Episode 11

845 66 46
                                    


اُڑ جاٸیں گے تصویر سے رنگوں کی طرح ہم۔۔۔!
ہم وقت کی ٹہنی پر پرندوں کی طرح ہیں۔۔۔!

زہن کے پردے پر یاداشت کے مختلف جالے بنتھے عجیب کشمکش تھی۔ چہرے ،ساۓ ،آوازیں نمودار ہوتی پھراندھیرہ چھاجاتا۔کچھ سجھاٸی نہ دیتا۔ چہرے پر درد کے آثار واضح تھے۔ مرحا نے درد سے پھٹتے سر کو بے ہوشی میں جنبش دی۔ حیدر وہی اس کے پاس بیٹھا تھا۔

ڈاکٹر جلدی آۓ مرحا کو ہوش آرہا ہے۔" کوٸی آواز فضا میں ارتعاش پیدا کرتی اپنا دم توڑ گٸی
الفاظ مرحا کی سماعت سے ٹکراۓ مگر وہ بےسود پڑی رہی۔ یاداشت کا جال بڑھتا ہی جارہا تھا۔اس کے ساتھ تکليف بھی زیادہ ہوتی جارہی تھی۔ مسافت کا وقت تمام ہوا۔ آوازیں واضح ہونے لگی۔ اس نے کڑہاتے ہوۓ آہستہ سے آنکھیں کھولنی چاہی۔ دواٸیوں کی بو اس کے ناک سے ٹکراٸی ۔ ہلکا سا احساس ہوتے سر نے جنبش کی۔ ہونٹوں سے ایک کراہ نکلی جو بامشکل پاس بیٹا حیدر سن پایا۔ دل چیڑ دینے والی ٹھیس پاس بیٹھے شخص کے چہرے پر واضح ہوٸی۔ حیدر نے اس کا ہاتھ پکڑتے نم آنکهوں سے سامنے کھڑکی کے پار نظر آتے کشادہ پھیلے آسمان کو دیکھتے فریاد کی۔ ایک ایک لمحہ اس کی سانسیں گھٹ رہی تھی۔ سامنے پڑا وجود کچھ ہی گھنٹوں میں مرجھا سا گیا تھا۔

"رحمنٰ ہی نے۔
قرآن سکھایا۔
اس نے انسان کو پیدا کیا۔
اسے بولنا سکھایا۔
سورج اور چاند ایک حساب سے چل رہے ہیں۔
اور بیلیں اور درخت سجدہ کر رہے ہیں۔
اور آسمان کو اسی نے بلند کر دیا اور ترازو قائم کی۔
تاکہ تم تولنے میں زیادتی نہ کرو۔
اور انصاف سے تولو اور تول نہ گھٹاؤ۔
اور اس نے خلقت کے لیے زمین کو بچھا دیا۔
اس میں میوے اور غلافوں والی کھجوریں ہیں۔
اور بھوسے دار اناج اور پھول خوشبو دار ہیں۔
پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔
اور اس نے جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔
پھر تم (اے جن و انس) اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
وہ دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے۔
پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
اس نے دو سمندر ملا دیے جو باہم ملتے ہیں۔
ان دونوں میں پردہ ہے کہ وہ حد سے تجاوز نہیں کرسکتے۔
پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
ان دونوں میں سے موتی اور مونگا نکلتا ہے۔
پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
اور سمندر میں پہاڑوں جیسے کھڑے ہوئے جہاز اسی کے ہیں۔
پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
جو کوئی زمین پر ہے فنا ہوجانے والا ہے۔
اور آپ کے پروردگار کی ذات باقی رہے گی جو بڑی شان اور عظمت والا ہے۔
پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے"۔

حیدر نے قرآن کریم کی خوبصورت ترین سورۃ الرحمن کی تلاوت کرتے اللّٰه پاک سے مرحا کی صحتیابی کی دعا کرتے اس پر پھونکی۔

جو آوازیں دور ہوتی جارہی تھی اب ہلکی سی ٹھیس سے بلند ہوتی پاس ہوتی جارہی تھی۔ اپنے ہاتھوں پر کسی کا لمس محسوس ہوا تھا۔ کوٸی بہت اپنا اسے پکار رہا تھا۔ اب روشنی کا وقفہ لمبا ہونے لگا، مگر باربار اندھیرہ آجاتا مگر اب ایک جھٹکے سے کسی اپنے کی پکار پر اسے جیتنا پڑا اور مرحا نے آہستہ سے آنکهيں کھول دیں۔۔ سامنے سفید بےداغ دیوار پر نظر پڑتے کچھ سمجھ نہ آیا وہ کہاں ہیں۔ کچھ ہی دیر میں وہ دوبارہ غنودگی میں چلی گٸی۔

یوں ہم ملے از نازش منیر(completed)Where stories live. Discover now