قسط 31

1 1 0
                                    

🔷 *شینا کی بیٹی*🔷

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

❣️ دوپہر کے نزدیک صمد نے کپڑے بدلے۔ وہ تہران جانا چاہتا تھا۔ میں پریشان ہو گئی: ’’میرا دل نہیں چاہتا کہ تم جاؤ۔ آج یا کل بچہ پیدا ہو جائے گا تو پھر ہم تمہیں کہاں ڈھونڈیں گے۔‘‘
اس نے ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’پریشان مت ہو۔ میں خود پہنچ جاؤں گا۔‘‘
میں نے منہ بنا لیا۔ وہ اپنا کوٹ اتار کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: ’’اگر تم ناراض ہوتی ہو تو میں نہیں جاتا۔ لیکن تمہاری جان کی قسم، میرے پاس ایک ریال تک نہیں ہے۔ پھر کیا یہ طے نہیں پایا تھا کہ اس دفعہ میں جاؤں گا تو بچے کے لیے کپڑے اور دوسری چیزیں خرید کر لاؤں گا؟!‘‘

❣️ میں اٹھ کھڑی اور اس کے لیے تھوڑا کھانا تیار کیا۔ اس نے کھانا کھا لیا تو میں نے فرمائشیں شروع کر دیں۔ دروازے تک میں اس کے ساتھ گئی۔ خداحافظ کہتے وقت میں نے اسے کہا: ’’کمبل مت بھول جانا؛ وہ سوتی کمبل، وہی جو آج کل کافی چل رہا ہے۔ بہت ہی خوبصورت ہے۔ گلابی رنگ کا خرید لینا۔‘‘
جب وہ گلی کے موڑ سے مڑا سے تو میں نے چلا کر کہا: ’’اب مظاہروں میں نہ جانا۔ وہاں خطرہ ہوتا ہے۔ ہم تمہارے منتظر رہیں گے۔‘‘

❣️ میں گھر واپس آ گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ گھر اچانک مٹی مٹی ہو کر میرے سر پر آن گرا ہے۔ اداسی اور تاریکی نے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ مجھ میں رہنے کی طاقت نہیں تھی۔ چادر اوڑھی اور بابا کے گھر چلی گئی۔
صمد کو گئے ہوئے دو روز ہو چکے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میری حالت روزانہ کی طرح نہیں ہے۔ کمر اور پیٹ میں درد ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’مجھے برداشت کرنا چاہیے۔ اتنی جلدی تو بچہ دنیا میں نہیں آتا۔‘‘

❣️ بہرحال میں نے  اپنے کام معمول کے مطابق انجام دیے۔ کھانا لگایا۔ دو تین جوڑے کپڑوں کے میلے پڑے تھے، انہیں اٹھا کر صحن میں چلی گئی اور قایش کی اس برف اور سردی میں بیٹھ کر انہیں دھویا۔
ظہر ہو گئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اب مجھ سے اور برداشت نہیں ہو رہا۔ میں گرتی پڑتی خدیجہ کے پاس پہنچی۔ اس نے اپنے ایک بچے کو دائی کی طرف دوڑا دیا اور میرے ساتھ ہمارے گھر میں آ گئی۔
میں درد کے مارے چیخ رہی تھی۔ خدیجہ جلدی جلدی میرے لیے گرم پانی اور نبات کا انتظام کر رہی تھی اور دم لگا زعفران مجھے کھانے کے لیے دے رہی تھی۔

❣️ تھوڑی دیر بعد سہ پہر کے وقت شیرین جان اور میری بہنیں بھی آ گئیں۔ جیسے ہی اذان مغرب کا وقت نزدیک ہوا  تو بچہ دنیا میں آ گیا۔ اس رات کو میں کسی صورت بھی بھول نہیں سکتی۔  ہلکی سی آواز پر میں بستر پر اٹھ کر بیٹھ جاتی۔ دل چاہتا تھا کہ دروازہ کھلے اور صمد آ جائے۔ اگرچہ صبح تک بچے کی رونے کی وجہ سے میری آنکھ نہ لگی مگر جب بھی تھوڑی جھپکی آتی تو خواب میں صمد کو دیکھتی اور گھبرا کر نیند سے اٹھ جاتی۔

❣️ بچے کی پیدائش کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ اسے پنگھوڑے میں سلایا ہی تھا  کہ کوئی آواز آئی۔ شیرین جان کمرے میں تھیں اور میری اور بچے کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔ صمد کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ماں باہر چلی گئیں۔
صمد آیا اور میرے بستر کے پاس سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ اس نے آہستہ سے سلام کیا۔ میں نے زیرِ لب جواب دیا۔ میرا ہاتھ تھام کر میرا حال احوال پوچھنے لگا۔ میں نے بوجھل سر کے ساتھ اس کا جواب دیا۔ کہنے لگا: ’’ناراض ہو؟!‘‘ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
اس نے میرا ہاتھ دبایا: ’’تم حق رکھتی ہو۔‘‘

❣️ میں نے کہا: ’’ایک ہفتہ ہو گیا ہے تمہارے بچے کو پیدا ہوئے۔ اب بھی نہ آتے۔ میں نے کہا نہیں تھا کہ نہ جاؤ۔ تم نے کہا تھا کہ تم آ جاؤ گے۔ یہ ہمارا پہلا بچہ ہے۔ کیا تمہیں میرے پاس نہیں رہنا چاہیے تھا؟!‘‘
اس نے کچھ نہ کہا اور اٹھ کر اپنے بیگ کی طرف چلا گیا۔ اس کی زنجیری کھول کر کہنے لگا: ’’تم جو بھی کہو میں مانتا ہوں، لیکن دیکھو کہ میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔ تم نہیں جانتیں میں نے کتنی مشکلوں سے اسے ڈھونڈا ہے۔ دیکھو یہی ہے نا؟‘‘

❣️ اس نے ایک اونی کمبل پکڑا اور میرے سامنے ہوا میں لہرانے لگا۔ وہ گلابی نہ تھا بلکہ نیلا تھا، جس میں سفید ریشے تھے۔ میں یہی کمبل چاہتی تھی۔ وہ ایک مربع شکل کا کمبل تھا جس کے ایک کونے پر سرمئی، نیلے اور سفید اُونی دھاگے سے کڑھائی کی گئی تھی۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*
#شینا_کی_بیٹی

شینا کی بیٹیWhere stories live. Discover now