قسط 14

1 1 0
                                    

🔷 *شینا کی بیٹی*🔷

📚 *(قسط14)*📚

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

❣️ ایک رات خدیجہ نے اپنے گھر میری دعوت کی۔ دوسری بھابھیاں بھی وہیں تھیں۔ میرے بھائی کھیتوں کو پانی دینے گئے تھے۔ بھابھیوں نے رات کو مل بیٹھنے کے لیے یہ موقع غنیمت جانا تھا۔ جب سونے لگے تو ایک بھابھی نے کہا: ’’قدم! جاؤ بسترے لے آؤ۔‘‘

❣️ بسترے ایک تاریک کمرے میں پڑے ہوئے تھے۔ اس کمرے میں بلب نہیں تھا  البتہ ساتھ والے کمرے سے آنے والی روشنی نے اسے بھی تھوڑا روشن کر رکھا تھا۔بسترے جس کپڑےمیں لپٹے ہوئے تھے، اسے میں نے ایک طرف کیا تو یوں محسوس ہوا کہ کمرے میں کوئی ہے۔ میں سکتے میں آ گئی اور بہت زیادہ ڈر گئی۔ میں نے سوچا: ’’یقیناً یہ میرا وہم ہے۔‘‘ کپڑا ہٹایا تو ایک حرکت کی آواز سنی۔ میرا دل بند ہونے لگا۔ میں نے کہا: ’’کون ہے؟!‘‘ کمرہ تاریک تھا۔ جتنا بھی آگے پیچھے دیکھتی، کچھ نہ دیکھ پاتی تھی۔
’’میں ہوں، مت ڈرو۔ آؤ بیٹھو۔ میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

❣️ وہ صمد تھا۔ میں دوبارہ بھاگنا ہی چاہتی تھی کہ وہ غصے سے بولا: ’’پھر بھاگنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا نا، بیٹھو۔‘‘
میں نے پہلی بار اسے غصے میں دیکھا تھا۔ میں نے کہا: ’’تمہیں خدا کا واسطہ، چلے جاؤ۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ میری عزت خاک میں مل جائے گی۔‘‘
میں رونا چاہتی تھی۔ اس نے کہا: ’’مگر ہم نے کِیا ہی کیا ہے کہ ہماری عزت کا جنازہ نکل جائے گا۔  میں نے کوئی جسارت یا بے ادبی تو نہیں کی۔ تمہاری بھابھیاں جانتی ہیں۔ خدیجہ باجی نے مجھے بلایا ہے۔  میں اس لیے آیا ہوں کہ ہم بیٹھ کر بات کر سکیں۔ پاگل لڑکی، ایک ماہ بعد ہماری شادی ہونا طے پا گیا ہے، لیکن ابھی تک ہم نے آپس میں ایک لفظ بھی نہیں کہا سنا گویا میں کوئی جن ہوں اور تم کوئی پاکیزہ ہستی جس کے پاس میں پھٹک بھی نہیں سکتا۔ لیکن یہ محال ہے کہ میں اپنی بات کہے اور تمہارے دل کی بات سنے بغیر شادی کے لیے آمادہ ہو جاؤں۔‘‘

❣️ میں بہت ڈر گئی تھی۔ میں نے کہا: ’’میرے بھائی آتے ہی ہوں گے۔‘‘
اس نے بہت ہی مضبوط لہجے میں جواب دیا: ’’اگر تمہارے بھائی آ گئے تو میں خود ان کو جواب دے لوں گا۔ فی الحال تم یہاں بیٹھو اور مجھے بتاؤ کہ تم مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں؟!‘‘ میں شرم سے مری جا رہی تھی۔ آخر یہ کیسا سوال تھا۔ میں دل میں خدا کا شکر ادا کر رہی تھی کہ میں اس اندھیرے میں اسے اچھی طرح سے دیکھ نہ سکتی تھی۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
اس نے دوبارہ پوچھا: ’’قدم! میں نے پوچھا ہے کہ تم مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں؟! ایسا تو نہیں ہوگا۔ تم جب بھی مجھے دیکھتی ہو، بھاگ جاتی ہو۔ بتاؤ، میں دیکھوں تو، تم کسی اور کو تو پسند نہیں کرتیں؟!‘‘
’’ہائیں، نہیں، نہیں، خدا کی قسم، یہ کیسی بات کر رہے ہو، میں کسی کو پسند نہیں کرتی۔‘‘

❣️ اس کی ہنسی نکل گئی۔ کہنے لگا: ’’دیکھو قدم جان! میں تمہیں بہت پسند کرتا ہوں، لیکن تمہیں بھی چاہیے کہ تم بھی مجھے پسند کرو۔ عشق و تعلق دوطرفہ ہونا چاہیے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم زبردستی میری بنا دی جاؤ۔ اگر تم مجھے پسند نہیں کرتیں تو بتا دو۔ یقین کرو کہ بغیر کسی مشکل کے میں سارا معاملہ یہیں ختم کر دوں گا۔‘‘
میں اسی طرح اپنے پاؤں پر کھڑی تھی اور بستروں کے ساتھ ٹیک لگا رکھی تھی۔ صمد میرے سامنے تھا۔ میں اندھیرے ہی میں اسے دیکھے جا رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے کہا: ’’میں کسی کو بھی پسند نہیں کرتی۔ فقط، فقط آپ سے شرم آتی ہے۔‘‘

❣️ اس نے ایک گہرا سانس لیاا ور کہا: ’’مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں؟!‘‘
میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ کہنے لگا: ’’میں جانتا ہوں کہ تم ایک اچھی اور نیک لڑکی ہو۔ مجھے تمہاری یہ پاکیزگی اور شرم و حیا بہت اچھی لگتی ہے۔ لیکن اگر ہم آپس میں بات کر لیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر قسمت میں ہوا تو ہم ایک لمبی زندگی اکٹھی گزاریں گے۔ تم مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں؟!‘‘
میں نے اس بار بھی کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے کہا: ’’اپنے ہونے والے شوہر کی جان، جواب تو دو۔ مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں؟!‘‘
میں نے آہستہ سے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘

❣️ ایسا لگتا تھا کہ وہ اسی ایک لفظ کا منتظر تھا۔ اس نے مجھ سے محبت کا اظہار کرنا شروع کر دیا: ’’جلد ہی میری نوکری ختم ہو جائے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ کام کروں، زمین خریدوں اور اس پر اپنا گھر بناؤں۔ قدم! مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ تمہیں میرا سہارا بننا ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ اپنے عقائد پر بات کرنے لگا اور کہا کہ وہ بہت خوشحال ہے کہ میرے جیسی ایک باحجاب اور مومن خاتون اس کی زندگی میں آئی ہے۔
#شینا_کی_بیٹی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

📚 *نقل از کتاب "شینا کی بیٹی"*

شینا کی بیٹیWhere stories live. Discover now