episode 2..Mera marz e mustamir by Nimrah Abbas....
پلکوں پہ جمی ہے جو گرد بس دھو دو اسے
دل میں ہے کوئی بوجھ بس رو دو اسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگئیں تم شاپنگ کر کے ۔۔۔۔"صائمہ بیگم لاؤنج میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھیں ک جب مشکت ہاتھ میں شاپنگ بیگز پکڑے اندر داخل ہوئی۔۔۔"ہممم پتہ ہے مما بازار میں تو آگ لگی ہوئی ہے ہر چیز مہنگی ۔۔مجھے مزہ نہیں آتا میرا دل کرتا ہے میں واپس سعودی عرب چلی جاؤں۔۔کوئی معجزہ ہوجائے حالات پلٹ جائیں مما آپ کہتی ہیں نہ اللہ معجزے کرنے والی ذات ہیں تو پھر۔۔۔"تو پپھر یہ کہ معجزے بھی انہی کے ساتھ ہوتے ہیں جو صبر اور یقین رکھتے ہیں "صائمہ نے مشکت کی بات کاٹ تے ہوئے کہا"مشکت تمہیں پتہ ہے زندگی حالات کے عروج اور زوال کا نام ہے ۔۔صائمہ برتن ہٹا کر اب تحمل سے مشقت کی طرف دیکھ کر بول رہی تھیں جو سامنے والے صوفے پر بے زار سی بیٹھی ۔۔۔۔"یاد کرو وہ وقت جب ہم بادشاہوں کی طرح رہتے تھے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی,رزق کی بارش اور نعمتیں ,خوشیاں, سکون یاد کرو بیٹے وہ سارا وقت جو ہم نے اس پاک دھرتی پر گزارا ۔اللہ پاک کے گھر جا کر اُسکے کعبے کا دیدار کیا اُسنے ,ہمیں اپنے محبوب کے گھر بار بار بلایا۔۔۔وہ وقت ہمارے عروج کا تھا اُس میں اتنی خوشیاں تھیں کے دکھ ہوتا بھی تو خوشیاں اس دکھ کو اپنے اندر ڈھانپ لیتی تھی کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ اور یہ وقت کے جب ہم اپنے ملک میں ہیں ۔۔یہ اپنا تو ہے مگر اسکے رنگ میں رنگنے کے لیے بہت وقت درکار ہے۔۔۔میری جان اللہ پاک نے ہمیں عروج دکھایا اور اب جب تھوڑی سی آزمائش ہے تھوڑی سے مشکل ہے تو ہم گلہ کریں? ہم مایوس ہوجائیں ? اسے زندگی کہتے ہیں ,اسے جینا کہتے ہیں ۔ مشکل حالات تو ہمیں مضبوط بنانے کے لیے آتے ہیں ورنہ مسلسل خوشیاں انسان کو کمزور اور کھوکھلا بنا دیتی ہیں"۔صائمہ نے گہرا سانس باہر کیا۔۔۔"گزرے وقت پر شکر کرو اور اس وقت میں صبر ,اللہ نے ضرور کوئی بہتری رکھی ہوگی۔۔۔"صائمہ اب مسکرا رہی تھیں۔۔
"مما آپ میری بیسٹ فرینڈ ہیں میں آپکے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں میرا سب کچھ آپ ہیں۔۔" مشکت اب صوفے سے اٹھ کر صائمہ کے پاس اگئی تھی اور انکی گود میں سر رکھ کر رونے لگی ۔
"پاگلے۔۔۔ہر چیز کو سیریس نہی لے لیتے زندگی دو دن کی ہے انجواۓ کرو اسے ۔۔"صائمہ اب مشکت کے بال سہلاتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔۔
"مما بھائی کہاں ہیں ?۔میرا فون بھی نہیں اٹھا رہے?۔مشکت کو اچانک سے کچھ یاد آیا تھا سر اٹھا کر اب وہ صائمہ سے سوال کر رہی تھی۔
"ارے ہاں اچھا کیا یاد دلا دیا وہ دونوں وہاں موہد کے کسی دور کے رشتےدار کے گھر پر رہ رہے ہیں ۔منار بتا رہا تھا کہ آج رات تک کسی سیٹھ سے ملنے جائیںگے وہ لوگ پھر دیکھو نوکری کی معلومات وغیرہ لینگے۔۔"
"سیٹھ ۔۔۔??۔مشکت نے ماں کی بات کاٹتے ہوئے ایک بار پھرسے سر اٹھا کر پوچھا۔۔تجسس۔۔تجسس۔
"ہاں نہ کوئی دبئی کا رہنے والا سیٹھ ہے کھاد اسپرے کا کاروبار ہے اُسکا بہت بڑا بہاولپور میں ٬بس اللہ کرے وہ میرے بیٹے کو نوکری دے دے ورنہ یہاں تو جیسے بیچلر کی ڈگری کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔۔۔اچھا تم چلو یہ برتن ذرا اندر رکھ اؤ اور ذرا فون بھی لا دو تمہاری خالہ سے بات کرلوں بہت دن ہوگئے بات نہیں ہوئی۔۔۔"صائمہ نے بات ختم کردی تھی موضوع بھی بدل دیا تھا ۔مگر مشکت کی پریشانیوں میں بس اضافہ ہی ہو رہا تھا ۔۔"کچھ بھی ہو میں بھائی کو بہاولپور نہیں رہنے دنگی ۔۔۔کیا ہوگیا ہے بھائی کو کیوں اتنی دور جارہے ہیں ہمسے۔۔۔میں خود بات کرونگی بھائی سے۔۔۔سب ٹھیک ہوجائےگا۔۔۔"۔۔کسی خیال میں گم وہ برتن اٹھائے کچن کی طرف چلی گئی۔۔۔۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
°زندگی کی کتاب میں ایک اور شام کا اضافہ ہوچکا تھا ۔بہاولپور ک علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں ایک چھوٹے سے بنگلے کی چھت پر وہ دو کھڑے تھے ۔۔۔
"یہ لیجئے جی چاہے۔۔اور صاحب جی نے بولا ہے آپ لوگ چائے پی لیں پھر وہ آپکو باہر لے جائینگے ۔"
شلوار قمیض میں ملبوس وہ کم عمر نوجوان مینار اور مو حد کو چاے کا کپ تھماتے ہوئے مو حد کے چچا کا حکم نامہ سنا رہا تھا۔۔
"تم جاؤ انہیں کہو کے بس ہمیں گاری دے دیں گھوم ہم خود لینگے۔۔"
اور آگے بھی پھر چچا جی کا ہی بھتیجا تھا ۔۔لڑکا بس "جی"بہت اچھا "کر کے چلا گیا۔۔۔
"جس کام سے لے کے اے ہو وہی کرو ۔۔مجھے کوئی شوق نہیں اس شہر کو دیکھنے کا۔۔"مینار کے لہجے سے رکھا پن بیزاری صاف ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔
"ہاں ہاں ۔۔میری روٹھی ہوئی دلہن ۔۔تم تیاری تو کرلو پھر لے چلتے ہیں ہم تمکو تمہارے میکے"۔۔لبوں پر شرارت بھری مسکراہٹ سجائے موہد نے گویا مینار کو تنگ کیا۔۔۔
"بکواس نہ کر"۔۔مینار موحّد کو مصنوعی غصّے سے گھورتے ہوئے چاہے کا کپ لبوں تک لے گیا ۔۔۔پھر وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔۔(معنی خیز مسکراہٹ)۔موحد پہلے تو غور سے مینار کی طرف دیکھتا رہا جیسے اس طرح مسکرانے کی وجہ جاننا چاہا رہا ہو ۔۔کچھ لمحے بیتے پھر وہ دونوں بے اختیار ہنس پڑے۔۔۔دو دوستوں کے کہکوں کی گونج کافی دور تک گئی تھی۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
ہائے پروین تم پر ترس آتا ہے ۔ایک تو اللہ نے اولاد بھی ایک دی اوپر سے وہ بھی بیٹی اور پھر ضدی الگ۔۔۔"نرمل اسٹڈی سے باہر نکلی تو تای روبینہ کی آواز پر چونک گئی ۔۔۔"یہ کب آئیں ۔۔اور یہ کیا بول ہیں ۔۔۔افف میرے اللّٰہ انیہں بھی ابھی ہی انا تھا ۔۔اب کیسے اوپر جاونگی انکے سامنے دیکھ لیا تو بس رہی سہی بے عزتی کی کسر مجھ پر پوری ہوگی۔۔۔"خود کلامی کی حالت میں وہ ہتھیلیوں کو آپس میں مسلتے کوریڈور میں چکر لگا رہی تھی۔۔۔
"سُنا ہے پڑھائی ختم ہوگئی ہے نرمل کی۔۔۔"تائی اب سامنے بیٹھی پریشان سی پروین سے پوچھ رہی تھیں۔۔"ہاں الحمدللّٰہ بھابی نرمل کی انرولمنٹ ہوگئی ہے بس۔۔"پروین نے زبردستی چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
"ہممم۔۔۔پھر میں تمہیں بتا دوں کے ارحم چاہتا ہے کے نرمل شادی کے بعد نوکر ی وغیرہ کا رولا نا ڈالے
"ٹانگ پے ٹانگ چڑھائے بیٹھی روبینہ تائی گویا پروین کے دل میں بار بار لفظوں کے خنجر ٹھوک رہی تھیں۔۔
"اور ویسے بھی ہمارے خاندان میں تو کوئی لڑکی اتنا نہیں پڑھی توبہ توبہ ہم نے تو اتنی چھوٹ دی ہی نہیں اپنی بیٹیوں کو ورنہ آج کل تو لوگ بیٹیوں کو اٹھا ک آرام سے نہ محرموں کے ساتھ کام کرنے اجازت دے دیتے ہیں ۔۔۔لو پھر بے حیائی پھیلے نہ پھیلے۔۔۔ ۔""روبینہ تای طنز پر طنز کیے جا رہی تھیں ۔اور نرمل بس ساکت سی کوریڈور میں ہی کھڑی تھی۔"یا اللہ۔۔۔یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔میری شادی ارحم کے ساتھ۔؟؟اور مجھے کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔۔میرے اللّٰہ آخر یہ لوگ کّیوں نہیں سمجھتے کے مجھے شادی کرنی ہی نہیں ہے اور پھر وہ بھی ارحم کے ساتھ ۔۔۔۔نہیں۔۔کبھی سہیل بھائی کبھی ارحم۔۔میں کیا تماشا ہوں؟؟۔يا انکی اولاد؟۔۔کیا میری کوئی ذات نہیں۔؟کیا میری کوئی خواہش نہیں۔۔۔کیا میری کوئی عزت نفس نہیں یہ لوگ مجھے زبردستی خاندان میں ایڈجسٹ کرنا چاہتے ہیں جن لوگوں کو میری چاہا نہیں انہی لوگوں پر مجھے ایک بوجھ اور مجبوری کی طرح تھوپنا چاہتے ہیں ۔۔؛؟۔اپنے آپ سے ہی سوال کرتی اپنی ذات کو ایک بار پھرسے ریت روایتوں اور کھوٹے اصولوں کی قيد میں بند ہوتے دیکھتی آنکھوں میں سدا کی اُداسی لیے وہ بس چپ چاپ اسٹڈی کا دروازہ کھول کر اپنے بھاری پڑتے وجود کو دھکیل کر اندر لے گئی۔۔۔۔
لاؤنج میں تای روبینہ کی گفتگو سے ماحول تحترٹی سردی کے موسم میں بھی گرم تھا۔۔۔۔"ویسے میں نے ارحم سے کہا کہ بھائی جب رحمان کے پاس اتنی دولت ہے تو وہ ڈگری لیے کیوں اسپتالوں کے چکر لگا رہا ہے ۔۔۔لو بھئی اب یہ سب جو رحمان کا ہے کہاں جائیگا ؟؟۔۔کوئی بیٹا ہوتا تو باپ کا سہارا بنتا اب ارحم بھی تو بیٹا ہی ہوا نہ رحمان کا داماد بھی اور پھر بھتیجا بھی۔۔۔میں کہتی ہوں اسے کے رحمان کی بیٹی سے شادی کے بعد ویسے بھی جاب کی ضرورت
نہیں پرنی تمکو لیکن میرا بچہ تو اتنا کوئی محنتی اور عزت نفس رکھنے والا ہے کے اسکو گوارہ ہی نہیں۔۔۔بس پروین اب تم مجھے شادی کی تاریخ وغیرہ دیدو بہت ہوگیا اور انتظار نہیں کرسکتی میں تمہاری بیٹی کے فارغ ہونے کا۔۔" روبینہ اپنے ازلی لاپرواہ لہجے میں بولتی جا رہی تھیں ۔۔پروین اور مومنہ کو جیسے ہول سے اُٹھ رہی تھے۔۔وہ کبھی ایک دوسرے سے نظریں ملا تین تو کبھی روبینہ کی طرف دیکھتیں۔۔۔"اء۔۔۔بھابی وہ۔۔۔"روبینہ خاموش ہوئیں تو پروین نے بمشکل بات کرنے کی ہمت کی۔۔۔وہ بھابی اصل میں بات یہ ہے کے آپ تو جانتی ہیں کے نرمل بری ذہین بچی ہے ما شا اللہ سے۔۔۔اور وہ بہت خواہشمند ہے کے انصاف کے لیے لڑے اس ملک میں اگر کوئی نیکی کرنا چاہتا ہے حق کے لیے لڑنا چاہتا ہے تو اُسے روکنا مناسب نہیں ۔۔اور جہاں تک بات محرم نہ محرم کی ہے تو میں جانتی ہوں میری بیٹی بہت نیک ہے جب باہر نکلتی ہے تو پورے حجاب میں ہرچیز کا خیال رکھتی ہے۔۔بس آپ ارحم سے بات کریں نرمل کو شادی کے بعد جاب کرنے کی اجازت دے دے ۔۔۔مجھے پتہ ہے وہ ضرور سنئے گا میرا بہت پیارا بچہ ہے۔۔۔۔۔"
"اچھا بی بی تو تم یہ چاہتی ہو کے ہماری بّہو کورٹ کچہریوں کے چکر لگائے ۔۔۔میرے بیٹے کی کوئی عزت نہیں کیا?۔۔دیکھو پروین اگر یہی بات ہے تو اپنی بیٹی کو رکھو اپنے پاس اور کمواؤ اسے چھبیس سال کی تو ہوگی کم سے کم اب وہ"۔۔روبینہ حسب معمول بنا سوچے سمجھے بات کا بتنگر بنا رہی تھیں۔۔
"بس کردیں بھابھی۔۔۔"مومنہ جو بہت دیر سے خاموشی سے جیٹھانی روبینہ کی باتیں سن رہی تھی اب غصّے سے چلائی تھی۔۔
" بس کردیں بہت سن لی آپکی باتیں ۔۔ہماری بیٹی بہت شریف پارسا ہے بہت پڑھی لکھی بہت اہم ہے سب سمجھ رہی ہوں میں۔۔مجھے لگتا تھا خاندان میں اگر کوئی اچھا ہے تو آپ لوگ ۔۔لیکن میں غلط تھی ۔۔یہاں تو ہر کوئی نرمل کے باپ کی جائیداد پر فدا ہے۔۔نرمل کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں۔۔۔"مومنہ غم اور غصّے سے بول رہی تھیں۔۔
"ہاں تو بٹھاؤ اپنی راج دلاری کو اپنے گھر۔کوئی ضرورت نہیں مجھے ایسی بے حیا لڑکی کو گھر لانے کی۔۔۔میرا بیٹا کسی سے کم نہیں نیک نمازی اور پھر ڈاکٹر۔۔یاد رکھو پروین ,رحمان کبھی بھی خاندان سے باہر شادی نہیں کریگا اپنی بیٹی کی۔۔اور تم نے آج اپنی بیٹی کا آخری رشتہِ بھی ہاتھوں سے گنوا دیا۔۔میں کل ہی رفیعہ سے بات کروں گی اور اسکی نواسی سے اپنے ارحم کی بات پکی کرونگی اور تم لوگ دیکھنا کیسے دھوم دھام سے میرے بیٹے کی شادی ہوتی ہے۔۔رفیعہ کی ارم کسی سے کم نہیں ہے۔۔۔تم لوگوں نے تو رفیعہ کے سہیل کو بھی انکار کردیا تھا عجیب ہی نکھرے ہیں بھائی تم پڑھی لکھی عورتوں کا واقعی کوئی حال نہیں۔۔۔مجھے تو لگتا ہے تم لوگوں نے نرمل کی شادی کرنی ہی نہیں ہے۔۔بٹھاؤ ویسے بھی میرے بیٹے پر زبردستی تھوپ رہا تھا رحمان کے میں نے تم پر احسان کیا تھا بس ایک بار تمہاری فیس بھر دی تھی ڈاکٹری کی لو تم اب میری بیٹی کو ساری عمر کے لیے بُھکتو۔۔ہوں۔۔شکر میرے مولا جان ہی چھوٹی ہماری تو۔۔"روبینہ نے جیسے سرے سے بات ہی ختم کردی تھی اور ہاتھ جھاڑتے ہوئے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔پروین بس منت سماجت کرتے روتے آنسو پونچھتے روبینہ کو روکتی ہے رہ گئی۔۔"یہ کیا کیا تم نے مومنہ۔۔"روبینہ کے جانے کے بعد پروین مومنہ پر چلائیں تھی ۔۔
"میں نے کیا کیا آپا?کیا دیکھا نہیں اپّ نے وہ ہماری نرمل کے بارے میں کیا اول فول بول رہی تھیں۔۔کیا کمی ہے ہماری بیٹی میں۔۔میں خالہ ہوں اُسکی ,میں نہیں سن سکی اُسکے بارے میں غلط بات۔۔"مومنہ آنسو پونچھتے ہوئے بول رہی تھی
"تم ہی نے کہا تھا مومنہ کے لڑکا ڈاکٹر ہے خاندان کا ہے اور یہ کے روبینہ کو چاه ہے نرمل کی۔۔اور اب یہ?"پروین کو غم غصّے حیرت بس ہر طرح کے احساس نے گھیرا ہوا تھا۔
"آپا مجھے نہیں پتہ۔۔۔جب ہم لوگ سعودی عرب تھے تب میں جب بھی یہاں اتی یہی سنتی کے ارم ,روبینہ بھابی کو بلکل بھی پسند نہیں ہے اور بھابی کو پڑھی لکھی بہو چاہئے اور اس خاندان میں نرمل سے زیادہ کون پڑھا لکھا ہے بھلا؟۔۔اور پھر کون ہمارے خاندان میں باہر شادی کرتا ہے بس اسی خیال کے تحت میں نے آپکو یہ سب بولا تھا ۔مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کے یہ لوگ اتنے خودغرض نکلینگے۔۔۔"ساری امیدیں خوشفہمیاں ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں اور ا نکے ٹوٹ کے بکھرنے کی آواز اسٹڈی میں بے سود بیٹھی نرمل کے کانوں تک بھی پہنچی تھی۔۔مگر شاید اب نرمل کے کان اس آواز کو سننے کے عادی ہوچکے تھے ۔۔یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔۔
"کہتے ہیں بیٹیاں اپنے نصیب خود ساتھ لے کر آتی ہیں ۔۔۔میری بچی پر کیا ازمائش ہے کے ہر طرف سے راستے بند ہیں"۔پروین کے الفاظ پر نرمل نے دکھ سے آنکھیں بھینچ لیں۔۔وہ سونا چاہتی تھی۔۔شاید ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"یار یہ سیٹھ آرہا ہے یا دبئی کا بادشاہ آکے ہی نہیں دے رہا میں نے چچا کو بولا تھا کے ہم صبح مل لینگے مگر نہیں۔انہیں بھی بس ہر کام کی جلدی ہوتی ہے۔۔ مانی یار تمہیں کیوں چپ لگی ہوئی ہے یار کچھ بول ہی لو چل گالیاں ہی نکال دے شدید بوریت ہے یہاں افف۔۔۔"وہ لوگ سیٹھ ابراہیم کے شاندار آفس کی بلڈنگ کے باہر تقریباً ایک گھنٹے سے کسی کا انتظار کر رہے تھے کے جب موحد تنگ ہو کر گھڑی کو دیکھتا جل کے بڑبڑآیا۔۔۔
"میں کیا بولوں عجیب ہی لگ رہا ہے۔۔میرے پاس کوئی ایکسپیرینس نہیں۔۔تمہیں لگتا ہے سیٹھ مجھے جاب دے دیگا؟۔۔۔بیچلر کیا ہے وہ بھی مر مر کے کوئی شوق ہی نہیں تھا مجھے اس فیلڈ میں بس ایک مجبوری تھی کرنا تھا کچھ۔۔۔یہاں تو بڑے بڑے انجینئرز بھی ناکارہ ہیں میرا کیا ہوگا؟۔۔۔۔"
مینار نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔۔۔
"مینار سیٹھ ابراہیم میرے چچا کا کافی پرانا دوست ہے۔چچا اور سیٹھ کلاس فیلو تھے لیکن میرا چچا نا تیری طرح تھا ہر وقت بیروزگاری کے رونے روتا کبھی وسائل نہیں تو کبھی دل نہیں اور سیٹھ۔۔۔"۔اُسنے رشکیا انداز میں مکہ ہوا میں لہرایا۔۔۔سیٹھ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔۔۔"موحد پتہ نہیں دوست کا ہونسلا بڑھا رہا تھا یا مزید گرا رہا تھا۔۔۔کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک بڑی جیپ بلڈنگ کے باہر ارکی۔۔ڈرائیور باہر نکلا اُسنے پیچھے والی سیٹ کا دروازہ کھولا اور اندر سے کلف لگی شلوار قمیض میں ملبوس ایک نہ زیادہ جوان نہ زیادہ بڑھا درمیانی عمر کا آدمی باہر نکلا۔۔۔کندھے پر روایتی پٹکے کا رومال رکھا تھا ایک ہاتھ میں تسبیح چہرے پر داڑھی جو ابھی مکمل سفید نہیں ہوئی تھی شانّ و شوکت سے چلتا وہ بلڈنگ کے اندر داخل ہوگیا ۔۔"یہی ہے سیٹھ ابراہیم
۔۔موحد کی نظریں اندر جاتے سیٹھ ابراہیم پر ہی ٹکی تھیں۔۔
"تو پھر چلو اندر"مینار کے لہجے میں اچانک سے اطمینان بھر آیا تھا ۔۔کچھ تو تھا سیٹھ ابراہیم کی شخصیت میں جسے دیکھ کر وہ دونوں ہی متاثر ہوئے تھے۔۔۔
"مجھے سیٹھ ابراہیم کہتے ہیں۔۔"سیٹھ نے مصحافے کے لئے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا اور ساتھ ہی دونوں کو بیٹھنے کا اشارہ بھی کیا۔۔۔
" اور ہمیں "بیروزگار"۔۔اه۔۔۔موحد کے اس تعارف پر مینار نے زور سے کونی موحد کے پیٹ میں ماری تھی۔۔۔
"تو کون ہے تم دونوں میں سے ظفر بلوچ کا بھتیجا۔۔۔"؟
سیٹھ نے سامنے بیٹھے دو نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
" جی میں موحد بلوچ ۔۔اور یہ میرا دوست ہے مینار احمد۔۔۔اسی کی جا ب کے سلسلے میں بات کی تھی آپ سے چچا جی نے "موحد نے اس بار تمیز سے تعارف کروایا تھا ۔۔۔
"چلو لڑکے تم باہر جاؤ اسے یہیں رہنے دو ۔ "
سیٹھ نے موحد کو باہر جانے کو کہا اور مینار کو بیٹھے رہنے کا۔۔موحد برے برے منہ بناتا کمرے سے بھر نکل گیا۔۔۔
" سو مسٹر مینار احمد "۔۔سیٹھ گلا صاف کرتے ہوئے اپنے بلکل سامنے بیٹھے بیزار سے مینار سے مخاطب ہوا۔۔
"اپنے بارے میں کچھ بتاؤ۔۔اپنا تعارف کرواؤ ۔۔"عموماً جاب انٹرویوز میں ایسے ہی سوالات پوچھے جاتے ہیں اور اس سوال کا جواب مینار پچھلے دو سالوں میں کوئی ہزاروں مرتبہ دے چکا تھا ۔۔
"میرا نام مینار احمد ہے میرا تعلق لاہور سے ہے میں نے یونیورسٹی آف پنجاب لاہور سے BS (hons) in agriculture کیا ہے اور فلحال میں جاب ڈھونڈ رہا ہوں۔۔۔"مینار نے پورے اطمینان سے دو سالوں کا رٹا ہوا سبق سنا دیا۔۔۔
"بس .؟۔۔میاں اپنے بارے میں بتاؤ مطلب اپنا نصب اپنا ماضی میں جاننا چاہتا ہوں تمہیں,تمہارا مزاج ۔۔اتنی بڑی کمپنی میں سیٹھ ابراہیم انہی لوگوں کو رکھتا ہے جو سیٹھ ابراہیم کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔۔اور میرا اعتماد جیتنا۔۔۔"کچھ سیکنڈ کی خاموشی ۔۔۔٬"تم پر ہے۔۔۔باتوں سے بھی جیت سکتے ہو۔۔۔"you know good communication skills..."سیٹھ نے آگے کی طرف جھک کر مینار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے جملے کے آخری الفاظ پر زور دیا ۔۔۔
"عمر کیا ہے تمہاری؟۔"سیٹھ نے پوچھا۔۔
"31 سال 2 مہینے 11 دن ۔۔"دوسری طرف مکمل اطمینان تھا۔۔
"شادی شدہ ہوں؟
"نہیں"
"کیوں تمہیں نہیں لگتا کے تیس سال سے پہلے شادی کرلینی چائیے"؟۔۔
"نہیں ۔مجھے لگتا ہے شادی تب کرنی چاہیے جب آپ رسپونصبل ہوجائیں اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں۔۔بیروزگار آدمی کو کوئی اپنی بیٹی کیوں دیگا"؟؟۔۔وہاں جواب ملاوٹ سے پاک تھے
" اب تک جاب کیوں نہیں ملی"؟
سیٹھ کو شاید مینار کا اطمینان چبھا تھا۔۔۔
"کیوں کے میں سچ بولتا ہوں۔۔اور اس ملک میں سچ سننا کسی کو پسند نہیں۔۔"جواب مختصر تھا۔۔۔
"نشہ کرتے ہو؟۔۔۔سیٹھ نے جان بوجھ کر ٹیڑھا سوال کیا تھا۔۔۔
"کرتا تھا"۔۔۔وہ واقعی عجیب تھا۔۔۔سیٹھ کے گلے میں کوئی چیز اٹکی ۔۔۔
"احمم۔۔۔میں کیسے مان لوں کے تم نے نشہ چھوڑ دیا ہے؟کیوں کے تم نے اپنے آخری جواب میں "تھا" "یعنی فعل ماضی کا استعمال کیا ہے۔۔"سیٹھ کو مینار کی سچائی اب واقعی تنگ کر رہی تھی۔۔
"اگر نہ چھوڑا ہوتا تو آج جاب انٹرویؤ کے لیے آپکے سامنے نہ بیٹھا ہوتا "
سیٹھ کو جیسے چپ لگ گئی ۔۔وہ اب بھی غور سے مینار کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔بظاھر پر اطمینان مگر بےچین آنکھیں۔۔۔۔
"ظفر نے بتایا تھا۔۔کے تم سعودی عرب سے ائے ہو۔۔وہاں کوئی جاب کیوں نہیں کی ضروری تو نہیں تھا کے یہیں آ کر پڑھتے کچھ اور بھی تو کرسکتے تھے۔۔؟"سیٹھ کو جتنی مینار کی سچائی کھٹک رہی تھی اتنا ہی اسکی شخصیت نے سیٹھ پر ایک اثر بھی چھوڑا تھا۔۔۔سیٹھ اس عجوبے کے بارے میں اور جاننا چاہتا تھا ۔۔
"میں نے زندگی کے پچیس سال اس ملک میں گزارے ہیں لوگ چوبیس سال کی عمر میں گریجویٹ ہوکر نکلتے ہیں میں چھبیس سال کی عمر میں یونیورسٹی گیا تھا وہ بھی میرے رشتےدار کی سفارش پر ورنہ موجھے ایڈمشن بھی نہ ملتا۔۔۔میں ڈرگ ایڈکٹ تھا۔۔میرا ماضی مستقبل سب نشہ تھا ۔۔اور نشہ چاہئے کوئی بھی ہو ۔۔برباد کر کے ہی دم لیتا ہے۔۔وہ کچھ دیر خاموش ہوگیا۔۔۔وہ جانتا تھا سیٹھ اُسکے بارے میں سب جاننا چاہتا ہے۔۔اسے اپنی زندگی کی کہانی کسی کو سنانے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔۔بس وہ چپ رہنا زیادہ پسند کرتا تھا خاموشی انسان کو بہت سی خرافات سے بچا لیتی ہے۔۔۔سیٹھ کے چہرے پر کئی سوالوں کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔۔۔"سیٹھ صاحب میں نے fsc بہت ہی مشکلوں سے پاس کیا تھا پھر چار سال تک بہت عیش کیے ۔۔اور پھر نشہ اتر گیا۔۔آنکھ کھلی تو میں پاکستان میں تھا۔۔جس ملک سے مجھے نفرت تھی اسی ملک میں۔۔۔"
جواب لمبا تھا۔۔۔مینار کی زندگی کے سفر طرح۔۔۔۔
"تو پھر پاکستان کیوں آئے ؟جس ملک سے نفرت تھی اسی ملک کیوں اے"؟
"قسمت لے کر آئی ہے۔۔میں خود نہیں آیا۔۔حالات لئے کے کر آئے ہیں ۔۔۔"
سیٹھ اس بار نہیں چونکہ تھا ۔۔وہ جھوٹ سننا چاہتا تھا۔۔۔لیکن اب وہ جان گیا تھا کے آگے بیٹھا شخص کبھی جھوٹ نہی بولے گا۔۔۔
"لڑکے کل تم اپنی Cv اور سارے ڈاکومنٹس میرے آفس لیے او۔۔۔"
سیٹھ ابراہیم کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ متاثر ہوا ہے۔۔مگر مینار احمد کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا ۔۔جنکے دل ماضی کے زخموں سے چور ہوں پھر کیا خوشی کیا غم وہ کچھ بھی محسوس نہیں کر پاتے۔۔۔۔
YOU ARE READING
میرا مرض مستمر
Spiritualمیرا مرض مستمر اب آپ پڑھ سکتے ہیں اردو میں بھی ۔۔ایک ایسی کہانی جو ہم سب کو زندگی کی حقیقت دکھاتی ہے۔۔عشق اے مجازی سے عشق اے حقیقی کا سفر طے کرنا سکھاتی ہے۔۔۔