قسط ‏۴

35 10 1
                                    

آتش بازی کچھ زیادہ ہی ہورہی تھی محمود صاحب اور بیگم اختر بچوں اور نوجوانوں کو ٹوک رہے تھے ، سنبھل کر ، احتیاط سے ، دور سے ، ان ہی ہدایات میں مصروف تھیں اندر سب اپنے اپنے رومس میں تیار ہونے میں محو تھے ، احمر بھی نہانے کی تیاری میں تھا ، پانی کافی ٹھنڈا ہے چونکہ سردی کا موسم بہار پر تھا ، گیزر ڈالنے کی غرض سے سویچ آن کیا ہی تھا کہ بس بری طرح سے شاٹ سرکٹ ہوگیا ، الله کی پناہ دیکھتے ہی دیکھتے خوشیوں کے سارے ماحول میں ماتم کا سماں چھا گیا ، کہاں ایک شادمانی تھی کہاں اب سوگ، یہ کیا ہوگیا گھر کا چراغ ہی گل ہوگیا ، کرنٹ کا شاٹ اس قدر مضبوط اور بھیانک تھا کہ جان لے کر ہی چھوڑا ، احمر کی چیخیں کسی نے نہیں سنی ہاہر اس قدر شور شرابا برپا تھا کہ اندر کے حالات سے سب ہی بے خبر تھے۔ کاش کوئی ایک بھی اگر اندر آتا تو شائد احمر بچ پاتا مگر افسوس کہ ہر کوئی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھا ، دولہے کی موت ایک بہت بڑا سانحہ تھا .
  اب کیا ہوگا ؟ ، یہ کیا ہوگیا ؟، یہ سب کیا ہے ؟ ، اختر بیگم تو غش کھا کر گر گئیں ، محمود صاحب کو اس حادثہ کا اتنا برا اثر  ہوگیا کہ منہ کی بات ہی بند ہوگی ، ہر کوئی دماغی طور پر ایک طرح سے مفلوج ہوگیا تھا ، اشہر دوڑتا ہوا جاکر مین آف کردیا مگر لا حاصل جب تک تو احمر کی جان جا چکی تھی ، وه چیختا چلاتا مامو کے قریب بیٹھ گیا ، ہر آنکھ نم تھی سارا محلہ ٹوٹ پڑا ، شادی خانے کو جانے والی گاڑیاں دواخانہ کی طرف دوڑی جارہی تھیں ،  میرا بھائی یہ کیا ہوگیا بہنوں کے نالے شروع ہوگئے.
  اس بری خبر کی اطلاع ملتے ہی ہما بے چاری تو بے ہوش ہوگئی اور ہما کے والد سردار خان صاحب کو دل کا دورہ پڑ گیا ، اس گھر میں بھی ہر طرف ماتم ہی ماتم برپا تھا ، کسے ہوش وخرد باقی رہا جو کچھ اور سونچ تا وہاں تو ہر کوئی حیران  وپریشان سا اس المناک حادثہ کا شکار ہوگیا ہر طرف بد حواسی کا عالم تھا . سوگوار ی کی کیفیت چھا گئی
  ہما کے مامو احسان صاحب نے سارے حالات کو قابو میں کرنے کی اپنی طرف سے پوری سعی کردی ، اتنا سارا خرچہ اور یہ سب انتظام اب کیا ہوگا وه چکرانے لگے مجھے ہی کچھ کرنا چاہئیے ، کافی دیر سونچ بچار کے بعد وہ سیدھا محمود صاحب کے بڑے داماد مظفر صاحب کے پاس آگئے جو آنکھوں میں آنسو لیئے ہا سپٹل میں ایک کونے میں غمگین حالت میں کھڑے تھے ، آہستگی سے کانہ ھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے ، جو ہوا اس کا غم ہم ساری عمر بھی منائیں گے تو کم ہی ہے مگر کیا اس طرح سے سوگ میں ڈوبنے سے احمر واپس آجائیں گے ، وہ احسان صاحب کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، نظر بد لگ گئی بس اور کچھ نہیں ، کاش وہاں میں موجود ہوتا تو ایسا ہرگز بھی نہ ہوتا یہ زندگی کیسے کیسے رنگ دکھا رہی ہے ہمیں، دیکھئے ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا بس اس پروردگار کی کیا حکمت ، مصلحت چھپی ہے ہم انجان بندوں کو کیا خبر ، اس کے کھیل نرالے ، وہی بہتر جانتا ہے ، ہاں آپ سچ کہہ رہے ہیں مگر اب کیا ہوگا ، مظفر صاحب نے تو یش ظاہر کی ، احسان صاحب نے کہا اب ایک ہی راستہ ہے ؛ کیا؟ آپ کے لڑکے سے ہما کا نکاح کر ادیا جائے ، کیا ؟ ؟ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ؟ آپ اگر اجازت دیں تو میں ساری بات اشہر اور ہما سے کرلوں گا ، کیونکہ ہما کے والدين تو اس موقف میں نہیں ہیں اور ادھر احمر کے والدین نے تو بیٹا ہی کھو دیا ہے ایسے حالات میں ہمیں ہی کچھ کرنا مناسب سمجھ میں آرہا ہے ، مظفر صاحب تذبذب میں پڑ گئے کیا جواب دیں انہیں کچھ سمجھائی نہیں دے رہا تھا ، ابھی ادھر دواخانہ میرے لوگوں سے بھرا پڑا ہے اور ادھر پھر سے شادی اف خدا میں کیا کروں وہ دونوں ہاتھوں سے سر تهام کر بیٹھ گئے ، احسان صاحب نے کافی منت سماجت کی تب کہیں جاکر وہ راضی ہوگئے

زندگی کے رنگWhere stories live. Discover now