🔷 *شینا کی بیٹی*🔷
📚 *(قسط8️⃣)*📚
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
❣️ صمد نے تھوڑی دیر کھڑے ہو کر انتظار کیا۔ جب میرے آنے سے مایوس ہو گیا تو ناگواری کی حالت میں سیدھا میری بھابھی کے پاس چلا گیا اور اس سے میری شکایت کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’ایسا لگتا ہے کہ قدم مجھے اصلاً پسند نہیں کرتی۔ میں نے لاکھ جتن کر کے چھاؤنی سے چھٹی لی، فقط اس واسطے کہ قدم سے مل لوں اور اس سے چار باتیں کر لوں۔ کافی دیر تک ان کے گھر والے باغیچے کی دیوار کے پیچھے تاک لگائے بیٹھا رہا یہاں تک کہ اسے اکیلے دیکھ ہی لیا۔ لیکن وہ ایسی بے انصاف ہے کہ اس نے میرے سلام کا جواب تک نہ دیا اور مجھے دیکھتے ہی بھاگ گئی۔‘‘
❣️ ظہر کے نزدیک خدیجہ ہمارے گھر میں آئی اور کہنے لگی: ’’قدم! سہ پہر کو ہمارے گھر آؤ۔ آج گھر میں کچھ مہمان آ رہے ہیں۔ میں اکیلی ہوں۔ تم آ کر میری تھوڑی مدد کر دو۔‘‘
سہ پہر کے وقت میں ان کے گھر چلی گئی۔ وہ رات کا کھانا تیار کر رہی تھی۔ میں اس کی مدد کرنے لگی۔ میں اس چیز سےغافل تھی کہ خدیجہ نے میرے بارے میں کوئی منصوبہ بنا رکھا ہے۔ جیسے ہی مغرب کی اذان ہوئی اور اندھیرا پھیلنا شروع ہوا تو میں نے دیکھا کہ دروازہ کھلا اور صمد اندر داخل ہو گیا۔ مجھے خدیجہ پر بہت غصہ آیا۔ میں نے کہا: ’’اگر ماں اور بابا کو پتا چل گیا تو ہم دونوں کو مار ہی ڈالیں گے۔‘‘
خدیجہ ہنس کر کہنے لگی: ’’اگر تمہارا منہ بند رہا تو کسی کو بھی خبر نہیں ہو گی۔ تمہارا بھائی بھی آج گھر پر نہیں ہے۔ وہ اپنے کھیتوں میں پانی لگانے گیا ہے۔‘‘❣️ جب میری پریشانی کچھ کم ہوئی تو میں نے کنکھیوں سے اسے دیکھا۔ اس کی شکل ایسے کیوں تھی؟! وہ گنجا تھا۔ خدیجہ نے اسے اندر آنے کو کہا تو وہ اس کمرے میں آ گیا جہاں میں تھی۔ اس نے سلام کیا۔ میں اس وقت بھی اس کے سلام کا جواب نہ دے سکی۔ میں کچھ کہے بغیر اٹھی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ خدیجہ نے مجھے بلایا، میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ صمد کو لیے دوسرے کمرے میں بھی آ گئی۔ خدیجہ نے آنکھوں کے اشاروں سے مجھے سمجھایا کہ میں اچھا نہیں کر رہی۔ اس کے بعد وہ کمرے سے نکل گئی۔ اب کمرے میں صمد اور میں رہ گئے تھے۔ میں تھوڑی سی ہچکچائی اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی تا کہ اس کی بوجھل نظروں سے بھاگ جاؤں۔ وہ دروازے کی چوکھٹ میں کھڑا ہو گیا اور اپنے دونوں بازو کھول کر میرا راستہ روک لیا۔ ہنس کر کہنے لگا: ’’کہاں؟! کیوں مجھ سے بھاگتی ہو؟! بیٹھو، مجھے تم سے کچھ کام ہے۔‘‘
❣️ میں اپنا سر جھکا کر بیٹھ گئی اور وہ بھی بیٹھ گیا؛ البتہ مجھ سے کافی فاصلے پر۔ اس کے بعد اس نے آہستہ آہستہ بات کرنا شروع کی: ’’مجھے اچھا لگتا ہے کہ میری بیوی اِسی طرح کی ہو۔ ایسی ویسی نہ ہو۔ پھر کہنے لگا: ’’فی الحال تو میں تربیتی فوج میں ہوں۔ اس کے بعد چاہتا ہوں کہ جیسے ہی میری تربیت ختم ہو، تہران جا کر کوئی اچھا اور بڑا سا کام شروع کروں۔‘‘ میرے چہرے پر پریشانی دیکھی توکہنے لگا: ’’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاید قایش میں ہی رہ جاؤں۔‘‘
❣️ اس کے بعد اس نے اپنا کام کاج بتایا کہ مکان پلستر کرنے کا کام کرتا ہے اور تہران میں بہتر طور سے یہ کام کر سکتا ہے۔
میں اسی طرح اپنے سر کونیچے کیے بیٹھی تھی اور کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔ صمد ہی آہستہ آہستہ باتیں کیے جا رہا تھا۔ آخرکار اسے غصہ آ گیا اور کہنے لگا: ’’تم بھی تو کچھ بولو، کوئی بات کرو تا کہ میرا دل خوش ہو جائے۔‘‘❣️ میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ میں نے چادر کو گلے کے نیچے سے سختی سے پکڑ رکھا تھا اور ٹک ٹک سامنے والے کمرے کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ میرے منہ سے کوئی بات نکلوانے میں اس کی ساری کوشش بے فائدہ ہے تو خود ہی سوال پوچھنا شروع ہو گیا: ’’تم کہاں زندگی گزارنا چاہتی ہو؟!‘‘
میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ بھی پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا: ’’اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہو؟!‘‘
بالآخر میں نے سکوت توڑا اور فقط ایک ہی لفظ کہا: ’’نہیں!‘‘ اس کے بعد پھر خاموشی۔
#شینا_کی_بیٹی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*
YOU ARE READING
شینا کی بیٹی
Spiritual📚 *ایک نئی کتاب، ایک نیا سلسلہ*📚 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ❣️ الله تعالی کے فضل سے اس گروپ میں ہم ایک اور کتاب کی قسطوں کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ کتاب کا نام ہے: 💟 #شینا_کی_بیٹی 💟 ❣️ دفاعِ مقدس کی یادوں پر مشتمل ایک اہم کتاب جس...