سلام عليكم امی ! وعليكم السلام جیتےرہو بیٹے ، جی خیریت سب ! ہاں پھر آپ نے کیا فیصلہ لیا ، کچھ دن اور رک جاؤ، میں اب وہاں آنے کے موقف میں نہیں ہوں بیٹا ، جی وہ سنتا رہا ، اسے ہمت نہیں جٹ ہارہی تھی کہ وه ا کیلی عائشہ کو بلوالے . ماں کو برا لگتا سوا لگ خود عائشہ کہاں راضی ہونے والی بندی تھی اس لئے دونوں کو ویزٹ پر آنے کا کہہ رہا تھا . اب ماں نے اس بات کو پتہ نہیں کیوں زیر التواء میں رکھا . ٹھیک ہے امی ا آپ جب مناسب سمجھیں مجھے اطلاع دیں میں سارا انتظام کرونگا . ٹھیک ہے بیٹا ، اپنا خیال رکھیں اور تم بھی بیٹے الله حافظ . ہائے رے یہ بے بسی وه آفس کو چلے گیا
کچھ دن یوں ہی گزر گئے پھر ایک دن بلقیس آ پااور انکی فیملی آگئی . گھر میں ہلچل سی ہو گئی اچھا معلوم ہورہا تھا . فرحان جو بلقیس آپا کا بڑا لڑکا تھا بہت ہنس مکھ اور ملنسار تھا . ہر وقت سب کو کچھ نہ کچھ تفریح کا سامان مہیا کرتا رہتا اسکی موجودگی سے ہر طرف رونق سے چھائی رہتی
بلقیس آپا کے سامنے امی نے منصور کے بلوانے کی بات چھیڑی اب اس عمر میں کہاں جاؤں گی میں ،
فرحان جو قریب بیٹھا نانی اور ماں کی باتیں سن رہا تھا . کہنے لگا تو اس میں پرابلم کیا ہے آپ مامی کو بھیج دیں. کیوں مما ایم آئی ر ایٹ ، اور میرا کیا ہو گا ، آپ کا کیا ننا، آپ ہمارے ہاں آجائیے ، یا ہم خود یہاں رہ لیں نگے. تو ذرا چپ کر بڑا آیا ممانی کا لاڈلا نانی کی ڈانٹ کھا کر وہ چپ ہوگیا ۔ بلقیس آپا نے جانے کا مشوره دیا کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ اخذ کیا گیا کہ منصور کے پاس جا ئیں گے .
دوسرے دن خود رئیسہ بیگم نے منصور کو کال کیا اور آنے کے لئے رضا مندی ظاہر کی اتنی بڑی خوش خبری سن کر منصور تو ہوا میں اڑنے لگاتھا . اسکی عائشہ اسکے پاس جو آرہی تھی . اتنے سالوں سے وہ اسے اپنے پاس بلوانے کی ہمت نہیں جٹا پارہا تھا۔ اب جا کے کہیں وہ حسین دن آگے ـ
اک تیرے آنے کی خبر سن کر
دیکھ بہار بھی نکھر نے لگی ،
آیا ہے موسم پیار کا پھر سے
راتیں تنہائی کی میری اب ختم ہونے لگی .
اسلام علیکم ! وعليكم السلام ! جی خیریت بس دعا ہے اور آپ ؟ الحمد اللہ ، عشو ایک گڈ نیوز ہے اچھا وہ کیا ؟ امی نے حامی بھرلی ریاض آنے کے لئے . سچ ہاں یہ تو بہت اچھی خبر ہے . اب جلدی سے تیاری شروع کر دیں بیگم صاحبہ ، میں بھی ویزے کا دیکھ لوں نگاـ جی بہت بہتر.او خدا تیری مہربانیوں کا نہیں حساب
بن مانگے دیتا ہے تو بندوں کو بے حساب
وه بہت مسرور تھی . سجده شکر ادا کرنے لگی .
چھ ماہ کا عرصہ اتنا جلد گزر گیا کہ منصور اور عائشہ کو تو مانوچند دنوں جیسا لگا . عمره کی سعادت بھی مکمل ہوگئی اور سیروتفریح بھی خوب ہوئی ۔ اب ساس بہو کو دیس واپس ہونا تھا . وه دونوں بہت اداس تھے مگر لا محالا جانا ہی تھا .
عشو دن کتنے تیزی سے گزر گئے ناں کل آپ چلی جائیں گئیں اور پھر میں اور میری تنہائی وہ اداس تھا . آپ چھ ماہ میں آنے ہی والے ہیں ناں چھٹی لگا کر وہ تسلی آمیز جملے ادا کررہی تھی یا راب تمہارے بنا مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا اور کسی کام میں دل نہیں لگتا . وه بھی بغیر اس کے رہتے ہوئے زیاده دل برداشتہ سی ہوگئی تھی . جی مگر اب ہم کیا کر سکتے ہیں . سونچ تا ہوں پورا پیک کرکے ہمیشہ کے لئے آجاؤں . وہیں کچھ کرلو نکا. ہاں مگر امی کی اجازت درکار ہے نا اگر وه رضا مندی ظاہر کردیں تو پھر آپ اگلا قدم بخوشی اٹھا سکتے ہیں .
میں اس بارے میں کل امی سے بھی گفت و شنید کرونگا دیکھیں گے کیا نتیجہ ہمارے ہاتھ لگتا ہے . صبح ناشتہ کے دوران میں وہ ہمت جٹا رہا تھا کہ کہاں سے ابتداء کریں آخر کو کافی تگودو کے بعد اس نے پہل کی ـ امی کیسا رہا یہاں کا سارا نظام . بہت اچھا لگا بیٹا . تم نے ہم دونوں کو خوب سیر سپاٹے کروائے سب سے بڑی مسرت اس بات کی ہے کہ عمره بھی ہو گیا . جی
اور چھ ماہ بعد تم آرہے ہو نا جی ... میرا اراده اس بار کچھ اور ہے امی ، کیا ؟ وہی کہ اب وہیں کچھ کر لونگا اب یہاں سے دل اٹھ گیا یوں سمجھیں اب آپ دونوں کو چھوڑکر رہنا میرے لئے محال ہے ـ اس لئے استعفی دیکر آجانے کا ارادہ ہے . آپ کیا کہتی ہیں ؟ وہ ماں کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھنے لگا . وہ ہاتھ کو روک کر عائشہ کو دیکھنے لگی . عائشہ جو کہ ماں بیٹے کی گفتگو سن رہی تھی اور ساس کی خونخوار نظروں کی تاب نہ لاسکی اور نظریں جھکا کر ناشتہ پر توجہ مرکوز کرنے لگی۔ میں وہاں جاکر تمھیں بتا دونگی بیٹا. جی ! بہتر امی ! وه بھی مطمئن سا ہوگیا .
گھر آکر ابھی وہ ذرا سستانے کے لئے کمرے کا رخ کرہی رہی تھی کہ رئیسہ بیگم کی گرجتی آواز نے اسے سہما کر رکھ دیا۔ جو ڈر اور کھٹکا لگا رہتا تھا وہی ہوا مجھے یہی خدشہ تھا کہ تم ضرور منصور کو یہاں بلوا لوگی . اسی اندیشے کو لیکر میں وہاں جانے سے انکار کررہی تھی . آخر کو تم نے اس کے کان بھر ہی دئیے۔ وہ چپ چاپ کھڑی ساس کے نا شائستہ جملے بازی کو سنتے رہی جبکہ اس نے خود منصور کو ماں سے مطلوب اجازت کے بارے میں آگاه کیا تھا . اب وه اپنی صفائی میں کچھ کہنا بھی اپنے ضمیر کی بے عزتی سمجھنے لگی . کیونکہ ہر وقت اسے ہی مورد الزام ٹھرانا رئیسہ بیگم کا مشغلہ سا ہوگیا تھا۔ مگر یاد رکھو عائشہ تمھاری یہ ساری پلاننگ میں کامیاب ہونے دینے والی نہیں ہوں . چاہے کچھ بھی ہو جائے
وہ بجھے بجھے قدم اٹھاتی روم میں چلی گئ اور خود کوبستر پر ایک بے جان جسم کی طرح ڈھیر کرتی ہوئی گرکر بہت رونے لگی۔ اب اس میں مجھے کیوں وہ مجرم قرار دیتی ہیں میں انہیں کس طرح سے بتاؤں کہ میرا کچھ کردار ہے ہی نہیں الله بہتر جانتا ہے .
ہمیشہ سے فجر کے ساتھ ہی روم سے باہر آنے والی عائشہ ابھی تک نہیں آئی ۔ رئیسہ بیگم کو تشویش سی ہونے لگی . کافی دیر گزر چکی تھی آخر کو وہی دروازہ کھول کر اندر کو جھانکی . وہ مسہری پر پڑی ہوئی تھی . وہ قریب جاکر آواز دینے لگی . عائشہ او عائشہ اٹھو رانی صاحبہ وہ ساس کو اپنے قريب پاکر اٹھنے کی کوشش کررہی تھی مگر ناکام ہوگئی اسے چکر سی آنے لگی . اور دوبارہ بستر پر لیٹ گئی کیا ہوا؟ وہ امی مجھے چکر آرہی ہے ، ٹھیک ہے آہستہ سے اٹھ جاؤ ، کسی کو اطلاع دونگی تمھیں لیکر دواخانے جا ئیں گے . بلقیس ، برجیس یا پھر نرجس ٹھیک ہے ، جی وہ آہستگی سے اٹھتی ہوئی کہنے لگی .