Episode 10 part 3

444 38 35
                                    

“کمالِ یار تو دیکھو وقتِ وصال تو دیکھو
چاندنی رات کو دیکھو ستاروں کی بارات کو دیکھو”

صبر نے اوڑھا خوشیوں کا لِبادہ اور درد نے جھینپ کر پوچھا یہ کون ہے بھلا۔۔۔۔ بے بسی مُسکرائ اُس کے سوال پر اور کہنے لگی کھلکِھلا کر یہ وہ صبر ہے جو دل میں پنپتا رہا جو اس نے
اُس نے نرمل کی طرف اشارہ کیا
اس نے رکھا تھا سنبھال کر دل کے تہ خانوں میں اور اب یہ صبر لایا ہے اس کی لیے اس کے ہر عمل کا اجر اور دیکھ اُس نے درد کو جیسے تڑی دیکھائ دیکھ تیرا اسکی راہ میں اب کوئ کام نہیں یہ تجھے ختم کر دیگی تیرا گلا گھونٹ دے گی۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے تُمہارے بھائ کو نہیں اپنایا میں نے اپنی ماں کے آنسوؤں کی لاج رکھی ہے صائمہ آنٹی کی بات مانی ہے اور تُمہاری بھی۔۔۔ وہ فائل میں لکھتے لکھتے مشکت کو بتا رہی تھی جو اُس کے سامنے تھوڑی تلے ہاتھ دیئے بیٹھی تھی
“تو پھر تم اُنہیں کب اپناؤ گی” اُس نے شرارت سے کہا
کبھی نہیں یہ ایک پیپر میرج ہے بس۔۔۔۔۔
اُس نے فائل سے نظر اُٹھا کر دو ٹوک انداز میں کہا اور مشکت ششد رہ گئ
ک ک کیوں۔۔۔
وہ بمشکل پوچھ پائ
میں اُس کے کہے الفاظ کو نہیں بُھلا سکتی اور نہ ہی میں اپنے ماضی کو بُھلا سکی ہو۔۔۔۔
وہ پھر فائل میں کچھ لکھتے ہوۓ بولی مشکت خاموشی سے اُٹھی دبے دبے  قدم اُٹھا کر کمرے سے باہر چلی گئ۔۔
وہ کیا کرنے جا رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“وہ مجھ سے بات نہیں کرتے مشکت وہ میرے میسجز کا جواب نہیں دیتی میں نکاح کی رات سے اُسے روز کال کرتا ہوں لیکن وہ میری کال ریسو نہیں کرتی۔۔۔۔ وہ کچھ نہیں بھولی وہ کچھ نہیں بھولی۔۔۔۔” اُس کی آواز ٹوٹ رہی تھی وہاب بے بسی کی انتہا تھی
مشکت نے کرب سے اپنی آنکھیں میچ لیں اُس نے اپنے بھائ کی بے بسی پرکھ لی تھی

بھائ وہ آپ سے بات کرے گی وہ ضرور کرے گی۔۔۔”
وہ اُس کی بات کو محض تسلی سمجھ کر مُسکرا  دیا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے وہ کیا کرنے جا رہی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنی اسٹڈی میں بیٹھے کسی اسلامی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے کہ دروازے پر دستک کی آواز پر اُنہوں نے کتاب سے نظر ہٹائ
آ جاؤ۔۔۔۔۔
وہ کہ کر پھر سے کتاب کی طرف متوجہ ہوگئے وہ دبے دبے قدموں سے چلتی ہوئ اُن کے سامنے آگئ اُنہوں نے چشمے کے اوپر سے جھانک کر دیکھا اور نرمی سے مُسکراۓ
اور اُسے جواد احمد کی شدت سے یاد آئ
“السلام وعلیکم “
اُس نے مدھم آواز میں کہا
“وعلیکم السلام ۔۔۔ میرے بیٹی آئ ہے۔۔
عبدالرحمان نے پیار سے کہا اور کرسی سے اُٹھ کر اُس کے سر پر ہاتھ رکھا
“انکل آپ سے بات کرنی ہے”
اُس نے جھجکتے ہوئے تمہید باندی
“ہاں ہاں بولیں۔ بیٹھوں پھر بات کرتے ہیں”
اُنہوں نے پُرجاش لہجے میں کہا اور وہ کرسی دھکیل کر بیٹھ گئ

پھر ماضی کی کتاب کو کھولا گیا اور اوراق پلٹے گئے ایک ایک بات بہتے آنسو کے ساتھ کھلتی گئ

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Feb 19, 2019 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

میرا مرض مستمر Where stories live. Discover now