قسط ٢١

25 3 0
                                    

ارے آجاؤ بیٹا مدثر آجاؤ روتے نہیں وہ پ

وتے کو لاڈ سے سمجھانے لگی ، عائشہ ساس کے گود میں بیٹھا کر کام میں مصروف ہوگئی ، ہاں دیکھو چڑیا کیسی پیاری ہے ، وہ دیکھو ابو ، بولو ابو ، منصور مسکراتا ہوا ماں کے قریب جابیٹھا ، ارے بیٹا میں  پوچھنا ہی بھول گئی عقیقہ کب کررہے ہو ؟ امی کل لالوں گا دو بکرے اور کیا گوشت تقسیم کردیں گے ، ارے واه بیٹا اتنے سالوں بعد وہ بھی لڑکا ہوا اور تم گوشت تقسیم کر دوگے ، اور کیا یہی صحیح طریقہ ہے امی ، مجھے مت سیکھاؤ طریقے ، سب معلوم ہے ، پھر آپ ہی بتائیے کیا کرنا ہے ، اچھی بڑی دعوت کرو اور چار بہنوں کو پچاس ، پچاس ہزار دے ڈال دو کچھ بھی لا لیتی ، وہ تو چپ بیٹھ گیا ، اس کو کوئی جواب سجھائی نہیں دیا ، کیا ہوا میں نے کیا غلط کہا ، جی ، جی نہیں تو امی ، پھر تو ذرا رائے مشوره کرنا پڑے گا ، کس سے ؟ عائشہ سے کیا ؟ ہاں وہی کچھ حل نکال لیے گی ، وہ بھلا بہنوں کو رقم دینے کے لئے کب راضی ہوگی ، منصورہنس کر کہنے لگے ، امی آپ عائشہ کو کہاں جانتے ہیں ، خیر چھوڑ ہے ، اور کیا ہو رہا ہے مدثر وہ بیٹے کو گود میں لیتا ہوا وہاں سے نکل آیا ،
  ارے یار تم اتنی دیر رات تک کام مت کیا کرو ، جلدی نپٹا کر آجایا کرو ، دیکھو بچہ پریشان اور اسکا باپ بھی وہ تیکھی نظر سے عائشہ کو دیکھتا ہوا کہنے لگا۔ ٹھیک ہے بابا کل سے اشاء الله دونوں کی ناراضگی ختم کردونگی جلدی آکر وہ بستر صاف کرتی ہوئی کہنے لگی . عشو ؛ جی ، ایک بات کہو ہم مدثر کا عقیقہ کیسے کریں گے ؟ کیا مطلب جیسا کرنا ہے وسيا کریں گے ، وہی دھوم دھام يا سادگی ؟ آپ کی مرضی بیٹا آپ کا خرچہ آپ کا . ہاں بہ بھی صحیح ہے ، زرا مشوره تو دو یار ، اب میں کیسے یہ دخل اندازی کرسکتی ہوں . امی سے پوچھ لیجیے ، انکی کیا رائے ہے ، امی نے رائے دے دی ، تو پھر مجھ سے کیوں سوال ہو رہا ہے ، وہ آنکھیں نکال کر شوہر کو مصنوعی غصہ سے دیکھنے لگی ارے کچا کھا جاؤ گی یا پکا کر وہ ہنستا ہوا ہوچھنے لگا . بس بھی کیجے ، ذرا سکون کی سانس لے لو پھر بات کریں گے ، جی ، اب کہیے ، امی کی رائے ہے کہ دھوم دھام سے دعوت کی جائے اور فی بہن پچاس ہزار دیئے جائیں . اوکے تو پھر؟ آپ کا منشا کیا ہے میڈیم ، اب دیکھے امی نے کہہ دیا سو کہہ دیا اب ہمیں اس سے ہٹ کر یا مخالف میں جانا نہیں ہے ، مگر عشو چاروں کو دولاکھ تو یہیں ہوگئے پھر دعوت کا خرچہ یہ سب کے لئے میں تیار نہیں تھا ، ارے کسی نے آکر ہم سے ملا تک نہیں اور کوئی ایک وقت دعوت دیکر نہیں بلواتے اور ہم ہے کہ کرتے جاو کرتے جاؤ ، مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا . کیوں نہیں ہوتا ، ہوگا . ارے تم سمجھتی کیوں نہیں اب میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے . ایڈیا .... کیا ؟ دیکھئے میرا زیور ہے نا وه نکال دیں گے اور سارے کام ہوجائیں گے ، ہم پھر خرید سکتے ہیں ، نہیں میں تمھارے زیور کو نہیں بیج سکتا ، اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ آپ خواه مخواه پریشان ہو رہے ہیں بہت لے سکتے ، اب چلیے سوجاتے ہیں کل جا کر اس کام کو پورا کردیں گے ، وه ا یک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا آخر کس مٹی کی بنی مورت ہے یہ ، میں تو ہار گیا اس نیک بی بی کے سامنے ، وه خاموش سوگیا .
دوسرے دن ناشتہ کرکے دونوں شوہر بیوی زیور لے کر جانے لگے کہاں جارہے ہو بیٹا  ؟وہ امی عائشہ کا زیور نکالنے جارہا ہوں اب خرچے بہت ہیں اور رقم کم  ہے اس لئے عائشہ نے زیور بیچنے کی بات کہی ، اچھا اچھا ٹھیک ہے جاؤ اور ہاں میری طرف سے مدثر کے لۓ ایک تولے کی چین لیتے آنا ٹھیک ہے نا، جی . وہ عائشہ کو دیکھے جارہا تھا چلیے ہاں چلو ، راستہ تمام وہ خود کو کوستا رہا بڑی غلطی کی میں نے آکر . اب سزا تو بھگتنی ہی پڑے گی ، دیکھا عشو : زیور کا سن کر امی روک دیتی ہونگی سونچا مگر الٹا سونے کی چین بھی ہمیں سے منگوا رہی ہیں . ہاں مگر وہ اکیلی کہاں جاتیں ؟ تم بھی نا الله میاں کی گائے ہو . وه ہنس کر میاں کو دیکھنے لگی . آپ غصے میں بڑے پیارے لگتے ہو . وه اسے گھورتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
    یہ لیجیے امی آپ کی چین ہاں ادھر لا لو رئیسہ بیگم نے خوشی خوشی لے کر رکھ لیا . ہاں اور ایک بات بیٹے میں نے چاروں بچیوں کو اطلاع دے دی ہے وہ شام تک آجائیں گیں . جی ٹھیک ہے ، وه خاموش اپنے کمرے میں آگیا۔
شام میں سب آد همکی ! دیکھا عشوہم آکر اتنے دن ہوئے کسی نے خیر خبر نہیں لی اور اب ، وه کچھ اور کہتا عائشہ نے انگلی کے اشارے سے اسے روک دیا۔
اسلام علیکم بھیا ، بھابھی ! نرگس نے دونوں کو یک ساتھ وہ سلام کرتی ہوئی بھتیجے کو گود میں لے لی۔ ممنصور بھی ساری شکایات کو بھول کر بہن سے گھل مل کر باتیں کرنے لگے
خون کے رشتوں میں یہی ہوتا ہے چاہے کچھ بھی ہو لیکن مضبوطی ختم نہیں ہوتی اور جس طرح پانی پر لکڑی سے ہم مار کر پانی کو دوحصوں میں تقسیم کردیں گے مگر وه فوراً پھر سے مل جائے گا،بالکل اسی طرح خون کا رشتہ ہوتا ہے وقتی طور پر ناراضگی ہو لیکن کبھی ٹوٹتے نہیں ، اور ٹوٹنا بھی نہیں چاہیے ، الله کا خود فرمان ہے کہ رہنے ا " رشتے توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا " یہ کشش ہوتی ہے خونی رشتوں میں .. وه دل ہی دل میں خوش ہوتی ہوئی بہن بھائی کو دیکھنے لگی .
ساری پلاننگ بہنوں کو بتا کر منصور نے اپنی طرف سے پچاس ، پچاس ہزار دیتے ہوئے کہنے لگے ، بس مجھے آپ لوگ دعا دیجیے اور کچھ نہیں الله نے نوازا تو انشاء الله تا حیات میں اپنی بہنوں کو کرتا رہونگا . اور الحمد اللہ مجھے بیوی ایسی نیک اور قابل فخر ملی ہے کہ اس کی جتنی بھی تعریف کروں کم ہے آج آپ کا بھیا جو بھی ہے اس کے سپوٹ اور اسکی خوش دلی ، نیک نیتی کی وجہ سے ہے ، بس میں رب کریم کا بے حد مشکور و ممنون ہوں کہ اس نے مجھے عائشہ جیسی بیوی نعمت کے طورپر عطا فرمائی ، میں خدا وندے کریم کا کتنا بھی شکر اداکروں کم ہی ہوگا ، میری زندگی عائشہ کی مرہون منت ہے ، مجھے نہیں پتہ عائشہ کو میں کہاں تک خوشیاں دیا ہوں مگر عائشہ نے میری زندگی کو خوشیوں سے بھر دیا ، ہر قدم پر ایک صحیح رہبر کی طرح ایک سچے دوست کی طرح ، ایک قابل اور سلیقہ شعار بیوی بن کر میری ہر مشکل کو آسان اور سہل کرتی آئی ہے ،
آج اگر عائشہ میری شریک حیات نہ بنتی تو شائد ہمارا یہ خوشیوں والا آشیانہ کبھی کے بکھر جاتا اور اس میں بسیرا کرنے والے پنچھی در بدر بھٹکتے پھرتے ، میں نے زندگی کا بہت اچھا فلسفہ سیکھ لیا کہ ایک پڑھی لکھی اور نیک بیوی کس طرح سے خاندان کو بکھرنے سے بچاسکتی ہے اور ایک ان پڑھ عورت کے کیا ارادے ہوتے ہیں ،
ماں اور چار بیٹیاں دم بخود ہو کر منصور خان کی تقریر کو گوش سماعت کر نے لگیں .
  عائشہ شوہر کو اشاره کرکے چپ کرانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی ، مگر ناکام ہوکر مجبور سی بیٹھی رہی۔ چلو اب دو دن بعد دعوت پھر ایک ہفتہ بعد ہماری روانگی ٹھیک ہے نا وہ سب کو دیکھتا ہوا ہوچھنے لگا ، جی بھیا ، ہاں منصور ، ہاں بیٹا ، سب نے خوشی سے ہاں میں ہاں ملا دی .
نرگس عائشہ کے قریب آ کر کہنے لگی بھا بھی جانے انجانے میں مجھ سے جو بھی غلطی ہوئی ہو معاف کردیں پلیز ، ارے نرگس آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے ، وه نرگس کو گلے لگاتی ہوئی کہنے لگی .
  پر ستش بے جان کی کیا کرتے ہیں لوگ
زندہ مجسم قابل تقلید چھوڑ کر

بندگی وہ نہیں جو سجدوں میں گرکر ادا کرے
بندوں کے دل پر راج کرنا خدا کی بندگی ہے

خاک سے بن کر بھی کوئی بہت انمول ہوتا ہے
خدا اس کا دل جو ہیرے کا بنا دیتا ہے
  آج معاشرے میں ہمیں ایسی کئی عائشہ کی ضرورت آن پڑی ہے جس سے ہمارے معاشرے کی اور سماج کی برائیاں جیسے جہیز کی لعنت ، اور خوبصورتی کی دیوانی دنیا جو صرف رنگ روپ کے پیچھے دوڑ رہی ہے ، کا خاتمہ ہو جائے . اور ایک پاک صاف ماحول اور معاشرہ کی تزئین  ہو سکے۔ ہر گھر میں ہم ایک عائشہ کو تیار کریں تاکہ آئندہ کی نسلوں میں بگاڑ نہ آنے پائے ، اس کی شروعات خود ہمارے دل سے ہی شروع کردیں خود کو عائشہ کی طرح ڈھال لینے کی کوشش کریں ، انشاء الله ہمارے معاشرہ پاکیزہ اور مہذب ہو جائے گا ۔ ختم شد۔۔

اک تیری رفاقتWhere stories live. Discover now