🔷 *شینا کی بیٹی*
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
❣️ میں اپنی بھابھی خدیجہ کی مدد سے گاڑی پر سوار ہو گئی، جبکہ میں اور شیرین جان مسلسل روئے جا رہی تھیں اور ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔ خدیجہ نے جس وقت مجھے اور میری ماں کو روتے دیکھا تو وہ بھی رونے لگی۔ بالآخر گاڑی چل پڑی اور میں اور شیرین جان ایک دوسرے سے جدا ہو گئیں۔ صمد کا گھر آنے تک میں اور خدیجہ روتی ہی رہی تھیں۔
❣️ جب ہم پہنچے تو دولہا کے رشتہ دار، جو ہمارے آنے کے منتظر تھے، ہماری گاڑی کی طرف جلدی سے بڑھے۔ انہوں نے گاڑی کا دروازہ کھول کر میرا ہاتھ پکڑ لیا تا کہ میں اتر سکوں۔ حرمل کی خوشبو پوری گلی میں پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ صلوات پڑھ رہے تھے۔ ایک مرد رشتہ دار، جس کی آواز بہت اچھی تھی، پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شان میں لکھے گئے خوبصورت اشعار پڑھ رہا تھا اور باقی سارے لوگ درود و سلام پڑھ رہے تھے۔
❣️ صمد چھت پر چلا گیا تھا۔ وہ اور اس کے شہہ بالے مل کر گلی میں انار، قند، اور نبات پھینک رہے تھے۔ میں انتظار کرتی رہی کہ کوئی نبات یا انار میرے سر پر بھی گرے مگر صمد کا جی نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ میری طرف کوئی چیز پھینکے۔ شادی کی تقریب کے اگلے مرحلے میں مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا۔ سہ پہر کے وقت مہمان اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے جبکہ قریبی رشتہ دار ٹھہر گئے اوررات کے کھانے کا بندوبست کرنے لگے۔
❣️ پہلے دن صمد اور میں شرم کے مارے کمرے سے باہر ہی نہ نکلے۔ ناشتہ، دن اور رات کا کھانا؛ تینوں وقت صمد کی ماں طبق میں کھانا رکھ کر لے آئیں اور ہر بار صمد کو آواز دے کر چلی گئیں: ’’کھانا دروازے کے پاس پڑا ہے۔‘‘
ہم تو اسی چیز کی تاک میں بیٹھے ہوتے تھے۔ جب اطمینان ہو جاتا کہ اب باہر کوئی نہیں ہے تو طبق اٹھا لاتے اور کھانا کھا لیتے۔❣️ ہمارے ہاں یہ رسم تھی کہ دوسری رات دلہا کے گھر والے دلہن کے گھر والوں سے ملنے جاتے تھے۔ اس دن سہ پہر ہی سے میں بے تاب تھی اور کپڑے پہن کر تیار ہو کر کمرے میں بیٹھ گئی۔ میں چاہتی تھی کہ سب کو معلوم ہو جائے کہ میرا دل اپنے بابا اور ماں کے لیے کتنا پریشان ہے تاکہ وہ لوگ زیادہ دیر نہ لگائیں۔ بالآخر رات کا کھانا کھا کر ہم لوگ جانے کے لیے تیار ہو گئے۔
مجھے پَر لگ گئے تھے۔ دل چاہتا تھا کہ سب سے زیادہ تیز دوڑوں تاکہ جلدی جلدی پہنچ جاؤں۔ یہی وجہ تھی کہ میں آگے آگے چل رہی تھی اور صمد میرے پیچھے پیچھے میری چادر کھینچتے ہوئے آ رہا تھا۔❣️ جب ہم بابا کے گھر پہنچ گئے تو مجھے اپنے آپ پر قابو نہ رہا۔ جیسے ہی بابا پر نظر پڑی، اپنے آپ کو ان کی آغوش میں گرا دیا اور ہمیشہ کی طرح انہیں بوسے دینا شروع ہو گئی۔ پہلی دائیں آنکھ، پھر بائیں آنکھ، پھر دائیں بائیں رخسار، ناک کی نوک حتی کہ ان کے کانوں تک پر بوسے دے دیے۔ شیرین جان ایک طرف کھڑی رو رہی تھیں اور زیر لب کہہ رہی تھیں: ’’خدا تجھے کبھی مایوس نہ کرے، میری پیاری بیٹی۔‘‘
❣️ صمد کے گھر والے تعجب سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ وہ اس لیے کہ پورے قایش میں ایسی کوئی بیٹی نہ تھی جو سب کے سامنے اپنے بابا کو اس طرح بوسے دے رہی ہو۔ وہ چند گھنٹے جو میں اپنے بابا کے گھر میں رہی مجھے ایک اور ہی طرح کا احساس ہو رہا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں ابھی ابھی دنیا میں آئی ہوں۔ تھوڑی دیر بابا کے پاس بیٹھتی، ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتی اور انہیں اپنی آنکھوں پر لگاتی یا بوسے دیتی۔ کبھی شیرین جان کے پاس جا کر بیٹھ جاتی، انہیں بانہوں میں بھر لیتی اور ان کے صدقے واری جاتی۔
❣️ بالآخر واپسی کا وقت آ گیا۔ بابا اور ماں سے جدا ہونا بہت ہی سخت مرحلہ تھا۔ دروازے تک کئی بار گئی اور پلٹ آئی۔ میں بابا کو مسلسل بوسے دیے جا رہی تھی اور ماں کو ان کے بارے میں ہدایات دے رہی تھی: ’’شیرین جان! میرے بابا کا خیال رکھنا۔ بابا کو میں آپ کے حوالے کر کے جا رہی ہوں۔ پہلے خدا اور اس کے بعد آپ اور بابا۔‘‘
❣️ جس کیفیت میں مَیں بابا کے گھر آئی تھی، اب واپسی پر اس کے برعکس آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے کی وجہ سے دوسروں سے کافی پیچھے رہ گئی تھی۔ دوسروں کی نظروں سے بچ کر رو رہی تھی۔
صمد کچھ بھی نہیں کہہ رہا تھا۔ اس کا دھیان میری طرف تھا کہ میں کہیں تنگ اور خاک آلود گلیوں میں جگہ جگہ پڑے گڑھوں میں گر نہ جاؤں۔ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*
#شینا_کی_بیٹی
YOU ARE READING
شینا کی بیٹی
Espiritual📚 *ایک نئی کتاب، ایک نیا سلسلہ*📚 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ❣️ الله تعالی کے فضل سے اس گروپ میں ہم ایک اور کتاب کی قسطوں کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ کتاب کا نام ہے: 💟 #شینا_کی_بیٹی 💟 ❣️ دفاعِ مقدس کی یادوں پر مشتمل ایک اہم کتاب جس...