قسط 2

4 1 0
                                    

🔷 *شینا کی بیٹی*🔷

📚 *(قسط2️⃣)*📚

💟 *مقدمه*💟

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

❣️ میں نے سوچا کہ اس خاتون کی زندگی کو احاطۂ تحریر میں لاؤں گی اور پھر میں نے پختہ ارادہ کر لیا تھا۔
میں نے فون کیا تو تم نے خود ہی اٹھایا تھا۔ مجھے اس بات کی توقع تھی کہ شاید ایک سن رسیدہ خاتون سے بات ہو گی، لیکن مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا؛ تمہاری آواز کس قدر جوان تھی۔ میں  نے سوچا شاید تمہاری بیٹی ہو۔ میں نے کہا: ’’میں حاج ستار کی اہلیہ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ تم نے ہنستے ہوئے کہا تھا: ’’میں ہی ہوں!‘‘

❣️ میں نے تمہارے حالات سن رکھے تھے۔ حاج ستار کی شہادت کے بعد پانچ چھوٹے بڑے بچوں کو تم نے تن تنہا پال پوس کر بڑا کیا۔ کیسی مشقت کاٹی تھی تم نے، کتنی زحمتوں کا سامنا کیا تھا!
میں نے سوچا کہ یہ وہی ہے۔ میں اس خاتون کی زندگی کو سپردِ قلم کروں گی اور پھر سب انتظامات ہو تے چلے گئے۔
تم نے کہا: ’’مجھ سے انٹرویو اور بات چیت والا کام نہیں ہونے کا۔‘‘ لیکن پھر بھی تم نے پہلی نشست کا وعدہ کر لیا۔ اچھا، تو وہ کون سا  دن تھا؟  21 اپریل 2009۔

❣️ آلوچوں کا موسم تھا۔ میں تمہارے گھرآتی، تمہارے سامنے بیٹھتی، اپنا ایم پی تھری آن کر دیتی اور تم میرے سامنے اپنے گزرے ہوئے واقعات بیان کرنا شروع کر دیتیں: اپنے والد اور ماں کے بارے میں، اپنے گاؤں میں رہنے والے مخلص دیہاتیوں کے حالات، اپنے بچپن کے دن۔ یہاں تک کہ تم حاج ستار اور جنگ کے حالات تک پہنچ گئیں۔ جنگ اور حاج ستار دونوں ایک دوسرے میں گتھ گئے تھے۔ جنگ کا بوجھ تمہارے چھوٹے سے گھر اور نحیف و کمزور کندھوں پر بھی پڑا، ہاں، تمہارے! یعنی قدم خیر محمدی کنعان۔ لیکن کوئی بھی اسے سمجھ نہ سکا۔

❣️ تم کہتی جاتیں اور میں سنتی جاتی۔ تم ہنستیں تو میں بھی ہنس دیتی۔ تم روتیں تو میں بھی رونے لگتی۔ رمضان میں انٹرویوز کا سلسلہ ختم ہوا۔ تم خوش تھیں کہ تم نے پورے روزے رکھ لیے۔ آخر کار تم نے کہا تھا: ’’میں کچھ بھی نہیں بتانا چاہتی تھی؛ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ سب کچھ کہہ چکی ہوں۔‘‘ تم سے زیادہ خوشی مجھے ہو رہی تھی۔  اب میں ان تمام انٹرویوز کو لکھنے بیٹھ گئی۔
ہم نے طے کیا تھا کہ جب تمام واقعات کاغذ پر منتقل ہو جائیں تو میں پورے مسودے کو تمہارے سامنے پڑھوں گی تا کہ اگر کوئی چیز رہ جاتی ہے تو اس کی اصلاح کر لی جائے؛ لیکن جب وہ وقت پہنچا تو سب کچھ درہم برہم ہو گیا۔

❣️ جب میں نے سنا تو فوراً تمہارے پاس دوڑی چلی آئی؛ البتہ فقط کاغذوں کا گٹھا لے کر نہیں بلکہ پھلوں کے کچھ مربے اور جُوس کے ڈبے بھی ساتھ لیتی آئی تھی۔ بھلا یہ کس دن کی بات ہے؟ یقیناً 31 دسمبر 2009 کی۔ میں نے دیکھا کہ تم بستر سے لگی ہوئی تھیں؛ تم آنکھیں کھول کر مجھے دیکھے جا رہی تھیں مگر پہچان نہیں پا رہی تھیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں نے کہا: ’’تمہارے قربان جاؤں، قدم خیر! میں ہوں، ضرابی زادہ۔ تمہیں یاد ہے، آلوچوں کا موسم تھا۔ تم مجھے سارے واقعات سناتی جاتیں اور میں آلوچے کھاتی جاتی تھی۔ آلوچوں کی کھٹاس کا بہانہ کر کے میں اپنی آنکھوں کو بند کر لیتی تا کہ تم میرے آنسو نہ دیکھ سکو، کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ تمہارا غم پھر سے تازہ ہو جائے۔‘‘

❣️ تم کہتی تھیں: ’’میں اس حوالے سے بہت خوش ہوں کہ اتنے برسوں بعد میری ہی طرح کا کوئی انسان میرے سامنے بیٹھا ہے تا کہ میں اس کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دوں اور اس عرصے میں گزرنے والی تنہائی کا غم اس کے سامنے بیان کر سکوں۔ وہ غم اور وہ آلام جو ابھی تک میں نے کسی سے نہیں کہے۔‘‘ تم کہتی تھیں: ’’جب میں تم سے حاج ستار کے بارے میں بات کرتی ہوں تو مجھے محسوس ہونے لگتا ہے کہ میرا دل ان کے لیے کتنا تڑپ رہا ہے۔ میں نے ان کے ساتھ زندگی کے آٹھ سال گزارے؛ لیکن کبھی بھی جی بھر کر انہیں نہیں دیکھا۔ ہم ایک دوسرے کے عاشق تھے لیکن ہمیشہ ایک دوسرے سےدور۔ تم یقین کرو  کہ ان آٹھ سالوں میں ہم فقط چند ماہ ہی ایک دوسرے کے پاس رہے۔ حاج ستار میرے شوہر ہوتے ہوئے بھی میرے پاس نہ تھے۔ میرے بچے ہمیشہ انہیں یاد کرتے؛ اس وقت جب وہ زندہ تھے اور اس وقت بھی جب وہ شہید ہو گئے۔

❣️ بچے کہتے تھے: ’’ماں، سب بچوں کے باپ ان کے ساتھ سکول میں آتے ہیں، ہمارے بابا کیوں نہیں ہیں؟!‘‘ میں ان سے کہتی: ’’تمہارے پاس ماں جو ہے۔‘‘ پانچ بچوں کو اپنے ساتھ لیے خدیجہ کو سکول چھوڑنے جاتی۔ معصومہ کی کلاس بعد از ظہر ہوتی۔ ظہر ہو جاتی تو پانچوں کے پانچوں خدیجہ کو لینے جاتے۔ اسے سکول سے لیتے اور پھر سارے مل کر معصومہ کو سکول پہنچانے چلے جاتے۔ سہ پہر کو پھر یہی قصہ دہرایا جاتا اور پھر اگلے دن اور اس سے اگلے دن اور اس سے بھی اگلے دن۔۔۔‘‘

❣️ میں اس وقت آنسو بہا رہی تھی، جب تم برفیلے دنوں اور چھت اور صحن سے برف کی صفائی کا ماجرا میرے سامنے بیان کر رہی تھیں۔
اے میری پیاری دوست! تم نے اپنے بچوں کو جوان کر دیا۔ بیٹے کو بہو لادی۔ بیٹیوں کو بیاہ دیا۔ بس یہ آخری کام رہ گیا تھا جس کے بارے میں تم فکرمند تھیں!
اٹھو، تمہاری داستان ابھی پوری نہیں ہوئی۔ میں نے اپنی ایم پی تھری آن کر لی ہے۔ تم بات کیوں نہیں کر رہیں؟! کیوں ایسے خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھے جا رہی ہو؟!

❣️ تمہاری بیٹیاں تمہارے لیے رو رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’’ہمیں تو اب معلوم ہوا کہ ہماری ماں اس عرصے میں مریض تھیں اور ہماری خاطر انہوں نے ہم سے اس بیماری کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ انہیں ڈر تھا کہ ہم پریشان نہ ہو جائیں۔ ماں ہم سے کہتی  تھیں کہ تم ابھی زندہ ہو اور دوسرے لوگوں کی طرح جی رہی ہو۔ میں نہیں چاہتی کہ اپنی پریشانی کی وجہ سے تمہاری خوشیوں کو تہہ و بالا کر دوں۔‘‘ تمہاری بہن کہہ رہی ہے: ’’اس لعنتی بیماری نے تو۔۔۔‘‘

❣️ نہیں، نہیں، میں نہیں چاہتی کہ قدم خیر کے علاوہ کوئی اور بات کرے۔ قدم جان! یہ سب نہیں چلے گا۔ تمہیں اپنی زندگی کی داستان پوری کرنی ہے۔ حاج ستار کے بارے میں تو تم نے سب کچھ کہہ ڈالا لیکن اب جب اپنے صبر، شجاعت، حوصلے اور جانثاری کی کہانی سنانے کا وقت آیا تو تم اس طرح بیمار پڑ کر خاموش ہو گئیں۔ مجھے پہچان کیوں نہیں رہیں؟! اٹھو، اس قصے کو پورا ہونا چاہیے۔ اٹھو، میں نے اپنی ایم پی تھری آن کر دی ہے اور تمہارے سامنے بیٹھ چکی ہوں۔ اس طرح خالی خالی نظروں سے مجھے مت دیکھو!

✍️ بہناز ضرابی زادہ

📅 موسم گرما / 2011
#شینا_کی_بیٹی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*

شینا کی بیٹیWhere stories live. Discover now