EPISODE # 06

1.1K 74 10
                                    

کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا دن بھر کی تھکن اتارنے کو وہ اپنے بیڈ پر براجمان تھا لیکن یہ کیا اس کی آنکھیں مچی ہوئی تھیں پل پل کروٹیں بدلتا وجود سکون کی بوند بوند کو ترس رہا تھا باہر اتنی گرمی تو نہ تھی اور اندر اے سی کے اثر سے دیواریں تک ٹھنڈے ہو گئی تھیں لیکن اس کے اندر کی تپش کے آگے یہ ٹھنڈ ماند پڑ گئی تھی یہ آگ کیوں اسے بے چین کر رہی تھی وہ تو میر عزیز تھا نہ اس کی آنکھیں تو ہر وقت سکون کے پردے میں رہتی ہیں اس کی مسکراہٹ  ہی تو اس کے اپنوں کو یہ احساس دلاتی تھی کہ وہ کتنا خوش ہے تو پھر یہ تپش یہ بے چینی کیوں ؟
ماضی___ہاں ماضی اگر ماضی کٹھن ہو تو لاکھ آگے بڑھنے پر بھی اکثر دل و دماغ پر  ، آج پر سوار ہو جاتا ہے یہی حالت میر عزیز کی تھی کہ باہر سڑک کا شور بھی اس کے اندر کے شور میں دب کر رہ گیا تھا
لیکن یہ کیا وہ مسکرایا تھا پل بھر کو اور اس مسکراہٹ کی وجہ پر پٹ سے آنکھیں کھول دی تھیں ایک معصوم چہرے نے اس کی ماضی کی یاد پر تالا لگایا تھا وہ خود لاعلم تھا جب سے وہ پاکستان سے نکلا تھا وہ چہرہ کئی بار اس کی آنکھوں میں ٹھنڈ اور چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ لے آتا تھا ابھی بھی یہی ہوا تھا لیکن کیوں ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں کہ اس کا ماضی اسے جکڑلے اور پل بھر میں آزاد کر دے وہ تو اس حالت میں پوری پوری رات بے چین رہتا تھا
وہ حیران سا اٹھا تھا پہلے والی بے چینی اب چہرے پر نہیں تھی
لگی مجھے اور سن تم ہوگئے ہو

مسکراہٹ گہری ہوئی

اتنا بڑا نقصان کر دیا اور ایک سوری کہ کر بچنا چاہتے ہو

ٹرانس کی سی کیفیت میں اس کی مسکراہٹ کی جگہ اب ہنسی نے لے لی تھی

ماہا اپنا نقصان کرنے والوں کو نہیں بخشتی ہنسی رکی تھی
۔۔۔ماہا ۔۔۔

اپنے لہجے پر اسے خود بھی حیرت ہوئی تھی
ایسا کیوں خود سے سوال کیا؟؟  نہیں ایسا کچھ نہیں ہو سکتا میں بس تھک گیا ہوں خود ہی جواب دیا

سیکنڈ میں سارے خیال جھٹک کر وہ اپنے ہی جذبات سے مکر گیا تھا موبائل اٹھایا سائڈ ٹیبل سے اور واٹس ایپ چیک کیا بھائی اپنا خیال رکھیے گا اور جلدی سے واپس آجائیں حبیبہ کا میسج پڑھ کر وہ ایک بار پھر مسکرایا لیکن یہ مسکراہٹ پہلے والی مسکراہٹ سے زیادہ دلکش نا تھی اب وہ اسٹیٹس اسکرول ڈاؤن کر رہا تھا حبیبہ کا اسٹیٹس دیکھ کر رکا وہ ہمیشہ ایسا نہیں کرتا تھا لیکن آج وہ اپنے اندر الجھے ہوئے جذباتوں کو نظر انداز کرنا چاہتا تھا اس نے اسٹیٹس کھولا تو حبیبہ کے  ساتھ وہ دشمن جان بھی ایک کھلتی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھی وہ تو جیسے پھر وہیں ٹھہر گیا ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں ہاتھ اس کے چہرے پر گیا جیسے وہ خود سامنے موجود ہو دل دھڑک رہا تھا لیکن ایک الگ ہی لہ پر

کیا چیز ہو تم لڑکی میرا پیچھا کرتے کرتے یہاں تک آ گئی کھوئے ہوئے انداز میں ہاتھ دل پر گیا

یو آر ان لو میر خان زادہ دل نے بتایا

کیسے؟سوال خود سے کیا نظریں اب تک اس کی مسکراہٹ پر تھی میر نے تو ہر چیز کی خواہش سے خود کو کاٹ رکھا تھا وہ تو محبت مانگتا ہی نہیں تھا  سوائے اپنی روشن اماں سے محبت کے اور کوئی جذبہ اس کے اندر کبھی نہیں ابھرا

فقط عشق از منی.(Completed)✅Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz