قسط 4

2 1 0
                                    

🔷 *شینا کی بیٹی*🔷

📚 *(قسط4️⃣)*📚

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

❣️ جن دنوں بابا اپنے کام کے سلسلے میں سفر پر چلے جاتے، وہ میری عمر کے بدترین ایام ہوتے تھے۔ میں اس قدر روتی اور اتنے آنسو بہاتی کہ میری آنکھیں دو خون بھرے کٹوروں کی طرح ہو جاتیں۔ بابا مجھے گود میں لے لیتے۔ میں انہیں جلدی جلدی بوسے دیتی اور وہ مجھے کہتے: ’’اگر تم اچھی بچی بنو اور نہ رؤو تو تم جو کہو گی میں تمہارے لیے خرید لاؤں گا۔‘‘

❣️ انہی وعدوں دلاسوں کے ساتھ میں خاموش ہو کر بابا کے جانے پر راضی ہو جاتی اور پھر میری فرمائشوں کی فہرست شروع ہو جاتی: ’’بابا جان، مجھے گڑیا چاہیے؛ وہ گڑیا جس کے بال لمبے اور آنکھیں نیلی ہوتی ہیں اور کھلتی اور بند ہوتی ہیں۔مجھے چوڑیاں بھی چاہییں۔ انگوٹھے والی جوتی بھی میرے لیےخرید کر لائیے گا اور وہ لکڑی کی ایڑیوں والے سینڈل بھی لائیے گا جو چلتے وقت ٹک ٹک کی آواز دیتے ہیں۔ کھلونا پلیٹیں اور دیگچے بھی ہونے چاہییں۔‘‘
بابا مجھے چومتے ہوئے کہتے: ’’خرید لاؤں گا۔ خرید لاؤں گا۔ فقط تم اچھی بچی بنو اور آنسو نہ بہاؤ۔ اپنے بابا کے لیے ہنس دو۔ بابا تمہارے لیے ہر چیز خرید لائیں گے۔‘‘

❣️ میں روتی نہیں تھی؛ لیکن اپنے بابا کے لیے ہنستی بھی نہیں تھی۔ اس بات سے پریشان ہو جاتی کہ انہیں اب دو تین دن تک نہیں دیکھ سکوں گی۔ مجھے تنہائی بہت بری لگتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ بابا دن رات میرے سامنے رہیں۔ گاؤں کے لوگ بھی بابا سے میری محبت کو جانتے تھے۔ کبھی کبھار ماں چشمے پر پانی لینے یا کپڑے دھونے جاتیں اور میں بھی ساتھ ہوتی تو عورتیں مجھے چھیڑتے ہوئے کہتیں: ’’قدم! تم کس سے شادی کرو گی؟!‘‘
میں کہتی: ’’بابا جان سے۔‘‘
وہ کہتیں: ’’وہ تو تمہارے بابا ہیں!‘‘
میں کہتی: ’’نہیں، بابا میرے شوہر ہیں۔ میں جو کچھ بھی چاہتی ہوں وہ میرے لیے خرید لاتے ہیں۔‘‘

❣️ اس وقت میں بچی تھی اور ان باتوں کا مطلب نہیں جانتی تھی۔ عورتیں ہنستیں، ایک دوسرے کے کان میں باتیں کرتیں اور لگن میں پڑے کپڑوں کو ہاتھوں سے رگڑنے لگتیں۔
بابا کے جانے اور آنے کے عرصے میں، ایک دن میرے لیے ایک سال کے برابر ہو جاتا۔ ماں صبح سے شام تک کام میں مصروف رہتیں۔ بے کار رہ رہ کر میرا حوصلہ جواب دے جاتا۔ میں تنگ آ کر ماں سے کہتی: ’’مجھے بھی کوئی کام دیں۔ میں اکتا گئی ہوں۔‘‘ ماں کام کرتے کرتے کہتیں: ’’تم کھاؤ پیو اور سو جاؤ۔ جب وقت ہو گا تو اتنا کام کرنا کہ تھک جانا۔ تمہارے بابا نے منع کیا ہے کہ تمہیں کوئی کام نہ کرنے دوں۔‘‘

❣️ میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ کھاؤں پیوں اور سو جاؤں؛ لیکن یہ بھی لگتا تھا کہ میرا کوئی اور کام بھی نہیں ہے۔ میری بہنیں ماں پر اعتراض کرنے لگتیں: ’’ماں، تم نے قدم کو کتنا لاڈلا کر رکھا ہے۔ اس سے کتنی زیادہ محبت کرتی ہو۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں نہیں کرتی تھیں؟!‘‘
ماں اور بابا کی اتنی محبت اور توجہ کے باوجود بھی میں انہیں اس بات پر راضی نہ کر سکی کہ وہ مجھے سکول جانے کی اجازت دے دیں۔ بابا کہتے تھے: ’’لڑکیوں کے سکول جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘

❣️ سکول کے استاد جوان مرد تھے۔ کلاسیں بھی مخلوط تھیں۔ میری ماں کہتی تھیں: ’’بس اسی چیز کی کمی رہ گئی تھی کہ تم مدرسے جاؤ، لڑکوں کے ساتھ بیٹھو اور نامحرم مرد تمہیں سبق پڑھائے۔‘‘
لیکن میں سکول کی عاشق تھی۔ میں جانتی تھی کہ بابا سے میرا رونا برداشت نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے صبح سے رات تک میں روتی رہتی اور بابا سے التماس کرتی: ’’بابا! آپ کو خدا کا واسطہ، مجھے سکول جانے دیں۔‘‘
بابا سے میرا رونا دیکھا نہ جاتا تھا۔ وہ کہتے: ’’ٹھیک ہے۔ تم رؤو مت۔ میں تمہیں کل ماں کے ساتھ سکول بھیج دوں گا۔‘‘ میں ہمیشہ سوچتی کہ بابا سچ کہہ رہے ہیں۔

❣️ وہ رات میں ذوق و شوق سے بستر پر جاتی۔ صبح تک مجھے نیند نہ آتی؛ لیکن جیسے ہی صبح ہوتی اور میں ماں سے کہتی کہ مجھے سکول لے جائیں، تو بابا آ جاتے اور ہزار طرح کے بہانے بنا کر اور وعدے کر کے ٹال دیتے کہ آج ہمیں بہت سے کام کرنے ہیں؛ لیکن کل حتماً ہم سکول جائیں گے۔ آخر کار میری آرزو دل ہی میں رہ گئی اور میں سکول نہ جا سکی۔
#شینا_کی_بیٹی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*

شینا کی بیٹیWhere stories live. Discover now