قسط 9

2 1 0
                                    

🔷 *شینا کی بیٹی*🔷

📚 *(قسط9️⃣)*📚

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

❣️ جب صمد نے دیکھا کہ اتنی آسانی کے ساتھ مجھ سے کوئی بات نہیں اگلوا سکتا تو وہ بھی خاموش ہو گیا۔ میں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور خدیجہ کی مدد کرنے کے بہانے اٹھ کر  دسترخوان بچھانے لگی۔ کھانا بھی میں نے لگایا۔ خدیجہ اصرار کر رہی تھی: ’’تم صمد کے پاس جا کر بیٹھو اور باتیں کرو۔ میں خود کام کر لوں گی۔‘‘ لیکن میں نے سنی ان سنی کر دی اور باورچی خانے کے کام کرنے لگی۔ صمد تنہا رہ گیا تھا۔ دسترخوان پر بھی میں خدیجہ کے ساتھ بیٹھی۔

❣️ کھانا کھانے کے بعد میں نے برتن جمع کیے اور چائے لانے اور باورچی خانے کی صفائی کے بہانے وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
صمد نے خدیجہ سے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ قدم مجھے پسند نہیں کرتی۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پھر ہم دونوں اکٹھے زندگی نہیں گزار سکتے۔‘‘
خدیجہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’تم پریشان نہ ہو۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ تھوڑا عرصہ گزر جائے تو وہ تمہیں پسند کرنے لگے گی۔ تم ذرا صبر و تحمل سے کام لو۔‘‘

❣️ صمد چائے پی کر چلا گیا۔ میں نے خدیجہ سے کہا: ’’وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ گنجا ہے۔‘‘ خدیجہ ہنسنے لگی: ’’بس، تمہارا یہی مسئلہ ہے، پاگل؟! ابھی تو وہ تربیتی فوجی ہے۔ کچھ ماہ بعدجب اس کی لازمی فوجی تربیت کا دورانیہ ختم ہو جائے گا تو اس کے بال نکل آئیں گے۔‘‘
اس کے بعد اس نے پوچھا: ’’اچھا، دوسری خامی؟!‘‘
میں نے کہا: ’’باتیں بہت کرتا ہے۔‘‘
خدیجہ پھر ہنس دی: ’’اس کا بھی حل ہے۔ تم صبر کرو اور اپنی کھال سے باہر آ کر اس شرم و حیا کو کنارے کرو تو اسے ہرا سکتی ہو۔ اس کے بعد اسے بات کرنے کی مہلت ہی نہیں ملے گی۔‘‘

❣️ خدیجہ کی باتوں سے مجھے ہنسی آ گئی۔ اس ہنسی نے ہنسی مذاق کا دروازہ کھول دیا اور ہم کافی دیر تک جاگتی، باتیں کرتی اور ہنستی رہیں۔
کچھ دن بعد صمد کی ماں نے اطلاع بھجوائی کہ وہ ہمارے گھر آنا چاہتی ہیں۔
وہ سہ پہر کے وقت اکیلی ہمارے گھر آئیں اور اپنے ساتھ ایک پوٹلی بھی لائیں۔ ماں نے شکریہ ادا کیا، پوٹلی لی اور کمرے کے درمیان میں رکھ کر مجھے اشارہ کیا کہ میں اسے کھولوں۔ میں بادلِ نخواستہ کمرے کے درمیان میں جا کر بیٹھ گئی اور اس پوٹلی کی گرہ کھول دی۔ اس میں کچھ کرتیاں، لہنگے اور کچھ اَن سلے کپڑے تھے جن میں سے ایک بھی مجھے اچھا نہ لگا۔ میں نے بغیر کوئی شکریہ ادا کیے کپڑوں کو تہہ کیا، انہیں پوٹلی میں رکھا  اور جیسے پوٹلی کھولی تھی ویسے ہی اسے دوبارہ گرہ لگا دی۔

❣️ صمد کی ماں سمجھ گئیں؛ مگر انہوں نے کچھ نہ کہا۔ میری ماں نے اپنے ہونٹ کاٹے اور خفگی سے مجھے اشارہ کیا کہ میں شکریہ ادا کروں، مسکراؤں اور کہوں کہ بہت اچھے کپڑے ہیں اور مجھے بہت پسند آئے ہیں۔ لیکن میں کچھ نہ بولی اور منہ بنا کر ایک طرف کو جا بیٹھی۔
صمد کی ماں چلی گئیں اور انہوں نے جا کر سب کچھ صمد کو بتا دیا تھا۔ کچھ دن بعد صمد آیا۔ اس نے سر پر ٹوپی پہن رکھی تھی تا کہ اس کا گنجا پن ظاہر نہ ہو۔ اس کے ہاتھ میں ایک بیگ بھی تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ ہمیشہ کی طرح مسکرا دیا اور بیگ میرے ہاتھ میں دے کہنے لگا: ’’لو، یہ تمہارے لیے ہے۔‘‘

❣️ میں نے کچھ کہے بغیر بیگ لیا اور تہہ خانے میں بنے کمروں میں سے ایک کمرے کی طرف بھاگ گئی۔ وہ مجھے آواز دیتے ہوئے میرے پیچھے آ گیا۔ اس نے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور کہا: ’’قدم! خدا کا واسطہ، مجھ سے مت بھاگو۔ دیکھو، یہ چھٹی کا اجازت نامہ ہے۔ میں نے فقط تم سے ملنے کے لیے چھاؤنی سے چھٹی لی ہے۔‘‘
میں نے کاغذ کی طرف دیکھا؛ لیکن چونکہ لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا اس لیے مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ گویا صمد بھانپ گیا تھا۔ کہنے لگا: ’’میری چھٹی کا اجازت نامہ ہے۔ ایک دن کی چھٹی تھی، دیکھو میں نے ایک کو دو کر دیا تا کہ ایک دن مزید ٹھہر جاؤں اور تم سے مل سکوں۔ اللہ کرے کسی کو سمجھ نہ آئے۔ اگر کسی کو پتا چل گیا کہ میں نے اس کاغذ پر اپنی استادی دکھائی ہے تو میرا حشر نشر کر دیں گے۔‘‘

❣️ میں ڈر رہی تھی کہ اگر اس دوران کوئی آ گیا اور اس نے ہمیں باتیں کرتے ہوئے دیکھ لیا تو کیا ہو گا۔ میں نے کچھ نہ کہا اور کمرے میں چلی گئی۔ نہیں معلوم وہ کمرے میں کیوں نہ آیا۔ وہی دروازے کے سامنے ہی سے کہنے لگا: ’’پس کم از کم مجھے یہ تو بتاؤ کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اگر میں تمہیں اچھا نہیں لگتا تو بتا دو تا کہ میں کچھ اور سوچوں۔‘‘
#شینا_کی_بیٹی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*

شینا کی بیٹیWhere stories live. Discover now