قسط 13

1 1 0
                                    

🔷 *شینا کی بیٹی*🔷

📚 *(قسط13)*

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

❣️ میری بہن اپنے صحن میں تھی۔ میں نے اسے پیغام دیا اور کہا: ’’دوسری بہنوں اور بھابھیوں کو بھی بتا دینا۔‘‘ اس کے بعد سر پر پاؤں رکھ کر  گھر کی طرف بھاگ پڑی۔ میں  جانتی تھی کہ صمد ابھی تک میرے لیے گلی ہی میں کھڑا ہو گا۔ میں چاہتی تھی کہ ایسے گم ہو جاؤں کہ وہ مجھے تلاش نہ کر سکے۔ راستے میں ماموں مل گئے۔ میں نے انہیں ٹھہرنے کا اشارہ کیا۔ وہ بے چارے کھڑے ہو گئے اور پوچھنے لگے: ’’کیا ہوا قدم؟! تمہارا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے؟!‘‘

❣️ میں نے کہا: ’’کچھ بھی نہیں۔ مجھے ذرا جلدی ہے۔ میں گھر جانا چاہتی ہوں۔‘‘ ماموں نے جھک کر گاڑی کا دروازہ کھول دیا اور کہا: ’’اچھا، آؤ تمہیں گھر تک پہنچا آؤں۔‘‘ خدا کو یہی منظور تھا۔ میں گاڑی میں سوار ہو گئی۔ گلی کے موڑ سے جیسے ہی مڑے تو میں نے گاڑی کے عقبی آئینے سے دیکھا کہ صمد ابھی تک گلی ہی میں کھڑا تھا اور حیران ہو کر ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔

❣️ اب دونوں خاندانوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا اور دعوتیں شروع ہو گیا۔ کچھ ماہ بعد میرے بابا نے ایک بھیڑ خریدی۔ انہوں نے ایک منت مان رکھی تھی جسے وہ پورا کرنا چاہ رہے تھے۔ ماں نے صمد کے گھر والوں کو بھی دعوت دے رکھی تھی۔ ہم لوگ صبح صبح منی بس پر سوار ہوئے جو بابا کرائے پر لائے تھے۔ بھیڑ کو گاڑی کی ڈگی میں رکھا تا کہ امام زادے کے حرم میں لے جائیں جو وہاں سے تھوڑے سے فاصلے پر تھا۔ گاڑی پہاڑ کے دامن سے گزرتی ہوئی آہستہ آہستہ اوپر کی طرف جا رہی تھی۔

❣️ ڈرائیور کہنے لگا: ’’گاڑی اتنا وزن نہیں کھینچ پا رہی۔ بہتر ہےکہ کچھ لوگ اتر جائیں۔‘‘
میں، میری بہنیں اور بھابھیاں اتر گئیں۔ صمد بھی ہمارے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔ اس کا بہت جی چاہ رہا تھا کہ وہ اس فرصت میں مجھ سے بات کر لے؛ لیکن میں یا تو آگے چلی جاتی یا اپنے بہنوں کے درمیان میں جا کر کھڑی ہو جاتی اور بھابھیوں سے باتیں کرنے لگتی۔  صمد اپنی ساری کوششوں کے رائیگاں جانے پر جھنجلا چکا تھا۔ اس کا کوئی بس نہ چل رہا تھا۔  بالآخر ہم امام زادے کے حرم پہنچ گئے۔ بھیڑ کو ذبح کیا۔ کچھ افراد نے اس کا گوشت جدا کیا اور وہاں پر آس پاس موجود لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ گوشت کا کچھ حصہ دن کے کھانے کے لیے الگ کیا اور آبگوشت بنانے کے لیے چولہے پر چڑھا دیا۔

❣️ حرم کے نزدیک ایک چھوٹا سا باغ تھا جو وقف تھا۔ ہم کچھ لوگ باغ میں چلے گئے۔ درختوں پر سرخ سرخ چیریاں دیکھ میں خوشی سے چلائی: ’’آخا، چیریاں!‘‘ صمد گیا اور چیریاں چننے لگا۔ کئی بار اس نے مجھے آواز دی کہ میں جا کر اس کی مدد کروں؛ لیکن ہر بار میں نے خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف کر لیا۔ میری بہن اور بھابھی نے جب یہ صورتحال دیکھی تو وہ اس کی مدد کو پہنچ گئیں۔  صمد نے کچھ چیریاں چن کر میری بہن کو دیں اور کہا: ’’یہ قدم کو دے دینا۔ وہ تو مجھ سے بھاگتی ہی رہتی ہے۔ یہ میں نے اس کے لیے چنی ہیں۔ اس نے خود کہا تھا کہ اسے چیریاں پسند ہیں۔‘‘ عصر تک میں  ایک بار بھی صمد کے سامنے نہ ہوئی۔

❣️ اس کے بعد صمد کم ہی چھٹی پر آتا تھا۔ ماں کہتی تھی: ’’اس کی چھٹیاں ختم ہو گئی ہیں۔‘‘ کبھی کبھار وہ جمعرات یا جمعے کو آتا اور ہماری طرف بھی چکر لگا جاتا۔ ہر بار وہ میرے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ لے آتا۔ ایک بار تو وہ سونے کے گوشواروں کی ایک جوڑی لے آیا۔ وہ بہت خوبصورت تھے۔ یہ تو بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس نے ان کی کافی زیادہ قیمت ادا کی تھی۔ ایک بار کلائی پر باندھنے والی ایک گھڑی لے آیا۔  بابا نے جب وہ گھڑی دیکھی تو کہا: ’’اس کا بہت شکریہ، اسے سنبھال کر رکھنا۔ بہت قیمتی گھڑی ہے۔ اصل جاپانی ہے۔‘‘

❣️ آہستہ آہستہ نکاح اور شادی کی باتیں ہونے لگیں۔ رات کے وقت دونوں خاندانوں کے بڑے مل کر بیٹھ جاتے اور رسومات کی ادائیگی کے حوالے سے صلاح مشورہ کرتے رہتے؛ لیکن صمد اور میں نے ابھی تک صحیح سے دو باتیں بھی آپس میں نہیں کی تھیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
#شینا_کی_بیٹی
📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*

شینا کی بیٹیWhere stories live. Discover now