Episode one...Mera marz e mustamir...
کہانی میری سننے کو مت کیا کر ضد تیرا ضبط ٹوٹ نہ جائے میرے ضبط کی انتہا دیکھ کر
نوابوں کے شہر کی فضا میں فجر کی پہلی اذان گونج رہی تھی اَلصَّلٰوةُ خَیْرُ مِنَ النَّومْ
۔۔۔ اَلصَّلٰوةُ خَیْرُ مِنَ النَّومْ۔۔۔
بے شک نماز نیند سے بہتر ہے وہ اپنے عالیشان گھر کے خوبصورت پھولوں والے باغیچے میں کھڑی تھی وہ جھولا ابھی تک حرکت میں تھا جس پر بیٹھ کے وہ کچھ لمحے پہلے سورة نباہ کی تلاوت کر رہی تھی.یہ وہ سورة تھی جو اس نے ان دنوں حفظ کی تھی جب وہ دنیا کو چھوڑ رہی تھی یہ سورة اس کے لیے بہت خاص تھی تن پر سفید رنگ کی قمیض اور نیچے کھلے گھیر والی سفید شلوار اور سر سے پاؤں تک میرون رنگ کی سادہ شال میں لپٹی وہ چھوٹے قد کی لڑکی۔۔جس کی آنکھیں چھوٹی گہری بھوری تھیں اور پلکیں گھنی ، آنکھوں میں ایسا سکون کہ اگر کوئی بے چین تڑپتا ہوا ان آنکھوں میں جھانک لے تو وہ بھی لمحے بھر کو جینے کی تمنا کرے۔۔ گھنی پلکوں والی آنکھیں نم تھیں.بہاولپور کی شفاف سرد ہوا میں موذن اب اذان کے آخری کلمات کا رس گھول رہا تھا میرون شال میں لپٹی لڑکی کی چھوٹی آنکھوں سے ایک ننھا سا آنسو ٹپک کر اب باغیچے کے ایک خوبصورت سفید رنگ کے پھول پر جا گرا۔۔ جسے جھکے پھول نے بڑی نرمی سے اپنے اندر جذب کر لیا۔۔گویا کوئی عنایت ہوئی تھی ان آنکھوں سے آج اس پھول پر۔۔دسمبر کا مہینہ تھا ہوا سرد تھی بہت سرد اور یہی سرد ہوائیں جب اس کے وجود کو چھو کر گزرتی تو اسے سات سال پہلے کی وہ سردی کی راتیں یاد آتی جو اس نے سعودی عرب میں گزاری تھیں۔۔وہ ایک ایک پل۔۔ وہ کبھی تکلیف کا سردی میں اور بھی ذیادہ محسوس ہونا وہ کبھی سکون کی ایک چھوٹی سی جھلک کو اپنے گھر کی کھڑکی سے دیکھ کر خوش ہونا پھر وہ سارے پل کہ جب اسے لگتا تھا وہ دنیا جیت چکی اور پھر اپنے آپ کو انہی راتوں میں کہیں ٹوٹتا ہوا دیکھنا اور خاموش رہنا اور پھر کتنے ہی راز تھے ان سرد راتوں کے پاس اسکے۔۔۔یہ تو بس یا تو اللہ جانتا تھا یا وہ خود..
آج سات سال بعد بھی وہ اس مرض کی تکلیف کو محسوس کر سکتی تھی وہ ایسا مرض تھا جو دل سے شروع ہوتا اور روح تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ایسا درد تھا جس کا علاج تو سب جانتے ہیں مگر شفا یاب چند لوگ ہی ہوتے ہیں اور شفا بھی انہی لوگوں کو ملتی ہے جو شفا یاب ہونا چاہتے ہیں ۔۔۔اور پھر وہ باغیچے کے مختلف خوبصورت پھولوں کے جھمگھٹے کے بیچ میں کھڑی تھی کہ جب چھوٹی گھنی پلکوں والی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھی نازک گلاب کی پھنکری جیسے ہونٹوں نے جنبش کی نظریں ابھی تک نئے پر نور آسمان کو دیکھ رہی تھی چمکتی طمانیت سے بھر پور آنکھیں وہ جیسے خاموشی کو محسوس کر رہی تھی اپنے اندر کے شور کو کہیں فجر کے وقت کی خاموشی میں چھپا رہی تھی۔۔اور پھر جیسے کوئی پرانا راز آج اس نے کھول دیا تھا اپنی سہیلی قدرت کے سامنے "میرا مرض مستمر " نرمل کے ہونٹوں سے یہ لفظ نکلے اور چہرے پر تبسم کی لالی نے اپنے رنگ پھیلا دیے اب ماحول کا سناٹا مزید بڑھ گیا جیسے قدرت کا ذرہ ذرہ یہ راز سن کر حیران پریشان سا نرمل کو دیکھ رہا ہو جو ابھی تک خاموش کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
سورج کی پہلی کرن نے آسمان پر سرخی پھیلائی تو پرندے بھی گھونسلوں سے نکل کر آسمان کی طرف پرواز کرنے لگے کائنات کا ذرہ ذرہ صاف شفاف اور ٹھنڈی صبح کے دامن میں اپنے آپ کو سردی سے بچانے میں مصروف تھا۔۔زندہ دلان لاہور کے علاقے اقبال ٹاون کی طرف جاو تو یہ علاقہ ابھی جیسے نیند کے نشے سے مکمل طرح سے باہر نہیں آیا تھا ۔۔ اور یونہی اقبال ٹاون کی ایک گلی میں اگر مڑیں تو چھوٹے بڑے خوبصورت گھروں کی قطار میں سب سے آخر میں ایک چھوٹا مگر سبزے سے سجا ہوا بنگلہ بھی نظر آتا جس کے کالے گیٹ کے باہر سنہری حروف میں لکھا "The Ahmeds house" اپنی پوری شان و شوکت سے چمک رہا تھا۔۔گیٹ سے اندر داخل ہوں تو سامنے پورچ خالی نظر آتا اور پورچ سے ایک طرف بائیں ہاتھ پر ایک بے حد خوبصورت لان تھا جس میں تقریبا ہر سبزی کا پودا تھا اور انواع و اقسام کے پھول ہر طرف کھلے ہوئے تھے لیکن اس باغیچے کی سب سے خاص بات تھی اس کے بلکل ایک طرف لگے سفید گلاب۔۔ وائٹ روز کے پودے کے پھول یوں کھلے نکھرے ہوئے تھے جیسے اپنی نزاکت خوبصورتی پر اترا رہے ہوں پھول واقعی خاص لگ رہے تھے وہ یقینا اس لان کے مالک کے بھی پسندیدہ ہوں گے اور وہ اس بات کی گواہی خود دے رہے تھے گھر کی رہ داری عبور کرنے کے بعد اگر اندر داخل ہوں تو سامنے اوپر کی طرف سیڑھیاں جاتی تھی گھر کی ہر چیز میں سفید رنگ کا ٹچ دیا گیا تھا ۔۔اوپر لاونج تھا پھر دائیں طرف ایک قطار میں تین کمرے تھے آخری کمرے میں بالکونی میں ایک لڑکی کی پشت دکھائی دیتی تھی کالے ریشمی گیلے بال کمر سے نیچے تک ڈھلک رہے تھے اور تن پر ٹریک سوٹ تھا کالی گول گول چمکیلی آنکھیں موبائل کی سکرین پر جمی تھی۔۔ کچھ لمحے گزرے اور کوئی سرد ہوا کا جھونکا آ کر اس کے وجود سے ٹکرایا تو روح کے اندر تک ٹھنڈ کا جھٹکا محسوس ہوا اور وہ دفعتا پیچھے کی طرف گھومی اتنے میں کمرے کا آدھ کھلا دروازہ کسی نے دھماکے سے پورا کھولا اور ایک ادھیڑ عمر خاتون سر سے پاوں تک اوف وائٹ چادر میں لپٹی نہیف ہاتھوں میں چائے کا کپ لیے اندر داخل ہوئیں ۔۔۔ " ہائے میرے اللہ !!! ۔۔۔ مشکت ۔کیا حال بنا رکھا ہے تو نے اپنا۔۔۔نی تجھے سردی نہیں لگتی ؟؟ تو نے تو کچھ اوڑھا ہوا بھی نہیں ہے اور اوپر سے نہا کر بالکونی میں کیا کر رہی ہو ؟؟ یہ کیا سارا پاگل پن میری ہی اولاد کو ہونا تھا اب یہ کونسا نئا سٹائل ہے کہ اتنی ٹھنڈ کے موسم میں یہ پتلی پتلونیں پہن کر نہا کر بالکونی میں کھڑے ہو جاو اب اگر بیمار ہوئی تو مت آنا میرے پاس ستیا ناس ہو کسی کو میری بات سمجھ ہی نہیں آتی ۔۔۔ "اف ماما مشکت ہڑبڑائی ۔۔۔
جا رہی ہوں نا مجھے میری کولیگ سے بات کرنی تھی اور انٹرنیٹ کے سنگلنز یہاں نہیں آ رہے تھے اس لیے بالکونی چلی گئی"
"بھاڑ میں جائے تیری کولیگ تیرا نیٹ اور تیرا یہ موبائل صائمہ بیگم مزید بھڑک گئیں" "
اوہ ہو میری ماما میری پیاری ماما " مشکت نے معصومانہ انداز اپنایا " کچھ نہیں ہوتا نا ماما دیکھیں میں پہن رہی ہوں ۔۔ مشکت اب بیڈ کی طرف مڑی جس پہ گرے رنگ کا سویٹر اور سیاہ شال پڑی تھی ۔۔ جھٹ سے اٹھائی اور پہننے لگی ۔۔اماں کا غصہ اب کافی حد تک تھم چکا تھا سویٹر پہننے کے بعد اس نے گیلے بالوں کا ہلکا سا جوڑا بنایا اور شال چہرے کے گِرد اوڑھ لی۔ اس کا چاند سا چہرہ اور خوبصورت سفید چمکتا رنگ اب اور بھی زیادہ چمکنے لگا تھا اور وہ اب یہ سب پہن کر جتانے والے انداز میں صائمہ بیگم کا اطمینان حاصل کر رہی تھی۔۔ اماں اپنی راج دلاری کو دیکھ کو اب مسکرا رہی تھیں (سدا کی بلیک میلر ہے میری اولاد)۔۔"اچھا یہ چائے کا کپ تو دے دیں اب۔۔ یا اس پہ بھی ڈانٹ پڑے گی" مشکت نے اپنے پاوں پر خود کلہاڑی ماری ۔۔" ہاں ہاں لو پکڑو پچیس سال کی ہو گئی ہو تم اور اب تک بوڑھی ماں تمہیں چائے پلائے واہ میڈم" ۔۔۔ اماں کہتے کہتے کمرے سے باہر چلی گئی اور مشکت عادتا
شرارت بھری مسکراہٹ دبائے اپنی معصوم سی ماں کو جاتے دیکھتی رہی دروازہ بند ہوا تو مشکت نے جیسے گہرا سانس باہر کیا ۔۔ "صبح کی ڈوز پوری ہوئی " چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے اب وہ بالکونی کی طرف واپس چلی گئی اور پھر وقفے وقفے سے گھونٹ بھرتی روشن صبح کا نظارہ دیکھتی وہ پر سکون نظر آتی تھی۔۔ کچھ لمحے کچھ سانیے بیتے تھے کی اچانک مشکت کا فون بجنے لگا ۔۔ ""الارم ۔۔۔اوہ میرے خدایا !! آج تو سنڈے ہے۔۔مشکت آندھی طوفان کی طرح پیچھے کی طرف مڑی بالکونی کا دروازہ بند کیا پھر اپنی الماری سےپرس نکالا سائڈ ٹیبل پر سے کچھ اٹھانے گئی تو چکرا گئی۔۔چابی؟؟ گاڑی کی چابی کہاں گئی رات کو تو یہیں تھی اففف بھائی !! کچھ گہرے سانس لے کر کمرے کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ مشکت اور خالد (مشکت کا چھوٹا بھائی) کے کمرے کے بیچ میں ایک کمرہ تھا جس کا دروازہ آدھا کھلا تھا مشکت سھماکے کے ساتھ اندر داخل ہوئی کمرہ نہ زیادہ بڑا تھا نہ زیادہ چھوٹا مگر بہت نفاست سے سجایا گیا تھا فرنیچر کے نام پربیڈ الماری اور ڈریسنگ ٹیبل تھے اور سب کے سب سفید
سیاہ چادر بیڈ کے کونوں سے ہٹی ہوئی تھی اور بستر پر سلوٹیں پڑی ہوئی تھی یوں جیسے کوئی ابھی ہی اس بستر پر سے سو کے اٹھا ہو۔۔ بھائی۔۔!!
مشکت بوکھلائی ہوئی تھی سانس پھولا ہوا تھا مگر پورا گلا پھاڑ کر وہ چلائی تھی۔۔ پھر وہ باتھ روم کی طرف گئی تو باتھ روم کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا وہ کمرے میں نہیں تھا ۔۔ تو پھر کہاں تھا ؟؟مشکت حواس بختہ سی کمرے سے باہر نکلی اور ٹیریس کی طرف گئی جیسے ہی نیچے نظر پڑی تو پورچ خالی تھا۔۔۔ ستیا ناس !! بھائی گاڑی لے گیا۔۔ اففف سر پکڑے کھڑی مشکت غصے اور دکھ سے لال پیلی ہو رہی تھی"" اف اللہ !! صبح صبح کیا شور مچا رکھا ہے ۔""۔
نادیہ بھابھی بھی دروازوں کے مسلسل بجنے کے شور سے جاگ چکی تھیں مشکت نادیہ کی آواز پر چونکی " بھابھی آپکا شوہر کہاں ہے ؟؟ " مشکت کا یہ انداز نادیہ کے لئے نئیا نہیں تھا۔۔"" وہ سو رہے ہیں" ۔۔نادیہ نے ایک ہاتھ منہ پر رکھے جمائی روکتے ہوئے جواب دیا "تو پھر گاڑی کہاں ہے" ؟ مشکت نے پھر سوال کیا۔۔ نادیہ نے اچنبے سے پہلے مشکت کو دیکھا پھر ذرا آگے کو جھک کر نیچے پورچ کی طرف دیکھا تو پورچ واقعی خالی تھا پھر جیسے کچھ یاد کرنے لگی " اوہ تمہارا بڑا بھائی گیا ہے کسی کام سے گاڑی لے کے تہجد کے وقت جاتے دیکھا تھا میں نے انہیں " نادیہ اب مشکت کی طرف دیکھ رہی تھی جو کسی خیال اور غصے سے لال سرخ ہو رہی تھی !! ""تمہیں کیا ہے ؟ کہاں جانا تھا آج تو ویسے بھی سنڈے ہے اور وہ بھی اتنی صبح ابھی تو بازار بھی نہیں کھلے ہونگے !""! نادیہ کے سوال پر مشکت پھٹ پڑی "بھابی آپ کو پتہ ہے نا اگلے ہفتے صوبیہ کی شادی ہے اور میں نے کل رات بھائی سے ڈیل کی تھی کہ آج مجھے شوپنگ پر لے کے جائیں گے اور وہ مان تک گئے تھے اور اب غائب یہ کیوں ایسا کرتے ہیں میرے ساتھ ۔۔ میرے ساتھ کیا سب کے ساتھ اگر کوئی کام تھا تو بتا دیتے میں کچھ اور انتظام کر لیتی اس طرح کیوں چلے گئے بغیر بتائے ضرور خود دوستوں کے ساتھ گئے ہونگے گھومنے ۔""۔
مشکت رو رہی تھی گول گول آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ لال گالوں پر بہہ رہے تھے۔۔
""یار کچھ نہیں ہوتا نا تم پریشان مت ہو آجائیں گے لے جائیں گے تمہیں ابھی تو پورا ایک ہفتہ پڑا ہے"" نادیہ کو اپنے سوال پر جیسے پچھتاوا ہوا تھا۔۔
مشکت نادیہ کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے ٹیریس سے چلی گئی۔۔نادیہ بیچارگی سے مشکت کو جاتے دیکھتی رہی
************************************
ڈر تھا جس سانحے کا وہ ہو گیا ہے "
"تیری یادوں کا اثر دل پہ ہو گیا ہے
YOU ARE READING
میرا مرض مستمر
Spiritualمیرا مرض مستمر اب آپ پڑھ سکتے ہیں اردو میں بھی ۔۔ایک ایسی کہانی جو ہم سب کو زندگی کی حقیقت دکھاتی ہے۔۔عشق اے مجازی سے عشق اے حقیقی کا سفر طے کرنا سکھاتی ہے۔۔۔