قسط ١

2.1K 102 93
                                    

عیدِ زندگی
بقلم
سحر قادر

####EPISODE 1####

سہ پہر کا وقت تھا۔
آفندی ہاؤس کے اندر خاموشی تھی۔ گھر میں موجود تمام مکین اپنے کمروں میں تھے، سوائے مہوش کے جو ٹیرس پہ سر پکڑے کھڑی ان دونوں کے کارنامے دیکھ رہی تھی۔
چھ سالوں نے بھی ان کو نہیں بدلا تھا۔
اٹھائیس کے ہونے کے باوجود وہ دونوں بعض اوقات بچے بن جاتے تھے لیکن وہ ان دیور بھابھی کو نہیں سدھار سکتی تھی۔
وہ دونوں آفندی سٹریٹ میں پوری پلاٹون کے ساتھ موجود تھے۔
اپنی سٹریٹ کو آفندی کا نام بھی ان دونوں نے دیا تھا اور مجال ہے کہ کوئی کچھ کہے۔
"میں کہہ رہی ہوں چھوٹے اب اگر گیند سیدھی نہ آئی تو اسی بلے سے تمہارا سر پھاڑ دونگی۔" حائمہ نے پندرہ سالہ حسن کی الٹی گیندوں سے تنگ آ کر اسے خبردار کیا تھا۔
"حائمہ اس بال پہ چھکا ہونا چاہیے۔" کریز کے دوسری طرف کھڑے عون نے جوش سے کہا۔
کریز کیا تھی؟ بس گلی کے درمیان میں کچھ فاصلے پر وکٹس لگا کر اسے کریز کا نام دیا گیا تھا اور محلے کی بچہ پارٹی ان دو بڑے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے مزہ کر رہی تھی۔
"عون بس کر دو۔" مہوش نے ٹیرس سے کہا تھا۔
"مہوش تم بھی آؤ مزہ آئے گا۔" عون نے الٹا اسے بھی ساتھ گھسیٹنے کی کوشش کی۔
اب حسن بھاگتا ہوا بال کرانے آیا تھا اور حائمہ نے بلا گھمایا اور یہ کیا ہوا.....!!
بال سیدھی قدوسی ہاؤس کی ایک کھڑکی کو زخمی کر گئی تھی۔
سب حائمہ کو دیکھ رہے تھے جس نے یوں کندھے اچکائے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
دو منٹ کے اندر اندر انکی ایک مہینے پہلے یہاں شفٹ ہونے والی پڑوسن یعنی کہ مسز قدوسی باہر تشریف لا چکی تھیں۔
"ارے  تمہیں کسی نے تمیز نہیں سکھائی۔ نہ کوئی طریقہ نہ کوئی سلیقہ بس سر جھاڑ منہ پھاڑ بلا اٹھا کر دوسروں کے گھر توڑنے بیٹھی ہو۔" مسز قدوسی کی زبان سے سب تھوڑے ہی عرصے میں واقف ہو چکے تھے۔
"آنٹی گھر کہاں صرف کھڑکی ٹوٹی ہے۔" حائمہ نے بلا زمین پر رکھتے ہوئے کہا۔
"شادی شدہ تو نہیں لگتی تم کون یقین کریگا کہ پانچ سالہ بیٹا ہے تمہارا نجانے کیسے تمہارا شوہر برداشت کر رہا ہے تمہیں؟ میری بہو ہوتی تم، تو دو دن میں باہر کر دیتی میں۔" مسز قدوسی کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی۔
مہوش کا سانس تب سوکھا جب اس نے ارحان کی گاڑی کو سٹریٹ میں داخل ہوتے دیکھا۔
ارحان نے گاڑی گھر کے گیٹ کے سامنے روکی اور باہر نکلا تو معما اسکی سمجھ میں آ چکا تھا۔
"مسز قدوسی میں شرمندہ ہوں آپ سے۔میں آپ کا نقصان پورا کر دونگا۔ آپ جائیں آرام کریں۔" ارحان نے تحمل سے مسز قدوسی کو شانت کرتے ہوئے حائمہ پر ایک کٹیلی نظر ڈالی تھی۔
"ارے سمجھاؤ اپنی بیوی کو ایسے لڑکیاں پھر بستی نہیں ہیں۔" مسز قدوسی کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔
حائمہ تو سوچ رہی تھی کہ جانے کیسے ٹھنڈے مزاج کے قدوسی صاحب انکے ساتھ گزارا کرتے ہوں لیکن دوسری طرف ارحان کا دماغ بھی گرم ہو رہا تھا۔
"میرے بسنے کی فکر نہ کریں آپ میں ماشاءاللہ سیٹ ہوں زندگی میں۔ اپنی بیٹی پہ توجہ دیں جو دن بدن موٹی ہوتی جا رہی ہے اور عمر تو اسکی ویسے بھی نکلنے والی ہے. اگلے سال رشتہ ڈھونڈنا اب سے بھی زیادہ مشکل ہو جائیگا۔" حائمہ کبھی ایسے بات نہیں کرتی تھی مگر ارحان کے سامنے اپنے نہ بسنے والا طعنہ سن کر اسنے مسز قدوسی کو حلق تک کڑوا کر دینے والا طعنہ مارا تھا اور پیر پٹختی گھر کے اندر جا چکی تھی۔
"آنٹی کتنی بار کہا ہے مجھ سے بات کیا کریں۔ اب شیرنی کے منہ میں ہاتھ ڈالیں گی تو یہی ہوگا نا لیکن خیر میں چلتا ہوں۔" عون مسکراتا ہوا وہاں سے رفوچکر ہو گیا تھا۔ باقی ینگ پارٹی بھی پیچھے کھڑی مسکرا رہی تھی کیونکہ جب سے مسز قدوسی آئی تھیں، ان کا حائمہ پر طنز کرنا سب دیکھ رہے تھے۔ مگر اب تو حائمہ میدان میں آ گئی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"تم انسانوں کی طرح نہیں رہ سکتی۔" ارحان نے کمرے میں آتے ہی اسے بازو سے دبوچا تھا۔
"میں نے کچھ نہیں کیا۔میں صرف کھیل رہی تھی وہاں اور ایک کھڑکی ہی ٹوٹی ہے اور اتنے پیسے ہیں میرے پاس کہ ان کا نقصان پورا کر سکوں۔" حائمہ نے جواب دیا لیکن اس کا سر جھکا ہوا تھا۔
"تمہیں کیا نشہ ہے کرکٹ کھیلنے کا۔ حائمہ بڑی ہو جاؤ تمہارا بیٹا کیا سیکھے گا تم سے؟ اپنی حرکتیں درست کرو۔" ارحان اپنا لہجہ حتی المقدور درست رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
حائمہ اسکی بات پر صرف لب کاٹ کر رہ گئی تھی۔
وہ ہمیشہ اسے اس بات کا طعنہ دیتا تھا کہ وہ آریز کو کچھ اچھا نہیں سکھا رہی۔
"پلیز اب فضول حرکتیں چھوڑو اور ایک کمرہ سیٹ کر دو یشفہ آ رہی ہے۔" ارحان نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
"کون یشفہ؟" حائمہ ناچاہتے ہوئے بھی اب اس سے بات کر رہی تھی۔
"میرے اکلوتے ماموں کی بیٹی۔ تمہیں معلوم ہے کہ ماما اور خالہ کا ایک ہی بھائی ہے یعنی میرے ماموں جو پچھلے دس سال سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ بس انہیں کی اکلوتی بیٹی ہے۔" ارحان نے عام سے لہجے میں کہا تھا لیکن حائمہ کا دماغ اب الٹا چل رہا تھا۔
"تمہارے ماموں نہ تمہاری شادی پر آئے اور نہ عون کی اور اپنی بھانجی ثناء کی شادی پر بھی نہیں آئے تو انکی بیٹی کیوں آ رہی ہے یہاں؟ ہمارے گھر میں رہنا ضروری ہے کیا اس کا؟" حائمہ نے اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے اگلا سوال پیش کیا تھا۔
"وہ پاکستان اپنے رشتہ داروں سے ملنے آ رہی ہے اور میری ماما اسکی پھپھو ہیں اس لیے یہاں رہے گی۔"ارحان اب اس تفتیش سے چڑ گیا تھا۔
" تمہاری خالہ بھی اسکی پھپھو ہی لگتی ہیں جنکی اکلوتی اولاد رخصت ہو چکی ہے وہ ان کے پاس کیوں نہیں جاتی اس طرح ان کی تنہائی بھی ختم ہو جائیگی۔" حائمہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
"میں تم سے پوچھ نہیں رہا یہ گھر جتنا تمہارا ہے اتنا ہی میرا اور عون کا ہے تو جب تمہارے کزن آ سکتے ہیں تو میری کزن بھی آ سکتی ہے۔" ارحان نے سر جھٹکے ہوئے اسے کہا تھا۔
"بابا آپ کب آئے؟" آریز بھاگتا ہوا ارحان کے پاس آیا تھا۔
پانچ سالہ آریز ارحان کے ساتھ حائمہ کی نسبت زیادہ لگاؤ رکھتا تھا اور اس میں زیادہ تر عادات بھی باپ والی تھیں سوائے اسکے کہ وہ تھوڑی زیادہ باتیں کرتا تھا۔
جب وہ اپنے معصومانہ انداز میں بولتا تو سب گھر والے خوشی سے نہال ہو جاتے تھے۔ اپنے چاچو کا تو وہ لاڈلا اور دیوانہ تھا۔ عون کو دیکھتے ہی وہ اپنے ماں باپ کو بھی بھول جاتا تھا۔
"ارے بابا کی جان! آپ کہاں تھے بابا تو کب سے آئے ہیں مگر آپ نے تو بابا کو پیار ہی نہیں کیا آج!" ارحان اب آریز کے ساتھ مصروف ہو چکا تھا جبکہ حائمہ غصے سے ان باپ بیٹے کو دیکھتی کمرے سے باہر نکل کر لاؤنج میں آ چکی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - - -
"اوہو بھابھی ماں کا منہ لٹکا ہوا ہے۔اسکا مطلب ہے کہ آج پھر ہٹلر بھائی جان سے لڑائی ہو چکی ہے۔ویسے تمہیں چین کیوں نہیں آتا حائمہ... روز لڑائی کرنا ضروری ہوتا ہے کیا؟؟" عون نے مزے سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"تم زیادہ بکواس نہ کرو مسٹر دیور! نہیں تو تمہارے ہٹلر بھائی کا غصہ تم پہ نکل جانا ہے آج۔ پھر ڈھونڈتے رہنا ڈاکٹر کو علاج کے لیے اپنے۔"حائمہ نے غصے سے چھری عون کی طرف موڑ کر کہا جس پر مہوش نے اپنی ہنسی دبائی تھی۔
"اللہ اللہ ایک وہ دن تھے جب میں تمہارے سارے کام کرتا تھا اسائنمنٹس لکھتا تھا، اور تم مجھے ہی دھمکیاں لگا رہی ہو۔ لڑتے تم اور بگ بی ہو اور غصہ مجھ پہ نکلتا ہے۔" عون نے ڈرامائی انداز میں بات کہ تھی۔
"لڑتے تو تم بھی رہتے ہو اب اکیلے ہم تو نہیں لڑتے۔" حائمہ نے فوراً عون کی بات کی تردید کی تھی۔
"ہاں چچازاد یہ تو ہے کہ تمہارا شوہر اور میری بیوی انتہائی بے حس ہیں اب دیکھو ہم معصوموں کو ہر وقت تنگ کرتے ہیں۔" عون نے رازدانہ انداز میں کہا مگر مہوش انکی بات سن چکی تھی۔
"ہاں بات تو یہ ہے کہ یہ دونوں ہماری صلاحیتوں سے جلتے ہیں...چھوڑو تم انھیں تم بتاؤ آفس کیسا جا رہا ہے۔" حائمہ نے عون کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
"توبہ ہے تم دیور بھابھی سے ابھی تو آپس میں لڑرہے تھے اور اب ہم پر آ گیے بھلا ہم کیوں جلیں گے؟" مہوش نے تپ کر جواب دیا۔
"دیکھا دیکھا حائمہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم لڑتے رہیں مگر ہم نے انکی کوششوں کو ناکام بنانا ہے۔" عون نے کہا تو مہوش سر پکڑ کر رہ گئی۔ان دونوں کا وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
"ہیلو ایوری ون!" علی نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہی ہاتھ اٹھا کر سب کو مخاطب کیا تھا اور پھر دھپ کرتے ہوئے حائمہ کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔
"علی سلام کرتے ہیں پہلے۔" حائمہ نے خفگی سے کہا تو وہ ہنس کر بولا:
"قسم سے حائمہ آپی آپ بھی نا کبھی کبھی بلکل بی اماں بن جاتی ہیں۔" چھ سالوں میں وہ کڑیل جوان بن گیا تھا۔
اب وہ چھوٹا سا علی نہیں تھا جسے یہ سب اگنور کرتے بلکہ اب وہ بڑا ہو گیا تھا۔
تین سال پہلے ایک حادثے میں مہوش اور علی کے والد ساجد صاحب کی وفات ہو گئی تھی۔
یہ آفندی خاندان کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا لیکن پھر عباس اور اکرم آفندی اپنی بہن شمائلہ اور علی کو آفندی ہاؤس میں لے آئے اور اب وہ اپنے پورشن میں الگ رہتی تھیں۔
لیکن علی اپنے پورشن میں کم ہی ہوتا تھا وہ ہر وقت عون اور حائمہ کے ساتھ رہتا تھا۔
"ویسے ہٹلر بگ بی نے کچھ کہا تو نہیں ہے کیا؟" علی نے نچلا لب دبا کر کہا تو حائمہ آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتی وہاں سے آٹھ چکی تھی۔
"ارے اسے کیا ہوا؟" مہوش نے حیران ہوتے ہوئے عون سے سوال کیا۔
"عون بھائی قسم سے میں نے تو مذاق کیا تھا۔" علی سیریس ہوا تھا۔
"مجھے معلوم ہے۔" عون نے علی کو جواب دیا۔
"حائمہ ایسی تو نہیں تھی مگر اب وہ چھوٹی چھوٹی بات پر آنکھیں بھگو لیتی ہے۔" مہوش پرسوچ انداز میں ان دونوں سے بات کر رہی تھی۔
"وقت انسان کو بدل دیتا ہے اور تمہیں کیا لگتا ہے ایک لڑکی یہ برداشت کریگی کہ جب ہر انسان اس سے یہ پوچھے کہ آج اسے شوہر نے کچھ کہا تو نہیں۔ ہم تو چلو مذاق کرتے ہیں جسے وہ ہنس کر ٹال دیتی لیکن جب مسز قدوسی جیسی عورتیں تک طعنے ماریں تو وہ کتنا خود کو مضبوط رکھے۔بگ بی حد کرتے ہیں انکا حائمہ آپی کو ڈانٹنا روز کا معمول ہے اور اب ایک انسان کتنا خود پر بند باندھ سکتا ہے۔" علی نے بے تاثر لہجے میں جواب دیا تھا۔
وہ باہر کھیلتے بچوں سے سب سن کر آیا تھا کہ آج کیا ہوا ہے۔
"علی ٹھیک کہہ رہے ہو بگ بی نے ایک اچھی بھلی لڑکی کا اعتماد ختم کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔" عون نے کہا اور پھر اٹھ کر عباس آفندی کے کمرے میں چلا گیا۔
- - - - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - - - -
"پھپھو جان آپ اداس ہیں۔" امتنان نے لان میں بیٹھی حائمہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا تو وہ مسکرا دی۔
عون اور مہوش کی بیٹی امتنان بلکل اس جیسی دکھتی تھی۔ آریز سے ایک ماہ چھوٹی امتنان اسے تائی کی بجائے پھپھو کہتی تھی کیونکہ عون کے بقول حائمہ اسکی بھابھی کم بہن زیادہ ہے۔
"ارے نہیں پھپھو کی پیاری! بس میں اس لیے چپ تھی کہ آج میرے بیٹی میرے پاس نہیں آئی۔" حائمہ مسکراتی ہوئی اسے جواب دے رہی تھی۔
لیکن اس کا دماغ کچھ اور سوچ رہا تھا۔
"میرے امی ابو  اور آغا جانی یہاں نہیں ہیں اسی لیے زیادہ ہوا میں اچھل رہا ہے آج ہی آغا جانی کو فون کرونگی۔" حائمہ نے کڑھتے ہوئے سوچا تھا۔
اب وہ امتنان کو دیکھ رہ تھی جو پورے لان میں اچھل کود کا عملی مظاہرہ کر رہی تھی۔
- - - - - - - - - - - - - - -
- - - - - - - - - - - - - - -
جاری ہے!!!

Stay tuned!!!

عیدِ زندگی سیزن ٹو Where stories live. Discover now