہی ہو میں نے کیا کیے" سحر منہ بناتی بولی۔
"تمہاری ایکٹنگ ہو گٸی شروع چلو بھی انکل نے چلے جانے" وہ اس کا بازو پکڑتے ہوے بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم اس کے کمرے میں کیا کر رہی ہو" شازیہ بیگم اونچی آواز میں بولیں وہ وہاں سے گزر رہی تھیں جب انہیں آیان کے کمرے سے مریم کی آواز آٸی اور وہ کمرے میں چلے گٸیں۔
"ماما ارہم بھاٸی گھر نہیں تھے میرا کچھ کھانے کو دل کر رہا تھا تو بس وہی کہنے آٸی تھی" وہ نظریں جھکاٸے بولی۔
"تم سے میں نے کتنی دفعہ کہا ہے اس کے کمرے میں نہیں جایا کرو پتا نہیں کب یہ ہماری جان چھوڑے گا اتنا بڑا ہو گیا ہے یہ نہیں کہتا اپنا گھر بنا لوں پر کیوں بناٸے گا مفت کی روٹیاں جوں مل رہی ہیں پتا نہیں کب جان چھوٹے گی اس سے اور تم نکلو یہاں سے تمہاری زبان نہیں رُکتی بس کھاتی رہو پورا دن کم کھایا کرو موٹی ہو گٸی تو رشتے بھی نہیں آنے" وہ مریم کو لیتی ہوٸی کمرے سے نکل گٸیں اور آیان نے سر بیڈ کراٶن سے ٹکا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیسا ہوا پیپر" مہرو نے کلاس سے نکلتے ہی سحر سے پوچھا ۔
"اچھا ہوا ہے اور تمہارا"
"بس ٹھیک ہی ہوا ہے پتا نہیں کہاں کہاں سے سوال آ گٸے تھے"
"کہاں کہاں سے نہیں بک سے ہی آٸے تھے"
"چلو اب تم اتنی بنو نہیں کچھ کھلاٶ مجھے"
"کیا مطلب کھلاٶ"
"شادی ہے تمہاری کچھ دنوں تک ٹریٹ تو بنتی ہے"
"ابھی گیارہ دن ہیں اور شرم تو نہیں آٸی ویسے"۔ "تمہیں چاہیے مجھے شاپنگ کرواٶ اچھے سے ریسٹورانٹ میں کھانا کھلاٶ اور تم ہو کہ مجھ سے مانگ رہی ہو"
"سحر میڈم شادی تمہاری ہے میری نہیں یہ سب جو تم مجھے کہہ رہی ہو تمہیں کرنا چاہیے ویسے اچھا کیا بتا دیا اب بتاٶ کس دن لے کے جا رہی ہو شاپنگ پہ"
"جس دن تم کہو میری پیاری دوست پیسے تم نے دینے ہیں مجھے کیا تم چاہو تو آج ہی چلتے ہیں" سحر مسکراتی ہوٸی بولی۔
"وہ تو میں تمہیں بتاوں گی۔ویسے تم بتاٶ فیضان بھاٸی کو دیکھ کے کیا فیلنگز آتی ہیں" مہروالنسإ نے مسکراتے ہوے ابرو اچکاٸے۔
"شرم تو نہیں آتی تمہیں" سحر اس کی مسکراہٹ کو سمجھتے ہوے بولی.
"نہیں بالکل نہیں شرم ہوتی کیا ہے مجھے یہ بھی نہیں پتا" وہ ہنستے ہوے بولی۔
"اچھا تمہاری شادی پہ پوچھوں گی تمہیں"
"ہاٸے کب آٸے گا وہ دن مجھے تو بے صبری سے انتظار ہے"
"بہت جلد آٸے گا ٹینشن نا لو اور شرم تو تم میں سچ میں نہیں ویسے زیادہ ہی جلدی ہے تو رشتہ ڈھونڈوں"
"نہیں جی میں خود ڈھونڈ لوں گی اپنا ہیرو" وہ آنکھ دباتی بولی.
"شرم کیا کرو مہرو"
"بتایا تو ہے تمہیں مجھے پتا ہی نہیں شرم ہوتی کیا ہے تو پھر کروں کیسے کل شاپنگ پہ چلیں گے تیا رہنا اوکے"
"اوکے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بد تمیز گھٹیا نہیں تھا آنا تو بتا دیتی میں اکیلی بور ہو رہی ہوں" مہروالنسإ نے سحر کو میسج کیا
"یار آنا تھا میں نے پھر صبح اچانک ہی vomiting (اُلٹی، ابکاٸی) شروع ہو گٸی اس لیے نہیں آٸی اور ویسے بھی ایک لیکچر ہی تو ہونا تھا وہ بھی میم نے کہا تھا جس کا دل کرے آٸے ورنہ نہ آٸے پیپر سے ریلیٹڈ ہی کچھ بتانا ہو گا میم نے۔ تم لے لینا لیکچر اور مجھے بھی بتا دینا" سحر نے میسج کیا۔
"ہاٸے اللہ سحر ابھی تو شادی بھی نہیں ہوٸی اور تم پہلے ہی ......😉😂" لاٸن کو ادھوڑا چھوڑے آگے کچھ ڈاٹس کے ساتھ آنکھ مارنے والا ایموجی اور ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتا ایموجی بھیجا۔
"بے حیا لڑکی کچھ تو شرم کر لیا کرو اور ویسے بھی یہ تو لیکچر کا ٹاٸم ہے اور تم مجھ سے بات کر رہی ہو یقیناً کینٹین میں بیٹھی کچھ ٹھونس رہی ہو گی"
"واہ واہ کتنا جانتی ہو تم میرے بارے میں بالکل ٹھیک کہا گول گپے کھا رہی ہوں اور ساتھ کوک پی رہی ہوں" میسج کے ساتھ تصویر بھی بھیجی گٸی۔
"کھا کھا میں تو سونے لگی ہوں بہت نیند آ رہی ہے"
"ویسے تم نے میرے ساتھ ٹھیک نہیں کیا میں اکیلی کیا کروں تمہیں میں کبھی معاف نہیں کروں گی 😞" ساتھ سیڈ ایموجی بھی بیجھا گیا.
"ہاہاہاہا کچھ بھی کر لے اور اکیلی نہیں بہت لوگ ہیں یونی میں کسی سے بھی باتیں کر لے"
"ہاں تمہیں میں پاغل لگتی ہوں جو کسی سے بھی بات کر لوں 😒" آنکھوں کو داٸیں ساٸڈ پہ کیا ہوا ایموجی بیجھا۔
"اس طرح دیکھنے کی ضرورت نہیں جو مرضی کر میں تو لگی سونے😂 "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے )
if u like do vote nd comment😉

YOU ARE READING
محبت،یقین اور خواہش Completed 💕
Teen Fictionاس کہانی میں ہے کسی کی محبت تو کسی کا اللہ پہ یقین اور پھر جب اللہ پہ یقین ہو تو ہر کام بہتر ہی ہوتا ہے۔ کسی کا اللہ کے سامنے خواہش ظاہر کرنا اور اسے جھٹ سے پا لینا۔ اب یہ کس کی محبت ہے کس کا یقین اور کس کی ہے خواہش وہ تو ناول پڑھ کے پتا چلے گا💗😉