آخر وہ گھر پہنچ گئی تھی اس مشکل سفر کے اختتام پرایک لمبا سانس بحال ہوا تھا وہ خود کو پرسکون کر رہی تھی مگر ایک پریشانی اماں کے سوالوں کی بھی تھی اور اسنے جیسا سوچا تھا ویسا ہی ہوا تھا دروازہ شہیر نے کھولا تھا مگر اماں سامنے ہی اندرونی دروازے پر کھڑی نظر آگئی تھیں انہیں دیکھ کر ہی وہ بوکھلائی سی ہوگئی تھی ایک ہی نظر میں اسکے حلیے اور حال احوال معلوم کر لئے گئے تھے اماں سے نظریں چرا کر فرش پر ڈالیں جہاں پانی تو نہیں ٹھرا تھا مگر لال اینٹیں بھیگی بھیگی تھیں سامنے ہی اسکا بھائی ابھی فری میں شارٹ شو لگنے کے انتظار میں ہاتھ پیچھے باندھے کھڑا تھا شہیر کی ضبط سے چھپی ہوئی بتیسی دیکھ ملال ہوا حبیبہ نے کہا بھی تھا کہ وہ ساتھ اندر آئے مگر تب اسے ڈھڑکا لگا تھا کہ اسکے ساتھ کہیں وہ بھی بن بلائے نا آجائے اسلئے ایک لفظ میں منع کرکے وہ گاڑی سے اتری نہیں بھاگی تھی اور اب پچھتاوا ہورہا تھا اسکی موجودگی میں ہونے والی بچت اپنے ہاتھوں سے قربان کر آئی
یہ تم کس کے ساتھ آرہی ہو ؟ تشویشی نظر ماہا کے بعد پیچھے بند دروازے پر بھی ڈالی تھی
حبیبہ کے ساتھ اماں ___ کم عزت افزائی کی خاطر کم لفظوں کا استعمال لازم تھا
صبح تم یہ کپڑے پہن کر گئیں تھیں ؟ وہ سمجھ نہیں پائی کہ یہ سچ میں انہیں یاد نہیں تھا یا پھر اسکے لئے کوئی انتباہ مگر صاف لگ رہا تھا کہ اماں کا سارا لحاظ ہاتھ میں تھامی تسبیح کا تھا
نہ __نہیں اماں بارش میں بھیگ __گئی تھی __غلطی سے بھیگ گئی تھی تو حبیبہ نے کپڑے تبدیل کروا دیئے زبان نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا اور دل الگ اماں کی نظروں کی تاب نہیں لاپا رہا تھا اور ذہن اس پر بس ایک گردان لگاتار لگی ہوئی تھی کہ اللہ تعالٰی اماں کے قہر سے بچالیں
موسم دوپہر سے خراب تھا جب پتہ تھا تو جانے کی ضرورت ہی کیا تھی سیدھے گھر آنا چاہئے تھا کیا ہر بار لکھ کر دیا جائے گا تب ہی دماغ کا استعمال کرو گی
نہیں اماں وہ بس ____ وہ آنچوووو
لو بس اسکی ہی آمد ہونی تھی لگ گئی ٹھنڈ خوب اچھی طرح بارش میں بھیگ گئی ہو جاؤ اب اندر لاتی ہوں چائے اسے لگ رہا تھا آج اسکی دعائیں قبول ہورہی تھیں بس اماں کے کہنے کی دیر تھی وہ ایسے منظر سے غائب ہوئی تھی جیسے اسکی موجودگی ہوئی ہی نا تھی
_________________________________ادرک والی چائے کا اثر ہوا تھا سر کا بوجھ ہلکا ہوگیا تھا لیکن دماغ کا بوجھ ابھی بھی ویسا ہی تھا وہ بھول بھی جاتی مگر بازو پر ظالم کی گرفت کا لمس گوشت تک چھاپ چھوڑ گیا تھا تکلیف کی دکھن الگ تھی اچھا خاصہ وقت اسے یاد کرنے میں سرف ہوگیا تھا مگر یاد کرنے کے الفاظ اچھے نہیں تھے دنیا کا کوئی سب سے ظالم خوفناک انسان ماہا انور کے لئے کوئی تھا تو وہ میر خانزادہ تھا
اللہ کرے تمہارے ہاتھ ٹوٹ جائیں ___ جتنی بار بازوؤں پر کچھ چھو رہا تھا وہ درد کی کراہٹ کے ساتھ اس درد کے سبب کو بددعائیں دے رہی تھی
سمجھتا کیا ہے وہ خود کو ہمت کیسے ہوئی مجھ سے اس طرح بیہیو کرنے کی اسے کوئی حق نہیں ہے کہ وہ مجھے بتائیے کہ مجھے کس کا نام لینا ہے اور کس کا نہیں مجھے کس کے قریب جانا ہے اور کس کے قریب نہیں جانا دوبارہ ایسی کوئی حرکت برداشت نہیں کرونگی خودکلامی میں کب آنکھیں بھیگنےلگیں اسے پتہ ہی نا چلا مگر یہ تو پکا تھا کہ ماہا انور اب میر خانزادہ سے بدگمان ہوگئی تھی
سسسی__ ایک بار بے دھیانی میں اس کا ہاتھ اپنے بازو پر گیا تو زخم پر ضرب لگی پھر درد کم نہ ہوا

ŞİMDİ OKUDUĞUN
فقط عشق از منی.(Completed)✅
Rastgeleجہاں عشق ہوتا ہے وہاں جنون بھی اپنی جگہ بنا لیتا ہے یہ کہانی ہے ایک لڑکی کی معصومیت کی کسی کی یکطرفہ محبت کی اور کسی کے عشق میں چھپے جنون کی کچی پکی دوستی اور شرارتوں سے بھری یہ کہانی آپ کو انشاءاللہ ضرور پسند آئے گی۔❤️❤️❤️