اس سے کہو سرور مجھے معاف کردے میں مر رہا ہوں پل پل ایک بھاری اور کمزور آواز سرور صاحب کے کان سے ٹکرائی ایسی باتیں نہ کریں ابا جان میرا آپ کے اور میر کے سوا ہے ہی کون لہجے میں پریشانی تھیمیرا بھی کون ہے تمہارے اور میر کے سوا تم آنکھوں کے سامنے ہو پر وہ نہیں ہے نفرت کرتا ہے سر وہ مجھ سے اسے کہو کہ بس ایک بار آکر مجھے گلے لگا لے میں سکون سے مرنا چاہتا ہوں آنسو روانی سے بہہ رہے تھے
ابا سنبھالیے خود کو آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی میں __میں جاؤں گا اس کے پاس میں بات کرونگا اس سے وہ آجائے گا ابا جان وہ اپنے بوڑھے باپ کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر انہیں تسلی دے رہے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ میر کے زخم کتنے گہرے ہیں وہ اسے کیسے منائیں گے یہ وہ خود بھی نہیں جانتے تھے پر اپنے مرتے ہوئے باپ کے لئے انہیں یہ کرنا تھا
________________________________________السلام علیکم بھابی___ امی جان آئے نا صبیحہ بیگم ابھی مغرب کی نماز سے فارغ ہوئی تھیں مسلسل بیل پر دروازے کی طرف بڑھیں اور دروازہ کھولتے ہی سب کو ایک ساتھ دیکھ کر حیران ہوئیں لیکن فوراً ہی وہ اپنی حیرانی کو سمیٹ کر انہیں اندر آنے کا راستہ دیا
ارے بھائی صاحب___ اماں جان آئے نا ___ طبیعت کیسی ہے آپ کی اماں انور صاحب جو اندر ہی موجود تھے سب کی اچانک آمد پر خوشی سے آگے بڑھے
میری طبیعت ٹھیک ہے بیٹا اور آج تو یہاں سے جاؤ گی تو اور زیادہ ٹھیک ہو کر جاؤں گی انور صاحب نے مسکراتے ہوئے اماں جان کو صوفے پر بٹھایا
بچے کہاں ہیں صبیحہ اماں جان نے پوچھا
اماں جان ماہا کو کوئی کام تھا اس کی یونیورسٹی کا تو حبیبہ کے گھر گئی ہے اور میں اسے اکیلے نہیں بھیجتی تو شہیر بھی ساتھ گیا
برا مت ماننا صبیحہ لیکن کیا ضرورت تھی اسے آگے پڑھانے کی بھئی کچھ کام سکھاؤ گھر کے کھانا صفائی کچھ تو آئے اب چھولہے پر کوئی ڈگریاں نہیں پکتی ہیں ایک اچھے ماحول میں طنز کے تیر نے سب کو خاموش کروادیا تھاآپ کی بات ٹھیک ہے بھابھی گھرداری بھی ضروری ہے لیکن تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کے گھر داری اور جب کام کی زمداری پڑے گی تووہ بھی سیکھ جائے گی انور صاحب نے نور جہاں کی بات پر صبیحہ بیگم کا منہ بنتا دیکھا تو خود ہی جواب دینا مناسب سمجھا
تعلیم ضروری ہے انور لیکن بچیاں بڑی جلدی بڑی ہو جاتی ہیں تو ان کی زندگی کے بارے میں فیصلے بھی جلدی ہی لے لینے چاہئیں اسی لئے تم بھی اب اس کے بارے میں سوچو اظہر صاحب نے بات شروع کی
میں سمجھا نہیں بھائی صاحب
انور تم مومن کو تو بچپن سے جانتے ہو تمہارے ہاتھوں میں پلا بڑھا ہے اور آج میں اسی لئے تمہارے پاس آیا ہو_____ اماں جان اور ہم سب کی خواہش ہے کہ ماہا اور مومن کا رشتہ کر دیا جائےیہ بات جتنی شیریں لہجے اور خلوص سے اظہر صاحب نے کہی تھی اتنا ہی کڑوا منہ نور جہاں نے بنایا تھا اسی لیے صبیحہ بیگم نے سب سے پہلے نورجہاں کی طرف دیکھا تھا اور انہیں کچھ کھٹکا تھا انکے تیور دیکھ کر بہت کچھ بھانپ گئی تھیں مگر انور صاحب تو ایک مطمئن مسکراہٹ سے اپنے بھائی کو دیکھ رہے تھے
VOUS LISEZ
فقط عشق از منی.(Completed)✅
Aléatoireجہاں عشق ہوتا ہے وہاں جنون بھی اپنی جگہ بنا لیتا ہے یہ کہانی ہے ایک لڑکی کی معصومیت کی کسی کی یکطرفہ محبت کی اور کسی کے عشق میں چھپے جنون کی کچی پکی دوستی اور شرارتوں سے بھری یہ کہانی آپ کو انشاءاللہ ضرور پسند آئے گی۔❤️❤️❤️