Episode 8 part 2

460 28 6
                                    

غم کی تیز بارش کے بعد یہ بھی تو ہوتا ہے
سکون عرش سے نور میں لپٹا دل میں اُترتا ہے
درد کی ٹیسیں اُٹھنے کے بعد لازمی یہ بھی تو ہوتا ہے
قدرت کے اشارے سے ہر گہرا زخم تیزی سے بھرتا ہے
زمین بنجر ہو جو بھی محنت گر کرے کسان کوئی
اکثر ایسی زمینوں پر گھنا سایادار شجر بھی اُگتا

ہےایک عورت کے لئے اسکا محرم مرد بہت خاص ہوتا ہے خواہ وہ اسکا باپ ہو بھائی ہو یا کوئی بھی اور رشتہ لیکن محرم کی ضرورت اسے ہمیشہ ہی رہتی ہے۔۔۔ایک عورت جب ٹوٹتی ہے تویہ محرم رشتے ہی ہوتے ہیں جنکے دلاسوں ، پیار اور ہمدردی سے وہ پھرسے سنبھلنا شروع ہوتی ہے انکا پیار اسکے ٹکڑوں کوجما کر اسے پہلے جیسا نہ سہی مگر پہلے سے زیادہ مظبوط ضرور کردیتا ہے۔۔

نرمل بھی اسی پیار کی تلاش میں نکلی تھی بچپن سے اس پیار کی پیاسی تھی جو باپ سے ملا اور بھائی تو اسے اللّه نے دیا ہی نہیں تھا۔ ۔۔بچپن تو کسی طرح حالات سے سمجھوتہ کر کے گزر لیا اور کچھ پروین کا بھی سہارا تھا وو اسکی باتوں کو سمجھ لیتی تجین مگر اب تو وو بھی خاندانی مسلوں میں ہی الجھی ہوئی تھیں اولاد ایک تھی اور وو بھی بیٹی جسے انہیں نے اللہ‎ کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا تھا وہ جانتی تھیں وہ بیمار رہتی ہے سارا دن سوئی رہتی ہے اسکی آنکھووں کے گرد ہلکے بن گئے ہیں اور وہ کمزور اور زرد پڑتی جا رہی ہے مگر وہ یہی سمجھتی کے شاید نرمل گھر میں بند رہ کر ایسی ہوگئی ہے یا پھر شاید رحمان کی ضد کی وجہ سے کہ وہ اُسے پڑھانا نہیں چاہتے اسکو یونیورسٹی کا ماحول نہیں دینا چاہتے
اسے اندر سے کھاتی جا رہی ہے ۔۔مگر وہ نہیں جانتی تھیں کے وہ کس حال میں ہے وہ کیا بات ہے جو اسے یوں نڈھال کیے ہوے ہے ۔۔
انہی دنوں نرمل نے محسوس کیا کے اسے باپ کی محبّت کی ضرورت ہے اسے کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہے ۔جواسکا سر اپنے کندھے پر رکھ کر اسے خوب رونے دے اور وہ ایک کندھا باپ کا ہی ہوتا ہے باپ کی شفقت کے گھنے درخت تلے بیٹھ کر بیٹیاں زندگی کی دھوپ سے بچ جاتی ہیں۔ ۔اسے بھی رحمان کی شفقت کا سایہ چاہیے تھا مگر انا اور غلط فہمیوں کی دیوار ایسی اونچی تھی کے نرمل اسے پار نا کر پاتی ۔۔

زندگی خالی تھی نا مکمّل تھی ٹوٹے خوابوں نے نرمل کی ہستی میں ایک عجیب سی ضد پیدا کردی تھی جب اسے کچھ نہیں ملا تو اسکا حق بنتا تھا کے وہ شکوہ کرے ضد کرے گلہ کرے اسنے یہی سوچا کے وہ پاکستان چلی جائے ورنہ مینار کی یادیں اور مشکت سے بات نا کرنے کا پچھتاوا اسے مار ڈالے گا۔۔۔
ماما میں جانا چاہتی ہوں پڑھنا چاہتی ہوں آپ کی طرح سسک سسک کر نہیں جینا چاہتی میں کچھ کرنا چاہتی ہوں پلیز ۔۔ وہ آوازکے ساتھ رو رہی تھی ادھر رحمان جو اب تک سب کچھ ضبط سے سن رہے تھے نرمل کی آوازوں سے لاؤنج میں اگئے غصّہ انکی آنکھوں سے چھلک رہا تھا چہرہ ضبط سے سرخ پر رہا تھا نرمل ایک پل کو سہم گئی ۔پھر اسنے سوچا آخر کب تک وہ یوں چپ چاپ اپنی زندگی کا تماشا بنتے دیکھتی رہیگی اسے جینے کا حق اللّه نے دیا تھا اسکی سانسوں پر بھی صرف اللہ‎ ہی کا حق تھا یہ دنیا یہ اسسے اُسکی واحد چیز اُسکی سانسوں کو بھی اُسّے چھین لینا چاہتی تھی
کیا تماشا لگا رکھا ہے تم نے اَج؟
یہ کیا طریقہ ہے ماں سے بات کرنے کا اتنے سالوں کی تعلیم نے تمھیں ماں سے بات کرنے کی تمیز بھی نہیں سکھائی ؟ جاہل عورت کی جاہل بیٹی۔ ۔رحمان غرائے ۔۔
پڑھنا چاہتی ہوں میں دم گھٹتا ہے میرا اس چار دیواری میں بند رہ کر۔۔وہ باپ کی سرخ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تیش میں بولتی گئی۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتی ایک زور دار تھپڑ اسکے گال پر پڑا ۔۔اور وہ ششدر سی گال پر ہاتھ رکھ کر اپنے غصّے سے گہرے سانس لیتے باپ کو دیکھتی گئی ۔۔

میرا مرض مستمر Where stories live. Discover now