قسط 20

1 1 0
                                    

🔷 *شینا کی بیٹی*🔷

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

♦️ بالآخر دائی آ گئی۔ ساس کو اس حالت میں دیکھنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ میں نے ان کی طرف پشت کر لی اور اپنے آپ کو سماور کے ساتھ مشغول کر دیا تاکہ ایسا لگے کہ میں اس کے فتیلے کو کم یا زیادہ کر رہی ہوں۔ یا انہیں ایسا محسوس ہو کہ میں پانی کو دیکھ رہی ہوں کہ گرم ہوا ہے یا نہیں۔ میں اپنی ساس کے نالہ و فریاد سے رونے لگی۔ میں ان کے لیے دعا کر رہی تھی۔ ان کی چیخیں اونچی ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک نومولود کے  معصوم اور دلنواز گریے کی آواز پورے کمرے میں پھیل گئی۔

♦️ میری ساس کے اردگرد بیٹھی ساری عورتیں خوشی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ دائی نے بچے کو ایک خوبصورت سفید کپڑے میں لپیٹا اور عورتوں کے حوالے کر دیا۔ سب خوش تھیں اور تھوڑی دیر پہلے اپنے سینوں میں روکی گئی اندیشوں بھری سانسوں کو خوشی سے باہر نکال رہی تھیں۔ لیکن میں ابھی تک کمرے کے کونے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ میری نند نے کہا: ’’قدم! گرم پانی سے اس طشت کو بھر دو۔‘‘
میری چھوٹی نند بھی میری مدد کو آ گئی۔ ہم نے جو طشت سماور کی ٹونٹی کے نیچے رکھا ہوا تھا اس کے بھرنے کا انتظار کرنے لگیں۔ اس نے کہا: ’’قدم! آؤ اپنے دیور کو دیکھو۔ بہت ہی پیارا ہے۔‘‘

♦️ طشت آدھا بھر چکا تھا۔ ہم نے اسے اٹھایا اور جا کر دائی کے سامنے رکھ دیا۔ میری ساس ابھی تک درد کی وجہ سے کراہ رہی تھیں۔ عورتیں اونچی اونچی آواز میں باتیں کر رہی تھیں۔ دائی نے ایک دفعہ غصے سے کہا: ’’کیا ہو گیا ہے آپ لوگوں کو؟! خاموش رہیں۔ زچہ کے سرہانے اتنی باتیں نہیں کرتے۔ مجھے اپنا کام کرنے دیں۔ ایک بچے کی پیدائش میں مشکل ہو رہی ہے۔ یہ جڑواں ہیں۔‘‘
دوبارہ سانسیں تھم گئیں اور کمرے میں پھر ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ دائی نے تھوڑی کوشش کی اور مجھے، جو ایک طرف ہو کر کھڑی تھی، آواز دی: ’’بھاگو۔۔۔ بھاگو۔۔۔ کسی گاڑی کا بندوبست کرو۔ اسے  ہسپتال لے کر جانا پڑے گا۔ یہ میرے بس کا کام نہیں ہے۔‘‘

♦️ میں بھاگ کر صحن میں گئی۔ میرے سسر سیڑھیوں پر بیٹھے تھے اور ان کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ انہوں نے تعجب سے مجھے دیکھا۔ میں نے جلدی جلدی کہا: ’’بچے جڑواں ہیں۔ ایک تو پیدا ہو گیا ہے جبکہ دوسرے کی پیدائش میں مشکل ہو رہی ہے۔ انہیں شہر لے کر جانا پڑے گا۔ گاڑی! گاڑی کا انتظام کریں۔‘‘
میرے سسر کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ سر پر مار کر کہنے لگے: ’’یا امام حسینؑ۔‘‘ اور جلدی سے گلی میں نکل گئے۔

♦️ تھوڑی دیر بعد میرے بھائی کی گاڑی دروازے پر تھی۔ کچھ خواتین نے مدد کی اور مل کر میری ساس کو آغوش میں لے کر مشکل سے گاڑی میں سوار کیا۔ میری ساس کا درد سے بہت برا حال تھا۔ میرے بھائی نے کہا: ’’انہیں رزن لے جاتے ہیں۔‘‘
کچھ خواتین میری ساس کے ساتھ چلی گئیں۔ پیچھے میں، میری نند کبریٰ اور وہ نومولود رہ گئے تھے جو ابھی ابھی دنیا میں آیا تھا۔ ہمیں کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا کہ اس بچے کو کیسے سنبھالیں۔ اس کے بدن پر ایک لباس تھا اور وہ ایک کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔ کبریٰ نے اسی حالت میں اسے میرے سپرد کرتے ہوئے کہا: ’’تم بچے کو پکڑو، میں پانی میں تھوڑی چینی گھول لوں۔‘‘ میں بچے کو آغوش میں لینے سے ڈر رہی تھی۔ میں نے کہا: ’’بچے کو تمہی پکڑو۔ چینی میں گھولتی ہوں۔‘‘

♦️ میں نے اپنی نند کے جواب کا انتظار نہ کیا۔ سماور کی طرف گئی اور ایک کٹورا اٹھا کر سماور کی ٹونٹی کے نیچے رکھ دیا۔ کچھ ٹکڑے قند کے بھی اس میں ڈال دیے اور چمچ سے انہیں حل کر دیا۔ بچہ مسلسل روئے جا رہا تھا۔  سماور قل قل کر رہا تھا اور اس کی بھاپ ہوا میں اڑ رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ بہتر ہے کہ اتنے بڑے سماور کو اب بند کر دینا چاہیے، لیکن اس کام کی فرصت نہ تھی۔ فی الحال سب سے زیادہ ضروری، بچہ تھا  جو ہلکان ہوئے جا رہا تھا۔

♦️ میں نے کٹورا کبریٰ کو دیا۔ اس نے کوشش کی کہ چمچ کے ذریعے پانی بچے کے حلق میں ڈالے لیکن بچہ اسے پی نہیں پا رہا تھا۔ وہ منہ کھول رہا تھا تا کہ اپنی ماں کے سینے سے  اپنی غذا حاصل کرے، مگر دھاتی چمچ  اس کے ہونٹوں سے لگ کر اسے اذیت پہنچا رہی تھی۔ اسی وجہ سے وہ اور زیادہ رو رہا تھا۔ میری اور کبریٰ کی حالت اس نومولود سے زیادہ اچھی نہ تھی لہٰذا جب ہم نے دیکھا کہ ہم اس بچے کے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہیں تو دونوں رونے لگیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*

#شینا_کی_بیٹی

شینا کی بیٹیWhere stories live. Discover now