قسط ۱۳

12 3 0
                                    

دھر منصور کو اپنے کام میں ذرا سی بھی دلچسپی نہ رہی. اسکا دھیان سارا عائشہ کی طرف بٹ گیا وہ انڈیا جانے کے لئے بے تاب تھا پر ماں کی رضا مندی نہ ملنے پر وہ پس و پیش میں تھا .
دو ماہ اس نے بڑے ہی صبر و تحمل سے گزار دیئے . آخر کو ایک فیصلہ لیا کہ ماں اور عائشہ کو بنا بتائے وہ انڈیا آئے گا . اس طرح سے وہ ٹکٹ بک کروا لیا اس فیصلے سے وہ بہت مسرور تھا اور خود کو مطمئن انداز میں تسلی دیتا ہوا
جانے کی تیاری کرنے لگا۔
 
  صبح کے تقریبا 9 بج رہے تھے وہ اپنے خویشوں والے آشیانے کی طرف کیاب میں بیٹھا رواں دواں تھا۔ گھر پہنچ کر اس نے ڈور بل پر ہاتھ رکھنے ہی و ا لا تھا کہ اندر سے آنے والی آواز نے اسے چونکا کررکھ دیا۔ مانو جیسے کانوں میں کوئی گرم سیسہ پگھلا کر انڈیل رہا ہو . منصور کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ہو وہ ایسے محسوس کررہا تھا جیسے کسی انجان پتہ پر آ گیا ہو ـ وہ آواز کو ئی انجانی نہ تھی اُس کی اپنی ماں کی آواز تھی . وہ انتہائی بلند آواز میں عائشہ کو بُرا بھلا کہہ رہی تھی . " تم کان کھول کر سن لو میرا بیٹا میں جیسا کہوں نگی ویسا ہی کرے گا " اور " ابھی اسکو اور دو سال بعد یہاں آنے کا ہے "  " تمھارے ناز نخرے سہنے کے لئے اسے بلوانے کی کوشش مت کرنا " سمجھی ! مگر امی میں نے کب انھیں یہاں آنے کو کہا عائشہ  آہستگی سے جواب دینے لگی . " چپ بیٹھو زبان لڑاتی ہو بے شرم کہیں کی " " مجھے سب پتہ ہے ہر روز کال کرکے آنے کے بارے میں ہی بات کرتی ہوگی ." اب تو ماں بھی بننے والی ہونا نخرے اور زیادہ ہی دیکھا رہی ہونگی بیگم صاحبہ " امی پلیز آپ ہر بات پر مجھے الزام نہ دیں ، ایسی کونسی بھی بات نہیں ہے آپ بے فکر رہیں ، ہاں ہاں خود کو ہی مورد الزام ٹھرا تی ہوں میں ، ہے ناں . دیکھو اب میں بوڑهی ہوچکی ہوں شوہر کا کوئی وظیفہ ہے نہیں اب لے دے کہ ایک بیٹا ہی ہے بوڑھا پے کا سہارا . اب اگر تم منصور کے کان بھر دو گی تو میں تو گھر سے بے گھر ہوجاؤنگی اور مجھےتھوڑی بہت پونجی بھی جمع کرنی ہے ، مجھے ویسے بھی اب تم دونوں بچہ ہونے کے بعد  کہاں خاطر میں لانے والے ہیں . اور نہ جانے کیا کیا کہے جارہی تھی وہ تو بہره ہوگیا تھا ایسے بے خبر کھڑا رہا نہ خود کا ہوش اور نہ آس پاس کی خبر " ارے منصور میاں کب آئے " پڑوس کے سردار انکل کی آواز پر وہ چونک گیا . ہاں جی ابھی انکل ، اچھا اچھا کہتے وہ آگے نکل گئے ، یہ ماں کا اتنا خطرناک روپ ، یا اللہ یہ زندگی کیا کیا دیکھا رہی ہے یہ سب دیکھنے سے پہلے میں مر کیوں نہیں گیا عائشہ کے ساتھ یہ رویہ کاش میں وہیں رہتا یہاں آنے کی حماقت نہ کرتا ، وہ بادل نخواستہ ڈور بل پر انگلی رکھتا ہوا بل بجانے لگا ،

کون ہے ؟ رئیسہ بیگم کی کرخت آواز پر وہ اور اداس ہوگیا ، کچھ دیر بعد دروازه کھولا "ارے بیٹے وه محو حیرت وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی چند ثانیے گزر جانے کے بعد وہی دوباره گویا ہوئی کب آئے بیٹے ،   السلام عليكم   " وہ کہنا چاه رہا تھا کہ آپکی کڑوی کسیلی باتیں جب عائشہ سن رہی تھی میں بھی سن رہا تھا پر وہ کہاں کچھ کہہ پاتا ، اوراس کی ساری خوشی تو وہیں دم توڑ گئی بس ابھی امی کیوں ؟ نہیں کچھ نہیں بیٹا بس ایسے ہی پوچھ لیا وہ بیٹے سے نظریں نہ ملا پا رہی تھی اب اندر آجاؤں امی یا الٹے قدم چلا جاؤں ، ارے آؤ بیٹا وہ راستہ دیتی ہوئی بازو کو سرک گئی . نہ فون نہ آنے کی کوئی اطلاع اچانک آگئے بیٹے وہ منصور کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی پوچھ رہی تھی ، کیا عائشہ کو اطلاع دی تم نے ؟ نہیں تو کیوں امی ؟ آپ کو نہ بتا کر عائشہ کو کہتا ، نہیں بیٹا بس ایسے ہی پوچھ لیا ، عائشہ جو کچن میں تھی منصور کی آواز سن کر خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی ، اتنی دیر سے ساس کی بے تکی باتوں کو وہ برداشت کرتی آئی تھی ، منصور کی آمد سے وہ سب کچھ بھول سی گئی ، آنکھوں میں آ ئے آنسووں کو اندر ہی اندر پیتی ہوئی چہرے پر پانی کی چھینٹیں مارکر چہرے پر مسکراہٹ سجاتی ہوئی اسکا خیر مقدم کرنے کے لئے کچن سے باہر آگئی ، اسلام عليكم ، وعليكم السلام وه ایک سرسری سی نظر اس پر ڈالتا ہوا کمرے کا رخ کرنے لگا عائشہ کو اسکی بے رخی پسند نہ آئی پھر بھی وہ خاموش بت بنی کھڑی رہی ، ارے عائشہ بیٹی جاؤ یہاں کھڑے کھڑے کیا سوچ رہی ہو ، جی وہ آہستگی سے چلتی کمرے میں داخل ہوئی . وه پلنگ پر پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا . اسکی آنے کی آہٹ سن کر بھی وہ ویسے ہی لیٹا رہا وہ قریب آکر بیٹھ گئی " یا خدا انھوں نے ساری باتیں سن تو نہ لی ، اسکے دل میں کئی شکوک آرہے تھے۔ وہ نارمل طریقے سے اس کو مخاطب کرنے لگی . ارے آپ نے تو سرپرائز دے دیا ! اس طرح اچانک آ کر ، وہ خاموش رہا آپ تھک گئے چلئے اٹھ کر نہا لیجیے ، پھر جی بھر کے باتیں کریں گے . وہ اب بھی کوئی ردعمل نہیں دے رہا تھا ، اب عائشہ ذرا پریشان سی ہونے لگی ، آہستہ سے اس نے اسکی پیٹھ پر ہاتھ رکھا ، وہ پلٹ کر عائشہ کو گھورنے لگا ، اسکی آنکھیں رونے سے سرخ ہوگئی تھیں ، عائشہ سے ضبط نہ ہوسکا وہ بھی رودی ، ایسا کب سے چل رہا ہے عشو ؟ اس نے راست سوال کرڈالا ، کیا؟ وہ جان کر بھی انجان بنتی گئی ، دیکھو عشو تم اتنی بھی نہ سمجھ نہیں ہو ، مجھے سیدھے سیدھے کہہ دو ورنہ میں کہیں ہوٹل میں رہ کر واپس چلا جاؤں گا . اس کے آگاه کرنے سے بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ، آخر مجھے بتانے میں حرج ہی کیا ہے عشو ؟ کچھ بات ہو تو بتاؤں گی ناں ، عائشہ میں تم سے بات کررہا ہوں اور تم ہے کہ لاپروہی کا مظاہرہ کرتی جارہی ہو . وه غصہ سے دوچار ہونے لگا ، وه ذرا سنجیده ہوگئی ، اب بولو تم کیوں رورہی تھی ؟ کب ؟ ابھی ، وہ آپ رورہے تھے تو مجھے بھی رونا آ گیا . آپ بتا ئیے آپ کیوں اداس ہوکر آنکھیں سرخ کر بیٹھے ؟ کیونکہ میں نے ساری باتیں سن لی . کیا ؟ وہ دنگ سی ہوگئی اب کہو گی یا نہیں وہ کچھ جواب نہ دے پا رہی تھی ، ٹھیک ہے آپ جائیے میں نہا لونگا ۔  ارے اتنا غصہ ہونے کی کیا بات ہے . ہے ... ؟ وہ چیخ نے کی حد تک آواز کو بلند کرتا ہوا جواب دیا ، دیکھئے آپ پہلے فرش اپ ہو جائے اس کے بعد ساری باتیں ہو جائیں گئیں اوکے ، وعده پکا وعده ، ٹھیک ہے وہ اٹھ کر وا ش روم چلا گیا۔ شکر ہے خدا کا وہ ٹھنڈی آہ بھرتی ہوئی بیڈ شیٹ چینج کرنے لگی
     
ہاں عشواب بتادو جلدی سے امی کیوں خفا تھیں ۔ دیکھے آپ ان کی اکلوتی نرینہ اولاد ہے اور آمدنی کا ذریعہ بھی آپ ہی ہیں اس لئے ان کے دل دماغ میں یہ ڈر و خوف بس گیا کہ اگر آپ مجھے اپنے ساتھ لے گئے یا پھر آپ یہاں ہمیشہ کے لئے آگئے تو ان کو مشکل ہو جائے گی وہ ایک فطری سی بات ہے ، ایسا سوچنا غلط نہیں ہے اب ہم صاحب اولاد ہونے جارہے ہیں کہیں انھیں نظر انداز نہ کردیں یہ ڈر بھی انھیں کھائے جارہا ہے ، ان تمام وسوسوں کو ذہن میں لاکر امی مجھ سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ الجھتی رہتی ہیں ، اب یہ ساری بیکار کی الجھنیں میں آپ کو بتا کر آپ کا سکون کیوں ختم کروں ہے ناں بولیے پہلے آپ دور رہتے اور پھر کام کا ٹیشن اس پر یہ غیر ضروری باتیں ، اب بتائیے کیا میں غلط ہوں ،  کاش عشوامی تمھیں سمجھ پاتی تم کتنی اچھی ہو اور وہ غلط ارادوں کے ساتھ تمھیں ہر وقت ٹارچر کرتی رہتی مگر میں اب ایسا ہرگز بھی ہو نے نہیں دونگا یہ سلسلہ یہی پر ختم ہوجانا چاہیے ، وه کچھ دیر خاموش رہی پھر منصور نے اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکراتا ہوا اسکو اپنے باہوں میں بھر لیا ، بہت دیر بعد یاد آیا سرکار کو کہ ہم دونوں کے علاوه کوئی اور بھی ہے ، وه سرگوشی کرتی ہوئی ہنس دی وہ بھی ہنستا ہوا اسے چاہنے لگا      
       
تجھ سے سیکھا  زندگی جینا میں نے
          تجھ ہی سے سیکھا محبت کرنا میں نے
     تیری تقليد میں گزر جائے حیات جاودانی
      شائد دعاوں میں تجھے ما نگا تھا میں نے .
    

اک تیری رفاقتWhere stories live. Discover now