باب نمبر: 13

877 107 112
                                    

"چچا جان دیکھے نا ڈیڈ مجھے وہ روبوٹ والی کار نہیں لے کر دے رہے میں نے آج ایک شاپ میں دیکھی تھی" دس سالہ براق بھاگتا ہوا عبدالوحاب کے پاس آیا جو اپنی سٹڈی روم میں راکنگ چیئر پہ بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا-

"کیوں بھئی شاہنواز تم ہمارے بیٹے کو کار کیوں نہیں لے کر دے رہے؟" عبدالوحاب نے کتاب بند کر کے ساتھ پڑے چھوٹے میز پر رکھی-اور براق اس کی گود میں آکر بیٹھ گیا-

"روبوٹ کار ہے چچا جان" براق نے اس کی تصیح کی-

"ہاں وہی روبوٹ کار" عبدالوحاب نے شاہنواز کو دیکھتے ہوئے کہا جو براق کے پیچھے ہی آئے تھے-

"عبدالوحاب اس کو میں نے ابھی دو دن پہلے اس کی فیورٹ کار لے کر دی ہے اور یہ آج پھر شروع ہو گیا ہے" شاہنواز عبدالوحاب کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے-

"تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے ہم ایک چھوٹا سا کھلونا افورڈ نہیں کر سکتے" عبدالوحاب براق کے بال سہلا رہا تھا-

"بات یہ نہیں ہے عبدالوحاب بےشک اللہ نے ہمیں بے شمار دولت سے نوازا ہے لیکن اس کو پتا ہونا چاہیے کہ اس کو کمانے میں محنت بھی اتنی ہی لگتی ہے- یہ ہر فضول چیز پر پیسے نہیں اڑا سکتا اس کو اپنی فضول خواہشات پر قابو پانا سیکھنا چاہیے" براق اپنے باپ کو غور سے دیکھ رہا تھا اسے کچھ کچھ ہی سمجھ آیا تھا-

"چھوڑو شاہنواز ابھی تو جچہ ہے یہ چلو براق مجھے بتاؤ کونسی روبوٹ کار پسند ہے آپ کو-- میں لے کر دیتا ہوں" عبدالوحاب نے براق کو گود سے اتارا-

"میرے چچا جان سب سے بیسٹ ہے" عبدالوحاب نے اس کا ہاتھ پکڑا اور وہ دونوں باہر نکل گئے شاہنواز بھی مسکرا کر نفی میں گردن ہلانے لگے-

وہ اپنی سٹڈی روم میں بیٹھا تھا کمرے کی ساری بتیاں بند تھیں کھڑکی میں سے آتی قدرتی روشنی کمرے کو نیم روشن کر رہی تھی-اس کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ تھی-وہ براق اور شانزے سے بہت محبت کرتا تھا بچپن ہی سے وہ دونوں اس سے بہت زیادہ اٹیچ تھے-اس نے کبھی اپنے بھائی کو مارنے کا سوچا تک نا تھا لیکن حالات ایسے بن گئے کہ اسے وہ سب کرنا پڑا تب اسے جائیداد کا لالچ نہیں تھا- وہ جانتا تھا وہ براق اور شانزے کو خود بھی سنبھال سکتا ہے لیکن اس نے ایک اور جرم کیا براق پر اس کے ہی ماں باپ کے مرڈر کا الزام لگانے کا جرم اور پھر سب بدل گیا وہ ایک گناہ کو بچانے کے لیے ناجانے کتنے گناہ کرتا چلا گیا-اور اب واپسی کا کوئی راستہ نا تھا-براق کو بھی وہ ابھی تک اسی لیے نہیں مار سکا تھا-جب بھی وہ پستول تانتا تھا چھوٹا سا براق نظروں کے سامنے گھوم جاتا اور پھر جوانی کا براق جو ہر فیصلہ اس سے پوچھ کر کرتا تھا وہ کبھی براق کو مار نا سکا لیکن اب یہی غلطی اس کے گلے پڑ گئی تھی-

*------------------------*

وہ ایک کافی مہنگا ریسٹورینٹ تھا-بہت پیسوں والا شخص ہی اس ریسٹورینٹ میں قدم رکھنے کی جسارت کر سکتا تھا-ہر چیز نفاست سے سجائی گئی تھی-

بخت (complete)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora