چند دنوں میں عائشہ میں تبدیلیاں ہونے لگیں ، وہ منصور سے زیادہ بات نہیں کرتی خود کو ہمیشہ مصروف رکھنا یا پھر نیند نہ آنے پر بھی سونے کے بہانے کرکے آنکھ موند لینا ، بہرکیف اس کے حساب سے وہ منصور سے دوری بناے رکھنے کی سعی کررہی تھی ، اس بات کو منصور نوٹ کررہا تھا مگر وہ خاموش تھا کیونکہ چھیڑنے سے بات اور بڑھ جائے گی بس اسی لئے وہ خود کو محتاط رکھنا چاه رہا تھا ، پھر بھی وه عائشہ سے ایسی دور ی کو کہاں برداشت کرتا اسکی بے قراری اور بے چینی کو وه محسوس کر ر ہی تھی ، وه دل پر پھتر رکھے ہوے صبر سے کام لے رہی تھی .
ماں نے تو ایک دن اسے اپنے پاس بیٹھا کر صاف کہہ دیا کہ وہ اب دوسری شادی کر لے تاکہ خاندان کا وارث پیدا ہوسکے ، اب عائشہ سے اولاد کی امید ختم ہوگئی ہے . اب اس عمر میں دوبارہ حاملہ ہونا مشکل کیا ناممکن سی بات ہے ، اِدھر عائشہ کی بے رخی سے وہ پریشان سا تھا ، ادھر ماں کی دل سوز باتیں اس کو تو پاگل ہونے کے آثار سمجھ میں آنے لگے ، وہ سیدھا کمرے میں آگیا حسب معمول عائشہ بزی نظر آئی ، کچھ دیر اسے ہی دیکھتا رہا ، آخر کو اس کے قریب جا کر اسکا ہاتھ تھام لیا ، کیا ہوا وہ پوچھنے لگی . ادھر آؤ یہاں میرے قریب وہ اپنے قریب اسے کھینچتا ہوا کہنے لگا . ٹھیک ہے ٹھیک ہے بات کیا ہے ؟ بس کچھ نہیں مجھے نا کچھ عجیب سا محسوس ہونے لگا۔ اس لئے تمھارے قریب ہونا چاه رہا ہوں تا کہ سکون قلب ہو چلیے بیٹھتے ہیں وہ مسکراتی ہوئی اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ اب بتائیے کیا ہوا اتنا اب سٹ ہورہے ہیں ، کچھ نہیں تم اس طرح سے بے رخی برتنے لگی ہو مجھے بہت دکھ ہورہا ہے آخر کو میرا قصور کیا ہے بتادو عشو ؟ ارے آپ خواه مخواه ٹینشن لے رہے ہیں . ميں نے تو سب کی بھلائی کا سونچ کر کہا ، اچھا اب بتاؤ اس میں تمھاری کیا بھلائی پوشیده ہے ؟ میری ؟ ہاں اور نہیں تو کیا میری ؟ آپ کی تو بھلائی ہی بھلائی ہے مانو جیسے پانچوں انگلیاں گھی میں وه قہقہہ لگاتی ہوئی اس کو چھیڑنے لگی ، مذاق کا موڈ نہیں ہے سمجھی اچھا بابا مذاق نہیں وہ دونوں کانوں کو ہاتھ لگاکر اقرار کرتی ہوئی کہنے لگی آپ صاحب اولاد ہو جائیں گے اور امی کو بھی ایک اچھی بہو مل جائے گئی اور تم ؟ وہ الٹا سوال کر بیٹھا ! میرا کیا ہے کہیں کونے میں ذرا سی جگہ دے دو پڑی رہ جاونگی ، وه چہرے پر اداسی لا تی ہوئی کہنے لگی ، منصور اپنے غصہ کو قابو میں رکھتا ہوا اس سے بات کررہا تھا ورنہ وہ آپے سے باہر ہوجاتا ، اب بس بھی کرو عائشہ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا ، وه بے اختیار رونے لگی . ارے اس طرح رو کر خود کو اور مجھے پریشان کرنے والی ہو ، میں کہاں آپ سے جدا میں تو آپکی روح میں بس گئی ذرا مجھے نکال سکتے ہیں آپ تو کوشش کرکے دیکھ لیجیے .
دین داری وہ نہیں جو دل میں ہو اپنے اقدار ، کردار میں ظاہر ہونی چاہئیے ہم اپنی خوشی کی خاطر دوسروں کی خوشیاں چھین نہیں سکتے ، یہ بات سچ ہے کہ آپ کے عقد ثانی سے مجھے تکلیف ہوگی مگر یہ آپ کا حق ہے ۔ مگر عشو ابھی وقت ہی کتنا گزرا جو تم یہ سب کہنے لگی ہو ، با ں آپ نے بجا فرمایا مگر میں نے تنہا یہ فیصلہ نہیں لیا بلکہ آپ کے گھر والوں کی طرف سے مجھے ہر روز اشارے کنایے ملتے ہیں کافی غور و خوص کے بعد میں نے یہ بات آپ کے سامنے رکھی اب اگر میرا ارادہ اس میں شامل نہ ہوتا تو بات اور غلط طریقہ سے آگے بڑھتی جائے گی اور آپ کی اس میں مانو جیسے شامت ہی آجائے گی
ایک کام کرتے ہیں دونوں ریاض چلے جائیں گے اور امی ؟ مرضی اگر وہ آنا چاہے آسکتی یا پھر یہیں رہنے دیں ، ٹھیک ہے پوچھ کر دیکھ لیں ، دو تین دن بعد منصور نے ماں کے سامنے دھماکہ کردیا . " امی میں جارہا ہوں ، کہاں ؟ ریاض ، ارے یہ تو بہت اچھی بات کہی بیٹا تم نے کب جارہے ہو ، وہ بات یہ ہے کہ آپ اگر ساتھ میں آنے کا اراده رکھتی ہیں تو کچھ وقت لگے گا ورنہ میں عائشہ اندرون ایک ہفتہ چلے جائیں گے . کیا ؟ تم عائشہ کو ساتھ لے کر جاؤگے ، جی ، مگر کیوں ؟ وہ یہاں رہ کر بھی کیا کرے گی اب کافی اداس رہنے لگی ہے ، ہاں تو ٹھیک ہے وہاں مجھے کوڑی کوڑی بھیک منگواؤ گے دونوں وہ غصہ میں آگ بگولہ ہوتی ہوئی کہنے لگی ، امی یہ کیسی باتیں کرتی ہیں آپ، چپ بیٹھو تمھاری شہ رگ کو پکڑنے سے تم مجھے اہمیت دیکر خیال کررہے ہو ورنہ ، ورنہ کیا امی کہیے ہاں ہاں کہونگی ورنہ کبھی کہ مجھ سے ہر طرح کا رشتہ منسوخ کردیتے کیا ؟ وہ دنگ ہو کر رہ گیا . وه بہت دیر تک اناپ شناپ بکتی رہی مگر وہ کچھ سنتا کہاں آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں تھے ، یہ آپ .. یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ، میں سچ کہہ رہی ہوں ، یہ گھر بھی تمھارے نام پر ہے میرا کیا ہے یہاں کچھ بھی نہیں وہ زور زور سے چلا رہی تھی آوازیں سن کر بیٹیاں اور بہو سب باہر ہال میں آ گئیں
دیکھا تم لوگوں نے آخر وہی ہوا جس کا مجھے ہمیشہ سے ڈر لگا رہتا تھا ، بات کیا ہے بلقیس نے پوچھا ؟ رانی کو ساتھ لے جانے کا اراده ظاہر کررہے ہیں راجہ صاحب وہ طنزیہ کہنے لگی ، امی پلیز وہ اشاره کرتا ہوا چپ کرانے کی کوشش کررہا تھا ، وہ رونے لگی ، بلقیس ماں کے آنسو پوچتے ہوئے بھائی کو گھورنے لگی ، رئیسہ بیگم کی نظر عائشہ پر پڑی آؤ مہارانی تمھاری پلاننگ کامیاب ہوگئی ، خاموش بت بنی کھڑی رہی وہ ،
دیکھا اس نے مجبور ، بے بس ، لاچار، نظروں سے
اس کی رفاقت بھری نظروں نے اپنے حصار میں لے لیا
آپ کو پرابلم کیا ہے بھیا ، نرگس نے ماں کی حمایت میں سوال کر ڈالا ، تھوڑی دیر بعد اس نے ماں سے کہا "امی کل ہی یہ مکان آپ کے نام رجسٹریشن ہو جائے گا "، اپنا دو ٹوک فیصلہ سنا کر اس نے بغیر کچھ سنے اور کہے کمرے کا رخ کردیا۔ وہ بھی پیچھے آگئی ،
یہ سب تماشا ہی مجھے پسند نہیں اور آپ ہے کہ کیا ضرورت تھی امی سے الجھنے کی وہ شوہر پر بگڑنے لگی ، میں کہا الجھا وہی وہ بہت غصے میں تھا اس نے پانی کا گلاس تھما دیا ، اوکے پہلے پانی پی لیجیے ، وه پانی پی کر خاموش ہوگیا ، میں تو ایک اچھی بات رکھی تھی اور وہ غلط مطلب نکال کر مجھ سے الجھ گئیں ، جانے دیں سب ٹھیک ہو جائے گا، آپ لیٹ جائیے وہ دھیرے سے اسے تکیہ پر سر رکھ کر لیٹا نے لگی ۔