قسط 34

1 1 0
                                    

🔷 *شینا کی بیٹی*🔷

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

❣️ کچھ دن بعد ایسا لگا کہ گاؤں میں زلزلہ آگیا ہو۔ سب لوگ گلیوں، گھروں کی چھتوں پر اور گاؤں کے مرکزی میدان میں نکل آئےتھے۔وہ ایک دوسرے کو مٹھائیاں پیش کر رہے تھے۔ عورتوں نے تنور روشن کر دیے تھے اور ان میں روٹیاں اور کماج پکا رہی تھیں۔ سب کہہ رہے تھے: ’’امام آ گئے۔‘‘
مجھے اس وقت صمد کی فکر لگی ہوئی تھی۔ میں جانتی تھی کہ وہ ہم سب سے زیادہ امام سے لگاؤ رکھتا ہے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ کاش میں پرندہ بن کر اڑتی ہوئی اس کے پاس جاتی اور پھر ہم اکٹھے جا کر امام کو دیکھتے۔

❣️ قایش میں ایک دو گھروں کے علاوہ کسی کے پاس ٹیلی ویژن نہیں تھا۔ سب لوگ ان کے گھروں میں جمع ہو گئے۔ ان کے گھروں کے صحن اور سامنے والی گلیاں  لوگوں سے بھر گئی تھیں۔ کہہ رہے تھے: ’’طے پایا ہے کہ امام کی آمد اور ان کی تقریر کو ٹیلی ویژن پر نشر کی جائے گا۔‘‘ بہت سے لوگ اور جوان لڑکے اسی وقت گاڑیوں پر سوار ہوئے اور تہران چلے گئے۔

❣️ کچھ دن بعد صمد آ گیا۔ وہ بہت زیادہ خوش تھا۔ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو بتانا شروع ہو گیا: ’’تمہاری نیک دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ میں نے اتنے زیادہ ہجوم میں اپنے آپ کو امام تک پہنچایا۔ امام تو نور کا ایک ٹکڑا ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کتنے مہربان ہیں۔ قدم! تم یقین کرو گی کہ امام نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اسی وقت میں نے اپنے آپ اور اپنے خدا سے عہد و پیمان کر لیا کہ امام اور اسلام کا سپاہی بنوں گا۔ میں نے قسم اٹھائی ہے کہ امام کی باتوں پر عمل کروں گا۔ اپنی آخری سانس اور خون کے آخری قطرے تک ان کا جانباز سپاہی رہوں گا۔ تمہیں نہیں پتا ، بہشت زہراؑ میں کتنے لوگ آئے تھے۔

❣️ قدم! ایسا لگتا تھا کہ سارے ایران کے لوگ ہی تہران میں امڈ آئے ہیں۔ بہت سی جگہوں سے لوگ پیدل بہشت زہرا آئے تھے۔ ایک رات پہلے سڑکوں پر جھاڑو لگا دیا گیا تھا، انہیں دھو دیا گیا تھا اور سڑکوں کے درمیان گلدان اور پھولوں کی شاخیں سجا دی گئی تھیں۔ تم نہیں جانتیں کہ امام کی تشریف آوری کتنی باعظمت و باشکوہ تھی۔ مرد، عورتیں، بوڑھے اور جوان سبھی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

❣️ میں نے اپنی موٹر سائیکل بغیر تالے اور زنجیر کے اسی طرح سڑک کنارے ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی کر دی تھی۔ میں وہاں تک چلا گیا تھا جہاں امام نے تقریر کرنا تھی۔ واپسی پر اچانک مجھے اپنی موٹر سائیکل کی یاد آئی۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک شخص اس پر سوار ہونا چاہتا ہے۔ میں موقع پر پہنچ گیا تھا۔ اسی وقت میرے دل میں خیال آیا کہ اگر میں ایسے شخص کے لیے کوئی کام کروں تو اس کا اجر ضرور ملے گا۔ اگر مجھے تھوڑی دیر اور ہو جاتی تو میری موٹر سائیکل اڑا کر لے جاتے۔‘‘

❣️ اس کے بعد اس نے اپنے بیگ کی زنجیری کھولی اور ایک بڑی تصویر نکالی جسے اس نے گول کر رکھا تھا۔ وہ امام کی تصویر تھی۔ اس نے تصویر کمرے کی دیوار پر لگا دی اور کہا: ’’یہ تصویر ہماری زندگی میں برکت لے کر آئے گی۔‘‘
اگلے روز صمد کا کام شروع ہو گیا۔ وہ رزن جاتا، فلم لاتا اور مسجد میں سب لوگوں کو دکھاتا۔ ایک بار وہ امام کے آنے اور شاہ کے فرار ہونے کی فلم لے آیا۔ وہ ہنس رہا تھا اور ساتھ ساتھ بتا بھی رہا تھا۔ جب لوگوں نے شاہ کی تصویر دیکھی تو وہ ٹیلی ویژن کو توڑنے کے لیے بے قرار ہونے لگے۔

❣️ عید [نوروز] کے بعد صمد ہمدان چلا گیا۔  ایک روز آیا اور کہنے لگا: ’’انعام دو، قدم! میں پاسدار ہو گیا ہوں۔ میں نے کہا تھا نا کہ امام کا سپاہی بنوں گا۔‘‘
جیسا کہ وہ بتا رہا تھا، اس کی ڈیوٹی انقلاب کورٹ میں لگ گئی تھی۔ وہ ہفتے کو علی الصبح ہمدان چلا جاتا اور جمعرات کی سہ پہر کو  واپس آتا۔ اس سے پہلے کہ میں اعتراض کروں اور کوئی بداخلاقی کر بیٹھوں، وہ خود ہی کہہ دیتا: ’’کاش تم جان سکتیں کہ عدالت میں کتنا کام ہوتا ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اگر تمہارا اور خدیجہ کا خیال نہ ہوتا تو یہ دو روز بھی میرے لیے آنا مشکل تھا۔‘‘

❣️ انہی دنوں مجھے یہ محسوس ہو گیا کہ میں دوبارہ امید سے ہوں۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ نہیں جانتی تھی کہ دوسروں کو کیسے اس بارے میں بتاؤں۔ میں نے بے چینی سے کہا: ’’میرا دل نہیں چاہتا کہ تم ہمدان جاؤ۔ میری طبیعت بہت خراب ہے۔ کچھ تو میری حالت کا خیال کرو۔ ایسا لگتا ہے کہ میں دوبارہ امید سے ہو گئی ہوں۔‘‘

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

#شینا_کی_بیٹی

شینا کی بیٹیWhere stories live. Discover now