Episode 4..Mera marz e mustamirby Nimrah Abbas
آ گیا ہمارا لاہور ۔۔ موحد نے بتیسی نکال کر پُر جوش نعرہ لگایا اور گردن گھما کے بائیں طرف دیکھا تو حسب معمول مینار پوری مویشی منڈی بیچ کر سو رہا تھا موحد اسے سوتا دیکھ کر پھیکا سا ہو گیا ۔۔ بتیسی واپس غائب ہو گئی اور ساری خوشی مصنوعی غصے میں تبدیل ہو گئی ۔۔ کچھ دیر وہ سوچتا رہا اور دی احمدز ہاوس کی طرف دیکھتا رہا جس کا داخلی دروازہ معمول کے خلاف کھلا ہوا تھا موحد کی بتیسی پھر باہر نکل آئی برمودا ٹرائی اینگل میں کسی شرارت نے جنم لیا ۔۔اور پھر کیا تھا موحد نے ایک پر عظم نگاہ ساتھ معزور سے پڑے مینار پر ڈالی مینار کے موبائل پہ لپکا اور پھر گاڑی سے باہر نکل گیا گاڑی کو باہر سے لاک کیا اور
"مانی تو ابھی موحد بلوچ کو جانتا نہیں ہے
سو لے پتر آج کے بعد تو غلطی سے بھی گاڑی میں نہیں سوئے گا ۔۔يسسسسسس."
وہ معنی خیز مسکراہٹ چہرے پر سجائے اب احمد ہاوس کے داخلی دروازے کی جانب بڑھ گیا پیچھے مانی اس بات سے بے خبر کہ اس کا جگری یار اسے گاڑی میں لاک کر کے کہاں غائب ہو رہا ہے پڑا سوتا رہ گیا ۔موحد جب داخلی دروازے پر پہنچا تو پہلے گردن اندر کر کے ایک تفتیشی نگاہ سے پوری جگہ کا جائزہ لیا اور پھر آگے کا منظر دیکھ کر وہ چونک گیا
دی احمدز ہاوس کے چھوٹے مگر خوبصورت سے باغیچے کے پھول پودے سرد ہوا کے زور پر جھول رہے تھے اور پانی کی بوندوں کو جیسے سردی کی شدت کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنے اندر جذب کر رہے تھے اور پاس ہی گول آنکھوں والی لڑکی جس نے تن پر گرے سویٹر اور چہرے کے گرد بلیک شال لپیٹی ہوئی تھی وہ کوئی دھن زیر لب گنگناتی پائپ پکڑے ایک طرف سے دوسری طرف پھیلے پودوں کو پانی دے رہی تھی
"اے لو جی آج لگتا ہے سب پاگلوں کو سبق سکھانے کا دن ہے "۔ موحد اس لڑکی کو دیکھ کر بڑبڑایا ۔۔ پھر خاموشی سے قدم اٹھا کر وہ پورچ کے اندر داخل ہو گیا اس نے بنا کسی آواز کے داخلی دروازہ اتنا ہی کھلا چھوڑ دیا جتنا پہلے تھا وہ جس طرف کھڑا تھا اس طرف لڑکی کی پشت تھی اور لڑکی مسلسل کسی انگریزی گانے کی دھن گنگنا رہی تھی۔۔"ایڈی تو انگریزن ہوں ۔"موحد کے لیے وہ گلے کا پھندا بن چکی تھی اچھا بھلا وہ خاموشی سے مینار کے کمرے میں جا کر سو جاتا کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا اور شام تک مانی گاڑی میں بند خوار ہوتا رہتا کتنا مزہ اتا۔۔وہ وہیں کھڑے کھڑے خیالی پلاؤ پکا رہا تھا کے اچانک شیخ چلّی کے انڈے ٹوٹ گئے۔۔"توبہ ہے موحد یار تو بھی نہ ریئلٹی کو فیس کرنا سیکھ خیالوں میں کچھ نہیں رکھا اس بھوتنی کا انتظام بھی ابھی کرلیتے ہیں ۔۔چلو ایک منصوبہ ناکام ہوا تو دوسرا تو کامیاب ہوگا۔۔۔وہ خود کلامی کرتا خود کو جیمز بونڈ سمجھ رہا تھا۔۔پھر کسی خیال کو جھٹک کر اُسنے ایک تفتیشی نظر سے پانی کے پائپ کو دیکھا بس پھر کیا تھا برمودا ٹرائینگل کے اندر شرارت نے پھر سے تیرنا شروع کردیا ۔۔۔اُسنے جلدی سے اپنے جوتے اتار کر ہاتھ میں لیے اور بنا آواز کے بھاگتا ہوا پورچ کے عقب میں چھوٹی سی گلی کی طرف مڑ گیا لڑکی کے گنگنانے اور پانی کے بہنے کی آواز گلی تک صاف آرہی تھی اُسنے گلی میں لگے پانی کے tap کو گھما دیا ۔۔۔
"آئیں۔۔پانی ختم۔؟؟۔۔مشکت نے پائپ کو حیرت سے دیکھا جس میں پانی کا پریشر بہت تھوڑا ہوا اور پھر اچانک پانی ختم ہوگیا ۔۔۔موحد نے دیوار سے جھانکا وہ حیرت اور پریشانی سے پائپ کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔پائپ کا منھ مشکت کے چہرے کی طرف تھا۔۔۔موحد منھ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی زبط کرتے ہوئے واپس tap کی طرف بھاگا اور جلدی سے ٹاپ الٹا گھما دیا۔۔۔اور پھر ۔۔۔پائپ سے نکلتے پانی کے فوارے نے مشکت کو سر سے پاؤں تک بھیگا دیا اسے لگا جیسے اسکی ساری دنیا گھوم گئی۔ٹھنڈا یخ پانی اسے برف کا مجسمہ بنا گیا۔۔وہ ہڑبڑا گئی اور پائپ ہاتھ سے گر گیا۔پھر بھیگے ہوئے چہرے سے ہکا بکا سی پائپ کو دیکھنے لگی۔پانی ٹپ ٹپ اُسکے ناک اور لبوں سے بہہ کر گھاس پر بوندوں کی صورت گر رہا تھا ۔
"اوہ مائی گوڈ۔۔ماما۔۔ما۔۔ماما۔"۔مشقت اندرونی دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے چلا رہی تھی۔
"ہائے میں مر گئی۔"صائمہ مشکت کی چیخ و پکار سن کر ڈر سے باہر نکل آئی۔اتنے میں قہقہہ لگاتا پیٹ پکڑے کھڑا موہد یاجوج ماجوج کی طرح دیوار کے پیچھے سے نمودار ہوا۔۔"آنٹی،((۔كہکا)۔۔میری پیاری آنٹی کیسی ہیں آپ۔"۔اور يوں موہد نے صائمہ کی توجہ اپنی طرف موڑ لی۔۔صائمہ حیرتِ سے منہ کھولے کبھی بھیگی ہوئی مشکّت کو دیکھتی تو کبھی کہکہے لگاتے موحد کو ۔
"ہائے۔۔میرا بچہ۔۔موحد ۔۔"ساری پریشانی حیرت پتا نہیں کہاں غائب ہوگئی اور وہ موحد کی طرف بڑھ گئیں۔مشکت جو حیرت بھری پھٹی پھٹی گول آنکھوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔کچھ ہی سیکنڈز میں اسے اندازہ ہوگیا کے یہ موحد کا کارنامہ ہے۔"ماما۔۔"و غرائی ۔۔گول آنکھیں غصّے اور دکھ سے سرخ ہوگئیں۔
"اس نے ۔۔۔اس نے۔۔۔"وہ غصّے میں ہکلاتی تھی۔"اسکی حرکت ہے یہ"۔انگلی سے موحد کی طرف اشارہ کرتے وہ مسلسل چیخ رہی تھی۔
"موحد میں تمہارا گلا دبا دونگی۔میں تمہارا قتل کر دونگی ۔میں تمہارا سر پھاڑ دنگی۔۔میں تم۔۔۔"اور موحد مسکین صورت بنائے کھڑا مصنوعی حیرت سے کبھی چیختی ہوئی مشکت کو دیکھتا تو کبھی صائمہ کو جو اس سے دو قدم کے فاصلے پر شرمندہ سی کھڑی تھیں۔
"بدتمیز ۔۔بے حیا ۔۔ایسے بات کرتے ہیں مہمان سے ۔۔شرم نہیں آتی تُجھے؟۔۔مر جانیئے اتنی سردی میں باہر کھڑی نہا رہی ہے۔۔اوپر سے میرے بچے پر الزام لگا رہی ہے۔یہ کونسا وقت ہے پودوں کو پانی دینے کا؟"صائمہ کو گویا حیرت کے جھٹکے لگ رہے تھے۔سارا ملبا مشقت پر گرا دیا۔ساتھ کھڑا موہد ٹیڑھے میڑھے منہ بنا بنا کے مشقت کو چڑا رہا تھا اور وہ مزید بھڑک رہی تھی۔
"بہت مزا آرہا ہے دل گارڈن گارڈن ہوگیا۔"موہد نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو شاباش دی۔
"واہ موحد بلوچ تو٬ تو جیمز بونڈ نکلا۔آج دونوں پاگل بہن بھائی کو مزا چکھا دیا۔۔"
"آ آ ۔۔آنٹی میں بہت تھک گیا ہوں ۔۔"موہد نے مسکین صورت بنا کر سر کھجاتے ہوئے کہا جیسے جتانا چاه رہا ہو کے وہ اس چیخ و پکار سے تنگ آگیا ہے۔
"ہائے۔۔میں ابھی چائے بنواتی ہوں تمہارے لیے۔چلو میرے ساتھ اندر اؤ شاباش. یہ تو بے غیرت ہے گھر آئے مہمان کی بھی فکر نہیں کرتی۔۔"وہ مشکت کو مسلسل گھورتی رہیں اور موحد کے کندھے کو نرمی سے تھپتھپاتے ہوئے اسے اندر لے گئیں۔ اس بات سے بے خبر کے اُنکے"موحد بیٹے" نے انکے سگے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ کیا حشر کیا ہے۔مشکت پیچھے ساکت سی کھڑی تھی۔اچانک اسے کچھ یاد آیا۔۔اور وہ بھی اندرونی دروازے کی طرف چلی گئی۔
"ماما ۔۔"موحد اور صائمہ لاؤنچ میں آمنے سامنے صوفوں پر براجمان تھے۔
"کیا ہے۔۔"صائمہ نے ایک ناگوار نظر سر سے پاؤں تک بھیگی اپنی بیٹی پر ڈالی۔
"جاؤ پہلے اپنا حلیہ ٹھیک کر کے آو۔کیا حالت بنائی ہوئی ہے۔مجھے تمہارا کچھ کرنا ہی پڑےگا تم تو پاگل ہوتی جارہی ہو۔"صائمہ مشکت کی حالت دیکھ کر اسے سنا رہی تھیں۔(بےشرم ایسے ہی منہ اٹھا کے آگئی ہے کیا کروں میں اس اولاد کا)۔پھر سرد آه بھر کر واپس موہد کی طرف متوجہ ہوگئیں اور موحد جو مشکت کو چڑانے میں مصروف تھا پھرسے چوکنا ہو کے بیٹھ گیا وہ اس وقت مشکت کو زہر سے زیادہ کڑوا اور ابلیس سے زیادہ منحوس لگ رہا تھا۔
"گھٹیا آدمی"وہ موحد کو گھورتے ہوئے لب بھینچ کر بڑبڑائئ ."جی مما ۔۔پر بھائی کہاں ہیں؟۔۔مشکت نے معصوم صورت بنا کر ماں سے پوچھا تو موحد کے برمودا ٹرائنگل کے چودہ طبق روشن ہو کر بجھ گئے۔۔مصنوعی معصوم مسکراہٹ غائب ہوئی اور ۔۔"لا حول ولا قوۃ۔۔یہ بھوتنی تو میری زندگی برباد کر کے ہی دم لیگی۔۔"موحد کو ہول اٹھنے لگے۔۔
"ہو ہاےے۔۔۔مشکت میں تمہاری فضول باتوں کی وجہ سے اپنے بیٹے کو ہی بھول گئی۔۔توبہ ہے میرے اللّٰہ میرا تو بوڑھاپے سے پہلے ہی یہ حال ہوگیا ہے ۔۔"صائمہ سر پکڑ کر کافی دکھ سے اپنی اتنی سی عمر کی نادانی کا رونا رو رہی تھیں۔۔آخری جملے پر موحد اور مشکت دونوں چونک گئے اور دونوں کی آنکھیں چار بھی ہوئیں تھیں لیکن اگلے ہی سوال پر موحد کو اپنی ہار تسلیم کرنا پڑی ۔۔"کدھر ہے مینار ۔۔؟تمہارے ساتھ گیا تھا نا۔۔۔؟"صائمہ کی پر امید نگھائیں موحد کی طرف تھیں۔۔وہ گہما گہمی میں اپنے سگے بیٹے کو ہے بھول گئیں تھیں۔۔۔بس یاد تھا تو موحد جس نے انکی دونوں اولادوں کو خوار کیا ہوا تھا اور وہ اس بات سے بے خبر اسکی خاطر خدمت میں مصروف تھیں ۔۔ اور پھر کسی نے جھماکے سے دروازہ کھولا مشکت نے آواز سے گھبرا کر پیچھے دیکھا گول آنکھیں باہر نکل کر گرنے والی تھیں ۔۔ صائمہ نے ہائے میرے اللہ کہہ کر سینے پر ہاتھ رکھ لیا ۔۔ اور موحد اسے جیسے کوئی سانپ سونگھ گیا ۔۔ وہ سکتے کی حالت میں ہی بیٹھا تھا
کچھ منٹ قبل ماضی مین چلتے ہیں جب موحد کی دوسری شرارت کامیاب ہوئی تو باہر مىنار کس طرح اسکے قتل کا منصوبہ تیار کر رہا تھا ۔
نیند کی وادیوں میں چلتے چلتے راستے میں کسی پتھر سے ٹکرا کر اچانک اسکی آنکھ کھلی تو وہ گاڑی میں تھا۔۔ گاڑی رکی ہوئی تھی اور برابر میں موحد نہیں تھا ۔۔ اس نے آدھ کھلی نیند کے نشے سے چور آنکھوں سے وانڈ سکرین سے باہر کا منظر دیکھا تو اسے اپنے وجود میں 440 وولٹ کا جھٹکا محسوس ہوا "یہ تو میرا گھر ہے "۔۔ خود کلامی کی حالت میں اس نے جلدی سے دروازے ک ہینڈل کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔ دروازہ لاک تھا ۔۔
"یہ موحد کدھر مر گیا ہے ۔۔ اووفف کیا مصیبت ہے۔"۔ مینار کو بلکل بھی اندازہ یا گمان نہیں تھا کہ موحد اسکے ساتھ کوئی شرارت کر گیا ہے ۔۔ دافتاً اس نے سامنے ہاتھ مارا تو موبائل بھی غائب تھا اس نے بیٹھے بیٹھے ہی پوری گاڑی چھان مار لی مگر موبائل نہ ملا ۔۔ "میرا موبائل بھی لے گیا ۔۔ گاڑی بھی لاک کر گیا گھر سامنے ہے آخر ہو کیا رہا ہے یہ سب" اب غصہ پریشانی میں ڈھل گیا تھا ۔۔ مینار کے ذہن میں عجیب و غریب خیالات جنم لینے لگے ۔۔ پھر گھٹن محسوس ہونے پر اس نے زور زور سے گاڑی کے شیشے اور دروازے بجانا شروع کردیئے۔۔۔اُسکے گھر کا گیٹ کھلا ہوا تھا ۔ شور سے شائد کوئی آجائے۔۔محلّے میں بھی عجیب سناٹا چھایا تھا لوگ سردی سے بچ کر گھروں میں چھپے بیٹھے تھے ۔۔"کوئی ہے ۔۔۔؟کھولو پلیز ۔۔۔ہیلپ۔کوئی ہے۔۔۔۔!؟۔یہ پاکستانی عوام کا وطیرہ ہے نہیں آئے گا کوئی سوتے رہو تم سب۔۔بندہ مر جائے گھٹن سے۔۔ہوں۔۔"اسے بات بات پر پاکستانی عوام کی کوتھائیان گننے کا شوق تھا اور وہ پورا کر رہا تھا۔۔۔کہ اچانک دو مزدور جو شاید پیچھے کسی عمارت میں کام کر رہے تھے دروازہ بجنے کی آواز سے بھاگ کر آئے۔۔۔انہوں نے ڈرائیونگ سیٹ کی طرف باہر سے تفتیشی نگھا ڈالی تو ساتھ بیٹھا ہوا دروازہ بجاتا مینار انہیں نظر آیا۔۔۔اُن دو مزدوروں کو ایک گاڑی کے گرد پریشان کھڑا دیکھ کے کافی لوگ جمع ہوگئے اور دو منٹ میں گاڑی کا لاک کھل گیا مینار ہشاش بشاش باہر کھڑا تھا۔۔۔اور تقریباً پورا محلہ اسے تسلی دینے پانی پلانے چائے کی آفر کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔وہ حیران تھا کے سب لوگ اُسکی مدد کے لیے آخر کب اپنے گھروں سے نکل کر اگئے ۔۔اور ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی پریشان تھا آخر اس کا دوست گیا کہاں۔۔۔عبداللہ صاحب تو مینار کو جانتے بھی تھے ۔۔اگرچہ مینار اور اُسکی فیملی کو ادھر شفٹ ہوئے دو سال ہوئے تھے مگر اُنکا ملنا جولنا محدود تھا وہ لوگ بہت کم ہی باہر نکلتے تھے۔خیر عبداللہ صاحب نے مینار سے کہا کہ وہ پولیس کو اطلاع کردے کیا پتہ اُسکا دوست خطرے میں ہو ۔۔لیکن مینار جانتا تھا کہ موحد بلوچ اور خطرہ ۔۔۔؟۔۔نہیں خطرہ خطرے میں ہوسکتا ہے مگر موحد بلوچ خطرے میں نہیں۔ اس لیے اُسنے سبکو نمٹا کر گھر جانے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔
"میں آج اس موحد کے بچے کو چھوڑونگا نہیں مجھے بند کر کے کدھر مر گیا ہے۔۔۔"مینار کا غصّہ عروج پر تھا ۔وہ لب بھینچ کے جیسے ہی پورچ میں داخل ہوا تو آگے موحد کے جوتے دیکھ کر رک گیا۔ساری گیم سمجھنے میں اسے صرف چند لمحے لگے تھے۔۔۔اور پھر وہ غصّے سے آندھی طوفان کی طرح گھر کے اندر داخل ہوگیا۔۔۔آگے سب اسے یوں دیکھ کر پریشان ہوگئے ۔۔۔نادیہ بھابی اور بچے بھی مسلسل شور کی وجہ سے اپنے کمروں سے باہر نکل آئے ۔۔۔
"تاؤ ۔۔۔۔تاؤ ۔۔آگئے۔۔۔۔گڑیا نے زور سے نعرہ بلند کیا ۔۔اور بھاگ کر مینار سے لپٹ گئی۔۔۔حارث بھی خوشی سے ۔۔"تاؤ آئیے (آگئے)۔۔۔تاؤ آئیے (آگئے) ۔۔توتلاتا ہوا ننھے سے چوزے کی طرح مٹکتا مینار کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔مینار بچوں کو دیکھ کر چند سیکنڈ کے لیے غصہ بھول گیا اور گھٹنوں کے بل رہ داری میں ہی بیٹھ گیا اور دونوں کو باری باری پیار کیا۔۔نادیہ سب کے چہروں کو پڑھ چکی تھی اور معاملے کی نزاکت کو سمجھ چکی تھی اس لیے بچوں سمیت واپس اندر چلی گئی۔۔۔مینار ایک گہرا سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا سامنے بیٹھے موحد کی طرف دیکھ کر اسکی آنکھوں میں ایک بار پھرسے خون اتر آیا۔۔"کیا میں جان سکتا ہوں موحد بلوچ کے آپ نے مجھے گاڑی میں گھٹ گھٹ کر مرنے کے لئے کیوں چھوڑ دیا تھا۔۔۔"؟۔۔۔۔بس یہ سننا تھا کے صائمہ کو کو لگا وہ بےہوش ہو جائیں گی۔۔صائمہ بھاگ کر مینار سے لپٹ گئیں۔۔"ہائے اللہ۔۔۔کیا ہوا تھا تم لوگوں کی لڑائ ہوگئی ؟کیوں بند کردیا تھا؟۔۔ہو کیا رہا ہے کوئی مجھے بتائے۔۔۔"وہ کبھی ساکت بیٹھے موحد (جس میں شاید اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت نہیں تھی)کو دیکھتیں تو کبھی غصّے سے گہرے سانس لیتے مینار کو۔۔
"آپ اس سے پوچھیں مما جانی جسکو آپ نے لاؤنج میں بٹھایا ہوا ہے۔۔موحد کو اس وقت کچھ بھی نہ سوجا سوائے اٹھ کے بھاگنے کے وہ کچن کی طرف بھاگ گیا جیسے چوہا بلی کے ڈر سے بھاگتا ہے ۔۔مینار جانتا تھا موحد کچن کے پیچھے والے دروازے ( جو گلی میں کھلتا تھا)سے باہر نکل جائے گا اس لیے وہ سیدھا باہر پورچ کی طرف بھاگا تا کہ موحد کو رنگے ہاتھوں پکڑ لے ۔۔صائمہ اور مشکت بس حیران پریشان سی دونوں کو بھاگتا دیکھتی رہیں ۔۔۔کر بھی کیا سکتی تھیں دو جگری یاروں کا معاملہ تھا ۔۔
کسی خیال کے تحت مشکت بھی باہر چلی گئی۔۔"اب مزہ آئیگا موحد تُمہیں۔۔"اس بار مشکت کا دل خوشی سے گارڈن گارڈن ہو رہا تھا۔۔
مینار نے جھٹکے سے گیٹ سے باہر بھاگتے موحد کو کالر سے پکڑ لیا
۔۔اور ایک مکّہ بنا کر اسکے منہ کے قریب لے گیا ۔۔
"کدھر جاؤگے بچ کر میرے گھر سے موحد بلوچ۔۔تم جانتے نہی ہو مینار احمد کو۔۔بہت برا ادمی ہوں میں۔۔۔""۔
"آ"آہ۔۔اااائئئئئ۔۔۔چھوڑ نا یار مانییی۔۔۔دیکھ میں نے تجھ پر کتنے احسان کیے ہیں ۔۔جاب ڈھونڈ کر دی تجھے خود ساتھ لے کر گیا۔۔بھائی تو عین ٹائم پر سوجاتا ہے۔۔اتنی بوریت ہوتی ہے۔ ۔سبق سکھا رہا تھا۔۔۔معاف کردے ۔۔۔"چائنا کے جیمز بونڈ کی تو ڈر سے حالت ہی خراب ہوچکی تھی وہ ہاتھ باندھے مینار سے معافیاں مانگ رہا تھا۔۔مینار کچھ دیر مصنوعی غصّے سے موحد کو گھورتا رہا ۔ ۔۔پھر اُس کا کالر چھوڑ دیا۔""۔چل جا معاف کیا۔۔آئندہ اگر ایسی حرکت کی نا تو واللہ۔"
۔۔"ہاں واللہ پھر تُجھ سے برا میرے لیے کوئی نہیں ہوگا۔۔۔"موحد نے جملہ مکمل کردیا۔۔۔مینار نے ہنسی مشکل سے ضبط کی ۔۔موحد کو اس طرح ڈرتے ہوئے اُسنے پہلی بار دیکھا تھا۔۔وہ کیوں اتنا ڈرتا تھا اس سے۔"کیا میں اتنا خطرناک ہوں"؟۔۔وہ بھی سوچ کر رہ گیا۔۔۔مشکت ایک گہرا سانس لے کر مینار کی طرف بڑھ گئ۔اور صائمہ کو نجانے کیوں چپ سی لگ گئی تھی۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°′°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
YOU ARE READING
میرا مرض مستمر
Spiritualمیرا مرض مستمر اب آپ پڑھ سکتے ہیں اردو میں بھی ۔۔ایک ایسی کہانی جو ہم سب کو زندگی کی حقیقت دکھاتی ہے۔۔عشق اے مجازی سے عشق اے حقیقی کا سفر طے کرنا سکھاتی ہے۔۔۔