صرف پندرہ دن کی چھٹیاں لے کر آیا تھا منصور ، اب اسے جانے کو دل نہ چاه رہا تھا ، دل میں ایک کھٹکا سا لگا ہوا تھا کہ میرے جانے کے بعد ماں عائشہ کے ساتھ کیا سلوک کریں گیں اب وہ عائشہ کو ماں کے ساتھ رکھنا غیر مناسب گر دانتا تھا ـ اس کے دل میں ماں کے لئے جو تعظیم و تکریم تھی ، اسے اب وہ چاہتے ہوئے بھی برقرار نہ رکھ پا رہا تھا .
یہ کیسی مجبوری ہے یا خدا میری مشکل آسان کر دے میرے مالک وه دل ہی دل میں دعا گو ہوگیا ، آخر امی کو کس طرح سے تیقن دوں کے آپ کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا ہے جیسا آپ سمجھ رکھی ہیں ، مگر وه کس طرح سے بتائے ۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا وہ گمبھیر تا سے سونچنے لگا .. میں عائشہ کو یہاں سے لیکر چلا جاؤں گا۔ بس یہی میرا اٹل فیصلہ ہے چاہے اسکے لئے مجھے کچھ بھی کر گزرنا پڑے ، آخر کو اسکو میری ضرورت ہے وہ یہاں اکیلی اور اس پر ما ں کی کڑوی کسیلی باتیں آخر کو کیوں برداشت کرے ۔ اور امی کا کیا حق بنتا کہ اس طرح سے رویہ اس کے تییں اختیار کرنے کا . ، میں نے اپنے گھر کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ؟ اور کبھی اف تک بھی نہ کی ، اور اسکا یہ صلہ کہ میری بیوی جوکہ خدمت گزار ، ملنسار اور نیک ہے ، اس کے ساتھ ہی ایذارسانی ہوتی جاتی رہی ہے . ، اسے اس طرح سے کیوں ہرا سا ں کیا جارہا ہے ، ان تمام ظالمانہ کاروائیوں کو دیکھکر میں خاموش بیٹھا رہوں یہ میری بھی مجرمانہ خاموشی کہلائی جائی گی ۔ اور نہ جانے کیا کیا خیالات کے دائرے میں سونچ تا اور جواب دیتا رہتا تب ہی عا ئشہ نے اسے آواز دی " کیا ہوا آپ کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آرہے ہیں " . ہاں عائشہ اب میں نے ایک فیصلہ لے لیا ہے ، کیا ؟ تمھیں ساتھ لے جاوں گا کیوں ؟ ارے دیکھا نہیں امی کا آپ کے ساتھ کیا سلوک روا ہے . اب تم معمولی عورت بھی نہیں کچھ تو خیال کرنا چاہئیے امی بھی ایک عورت ہیں اس طرح سے تو وہ سونچنا چاہئیے ، اگر تمھاری صحت پر کچھ بُرا اثر پڑگیا تو ہم تو کہیں کہ نہ رہے نگے ، اتنے سالوں بعد قدرت نے ہمیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے لاپرواہی برتنے سے کچھ بھی ہو سکتا عش ، ہاں مگر اس طرح سے اچانک فیصلے نہیں لیئے جاتے آپ جاکر پھر آرام سے مجھے بلوا سکتے ہیں ، اور اب ایسی حالت میں میرا سفر کرنا بھی محال ہے ، اور ان ساری باتوں کو پلیز امی کے سامنے مت دہرائیے وه اور ڈر جائیں گئیں وہ عائشہ کو تکتا ره گیا ، کہنے لگا انھیں مجھ سے نہیں میری کمائی سے مطلب ہے عشو ، تو بُرا کیا ہے ، انکا حق بنتا ہے آپ پر اور آپکی ہر چیز پر ، ہاں مگر اس کو حاصل کرنے کا طریقہ کار غلط ہے اگر وہ آپ کے ساتھ صیح اور نیک سلوک قائم رکھتی تو شائد میری نظروں میں اور بلند وبالا ہو جاتی مگر افسوس امی نے یہ ٹھیک نہیں کیا ، مجھے تو دُکھ اس بات کا ہے کہ میں نے انھیں سمجھنے میں دیر کردی کاش یہ روپ شادی سے پہلے دیکھ لیتا تو میں ہرگز ہرگز تا بہ حیات شادی نہ کرتا ، پھر وہ بھی خوش ، میں کدھر جاتی ، وه بھولی سی صورت بنا کر پوچھنے لگی ، پتہ نہیں۔ وہ اسکی اس ادا پر بے اختیار ہنس دیا
خیر چھوڑو ان بیکار باتوں کو دل پر مت لینا سکون سے رہنا ، سمجھیں ، جی
منصور ڈیوٹی جوائن کرنے چلا گیا . ماں بھی خوش ہوگی کہ ہمیشہ کے لیئے نہیں آیا اور بڑی بات یہ کہ اس نے عائشہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو سنا نہیں اسی خوش فہمی میں تھی رئیسہ بیگم ،
رشتوں کی ڈور کہیں کمزور نہ پڑ جائے
میں نے باطن کو چھپا کر ہنسنا سیکھا ہے
کہاں گیا وہ ممتا کا آنگن
جس میں صرف محبت کے پیڑ تھے .
تقریبا پندرہ سال کا طویل عرصہ ہونے کو آرہا ہے اسے پردس جا کر اب اسکا دل یہاں سے اچاٹ ہوگیا ، اور دوسرے اسے عائشہ کی فکر کھائے جارہی تھی . پھر بھی وہ دل پر پھتر رکھ کر صرف ماں کی خوشنودی کی خاطر یہاں بخوشی رہ رہا تھا ، مگر اسکا اتنا بھیانک نتیجہ نکلے گا اس نے خواب و خیال میں بھی نہیں سمجھا تھا .
ڈاکٹر رضیہ آنٹی نے اسکا منتلی چیک اپ کرکے سار ے ٹسٹ کروانے کو کہا اور اسيكن بھی کر نے لگی ، اب کی بار عائشہ کے ساتھ بلقیس آپا آئی تھیں . ساری تفیصلا ت ڈاکٹر رضیہ کی جاکر انھوں نے ماں سے بیان کردی اور بیڈ رسٹ کے بارے میں بھی کہا "تو کیا میں زیاده کام کروا رہی ہوں " ٹھیک ہے مجھے کسی " اولڈ ایج ہوم " میں داخلہ کروا دو اور سب سکون سے ره لو وہ برا منہ بناتی ہوئی بیٹی سے کہنے لگی اور نظریں عائشہ پر مرکوز کئے ہوئے تھی .
عائشہ کمرے میں آکر منصور کے کال کا انتظار کرنے لگی . سلام دعا کے بعد منصور نے ڈاکٹر رضیہ کے چیک اپ کے بارے میں پوچھنے لگا . ساتھ میں کون آئے تھے ، بلقیس آپا ، اچھا اور کیا کہا آنٹی نے سب ٹھیک ٹھاک ، اچھا اب آرام کرلو میں بزی ہوں الله حافظ جی الله حافظ .
پندرہ دن بعد پھر سے چیک اپ تھا وہ چلی گئی . دیکھو عائشہ اب آٹھواں مہینہ لگ چکا ہے تمھیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے زیاده چہل پہل مت کرو کیونکہ تمھاریuterus کمزور ہے اسی لئے میں ہر وقت انتباه دیتے آرہی ہوں جی وہ خاموشی سے سنتی رہی
اُدھر منصور انڈیا آنے کا سارا انتظام کرچکے تھے جتنی مسرت عائشہ کو ہورہی تھی اس سے کہیں زیاده رئیسہ بیگم فکر مند تھیں . اب ان پر سونے کے بسکٹ اور رقم جمع کرنے کا بھوت سوار تھا۔ وہ کسی کی پرواہ کہاں کرتیں ،
بیٹے کے آنے کی خبر سن کر وہ شروع ہوگئیں ارے اب سے آکر کیا کرے گا ، اسے تو بيوى کے پلو میں رہنے کی عادت سی ہوگئی ہے ہر بار آجانے کی دھمکی دیتا ہے مجھے تو سن سن کر گھن سی ہونے لگی وہ بڑبڑاتی ہوئی پان کھانے لگی ، گرمائی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں چار بیٹیاں بھی میکے معہ اہل و عیال آ گئیں تھیں
وہی ہوا جسکا خدشہ منصور کو ہروقت لگا رہتا تھا . ایک دن اچانک عائشہ کی طبیعت بگڑ گئی اسے فوراً اسپتال میں ایڈمٹ کروایا گیا۔ ڈاکٹر رضیہ نے اسکی بہتر صحت کے لئیے تمام تر کوشیش اپنی طرف سے شروع کردی منصور کو اطلاع ملتے ہی وہ چھٹی لگا کر انڈیا آگیا۔ اور ڈاکٹر رضیہ سے ساری تفصیلات لینے لگا . بس الله پر بھروسہ رکھو منصور سب ٹھیک ہوجائے گا، میں اپنی طرف سے ساری کوشیش جاری رکھی ہوئی ہوں مگر مگر کیا؟ وہ فکر مند ہوگیا ، ہر بار میں عائشہ کو آگاه کرتے آئی ہوں کہ وہ احتیاط برتے مگر لاپرواہی کرتی رہی ، اب ، اب کیا ؟ آپ کھل کر بتائے آنٹی . دیکھتے ہیں منصور آپ عائشہ کے پاس جائیے آپ کی سخت ضرورت ہے اسے وہ کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی ، او خدا وہ سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا اب کیا ہوگا ، دوسرے لمحے وہ ہڑ بڑا کر عائشہ کے پاس چلا گیا۔ اسے سلين لگا ہوا تھا اس کے قریب جاکر اس نے سرپر ہاتھ رکھا وہ آنکھیں کھول کر دیکھنے لگی . آپ وہ مسکراتا ہوا گردن کوہاں میں اشاره کردیا ، آپ کب آئے ؟ وہ پوچھنے لگی جب آپ نے یاد کیا وہ دل کی ساری کیفیت کو چھپاتا ہوا اس سے باتیں کررہا تھا۔ سب کہاں ہیں ، کون ؟ منصور نے پوچها امی ، بلقیس آپا ، وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتا ہوا سب یہیں ہیں آپ آرام کریں میڈیم ...