تغیر : (C H A N G E)

1.2K 103 12
                                    

قسط نمبر

ناول: زینا
تحریر: عائشہ ریاض

(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے.

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔⁦❤️⁩

                                  ° ° ° ° °

Happy reading!!!

چاند رات کو نکاح کے بعد شاہمیر اور امل کی اگلی صبح 4 بجے پاکستان کے لیے فلائٹ تھی۔ نکاح کے بعد فارغ ہوکر میر کمرے میں گیارہ کے قریب لوٹا۔

امل فنکشن کے باعث تھک کر اب تک سوچکی تھی۔ ہنوز سجی سنوری وہ قدرے بے آرام سی بستر پر دراز تھی۔  میر بستر کے عین سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ یہ سب کچھ اس قدر غیر متوقع تھا کہ وہ اب تک اپنے احساسات سے انجان تھا۔ یہ فیصلہ نا جانے کیسے پر لمحوں کا عمل ثابت ہوا تھا۔

"خیر قدر اللہ!!"

سوچ کر سر جھٹک دیا۔ شادی تو کرنی تھی اماں جان بھی کب سے کہہ رہی تھیں۔ اور امل کے پروپوزل کے بعد اس نے سنجیدگی سے اس پر سوچا اور پھر اللہ کے بتائے گئے کرائٹیریا پر جب امل کو پورا اترتا دیکھا تو ایک لمحہ نہیں لگایا اور فیصلہ کرلیا۔

دل پر تاہم سکوت چھایا تھا۔ زینا کے معاملے کے بعد سے اب تک وہ نارمل نہیں ہو پایا تھا۔ ہوتا بھی کیسے وہ خود کو اس سب کا قصوروار سمجھ رہا تھا۔ اسی نے زینا کو کام کی آفر کی تھی اور پھر اسی کے ذریعے تو وہ ایڈم سے متعارف ہوئی تھی۔

سوچوں کا تسلسل امل کے وجود میں ارتعاش کے باعث ٹوٹا۔ وہ شاید غیر آرام دہ تھی۔ میر نے آگے بڑھ کر ایک طرف تکیہ درست کیا اور پھر امل کو غیر محسوس انداز میں اٹھا کر بستر کے ایک طرف ڈال دیا۔

زرا سی جنبش کے بعد وہ پھر گہری نیند میں تھی۔ میر نے ابرو اٹھا کر اسکا پر سکون انداز ملاحظہ کیا۔ پھر سر جھٹک کر اسے کمبل اوڑھایا اور خود چینج کرنے باتھروم کی طرف بڑھ گیا۔

وضو کرکے واپس لوٹا۔ عشاء ادا کی اور پھر کچھ دیر آرام کی غرض سے بستر کی طرف بڑھ گیا۔

ایک نظر امل کو دیکھا۔ پھر اسکی ںے آرامی کا احساس کرکے تکیہ اٹھایا اور صوفے کا رخ کیا۔

2 بجے کا الارم سیٹ کیا اور نرم گرم بستر کی آغوش میں جلد ہی نیند نے آلیا۔ انکی پیکنگ زینا کر گئی تھی انھیں بس اب نکلنا تھا۔ ایڈم نے انھیں چھوڑنے آنا چاہا تھا مگر شاہمیر کے منع کرنے پر بادل ناخواستہ رک گیا۔

چند گھنٹوں کی نیند کے بعد شاہمیر کی الارم کے بجنے سے آنکھ کھلی۔ امل جب تک تیار ہوئی وہ کافی بنا لایا۔ سامان گاڑی میں رکھا اور پھر وہ دونوں ایک نئے سفر پر گامزن تھے۔ خاموشی دونوں کے مابین قائم تھی۔ میر کو تو زیادہ بات کرنے کی عادت بھی نہیں تھی۔ وہ بہت کم لوگوں سے فریلی بات کیا کرتا۔ امل جو باتونی تھی اس وقت خاموشی اسکے لبوں کو بھی چپکی تھی۔ کچھ جھجک اور کچھ فطری شرم مانع تھی جو خود کو بمشکل چپ کروایا ہوا تھا۔

Zeena (زینا) Completed ✔️Where stories live. Discover now