سارا راستہ دونوں خاموشی سے کاٹے نہ منصور نے کچھ کہا اور نہ ہی عائشہ نے ، دونوں کے ذہن گھر میں ہونے والے انجانے حالات اور رویوں کے بارے میں نئے اور بہت سارے منفی و مثبت خیالات کے گھیرے میں مقید ہوکر ره گئے تھے ـ پتہ نہیں اب میری عائشہ کو اور کونسے امتحانات سے گزرنا ہوگا . اور میری ماں وہ تو جیسے ایک دشمن بن بیٹھی اب اسکے ساتھ کیا سلوک اختیار کرنے والی ہے کاش قدرت نے اس معاملہ میں ہمیں کامیاب کردیا ہوتا ہم ثابت قدم رہتے ، اب تو ہر کسی کے طعنے میری عشو کو سنتے رہنے پڑے نگے ،
میری عبادت کا صلہ میرا خدا دیتا میرے منصور کو باپ کا درجہ عطا کردیتا تو کتنا اچھا ہوتا ، وه دوسروں کو بچوں کے ساتھ دیکھ کر کتنا اداس ہوتا ہونگا ، میرے مولا ایک نعمت تیرے خزانے سے کم ہوئی تو کیا ، تیرا خزانہ تو خالی نہیں ہوتا ، وه آنسو پیتی ہوئی دل ہی دل میں سونچنے لگی۔
آجاؤ عشو و ه کار کا ڈور کھولتا ہوا اسے نیچے اترنے کا اشاره کردیا وہ بے دلی سے اترتی ہوئی آگے بڑھ گئی
اسلام عليكم امی دونوں نے یک ساتھ رئیسہ بیگم کو سلام کیا؛ و عليكم السلام جیتے رہو وہ بادل خواستہ دعا دیتی اندر چلی گئی ، ارے بھیا آپ نرگس اور بھابھی آپ بھی کیا رضیہ آنٹی نے ڈسچارج کردیا ، ہاں وہ نرگس کے سوال پر جواب دیتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی ، آنسو اس سے اب ضبط نہ ہورہے تھے . وه ڈھل کر رخسار پر آ گئے ، تب ہی منصور داخل ہو کر اسکو روتا ہوا پایا اور کہنے لگا اب بھول جاؤ یار سب باتوں کو ، اس طرح سے اگر روتی رہوگی تو میں پھر ریاض چلا جاونگا ۔ نہیں آپ پلیز ا یسا مت کہے مجھے ڈر سا لگنے لگا وہ کہتی ہوئی منصور سے لپٹ گئی ، اوکے اوکے ارے پاگل میں نے تو مذاق کیا اور تم نےسچ مان لیا ، وه عائشہ کے اس طرح کے رویہ کے لئے تیار نہ تھا ، اس نے پہلی بار محسوس کیا کہ عائشہ کچھ سہمی ہوئی سی ہے .
حسب معمول وه اٹھ کر باہر جلد ہی آگئی اور کچن میں کام نپٹانے نے کے ارادے سے کچن کا رخ کرنے لگی کہ تب ہی رئیسہ بیگم کی آواز نے اسے روک دیا ، رک جاؤ عائشہ تم کچن میں مت جانا ، کیوں امی ؟ وہ حیرانگی سے پوچھنے لگی ، ابھی چھوت ہو ، تم ابھی فرش نہیں ہو ایسی حالت میں نہیں جانا چاہیئے خیر ان باتوں سے تم ناواقف ہو جن کو اولاد ہوتی ہے انھیں معلوم ہوتا ہے جاؤ کمرے میں ہی بیٹھی رہو زیاده ادھر اُدھر مت پھرو ، وہ سر جھکا ے اپنے کمرے میں آگئی اور سو نہچنے لگی کہ نر گس کی ڈیلیوری کے وقت تو یہ سب کنڈیشن نہیں تھے پھراب کیوں ، اسے کچھ سمجھائی نہیں دیا ، منصور ابھی نیند سے بیدار نہیں ہوئے اب ذرا دیر میں بھی لیٹ جاتی ہوں یہی خیال کر کے وہ بھی لیٹ گئی ، عشو اٹھو بھٹی بہت دیر ہوگئی شا ئد ،
اے دل جی وہ جلد اٹھ بیٹھی دیکھو امی لوگ کیا کر رہے ہیں ، جی وہ جلدی سے باہر آگئی ، ارے آؤ عائشہ ناشتہ نہیں کرنا ہے کیا منصور کو بھی بلوالو جی ، وہ اور منصور دستر پر بیٹھے ناشتہ کرنے لگے . طبعيت تو ٹھیک ہے نا بیٹی جی ، کچھ دیر کی خاموشی کو توڑتے ہوئے ساس نے دوبارہ عائشہ کو مخاطب کیا ، کمرے میں بیٹھے بیٹھے بور ہوجاؤ گی ، کبھی باہر بھی آجایا کرو ، ہاں خیر پکوان کی بات ہو تو جب دل بولا پکا سکتی ہو مگر سب کے ساتھ مل بیٹھو ، یوں اداس نہ رہا کرو تمہاری وجہ سے میرا بچہ بھی پریشان رہتا ہے وہ ان جملوں کو سن کر ہکا بکا سی رئیسہ بیگم کو دیکھتی رہ گئی . منصور نے اپنی طرف سے کوئی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ، عائشہ ساس کی اس غلط بیانی پر دنگ تھی ، کیا ضرورت تھی انہیں یہ سب کہانی بنانے کی ، افسوس ، ! وہ خاموشی سے ناشتہ کا ٹیبل صاف کرنے میں مگن ہوگئی ارے رہنے دو میں اور بچیاں کرلیں نگی تم آرام کر لو جاکر ، وه خاموشی سے کمرے میں آگئی ، کچھ دیر بعد منصور بھی آگئے کیا ہوا اداس ہو ؟ جی کچھ نہیں ! بس ایسے ہی .. ماں کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاؤ ذرا دل بہل جائے گا، اور ہر وقت دل دماغ میں وہی خیالات آتے رہیں نگے تو طبیعت اور بگڑ جا ئے گئی .
آج پہلی بار اسے منصور کے رویے میں تبدیلی رونما ہوتی نظر آئی ، وه سمجھ گئی کہ ناشتہ کے وقت مارا گیا تیر آخر کو منصور کو لگ ہی گیا ، ورنہ منصور نے تو کبھی اس طرح سے اس سے بات نہیں کی تھی ، وہ صفائی پیش کرنا نہیں چاه رہی تھی اس لئے بغیر کچھ جواب دیئے وہ اٹھ کر الماری کی صفائی میں لگ گئی .
اے دل ذرا بتادے تیرا قصور کیا ہے
آئے دن ساس کے طعنے تشنے سنتے سنتے آخر کو ایک دن عائشہ نے ایک فیصلہ لے لیا
سنیے !جی فرمائیے ! منصور کا موڈ اچھا تھا وہ عائشہ کے زانو پر سر رکھ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنے لگا . وہ زرا سٹپٹا سی گئی . آپ کچھ فرما نے والی تھیں ، وہ ذرا مسکرا دی ،جی ! ہاے آپ کی مسکراہٹ پہ ہماری ہزار جانیں قربان ،
تیری مسکراہٹ پہ دینے تیار ہوں جان
تونے بھی تو زندگی میرے نام کردی
وہ ، میں نے ایک فیصلہ لیا ہے اچھا اب آپ بھی فیصلے لینے لگیں ہیں وہ مسکراتا ہوا پوچھنے لگا، جی ! بہت خوب ، مگر ڈر سا لگا ہے کہ کہیں میرا فیصلہ آپ قبول کریں گے یا بھی نہیں ، ارے اپنا فیصلہ تو بتا دو پھر دیکھا جائگا کہ وہ قابل قبول بھی ہوگا یا نہیں ، جی ، وہ میں یہ کہہ رہی تھی کہ آپ شادی کرلیں ، کیا ؟ جی ! ارے شادی تو کرلی میں نے تم سے تو بہ یہ کیسی باتیں کررہی ہو ، مذاق چھوڑئیے میں سنجیدہ ہوں ، ہاں تو میں نے کب کہا کہ مذاق ہے ، میں آپکے عقد ثانی کی بات کر رہی تھی . او ہو ، یہ تو بہت بڑی خوش خبری ہے میرے لئے تو پھر آپ نے لڑکی دیکھ رکھی ہے یا نہیں ؟ اگر آپ اجازت دیں تو دیکھنا شروع کردونگی ، اچھا تو پھر نیک کام میں دیر کس بات کی ـ ذرا ہوش کے ناخن لو عائشہ بیگم ، او ہوش ربا ، آپ کیا کہہ رہی ہیں ، اپنی سوت لانے کا پلان ، باپ رے یہ تو خطرناک فیصلہ ہے ، نا بابا نا ایسے بھیانک اور اوسان خطا کرنے والے فیصلوں کو ہم جیسے ناچیز قبول نہیں کرسکتے ، کیوں ؟ اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ چلو دیر ہوگئی سو جاتے ہیں وہ بات کو ٹالتا ہوا اٹھ بیٹھا ، ٹھیک ہے جلد بازی کی کوئی بات نہیں ہے ، اطمینان سے آپ غور و خوص فرما لیں پھر اپنے فیصلے سے ہمیں ضرور آگاه کریں وہ بھی چہرے پر شکن لئیے بغیر کہتی ہوئی اٹھ گئی .
بظاہر تو وہ عائشہ کی بات کو ہنسی مذاق میں لے لیا لیکن اسکی نیند تو اب کوسوں دور چلی گئی یہ عائشہ نے آج ایسی بات کیوں کہی ، کیا مجھ میں وہ دانستہ یا غیر دانستہ طورپر کوئی تبدیلی محسوس کی ؟ یا پھر گھریلو حالات کو دیکھتے ہوئے اس نے یہ فیصلہ لیا ؟ یا پھر اف... وہ اٹھ کر ٹہلنے لگا اسے ایک قسم کی بے چینی سی محسوس ہونے لگی ، ان تمام باتوں سے وہ ایک قسم کی کوفت سی محسوس کرنے لگا ، یا اللہ یہ کساؤ اور یہ تناؤ آخر کب تک ، ہمیں سکون نصیب فرما میرے آقا بس ہمیں بچھڑنے سے بچالے چاہے کتنے بھی طوفان آئے ہم دونوں ایک رہیں یہ میری دعا قبول فرما لے میرے مولا ، زندگی کی اس کسوٹی میں ہمیں کھرا ثابت کر .
باد صبا بن میر ے لیے خوشیاں لائی
نادان کہتی ہے کہ میں اسکا نسیم سحر ہوں۔