۔۔۔۔۔یقین

47 7 4
                                    

۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

مہرین کے جانے کے بعد وہ کتنی بار اس کی کہی باتوں کو دہرا چکی تھی۔
دل اور دماغ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ وہ انسان ایسا۔وہ تو اس کی ماں کو اپنی سگی ماں سےذیادہ محبت کرتا تھا ۔صرف اک مسکراہٹ ان کے چہرے پہ دیکھنے کےلئے جھوٹ بھی بول دیتا تھا ۔
ان کی ہر بات مانتا تھا ۔وہ کتنی پاگل تھی۔کیسے حارب کو غلط سمجھ بیٹھی تھی۔
وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتا تھا۔

اسے رونا آ رہا تھا پر وہ رونا نہیں چاہتی تھی ۔وہ اور ٹوٹنا نہیں چاہتی تھی ۔وہ مظبوط بننا چاہتی تھی ۔اور ایسا اس شخص کے بغیر ناممکن تھا۔

کاش وہ ابھی سامنے آ جائے ۔میں معافی مانگوں گی۔جو چاہے سزا دے لے وہ مجھے مگر واپس آ جائے ۔۔

کاشف صاحب اور عمار بھی اس کی اس حالت سے بے خبر نہیں تھے ۔پر وہ خاموش تھے وہ چاہتے تھے کہ وہ سب خود ٹھیک کرے۔

حارب واپس آ جائے گا انہیں یقین تھا۔۔۔۔

♡♡♡♡♡♡♡


وہ صبح سے کوئی دس راؤنڈ لگا چکا تھا یونی کے ۔گیٹ تک آتا اور واپس پلٹ جاتا۔
وہ تھک چکا تھا مگر اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔وہ تو اس لڑکی کو جانتا تک نہیں تھا ۔

کہاں ڈھونڈتا اسے ۔۔۔۔ابھی وہ تھک کر یونی کے گیٹ سے ہٹ کر ایک بینچ پر بیٹھا ہی تھا کہ اسے دور سے ہی وہ ہی لڑکی آتی نظر آئی ۔جو اسے رات کو ملی تھی۔
جو اس کےلئے اجنبی تھی۔اور وہ اس کا بے صبری سے انتظار کر رہا تھا ۔

یہ انتظار اور تجسس دونوں بہت برے ہوتے ہیں ۔انسان کو سکون نہیں ملتا جب تک یہ ختم نہ ہوں ۔

اس سے دو قدم کے فاصلے پہ کھڑی وہ لڑکی مسکرا رہی تھی۔
پھر اس نے اسے سلام کیا اور جواب دیتے ہوئے وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

کیسے ہیں آپ مسٹر حارب؟ ؟  مسکرا کر پوچھا گیا سوال
کیا جانتی ہو تم ؟؟ کون سا راز ؟؟   سوال کے بدلے سوال پوچھا گیا
آپ کو دیکھ کر ایسا کیوں لگ رہا مسٹر حارب کہ آپ رات سے یہی بیٹھے میرا انتظار کر رہے؟؟  وہ مسکرائی
یہ میری بات کا جواب نہیں ۔۔  اس نے جیسے قسم کھائی تھی نا ہنسنے کی
ریلیکس مسٹر حارب ۔۔۔۔۔
ایسی بھی کیا جلدی ہے ۔جہاں صبح ہونے تک ویٹ کیا وہاں کچھ پل اور سہی۔
میں اور ویٹ نہیں کر سکتا ۔۔۔

ویسے تم لوگ بھی کتنے عجیب ہو اگر کوئی راہ چلتا بھی بےوقوف بنانا چاہے تو بنا سکتا تم لوگوں کو۔۔۔

یہ لفظ کسی تیر کی طرح چھبے تھے اسے۔تو کیا اس نے اسے بےوقوف بنایا تھا ۔کوئی راز نہیں تھا؟؟؟ اور وہ اک اجنبی کی بات پہ یقین کر بیٹھا ۔

وہ بنا کچھ کہے وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا ۔وہ مزید کچھ سننا نہیں چاہتا تھا ۔

دوسری غلطی تم لوگوں کی آدھی ادھوری بات پر ایمان لے آتے ہو ۔
اس کے آگے بڑھتے قدم رک گئے تھے ۔وہ پلٹا نہیں تھا ۔۔۔

وہ چلتی عین اس کے سامنے آ گئی تھی ۔اسے اس انسان پر ترس آ رہا تھا ۔
اسے لگا کہ اگر اب بھی وہ نا بولی تو وہ انسان جو پہلے ہی ٹوٹ چکا اور بکھر جائے گا۔۔

فیرس نے اسے مکمل سچائی سے آگاہ کیا تھا ۔اس کی ماں کی سوچ ۔۔اس کی اور حارب کی شادی طے ہو چکی ۔
اور یہاں تک کے اس کی ماں فیرس کی ماں سے چیلینج کر کے گئی تھیں کہ وہ حارب کو امریکہ لے آئیں گی ہمیشہ کےلیے ۔۔۔۔
بائے ہک آر بائے کروک ۔۔۔۔

اسے لگا اس کا وجود جیسے پتھر کا ہو گیا ہو۔
اس کی ماں نہیں اچھی وہ جانتا تھا مگر وہ اس حد تک گر سکتیں اسے یقین نہیں آ رہا تھا ۔اک ماں ایسا بھی کر سکتی اپنی اولاد کے ساتھ۔۔۔۔

عمر نے جو بات اسے بتائی تھی حارب کی شادی کی ۔وہ بھی وہ اسے بتا چکی تھی۔

کیسا انسان تھا وہ آج تک کسی کو نا سمجھ سکا تھا۔نا محبت کو نا نفرت کو ۔۔
نا وہ صالحہ بیگم سے کبھی سچ بول سکا ۔نا منال کو سمجھ سکا ۔اور اپنے باپ تک کو غلط سمجھا تھا اس نے ۔۔۔

وہ لڑکی جو اس کی زندگی تھی وہ اسے تنہا چھوڑ آیا تھا ۔
اور فیرس اسے بھی تو اس کی وجہ سے پرابلم ہوئی تھی ۔
اب اسے سب ٹھیک کرنا تھا ۔کیسے وہ نہیں جانتا تھا ۔
ہاں وہ اس لڑکی سے ایکسکیوز کرنا چاہتا تھا ۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا وہ اک طرف چل دی ۔
اور پھر اگلے ہی پل وہ اس کے سامنے تھی ۔دوبارہ ہنستی ، مسکراتی اک اور چہرہ ساتھ لیے ۔۔۔۔۔۔وہ بھی مسکرا رہا تھا۔۔۔

وہ خاموشی سے کھڑا اس لڑکی کے تاثرات دیکھ رہا تھا ۔اس کی مسکراہٹ اب پہلے سے زیادہ گہری ہو گئی تھی ۔
اس کے ساتھ کھڑا لڑکا بھی حارب کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔
جبکہ وہ تو مسکرا بھی نا سکا تھا ۔صرف دیکھتا رہا خاموشی سے۔۔۔

حارب میٹ مائی فیانسی  رابرٹ ۔۔۔فیرس نے اس چہرے کا تعارف کروایا
وہ اس کی اس بات سے مزید الجھ گیا تھا ۔فیرس شاید اس کی الجھن سمجھ گئی تھی ۔

تم سوچ رہے ہو گے ابھی میں نے تمہیں اپنی اور تمہاری شادی کا بتایا اب یہ سب کیا؟؟

یہ رابرٹ ہے وہ لڑکا جسے میں پسند کرتی ہوں ۔اور میری مام بھی ریڈی ہماری شادی کےلیے ۔۔۔
ہاں وہ نور آنٹی کی باتوں میں آ گئی تھیں اپنی فرینڈشپ کی خاطر ۔۔۔مگر میں نے انہیں منا لیا ہے ۔اور تم یہ بھی مت سمجھنا کہ مجھے تمہاری وجہ سے کوئی پرابلم ہوئی ہو گی ۔

میں پہلے سے رابرٹ کو پسند کرتی ۔اور میں خوش ہوں تمہیں بھی تمہارا پیار مل گیا ہے ۔

میں تمہاری وجہ سے ہرٹ نہیں ہوئی  ۔جب مام نے آنٹی کو ہاں کہا تھا تب بھی نہیں ۔۔۔
اس کے آخری لفظوں نے اسے بولنے پر مجبور کر دیا تھا ۔
تمہیں ڈر نہیں لگا ؟؟  اگر میں یہاں آ جاتا تو؟ ؟
نہیں مجھے کوئی ڈر نہیں لگا کیونکہ مجھے اللہ پہ اور اپنے پیار پہ یقین تھا۔۔۔

اس کے کہے لفظ اسے مزید شرمندگی میں مبتلا کر گئے تھے۔
اس نے کیوں نہیں صبر کیا؟ ؟   کیوں نہیں منال پہ یقین کیا؟   بہت سوال تھے اور احساس شرمندگی تھا۔۔۔۔

فیرس کا شکریہ ادا کر کے وہ گھر آ گیا تھا ۔

اس کے لیے سمجھنا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ وقت زیادہ تکلیف دہ تھا جو گزر گیا یا وہ جو آنے والا تھا ۔۔۔۔۔



To be continue. ....

💔💔💔💔💔

یقین ۔۔۔۔Where stories live. Discover now