"آئمہ مجھے ڈر لگ رہا ہے" آئمہ جو میز کے پاس کھڑی فائل میں کچھ لکھ رہی تھی اُسکی آواز پر چونک کر مڑی "کس بات کا ڈر.." اُسنے قدرے حیرت سے اسکی طرف دیکھا ۔۔"یہ بہت بڑی ذمےداری ہے کہیں میں کوئی غلطی نہ کردوں ۔۔" اس نے گہرا سانس لیکر اپنے ہاتھ میں پکڑا قلم میز کی طرف اچھالا تو وہ عین نشانے پر پینسل کپ میں جا کر گرا۔۔
آئمہ یہ دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی۔۔۔
"تم کرلوگی نرمل ۔۔تم پہلے کی طرح اس بار بھی کر لو گی۔۔۔۔"پہلے کی بات اور تھی پہلے ایڈووکیٹ صاحب میرے ساتھ ہوتے تھے وہ میری مدد کر دیتے تھے مجھے گائیڈ کر دیتے تھے اب اکیلے ٹرائلز پر جاؤنگی اکیلے سب کچھ کیسے سمبھالو گی؟.." اس نے ائمہ کو اپنی بات مکمل کرنے کا موقع نہیں دیا تھا۔۔
" میری پوری بات تو سن لیتی۔۔" ائمہ نے جھرجھری لے کر کہا
" کیا ساری زندگی ایڈووکیٹ قاسم تمہارے ساتھ رہیں گے ؟کیا استاد ہمیشہ شاگرد کے سر پر کھڑا رہتا ہے؟ بتاؤ نرمل کیا تم اپنی صلاحیتوں کو آزمانا نہیں چاہتی؟" ائمہ صحیح کہہ رہی تھی
"تمہیں پتہ ہے میں جس نرمل شیخ کو جانتی ہوں نا وہ ایک بہت بہادر لڑکی ہے جس نے اپنی زندگی کا ایک بہت اہم اور مشکل ترین مقدمہ تب جیتا تھا جب اس کے پاس قانون کی کوئی سند بھی نہیں تھی۔" اس نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ جس پہ نرمل نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے ائمہ کے قریب آئی اور اس کے گلے میں باہیں ڈال دیں
" میری پیاری دوست ہمیشہ میری ہمت بڑھانے کا شکریہ۔۔۔" ائمہ نے مصنوعی غصے سے اس کے ہاتھ اپنے گلے سے جھٹکتے ہوئے کہا۔۔" ہنہ بڑی آئی اب جاؤ جاکر فائل کھولو اور دیکھو کیا کرنا ہے اور وہ اس کے انداز پر مسکرا کر میز کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک عام سی لڑکی ہوں باتوں سے مان جاتی ہوں
مجھے سونے کی چاہت کہاں ؟ جھوٹے کنگن سے مان جاتی ہوں
حقیقت سے ڈرتی ہوں خوابوں میں رہتی ہوں
مجھے کون کیسی نگاہ سے دیکھتا ہے سب جان جاتی ہوں
میرے کچھ انداز نرالے ہیں کچھ میں بس سب سے چھپاتی ہوں
میں ایک عام سی لڑکی ہوں باتوں سے مان جاتی ہوں
میرا قصہ مختصر میری حیات جیسا ہے
جو مجھے چھوڑ جائے راہ میں اسے بھلا دیتی ہوں
میری پہچان ہے میرا اسلام جب محبت ایمان مانگے تو ہار مان جاتی ہوں
میں ایک عام سی لڑکی ہوں باتوں سے مان جاتی ہوں
مجھے سونے کی چاہت کہاں جھوٹے کنگن سے مان جاتی ہوں۔۔۔وہ مطمئن مسکان کے ساتھ میز کے گرد رولنگ چیئر پہ بیٹھی اور فائلز کے ڈھیر کی سب سے اوپر والی فائل اٹھا کر اپنے سامنے رکھی۔ پتہ نہیں کیوں اس کے دل کی دھڑکن بے لگام ہو رہی تھی ۔اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے فائل کھولی۔۔
کسی ساحل کی ریت پہ لکھ کر تیرا نام
ہواؤں کو خبردار کر آئی تھی مٹانے سے۔۔۔" سرکار بنام مینار احمد ۔۔۔۔"
اس نے زیرِ لب وہ نام پڑھا۔۔
" تم ایک لو لائف لوزر ہو ۔۔۔۔تم ایک لو لائف لوزر ہو۔۔۔
YOU ARE READING
میرا مرض مستمر
Spiritualمیرا مرض مستمر اب آپ پڑھ سکتے ہیں اردو میں بھی ۔۔ایک ایسی کہانی جو ہم سب کو زندگی کی حقیقت دکھاتی ہے۔۔عشق اے مجازی سے عشق اے حقیقی کا سفر طے کرنا سکھاتی ہے۔۔۔