قسط 41

1 1 0
                                    

🔷 *شینا کی بیٹی*🔷

📚 *(قسط 41)*📚

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

❣️ مجھے ان کی بات کا یقین کر لینا چاہیے تھا مگر میں نے نہ کیا۔ میں جانتی تھی کہ وہ جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ اگر وہ سچ کہہ رہے تھے تو صمد اتنی رات گئے تک کیوں نہ آیا تھا۔ تیمور اپنے بھائی کے ساتھ کہاں چلا گیا تھا؟! وہ ابھی تک واپس کیوں نہ آئے تھے۔ یہ اتنے سارے مہمانوں کو اچانک ہماری اتنی یاد کیوں ستانے لگی؟!

❣️ مجھے ہر حال میں مہمانوں کے لیے رات کے کھانے کا بندوبست کرنا تھا۔ میں باورچی خانے میں چلی گئی۔ کھانا پکا رہی تھی اور آنسو بہا رہی تھی۔ بالآخر رات کا کھانا تیار ہو گیا لیکن ابھی تک صمد اور اس کے بھائیوں کی کوئی خبر نہ تھی۔ مجبوراً میں نے کھانا لگا دیا۔ کھانے کے بعد جو دو تین بسترے اور لحاف ہمارے پاس تھے وہی مہمانوں کے لیے بچھا دیے۔ تھوڑی دیر بعد سب سو گئے لیکن مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ مجھے صمد کا انتظار تھا۔ پریشانی اور بے چینی نے میری نیند اڑا دی تھی۔  ذرا سی آہٹ کی آواز آتی، آنکھیں صحن میں پھیلی تاریکی میں جم جاتیں، لیکن نہ صمد کا کوئی نام و نشان تھا، نہ تیمور اور ستار کا۔

❣️ میں نہیں جانتی کہ مجھے کیسے نیند آگئی مگر اتنا یاد ہے کہ صبح تک برے برے خواب آتے رہے۔ میرے سسر علی الصبح نماز کے بعد ناشتہ کیے بغیر ہی جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ میری ساس بھی چادر اوڑھے ان کے پیچھے پیچھے ہو لیں۔ میرا حوصلہ جواب دے چکا تھا۔ میں نے بھی چادر اوڑھی اور کہا: ’’میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گی۔‘‘
میرے سسر نے غصے سے کہا: ’’نہیں، تم نہیں آ سکتیں۔ تم کہاں جاؤ گی؟! ہمیں کام ہے۔ تم گھر  میں ہی اپنے بچوں کے پاس رہو۔‘‘

❣️ میں رونے لگی: ’’آپ کو خدا کی قسم، سچ بتائیں، صمد پر کون سی مصیبت ٹوٹ پڑی ہے؟! مجھے معلوم ہے کہ صمد کو کچھ ہو گیا ہے۔ آپ سچ سچ بتائیں۔‘‘
سسر نے دوبارہ کہا: ’’تم مہمانوں کی دیکھ بھال کرو۔ ابھی جاگ جائیں گے تو انہیں ناشتہ بھی دینا ہو گا۔‘‘
میں زارو قطار رو رہی تھی اور آنسو میرے چہرے پر پھیلتے چلے جا رہے تھے۔ میں نے کہا: ’’شیرین جان ہیں۔ اگر آپ مجھے ساتھ نہیں لے کر جاتے تو میں خود ہی انقلاب کورٹ چلی جاتی ہوں۔‘‘

❣️ میں نے یہ کہا تو میرے سسر بھی کچھ ڈھیلے پڑ گئے۔ میری ساس کا دل بھی میرے لیے کڑھ رہا تھا۔ انہوں نے کہا: ’’ہمیں بھی صحیح معلوم نہیں ہے۔ کہتے ہیں صمد زخمی ہو گیا ہے اور اب ہسپتال میں ہے۔‘‘
میں نے یہ سنا تو میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیسے ہم گاڑی میں بیٹھے اور ہسپتال پہنچے۔ میں ہسپتال میں صمد کا جسد ڈھونڈ رہی تھی کہ تیمور کو دوڑتےہوئے اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے اپنے والد کے کان میں کچھ کہا تو وہ دونوں وارڈ کی طرف چل دیے۔ میں اور میری ساس بھی ان کے پیچھے پیچھے دوڑ رہی تھیں۔

❣️ تیمور آہستہ آہستہ سارے واقعات اپنے والد کو سنا رہا تھا۔ ہم بھی یہ ساری باتیں سن رہی تھیں کہ کل کا واقعہ ہے کہ صمد اور اس کا ایک ساتھی کچھ منافقوں کو گرفتار کرتے ہیں۔ ان منافقوں میں  سے ایک عورت تھی۔ صمد اور اس کا دوست اسلامی آداب کا خیال رکھتے ہوئے عورت کی جسمانی تلاشی نہیں لیتے اور کہتے ہیں: ’’سچ بتاؤ کہ تمہارے پاس اسلحہ تو نہیں ہے؟‘‘ عورت قسم کھا کر کہتی ہے کہ اس کے پاس اسلحہ نہیں ہے۔ صمد اور اس کا ساتھی عدالت میں لے جانے کے لیے اس عورت کو گاڑی میں بٹھاتے ہیں۔ راستے میں وہ عورت اچانک اپنے دستی بم کی پن کھینچ کر گاڑی کے درمیان میں پھینک دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں صمد کے دوست آغا مسگریان شہید ہو جاتے ہیں جب کہ صمد زخمی ہو جاتا ہے۔

❣️ وارڈ کے دروازے کے سامنے پہنچ کر تیمور نے دروازے پر بیٹھے نگہبان سے کہا:  ’’ہم آغا ابرہیمی سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
نگہبان نے منع کر دیا: ’’ان سے ملاقات کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
مجھے اپنے آپ پر قابو نہ رہا۔ میں رونے اور التماس کرنے لگی۔ اسی وقت ایک نرس پہنچ گئی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں صمد کی بیوی ہوں تو اس کے دل میں رحم آ گیا اور مجھ سے کہنے لگی: ’’فقط تم اندر جا سکتی ہو۔ دو تین منٹ سے زیادہ مت ٹھہرنا۔ جلدی واپس آ جانا۔‘‘

❣️ میرے قدموں میں چلنے کی طاقت نہ رہی تھی۔ میں نے دروازے میں کھڑے ہو کر اس کی چوکھٹ پکڑ لی تا کہ گر نہ جاؤں۔ وارڈ میں موجود تمام بستر دیکھ ڈالے۔ صمد اس کمرے میں نہیں تھا۔ میرے دل کی دھڑکن رُک رہی تھی۔ سانس سینے میں اٹک کر رہ گیا تھا۔ میرا صمد کہاں ہے؟! اسے کیا مصیبت پیش آ گئی ہے؟!

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*

#شینا_کی_بیٹی

شینا کی بیٹیWhere stories live. Discover now