باب نمبر : 6

934 113 51
                                    

میز پہ سکوت چھا گیا-ہاتھ میں پکڑے سب کے چمچ کانٹے بھی چلنا بند ہو گئے- شانزے بے یقینی سے اپنے چچا جان کو دیکھ رہی تھی اور دانیال اپنے باپ کو-

"کیا ہوا سب ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں ؟ چچا نے ان سب کی نظروں اپنے اوپر پایا تو بولے-

"چ--چچا جان میں ابھی پڑھ رہی ہوں" شانزے نے بہت محتاط لہجے میں کہا-کیونکہ اس کے چچا سخت میزاج تھے-

"ہاں تو پڑھنے سے کون روک رہا ہے پڑھائی بھی ساتھ ساتھ جاری رکھنا" شانزے خاموش ہو گئ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا جواز پیش کرے-اس نے دانیال کی طرف دیکھا تو وہ اپنی پلیٹ پہ جھکا ہوا تھا-

"کیا ہوا شانزے؟کیا تمھیں کوئی اعتراض ہے-دیکھو مجھے تمھاری شادی تو کرنی ہی تھی-تو ڈینی سے کیوں نہیں؟اس طرح تم میری نظروں کے سامنے بھی رہو گی-کیا تمھیں اپنے چچا پر بھروسہ نہیں ہے؟"

"ایسی بات نہیں ہے چچا جان" وہ بس اتنا ہی بول پائی-
جب ان کو لگا کہ وہ مانوس نہیں ہو رہی پھر بولے
"ڈینی سیٹلڈ ہے سارا کاروبار سنبھالا ہوا ہے میرا-تمھیں خوش رکھے گا سب سے بڑی بات میں تمھاری طرف سے مطمئن رہوں گا تم میرے بھائی کی آخری نشانی ہو  اور پھر میں بہت پہلے سے ہی ڈینی کے لیے تمھیں بھائی سے مانگ چکا تھا" آخری بات پہ دونوں نے سر اٹھا کر ان کو دیکھا-حلیمہ جو کچھ کہنے کے لیے لب کھول رہیں تھیں شوہر کے اشارا کرنے پہ چپ ہو گئیں-

"کیا ڈیڈ----"

"ہاں یہ تمھارے ڈیڈ کی بھی خواہش تھی-میں تم پہ کوئی زبردستی نہیں کر رہا بس مجھے کسی باہر والے پہ اعتبار نہیں ہے ڈینی کی گارنٹی میں تمھیں دیتا ہوں" اس کی بات کاٹتے گویا ہوئے-
"بولو؟" اب وہ اس کا فیصلہ جاننا چاہتے تھے-

"مجھے---مجھے کوئی اعتراض نہیں" وہ شاید نا مانتی لیکن جب اسے پتا چلا کہ اس کے باپ کی خواہش تھی تو وہ انکار نا کر سکی-

"ڈینی سے تو پوچھ لیں" اب کی بار حلیمہ بولیں-

"آپ کو جو کرنا ہے کریں ڈیڈ" وہ بھی سپاٹ لہجے میں وہاں سے اٹھ کر چلا گیا-وہ بے حد سنجیدہ لگ رہا تھا-

وہ کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہلتی انگوٹھے کا ناخن چبا رہی تھی- اسے پتا تھا کہ ابھی دانیال اس کے کمرے میں آئے گا اور اس پر چلانا شروع کرے گا-اور شاید وہ تو اس کمرے کا ہی حشر کر دے-وہ مسلسل دانیال کے غصے کا سوچ رہی تھی- وہ کیا کہے گی اس سے-
ویسے وہ بھی تو انکار کر سکتا تھا چچا جان کو!
اس نے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی-تم جانتی ہو شانزے چچا جان کے سامنے کوئی نہیں بولتا تمھیں منا کر دینا چاہیے تھا وہ تم سے تمھاری مرضی پوچھ تو رہے تھے-افف اب کیا ہو گا دانیال تو پاگل ہو رہا ہو گا-وہ کتنا سنجیدہ لگ رہا تھا-

دوسری طرف

"یار عمارہ میں بتا نہیں سکتا میں کتنا خوش ہوں- ڈیڈ نے تو  واقعی میں حیران کر دیا- تمھیں پتا ہے میں نے اس وقت کتنا کنٹرول کیا جب ڈیڈ نے کہا کہ میں تم دونوں کی شادی کررہا ہوں-افف دل تو چاہ رہا تھا ڈیڈ کا منہ چوم لوں" وہ فون پہ عمارہ کو اپنی رو میں کہے جارہا تھا-آج دانیال سے کوئی پوچھتا کہ خوشی کیا ہوتی ہے-

بخت (complete)Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang