‏قسط ۱۳

10 6 1
                                    

ہما نے اشہر کے اس فیصلہ کو مسترد کردیا اور خفگی ظاہر کردی " آپ اس طرح کا فیصلہ لیکر اپنے والدین کی نظروں میں گرچکے ہیں آخر کو اس طرح کرنے کی ضرورت کیا تھی وہ ا شہر سے سوال کرنے لگی ، کم از کم مجھ سے تو ذکر کیا ہوتا ، کس نے آپ کو یہ مشورہ دیا بتائیے؟ وہ سب کچھ سنتا رہا مگر جواب میں کچھ نہ کہا کیونکہ بات بگڑ سکتی تھی اس لئے خاموشی اختیار کرنے میں ہی بھلائی ہے حالات کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا یہی سوچ کر وہ چپ ہوگیا ، چلیئے جو ہوا سو ہوا اب ہم اپنے گھر چلتے ہیں کیونکہ وہی ہمارا گھر ہے . مجھے یہاں نہیں رہنا سنا آپ نے !ہاں سن تو رہا ہوں پری مگر وہاں سب ہم سے خفا ہیں انھیں منائیں کیسے ؟ تو کیا ہوا میں کہہ دونگی امی سے کہ ہم غلط تھے ہمیں معاف کردیں بس ہوگئی بات ؛ اچھا ٹھیک ہے چلو چلکر دیکھتے ہیں ، میں امی کو کہہ دونگی کہ ایک ورکر رکھ لے اور آپ بھی مدد کریں گے ، ہاں ٹھیک ہے ، وہ دونوں مظفر منزل کو آگئے کسی نے ان کی آمد سے خوشی ظاہر نہیں کی ، اسلام علیکم امی وہ آگے بڑھتی ہوئی کہنے لگی . عاصمہ نے سلام کا جواب نہیں دیا اور منہ پھیر لیا . میں جانتی ہوں امی آپ ہم سے ناراض ہیں اور آپ کی ناراضگی بھی بجا ہے مگر وہ سب غلط ہے ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں پلیز ہمیں معاف کردیں ، ہما کی معصومیت سے عاصمہ یک دم پگھل گئی اور روتے ہوئے بہو کو گلے لگا لیا ، ہمیں چھوڑ کر کہیں نا جانا بیٹی جی امی اور آپ کا بیٹا ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا مظفر صاحب کے آتے ہی دونوں شوہر بیوی معافی چاہنے لگے اولاد کتنی بھولی بھالی ہوتی ہے ماں باپ تو اسے ہمیشہ ہمیشہ چاہتے ہیں . وہ اشہر کو گلے لگاکر پیٹھ تھپتھپانے لگے . پر بیٹا پھر وہ بات چھوڑیے پاپا اس ذکر کو بھول جائیے اشہر کہتا ہوا وہیں مظفر صاحب کے ساتھ بیٹھ گیا۔
وہ سیدھا اپنے کمرے میں آگئی اور مسہری پر لیٹ گئی کچھ وقت کے بعد اشہر بھی اندر داخل ہوا ، ہما کے قریب بیٹھتا ہوا پوچھ بیٹھا " ہما وہاں میری ضرورت تھی اس لئے میں نے یہ فیصلہ لیا تھا اور آپ ہیں کہ سارا کیا کرائے پر پانی پھیر دیا ، وه فیصلہ اور اراده آپ کا تھا نہ میری امی کا اور نہ ہی میرا اور یہاں سب کے ذہنوں میں یہی بات گردش کرے گی کہ سسرال والوں اور بیوی نے ملکر اشہر کو اپنے طرف کرلیا " یہ سننا مجھے گوارا نہیں اور جس طرح آپ کو اپنی بیوی اور سسرال سے خلوص ہے اسی طرح سے مجھے بھی اپنے شوہر اور سسرال سے محبت ہے میں کیوں ان کی اولاد کو دوسروں کے حوالے کرونگی ، ہاں یہ بات بھی صحیح ہے وہ ذرا سر کھجاتا ہوا کہنے لگا ، ایک بات بتائیں یہ خیال آپ کے ذہن میں کیسے آیا ؟ آیا نہیں مجھے آپ کے ماما نے کہا ! کیا ؟ہاں ماما نے یہ مشوره دیا تھا اور میں ہلا عذر مان گیا بغیر کسی کی اجازت کے وه مسکراتا ہوا کہنے لگا . اچھا تو یہ ماما کا لگایا ہوا ہے فتنہ ارے اس میں برائی کیا ہے ؟ ان کے حساب سے وہ مشوره دیئےماننا یا نہ ماننا ہماری اپنی مرضی پر منحصر ہوتا ہے . اور آپ نے مان لیا ؟ جی ! کیونکہ میری جان کے لوگ پریشان ہیں تو میں نے حق وفا ادا کیا . پہلے حق والدين ادا کرلیجے اس کے بعد حق بیوی پھر حق سسرال وہ قہقہہ لگاتی ہوئی کہنے لگی ، آپ کی ہنسی سے دیکھو ساری فضا میں ترنگ سی بجنے لگی اچھا اور کیا اور ہماری تو دل کی دھڑکن رک سی گئی ہاے الله وه حیران ہوتی ہوئی کہنے لگی . الله کرے آپ ہمیشہ ہنستی رہے آمین . ثم آمين .
  اشہر کے گھر آجانے سے سب مطمئن سے ہوگئے تھے ردا کی شادی کے ہارے میں گھر میں چرچے شروع ہو گئے ، اچھے پر پوزل کے انتظار میں تھے کہ آتے ہی بیاه کردیں گے ، قبول صورت اور پڑھی لکھی خاموش طبیعیت کی ردا ہر کسی کو بھاجاتی تھی پھر ایک دن شرجیل کا رشتہ آگیا ، اچھے گھرانے کا سلجھا ہوا نوجوان تھا . تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور والد شکیل صاحب کی آٹو موبائل شاپ تھی . دو بھائی سعودی میں مقیم تھے اور شرجیل ماں باپ کے ساتھ یہیں دوکان کو سبنھالتا ہوا تھا . ہر لحاظ سے مظفر صاحب اور اشہر کو یہ رشتہ پسند آگیا اور بات آگے کو بڑھ گئی .
ہر رسم اور کاج کو بالکل سادگی سے انجام دیا جارہا تھا . شور شرابہ اور رسم ورواج سے اب انھیں بزارگی اور نفرت سی ہوگئی تھی ، وہ راس نہیں آئے انھیں ،
ویسے شکیل صاحب کے گھر والے بھی سادگی پسند تھے ، انھیں بھی کسی قسم کی کوئی حماقت پسند نہیں تھی .
پھر آگئی بہار اس آشیانہ میں ایک بار
خدا کرے کہ  خزاں ادھر نہ آئے کبھی
ردا کی وداعی ہوگئی سب کی آنکھیں نم تھیں ان کی چہیتی بیاه کر چلی گئی

زندگی کے رنگWhere stories live. Discover now