EPISODE 5

366 35 9
                                    

Mera marz e mustamir Episode 5

by Nimrah Abbas

حافظ آباد کی سرد ہوائیں اور اندھیری رات آج اُسے بلکل بھی اچھی نہیں لگ رہی تھیں روز
وہ اس ٹائم جب سب گھر والے سو جاتے تو اپنے سب سے عزیز شخص سے باتیں کرتی تھی۔۔۔اور عزیز شخص سے شاید رات کی تاریکی میں گھر والوں سے چھپ کر موبائل پر بات کرنا ہی آج کل کی محبت کہلاتی ہے۔۔۔
مگر جب یہی محبت  دن کی روشنی میں رنگ دِکھاتی ہے نا تو۔۔۔تو دن میں تارے نظر آجاتے ہیں۔۔۔
"کتنی آرام سے آپ نے ہاں کر دی اس چڑیل سے شادی کیلئے۔۔۔میری تو فکر ہی نہیں ہے آپ کو۔۔۔" اس نے روتے ہوئے موبائل پر میسج ٹائپ کیا۔۔۔اور بھیج دیا۔۔۔اور پھر سے رونے بیٹھ گئی کچھ ہی سیکنڈ میں جواب موصول ہوا،سبز بتی جلنے لگی۔۔"یہ سب تمہارے لیے تو کر رہا ہوں۔۔۔تمہیں نہیں پتا ہمارے سب مسئلے ہمیشہ کیلئے ختم ہونے والے ہیں یہ کلینک میرے نام لگ چکا ہے۔۔۔اور تمہیں کس نے کہا کہ میں شادی کروں گا۔۔میں صرف تمہارا ہوں اِرم۔۔۔ارحم صرف تمہارا ہے۔۔۔"جواب پڑھ کر اسکی آنکھیں گویا خوشی سے چمک اُٹھیں اور پھر  سےسکرین کے اوپر تیز تیز اُنگلیاں چلانے لگی ٹھک ٹھک۔۔۔
"ہاں تو بس میں نے بھی جتنا زیور تھا آماں کا سب بیچ دیا ہے۔۔۔اور جتنی رقم آپ نے کہی تھی اسکا بندوبست ہوگیا ہے۔۔۔بس ارحم۔۔۔
مجھے اپنے نکاح میں لے لیں۔۔۔میں اب نہیں رہ سکتی اتنا بڑا قدم اُٹھا چکی ہوں اب تو اعتبار کر لیں۔۔۔" اس نے آنسو پونچھتے ہوئے پھر سے میسج ٹائپ کیا۔۔۔
"پاگل لڑکی۔۔۔تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔تمہارے لئے ہی یہ سب کر رہا ہوں۔۔۔اور بہت جلد ہم نکاح کر لیں گے۔۔۔میں  سب ٹھیک کر دونگا۔۔۔اور اب تم بھی سکون کرو۔۔۔رات بہت ہو گئی ہے۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔:)"
جواب پڑھ کر اس نے سکھ کا سانس بھرا اور مسکراتے ہوئے آنسو پونچھ کر سر تکیے پر رکھ دیا۔۔۔کیسی بےحس دنیا ہے۔۔۔ایک دوسرے کی خوشیاں چھین کر خوش ہوتی ہے کیسے لوگ ہیں ایک دوجے کا جینا حرام کر کے سکون حاصل کرتے ہیں۔۔۔کہیں تو ہر سو محبت کے رنگ بکھرے ہوئے تھے تو کہیں راہ میں ہر طرف کانٹے بچھے ہوئے تھے۔۔۔نرمل جائے تو کہاں جائے کیا ہر کوئی اسی طرح اسکے جذبات اسکی خوہشات اور اسکے خوابوں کے ساتھ کھیل کر آگے نکل جائیگا۔۔۔
یا پھر اسکی زندگی میں بھی محبت کی بستی آباد ہوگی۔۔۔مگر کب۔۔۔!!!؟؟؟

***********************************
"تمہارے پاپا نے کہا ہے کہ تمہیں ساتھ شاپنگ پر لے جاؤں۔۔۔تم خود پسند کر لینا جو اچھا لگے۔۔۔اور آئمہ اسما کو بھی لے لینگے۔۔"پروین مسکراتے ہوئے نرمل سے کہہ رہی تھیں۔۔۔جو خاموشی سے کتاب میں کچھ لکھ رہی تھی۔۔۔
"نہیں مما آپ چلی جائیں۔۔۔یہ نکاح کا جوڑا آپ خود ہی لے آئیں۔۔۔آگے میں آپکے ساتھ چلی جاؤں گی۔۔۔" نرمل نے بےتاثر لہجے میں کہا تو پروین جو شیلف میں کتابیں سیٹ کر کے رکھ رہی تھیں رُک گئیں اور مُڑ کر نرمل کو دیکھنے لگیں جو پھر سے لکھنے میں مصروف ہوگئی تھی۔۔۔"کیا مطلب؟۔۔۔آگے؟۔۔۔نرمل تم ہماری اِکلوتی اولاد ہو ہم چاہتے ہیں کہ تمہاری شادی دھوم دھام سے کریں اور تم ہو کہ۔۔۔"پروین نے اَفسوس سے کہا۔۔۔
مما۔۔۔دھوم دھام؟۔۔۔کیسی دھوم دھام؟۔۔۔جب نکاح سادگی سے ہوسکتا ہے تو دھوم دھام کی کیا ضرورت ہے؟؟
کیا ہمارے دین میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ نکاح پر لاکھوں خرچ کئے جائیں تب ہی نکاح ہوگا ورنہ نہیں۔۔۔؟؟"نرمل کا لہجہ نرم تھا مگر پروین اسکی بات سن کر حیرت سے اسے دیکھتی گئیں۔۔۔"یہ تم کہہ رہی ہو نرمل؟۔۔یاد ہے تم جب چھوٹی تھی تو کیا کہتی تھی کہ تمہیں بڑے بڑے فانوس لگے ہوئے خوبصورت شادی ہال پسند ہیں اور یاد کرو جب تمہاری مومنہ خالہ کی شادی ہوئی تھی اور میوزک نہیں چلایا گیا تھا کیونکہ تمہارے چچا نے منع کیا تھا تب تم کیسے غصہ ہوگئی تھیں۔۔۔
اور اب جب تمہاری اپنی خوشی ہے تو تم اس طرح اس کہہ رہی ہو۔۔؟
اس کو کس نے بدلہ تھا۔۔۔لوگوں نے یا حالات نے۔۔۔یہ بات تو پروین بھی نہیں سمجھ پاتی تھیں۔۔۔
"جانتی ہوں مما جان۔۔۔" نرمل افسردگی سے مسکرائی۔۔۔"جانتی ہوں سب یاد ہے۔۔۔کہ میں کیسی تھی۔۔۔مگر اس وقت بچی تھی مجھے یہ دنیا کی روشنیاں بڑے بڑے فانوس شینائیوں کی آواز سے گونجتے شادی حال اور رنگینیاں پسند تھیں مجھے لگتا تھا کہ میں ان روشنیوں میں رہونگی تو کبھی اندھیرا میرا تعقب نہیں کریگا۔۔۔مگر اب جان گئی ہوں کہ حقیقت کچھ اور ہے۔۔۔اندھیرا اگر نصیب میں لکھا ہو تو کوئی اسے بچ نہیں سکتا۔۔۔مما جانی۔۔۔ آپ جب جائیں شاپنگ کے لئے مجھے بتا دیجئے گا۔۔۔"وہ افسردگی سے مسکراتے ہوئے پروین کے ماتھے کا بوسہ لے کر کمرے سے چلی گئی۔۔۔مگر پروین کو پیچھے بہت سے خیالات نے گھیر لیا۔۔۔انکی بیٹی خوش نہیں ہے۔۔۔وہ جانتی تھیں۔۔۔مگر جو بات اس نے آج کہی وہ انہیں دل پر لگی تھی۔۔۔
****************************
اللہ کس طرح سے بند دروازے کھولتا ہے اندھیری رات کے بعد کس طرح روشن سویرا کرتا ہے انسان اس سے بلکل بےخبر ہے مگر دروازے کھلتے ہیں دیر سے سہی بہترین وقت پر بہترین طریقے سے۔۔۔
"اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔"
(سورۃ یوسف ۸٧)
اگلی ہی دوپہر مینار اور موحد  سیٹھ ابراہیم کے پاس پہنچ گئے تھے۔۔۔اور مینار کے لئے وہ دن شاید اسکی زندگی کا پرسکون دن تھا۔۔۔اسے جاب مل گئی تھی۔۔۔ایک اُمید۔۔۔روشنی کی کرن۔۔۔اور خوابوں کا ٹھکانہ۔۔۔سیٹھ ابراہیم نے اُسے کمپنی کی طرف سے ایک آپارٹمنٹ میں شفٹ کردیا تھا۔موحد ایک دن مینار کے ساتھ رہا اور پھر وہ واپس لاہور آگیا۔۔۔واپسی پر موحد کو بہت سارے خیالوں نے اُلجھایا ہوا تھا۔۔۔
وہ باہر سے جتنا لاپرواہ اور خوش دکھائی دیتا تھا اندر سے اتنا ہی حساس اور فکر کرنے والا شخص تھا۔۔۔اب بھی اسے اپنے دوست کی فکر تھی۔۔۔وہ کیسے وہاں رہے گا اور کب تک اکیلا رہے گا۔۔۔وہ چائے پینے کیلئے ایک ہوٹل پر رُکا۔۔۔جونہی وہ گاڑی سے باہر نکلا اسکا فون بجنے لگا اور سکرین پر مینار کا نمبر چمک رہا تھا۔۔۔اس نے جھٹ سے کال رسیو کی۔۔۔
"کیا ہوا سیٹھ نے منع تو نہیں کردیا۔۔۔؟ گاڑی موڑوں؟" 
نا سلام نا دعا ہمیشہ کی طرح اس نے سیدھا مینار کے زخموں پر نمک چھڑکا آگے سے جواب بھی برابر کا آیا تھا۔۔۔
"وعلیکم اسلام۔۔۔نہیں معاف کرنا تمہاری یہ آخری خواہش پوری نہیں ہوسکے گی۔۔۔سنو بیکار آدمی مشکت کو آج آفس سے پک کرلو عاصم کسی کام سے سرگودھا گیا ہے اور گاڑی پھر سے خراب ہے۔۔۔مینار ایک ہی سانس میں حکم نامہ سنا گیا۔۔۔
"ایکسکیوز می؟۔۔۔میں لاہور گاڑی پر جا رہا ہوں جہاز پر نہیں جو تمہاری محترم بہن کو آفس سے بھی پک کرلوں ہنہ ہنہ۔۔۔"
موحد کو کچھ اور خوف تھا اس لئے وہ ٹالنا چاہ رہا تھا لاہور تو وہ کب کا پہنچ چکا تھا۔۔۔
"جس طرح سے تم گاڑی چلاتے ہو جہاز سے کم رفتار نہیں ہوتی اسکی اور ویسے بھی میں میتھس میں کافی اچھا ہوں۔۔۔
وہ الگ بات ہے کہ یہ میں نے کبھی اپنے ٹیچرز کو بھی نہیں ثابت کر کے دکھایا نظر لگ جاتی تو۔۔۔؟ اول تو تم میرے حساب کے مطابق لاہور کے حدود میں ہو اور اگر نہیں تو آدھے گھنٹے بعد ہو جاؤ گے اور پھر مشکت کا آفس تمہارے گھر کے قریب پڑتا ہے اس لئے کوئی بھی بہانہ کئے بغیر میری بہن کو پورے ٣ بجے آفس سے پک کرلینا۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔"
مینار نے جلدی جلدی بات ختم کر کے کال ٹھک سے بند کردی کیونکہ وہ جانتا تھا موحد جوابی حملہ ضرور کریگا۔۔۔وہ موحد ہی کیا جو اگلے پر جوابی بمباری نہ کرے۔۔۔
"کیا میں پوری دنیا کا غلام ہوں؟ سب کو میں ہی  بیکار لگتا ہوں۔۔۔ہنہ ہنہ۔۔میری کوئی زندگی نہیں ہے نا۔۔۔میری کوئی ٹینشنز نہیں ہیں ۔میں تو انسان ہی نہیں ہوں۔ میں تو جن ہوں۔۔۔جن۔۔۔وہ بولتے بولتے رُکا۔۔۔"ہیں نہیں۔۔۔جن نہیں ہوں۔۔۔یہ میں کیا بول رہا ہوں خود کو۔۔۔" اس نے اپنے آپ کو صفائی پیش کی۔۔۔اتنے میں چھوٹا لڑکا چائے کا کپ لے کر آگیا۔۔۔وہ شلوار قمیض میں ملبوس کوئی ١۰ ١١ سال کا بچا تھا میلے کپڑے تیل سے چپڑے بال شدید ٹھنڈ میں بھی پتلی سی پرانی سویٹر پہنے وہ مسکراتے ہوئے سب کو چائے پیش کر رہا تھا۔۔۔موحد کو افسوس ہوا۔۔۔اور اسے اسکی ماں کی کہی ہوئی ایک بات یاد آئی۔۔۔"بیٹا جب لگے نا کہ زندگی میں مشکلات ہیں اور ناشکری پر اُتر آؤ تو بس اپنے سے کمتر کو دیکھ لینا تم خود شکر اور صبر کرنا سیکھ جاؤ گے۔۔۔" یہ بات اسے بچپن میں کبھی بھی سمجھ نہ آئی تھی مگر آج اُس بچے کو دیکھ کر موحد کا دل بھر آیا تھا۔۔۔کہیں دور سے ظہر کی اذان کی آواز آرہی تھی۔۔۔اس نے چائے کا گھونٹ بھر کر اذان کو محسوس کیا۔۔۔سکون کا اَلم تھا۔۔۔پھر اس نے دیکھا وہی بچہ سارے کام چھوڑ کر گھڑے کے پانی سے وضو کر رہا تھا پھر اس نے چٹائی اُٹھائی اور کچی زمین پر بچھا دی۔۔۔
وہ نماز پڑھ رہا تھا۔۔۔موحد بس ساکت نگاہوں سے اُسے دیکھے گیا۔۔۔وہ جب سجدہ کرتا ہوگا تو کیا سخت پتھریلی زمین اسکے گھٹنوں کو چبھتی نہیں ہوگی۔۔۔؟ وہ جب ٹھٹھرتی سردی میں کھڑا ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا ہوگا تو اسکی روح نہیں کانپتی ہوگی۔۔۔؟ وہ جب سلام پھیر کر دعا کیلئے ہاتھ اُٹھاتا ہوگا تو کیا اُسے اپنی زندگی بنانے والے سے شکوہ نہیں ہوتا ہوگا۔۔۔وہ مایوس نہیں ہوتا ہوگا۔۔۔؟
وہ بھی تو انسان ہے۔۔۔اور میں بھی۔۔۔مگر۔۔۔ہم میں کتنا فرق ہے۔۔۔وہ شکرگزار ہے۔۔۔شکرگزاری انسان کو مایوس نہیں ہونے دیتی اسکے لئے یہ پتھریلی زمین ہی نرم قالین ہے۔۔۔اور یہ ٹھنڈا پانی جس سے وہ وضو کرتا ہے یہ اسکی روح کو صاف کرتا ہے پاک کرتا ہے۔۔۔وہ میلے کچیلے لباس والا لڑکا کتنا پاکیزہ ہے۔۔۔اور ایک میں ہمیں مجھے سب میسر ہے۔۔۔گرم پانی، جس سے میں وضو کرسکتا ہوں۔نرم قالین، کہ جس پہ خوبصورت جائےنماز بچھا کر میں بآسانی نماز ادا کر سکتا ہوں اور بہترین لباس بھی جسکو اوڑھ کر میں سردی سے محفوظ رہ سکتا ہوں مگر میں پھر بھی نماز نہیں پڑھتا۔۔۔کیونکہ۔۔۔کیونکہ میں شکرگزار نہیں ہوں۔" موحد کی آنکھیں نم تھیں لڑکا سلام پھیر چکا تھا اور اب وہ ہاتھ اُٹھائے دعا مانگ رہا تھا۔۔۔موحد کی سوچوں نے اسکے اندر کے انسان نے آج اُسے ایک اور سبق سکھا دیا تھا۔۔
ساری اُلجھنیں منٹوں میں غائب ہوگئیں۔۔۔اس نے آج ایک فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔١١سال کے لڑکے نے ۲۹سال کے موحد کو زندگی کا مقصد سمجھا دیا تھا۔۔موحد اُٹھا اور جا کر منرل واٹر کی بوتل خریدی اور اس سے وضو کیا،وضو کرنے کے بعد اسی بچے سے چٹائی لی اور بچھا کر نماز کیلئے کھڑا ہو گیا۔وہ پہلے ہی اپنی زندگی کا ایک اہم اور بڑا حصہ لاپرواہی میں گزار چکا تھا۔آج جو احساس اُسے ہوا تھا اسکے بعد وہ خود میں اتنا حوصلہ نہیں رکھتا تھا کہ اب اور خود کو ناشکری کی راہ پہ رکھتا اور اللہ سے دور رہتا اسی لئے وہ فوراً نماز کیلئے نیت باندھ کہ کھڑا ہوگیا تھا۔
اور ویسے بھی نماز ایک ایسی چیز ہے جس کو اگر کل پہ چھوڑ دو تو وہ کل پہ ہی رہ جاتی ہے اور پھر وہ کل کبھی نہیں آتی ہے۔انسان بس سوچتا ہے کچھ لمحوں کا اثر ہو تا ہے اور پھر دنیاوی کاموں میں الجھ کر وہ اپنا عہد فراموش کر جاتا ہے۔اس لئے اس پر عمل اسی لمحے ضروری ہوتا ہے۔اور موحد نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔سلام پھیر کر اس نے دعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے وہ اپنے اللہ کے سامنے ہاتھ اُٹھائے معافی مانگ رہا تھا شرمندہ تھا اتنے سال گمراہی میں گزار دینے پر اور شکر ادا کر رہا تھا ربّ کعبّہ کا جس نے اسکی بقیہ زندگی کو ضائع ہونے سے بچا لیا تھا اسے ہدایت دی تھی توبہ کا موقع عطا فرمایا تھا۔
آج جو سکون اس نے اپنے دل میں اُترتا محسوس کیا تھا اس پوری دنیا میں اسکا نعم البدل کہیں نہ تھا۔دعا مکمل کر کے اس نے ہاتھ چہرے پر پھیرا اور اُٹھ کھڑا ہوا اور واپسی کا سفر پھر سے شروع کیا۔
************************************
یہ کیسے ممکن ہوا نرمل کے تمہیں آج تک کسی سے محبت نہیں ہوئی؟مطلب تم بہت عجیب ہو یار   تمہیں کتنے لڑکوں نے یونی میں  اپروچ بھی کیا پھر بھی تمہیں کبھی کسی سے محبت  نہیں ہوئی؟۔۔اور اب ارینج میریج کر رہی ہو وہ بھی اپنے کزن سے۔۔۔"؟ اسماء تجسس سے ٹیبل پر ہاتھ رکھے سامنے بیٹھی مصروف سی نرمل سے پوچھ رہی تھی وہ لوگ اسلامیہ یونیورسٹی ایل ایل بی ڈیپارٹمنٹ میں  لیکچرز دینے جاتی تھیں لیکچرز کے بعد اکثر وہ کیفیٹیریا میں بیٹھ کر باتیں کرتیں یا پھر لائبریری چلی جاتیں اور اب بھی وہ لوگ لائبریری میں ہی تھیں۔۔" اسماء زندگی میں اور بھی بہت مقاصد ہوتے ہیں صرف محبت کرنا یا محبت پانا ہی نہیں۔۔" نرمل نے کتاب بند کرتے ہوئے کہا اور آسماں کی طرح ٹیک  چھوڑ کر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ", یار بٹ سٹرینج کے ہم سب کو محبت ہوگئی پر تمہیں نہیں ہوئی کیا تم انسان نہیں تمہارے پاس بھی تو فیلینگز ہونگی  نا؟
معصوم سے آسما  کو ابھی اور بھی سوال کرنے تھے نرمل کو اپنی دوست کے اس  انداز پر بہت پیار آیا وہ کچھ دیر مسکراتے ہوئے آسما کو دیکھتی رہی اور پھر گویا ہوئی اسماء تم  نے اگر ایف-ایس-سی کی ہوگی تو تمہیں بائیولوجی کا وہ پتھوجنس (pathogens and immunity) امیونٹی والا  چپٹر یاد ہوگا ۔اس میں ایک ٹاپک تھا ایکٹیو امیونیٹی(immunity) کا کہ جب انسان کو کوئی مرض لاحق ہوتا ہے تو انسان کا امیون سسٹم اس مرض کے خلاف ایک فوج تیار کرتا ہے جس کو اینٹی بوڈیز کہتے ہیں اور یہ اینٹی بوڈیز یا فوجی مرض سے لڑتے ہیں اور اسے ختم کر دیتے ہیں۔ مرض کے ختم ہو جانے کے بعد کچھ اضافی اینٹی بوڈیز انسان کے امیون سسٹم میں سٹور ہو جاتے ہیں تاکہ اگر مستقبل میں پھر سے انسان اس پرانے مرض میں مبتلا ہونے لگے تو یہ اینٹی بوڈیز اسے پہچان لیں اور جان لیوا ہونے سے پہلے ہی ختم کردیں۔بس سمجھ لو میرا بھی کچھ ایسا ہی حساب ہے۔ وہ ایک لمبا سا لیکچر دے کر ٹھنڈا سانس بھر کر پھر سے کتاب کھولنے لگی۔" یا میرے اللہ تم کیا بولتی ہونے نرمل میں نے کیا پوچھا اور تم نے کیا جواب دیا میرے تو سر کے اوپر سے یہ ساری  تھیوری گزر گئی۔ بائیو اگر میرے پلے پڑتی تو آج میں وکیل نہیں ڈاکٹر اسما ہوتی" اسماء منہ بنا کر اٹھ گئی اور پیچھے نرمل خاموشی سے بیٹھی صفحے پلٹ تی رہ گئی .ساری دنیا کا یہی مسئلہ ہے گہری باتیں کرنے والوں کو پاگل سمجھتے ہیں دیوانہ اور مجنوں کہہ کر پکارتے ہیں ان کی باتوں کی گہرائی کو سمجھنے سے قاصر یہ لوگ پھر گلا بھی کرتے ہیں کہ ایسے لوگ اپنے راز اپنی کہانیاں اپنی اُلجھنیں ان سے بیان کیوں نہیں کرتے۔ جبکہ وہ لوگ کرتے ہیں سب کچھ بتاتے ہیں سچ سچ بتاتے ہیں مگر لوگ غور نہیں کرتے دھتکار کر چلے جاتے ہیں ایک بار بھی مطلب جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر آسما ایک بار بھی مجھ سے پوچھتی  کہ اس بات کا اس کے سوال سے کیا تعلق ہے تو میں اسے سب کچھ بتا دیتی یہ لوگ بس پوچھتے ہی تو نہیں سب کچھ خود ہی تصور کر لیتے ہیں اسماء بہت دور چلی گئی تھی پر نرمل کے ذہن کو سوچوں کے جال نے پھر سے اپنے اندر پھسا لیا تھا

میرا مرض مستمر Where stories live. Discover now