قسط 3

1 1 0
                                    

🔷 *شینا کی بیٹی*🔷

📚 *(قسط3️⃣)*📚

💟 *پہلا باب*💟

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

❣️ بابا مریض تھے۔ گھر والے کہتے تھے کہ وہ کسی بڑی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے۔ جب میں پیدا ہوئی تو ان کی حالت کافی بہتر ہو گئی۔
سب رشتہ دار اور دوست احباب میری ولادت کو میرے بابا کی صحت و سلامتی کا سبب قرار دے رہے تھے۔ میرے چچا تو وجد میں آ گئے تھے۔ وہ کہتے تھے: ’’تم کتنی خوش قسمت بچی ہو! در حقیقت اس کا نام ہونا چاہیے، قدم خیر۔‘‘

❣️ میں اپنے ماں باپ کی آخری اولاد تھی۔ مجھ سے پہلے دو بیٹیاں اور چار بیٹے دنیا میں قدم رکھ چکے تھے، جو یا تو مجھ سے بہت زیادہ بڑے تھے یا ان کی شادیاں ہو چکی تھیں اور اپنے اپنے گھر بار میں مصروف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میں اپنی ماں  اور خصوصاً بابا کی محبتوں اور چاہتوں کا محور بن گئی۔ ہم رزن کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ قایش جیسے خوبصورت اور خوشگوار آب وہوا والے گاؤں میں رہنا میرے لیے کافی لذت بخش تھا۔ گاؤں کے گھروں کو دور دور تک گندم اور جو کے وسیع کھیتوں اور کشادہ انگوری باغوں نے گھیر رکھا تھا۔

❣️ میں صبح سے سہ پہر تک محلے کی چھوٹی بڑی لڑکیوں کے ساتھ گاؤں کی تنگ و تاریک گلیوں میں بھاگتی پھرتی۔  ہم غموں سے دور ہنستی اور کھیلتی رہتیں۔ سہ پہر یا مغرب کے وقت کپڑے اور دھاگے سے بنی ہوئی گڑیائیں اٹھاتیں اور اپنے گھروں کی چھتوں پر چلی جاتیں۔ میں اپنی تمام گڑیاؤں اور کھلونوں کو اپنے دامن میں بھر لیتی۔ ہم سیڑھی کی لمبے زینوں پر چڑھتی ہوئی اوپر چلی جاتیں اور رات تک چھت پر بیٹھ کر خالہ خالہ کھیلتی رہتیں۔
بابا شہر سے میرے لیے جو کھلونے لاتے تھے، بچے انہیں دیکھ کر مچل جاتے۔ جتنا وہ چاہتے، میں انہیں اپنے کھلونوں سے کھیلنے دیتی تھی۔

❣️ رات کو جب ستارے سارے آسمان کو بھر دیتے تو بچے ایک ایک کر کے چھتوں پر سے دوڑتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے؛ لیکن میں بیٹھ کر اپنے کھلونوں اورگڑیاؤں کے ساتھ کھیلتی رہتی۔ کبھی تھک جاتی تو لیٹ کر تاریک آسمان پر ٹمٹمانے والے نقرئی ستاروں کو دیکھنے لگتی۔ جب ہر طرف اندھیرا چھا جاتا اور ہوا میں خنکی آ جاتی تو ماں میرے پاس آتیں۔ مجھے گود میں لے لیتیں اور پیار کرتے اور چمکارتے ہوئے چھت سے نیچے لے جاتیں۔ مجھے کھانا دیتیں۔ میرا بستر بچھاتیں۔ اپنا ہاتھ میرے سر کے نیچے رکھ کر مجھے لوریاں سناتیں۔ وہ میرے بالوں میں تب تک ہاتھ پھیرتی رہتیں جب تک کہ مجھے نیند نہ آ جاتی۔ پھر اٹھ جاتیں اور دوسرے کام کاج کرتیں۔ گندھے ہوئے آٹے کے پیڑے بناتیں اور انہیں ایک تھال میں چن دیتیں تا کہ صبح کے وقت ناشتے کے لیے ان کی روٹیاں بنا سکیں۔

❣️ علی الصبح جلتے ہوئے ایندھن کی بو اور تازہ روٹی کی خوشبو سے میری آنکھ کھل جاتی۔ شبنم میرے چہرے پر ٹھہری ہوتی۔ میں دوڑتی ہوئی جاتی اور اس ٹھندے پانی سے اپنا چہرہ دھوتی جو ماں نے کنویں سے نکال کر رکھا ہوتا تھا۔ اس کے بعد بابا کے زانو پر جا کر بیٹھ جاتی۔ ناشتے کے وقت ہمیشہ میری جگہ بابا کے زانو ہی ہوتے تھے۔ وہ مہربانی اور محبت سے میرے لیے لقمے توڑتے، میرے منہ میں ڈالتے اور میرے بالوں پر بوسہ دیتے۔

❣️ میرے بابا بھیڑوں کے بیوپاری تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ مہینے میں ایک دفعہ آس پاس کے گاؤں سے بھیڑیں خریدتے  اور انہیں تہران اور اس کے اطراف کے شہروں میں لے جا کر فروخت کر دیتے۔ اس ذریعے سے وہ اچھا خاصا منافع کما لیتے تھے۔ وہ ہر دفعہ ایک بھرا ہوا ٹرک بھیڑوں کا خریدتے اور اسے بیچ آتے۔ انہیں سفروں میں وہ میرے لیے طرح طرح کے کھلونے اور گڑیائیں خرید کر لاتے تھے۔
#شینا_کی_بیٹی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*

شینا کی بیٹیWhere stories live. Discover now