قسط ١

37 7 0
                                    

ریاض سے ان کی واپسی پر مجھے جتنی مسرت حاصل ہورہی تھی اس سے کہیں زیادہ اماں فکر مند ہوئے جارہی تھیں . اماں کو ان کا دیس واپس لوٹ آنا بالکل بھی گوار ا نہیں تھا۔ کیونکہ وہ کچھ سال اور وہاں مقیم رہتے تو اماں کو کچھ اور سونے کے بسکٹ جمع کرنے کا موقع میسر ہو جاتا. ساتھ میں بنک بیالسن بھی ایک دو سال کی بات نہیں وہ پورے پندرہ سال سے سعودی میں مقیم تھے . کم عمری ہی میں گھر کی ساری ذمہ داریاں پروردگار نے انکے نازک کاندھوں پرجو ڈال دی تھی . والد داؤد خان جو کہ ایک خانگی فرم ملازم تھے۔ اچانک دل کا دورہ آ کر الله کو پیارے ہوگے منصور حان ایک ہی نرینہ اولاد تھی باقی چار لڑکیاں بلقیس خانم ، برجيس خانم ، نرجس خانم اور نرگس خانم . ان تمام کی شادیوں کی ذمہ داری اب ماں بیٹے پر آن پڑی ۔ زیاده امیر تھے نہیں داؤد خاں کی بس جو بھی جمع پو نجی تھی اس سے گھر کے اخراجات نکل رہے تھے . اب ایک دو نہیں بلکہ چار لڑکیوں کو بیاہ کر دینا بہت بڑا مسلہ تھا۔
  منصور دن میں کالج کی پڑھائی کرتے اور شام میں ہوٹل میں بحیثت منیجر کام کرنے لگے .اس طرح سے پڑھائی کا خرچ بھی نکل جاتا اور گھر میں ماں کا ہاتھ بھی بٹ جاتا. دن رات ایک کرکے خوب محنت سے منصور نے انجینرنگ کی ڈگری حاصل کرلی ان کی محنت اور کاوشوں نے الله تعالی کو راضی کرہی لیا اور ایک بہترین ریاض کی کمپنی میں انٹر ویو دیکر سلکٹ ہوگئے . اور ریاض کو روانہ ہوگے پھر کیا تھا رئیسہ بیگم کے بھاگ  کھل گئے
پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے تین لڑکیوں کو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں میں بیاہ کر دے دیں .
  اے زندگی تیرے پیچھے دوڑتا ہی گیا دیوانہ وار
کبھی تونے آئینہ دیکھنے کی مہلت بھی نہ دی
  ادھر منصور کی عمر بھی ڈھل رہی تھی اڑوس پڑوس اور خاندان کی عورتوں نے رئیسہ بیگم کو طعنے مارنا شروع کرديا . کوئی کہتی " ارے بیٹے کی کمائی کھانے کی عادت ہوگئی اس بیچارے کی زندگی کے بارے میں بھلا رئیسہ کو کیا فکر وہ تو اپنا الو سیدھا کرنے میں ہے " کسی کا قول تھا کہ اب تو رئیسہ کے پانچوں انگلیاں گھی میں ہے . بیٹے کے مستقبل کا بھلا وہ کیوں کر سونچے گی "  کسی کو فکر تھی کہ بیچاره منصور بن بیاہ کے ہی بوڑھا ہو جائگا . جسے دیکھو منصور کے بارے میں فکر مند تھی سوائے رئیسہ بیگم کے روز روز اس طرح کی چہ منگویاں سن سن کر آخرکار اس نے بھی بیٹے کی شادی کرنے کا اراده کر لیا یوں تو ابھی نرگس کی شادی باقی ہی تھی پھر بھی وہ روز روز کےٹنش سے فری ہونا چاه رہی تھی . اب وہ بہو لانے کا سونچنے لگی مگر کیسی ہونا ہے . وه بھی پلان کرنا تھا آخر کو ایک ہی بیٹا ہے ساری آرزویں ارمان اسی پر تو پورے کرنا ہے . سب سے پہلے خاندانی ، پھر پڑھی لکھی، اس کے بعد خوب صورت ، دین لین اچھا لائے بہر کیف ہر عیب سے عار چاند سی بہو کو وہ گھر لانا چاه رہی تھی مشاطہ کو سارے ہدایات دیکر لڑکی کی تلاش شروع کرنے کو کہا گیا -

اک تیری رفاقتWhere stories live. Discover now