قسط 32

1 1 0
                                    

🔷 *شینا کی بیٹی*🔷

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

❣️ صمد نے ایک اونی کمبل پکڑا اور میرے سامنے ہوا میں لہرانے لگا۔ وہ گلابی نہ تھا بلکہ نیلا تھا، جس میں سفید ریشے تھے۔ میں یہی کمبل چاہتی تھی۔ وہ ایک مربع شکل کا کمبل تھا جس کے ایک کونے پر سرمئی، نیلے اور سفید اُونی دھاگے سے کڑھائی کی گئی تھی۔
میں نے کمبل لیا اور گہوارے کے ساتھ رکھ دیا۔ اس نے پوری دلچسپی سے کہا: ’’تم نہیں جانتیں میں نے کتنی مشکل سے اسے خریدا ہے۔ اپنے دو دوستوں کو لیا اور انہیں موٹرسائیکل کے پیچھے بٹھا کر سڑکوں پر مارا مارا پھرا۔  ایک سڑک کے اس طرف دیکھتا جاتا اور دوسرا دوسری طرف۔ بالآخر میں نے خود ہی اسے ڈھونڈ لیا۔ ایک دکان کے کاؤنٹر کے پیچھے لٹکا ہوا تھا۔‘‘
میں نے آہستہ سے کہا: ’’بہت شکریہ۔‘‘

❣️ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور دبا کر کہنے لگا: ’’تمہارا شکریہ۔ میں جانتا ہوں تم نے کافی تکلیف جھیلی ہے۔ کاش میں تمہارے پاس ہوتا۔ مجھے معاف کر دو۔ قدم! میں جانتا ہوں میرا ہی قصور ہے۔ اگر تم معاف نہیں کرو گی تو میں کیا کروں گا!‘‘
اس کے بعد اس نے جھک کر میرے ہاتھ پر بوسہ دے کر اسے اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔ میرا ہاتھ گیلا ہو گیا۔
اس نے کہا: ’’لاؤ میری بیٹی کو، میں بھی دیکھوں۔‘‘
میں نےکہا: ’’میری حالت ٹھیک نہیں ہے، خود ہی اٹھا لو۔‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں۔۔۔ اگر تمہیں زحمت نہ ہو تو خود اسے اٹھا کر میری گود میں رکھو۔ بچی کو تمہارے ہاتھ سے لوں گا۔ اس کا اپنا ہی لطف ہے۔‘‘

❣️ میرا پیٹ اور کمر ابھی تک درد کر رہی تھی، لیکن پھر بھی میں مشکل سے نیچے جھکی اور بچی کو پنگھوڑے سے اٹھا کر اس کی گود میں رکھ دیا۔
اس نے بچی کو چوم کر کہا: ’’خدایا، تیرا لاکھ لاکھ شکر۔ تو نے کتنی خوبصورت اور پیاری بچی عطا کی ہے۔‘‘
اسی رات صمد نے سب کی دعوت رکھ دی اور میرے بابا نے ہماری پہلی بچی کا نام تجویز کیا، خدیجہ۔

❣️ جب مہمان بھگت چکے تو میں نے پوچھا: ’’کتنے روز رہو گے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’جب تک تمہارا دل چاہے، دس پندرہ روز۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’وہاں تمہارا کام کیا ہے؟‘‘
اس نےبتایا: ’’ایک عمارت تیار کر کے مالکوں کے حوالے کر دی ہے۔ اس کا کام ختم ہو گیا ہے۔ دو تین ہفتے بعد نئے کام کی تلاش میں نکل جاؤں گا۔‘‘

❣️ اس کا آنا برائے نام ہی تھا۔ اگر وہ ہمارے پاس نہ ہوتا تو یا تو ہمدان میں ہوتا یا رزن اور یا پھر دمق میں۔ میں بچی کی دیکھ بھال یا پھر گھرداری میں مشغول رہتی تھی۔ ایک رات دسترخوان بچھایا اور اس پر پلیٹیں چننے لگی۔ صمد ہمیشہ کی طرح ریڈیو آن کیے اسے کانوں سے چپکائے بیٹھا تھا۔ میں سالن والا دیگچہ اٹھا کر لائی اور اسے آواز دی: ’’اسے چھوڑ بھی دو۔ کھانا کھالو، مجھے سخت بھوک لگی ہے۔‘‘
وہ نہ آیا۔ میں بیٹھی اسے دیکھتی رہی۔ میں نے دیکھا کہ اچانک اس نے ریڈیو کو زمین پر رکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ہوا میں ایک چٹکی بجائی اور کمرے میں ادھر ادھر چلنے لگا۔ اس کے بعد خدیجہ کے پاس گیا اور اسے پنگھوڑے سے نکال لیا۔ پھر اسے گود میں اٹھا کر بوسہ دیا اور ایک ہاتھ پر رکھ کر بلند کر دیا۔

❣️ میں گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھی اور بچی کو اس کے ہاتھ سے لے لیا:  ’’صمد، کیا ہو گیا ہے۔ بچی کے ساتھ کیا کر رہے ہو۔ یہ ابھی ایک ماہ کی بھی نہیں ہوئی۔ ابھی چالیسویں میں ہے۔ اسے پاگل کر دو گے!‘‘
وہ ہنستے ہوئے گھوم رہا تھا اور کہے جا رہا تھا: ’’خدایا، تیرا شکر ہے۔ خدایا، تیرا شکر ہے۔‘‘
میں نے خدیجہ کو پنگھوڑے میں لٹایا۔ اس نے میرے شانے پکڑ کر ہلائے اور میرے سر پر بوسہ دے کر کہنے لگا: ’’قدم! امام آ رہے ہیں۔ امام آ رہے ہیں۔ تیرے اور تیری بچی کے قربان جاؤں کہ یہ اتنی نیک قدم واقع ہوئی ہے۔‘‘  اس کے بعد اس نے اپنا کوٹ کھونٹی سے اتارا۔
میں نے تعجب سے پوچھا: ’’کہاں؟!‘‘
میں دوسرے ساتھیوں کو اطلاع دینے جا رہا ہوں۔ امام آ رہے ہیں۔

❣️ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ خوشی سے اس کے قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ خدیجہ اس کی آواز سے سو گئی تھی۔ میں نے پوچھا: ’’تو کھانا؟! مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
اس نے پلٹ کر تیز نگاہوں سے مجھے دیکھا: ’’امام آ رہے ہیں، اور اس وقت بھی تمہیں بھوک لگی ہے۔ اپنی جان کی قسم، میری تو بھوک ہی ختم ہو گئی ہے۔ میں بالکل سیر ہو چکا ہوں۔‘‘
میں مبہوت ہو کر اسے دیکھتی رہ گئی: ’’جب تک تم نہیں آؤ گے میں کھانا نہیں کھاؤں گی۔‘‘

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*

#شینا_کی_بیٹی

شینا کی بیٹیWhere stories live. Discover now