غم کی تیز بارش کے بعد یہ بھی تو ہوتا ہے
سکون عرش سے نور میں لپٹا دل میں اترتا ہے
درد کی ٹیسیں اٹھنے کے بعد لازمی یہ بھی تو ہوتا ہے
قدرت کے اشارے سے ہر گہرا زخم تیزی سے بڑھتا ہے
زمین بنجر ہو جو بھی محنت گر کرے کسان کو
اکثر ایسی زمینوں پر گھنا سایہ دار شجر بھی اگتا ہے
نا ہی کوئی رازدان تھا اب تک نا ہی کوئی ایسا سہارا جو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کانٹوں پر چلنا سکھاتا اب جو بھی کرنا تھا اسے ہی کرنا تھا۔ ہمیشہ کی طرح خود ہی ہر اندھیرے میں امید کا دیپ جلانا تھا اس نے کروٹ بدلی تو وہ سامنے ہاتھ باندھے بے تاثر چہرہ لیے کھڑی اسے نا جانے کتنی دیر سے تک رہی تھی۔۔۔۔
" تم۔۔۔ تم کب آئی ہو ؟۔۔۔ " نرمل نے اچنبھے سے اسے دیکھا اور پھر سیدھا ہوکر بیٹھنے لگی۔۔۔ اتنے میں آئمہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔۔۔
بیٹھی رہو تم خیالوں میں اتنی مگن تھی کہ میں نے ناک بھی کیا تم نے ھم بھی کہا اور میں اندر آگئی پر تمہیں پتہ ہی نہیں چلا کے میں پچھلے 10 منٹ سے کھڑی تمہیں ایسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ " آئمہ افسردہ سی مسکرائی۔۔۔
" ہاں میں تھوڑا ڈل فیل کر رہی تھی یوں لگ رہا ہے جیسے اندر ہڈیوں میں بخار ہے جو باہر نہیں نکلتا " نرمل نے گویا بات گول مول کرنا چاہی پر وہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہی تھی اور اس بات کا اندازہ اسے تب ہوا جب آئمہ نے تیکھی نظر اس پہ ڈال کر کہا۔
" یہ بخار نہیں یہ غبار ہے جو تمھارے دل میں اتنا بڑھ گیا تھا کے پھر اس نےتمھارے جسم تک رسائی کرلی۔۔۔۔اور یہ تب تک نہیں نکلے گا جب تک تم اسے نکالو گی نہیں۔۔۔۔"
" آئمہ تم نے ڈائری پڑھ لی ؟۔۔۔" نرمل کو جیسے کچھ یاد آیا اس نے چونک کر آئمہ سے پوچھا۔۔۔
" پڑھ بھی لی سمجھ بھی لی جان بھی لی پرکھ بھی لی۔۔۔۔ " آئمہ نے اپنی داہنی ابرو اچکائی۔۔۔۔
" کیا مطلب . . " نرمل نے نا سمجھی سے آئمہ کی طرف دیکھا جو اب طنزیہ سی مسکرا رہی تھی اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی ایک راز کی گہرائی تک پہنچ جانے کی خوشی اور ایک بہت بڑا مرحلہ طے کر جانے کے بعد کا سکون تھا۔۔۔
آئمہ شکل و صورت میں ایک عام سی لڑکی ہی تھی پر اس کے ایک گال پر پڑتا ہلکا سا ڈمپل اس کی مسکان کو بہت حسین بنا دیتا تھا پِھر جب جب وہ مسکراتی ہر نگاہ اسے دیکھتی اور وہ اترا کر اپنی داہنی ابرو اچکا کر اپنے گھنے سلکی بالوں کو ہلکا سا جھٹکا دے کر چلتی مگر یہ سب اس کا ظاہر تھا اندر سے تو وہ موم کی گڑیا تھی ۔۔۔
نرمل جب یونیورسٹی آئی تھی شروع شروع میں بہت اکھڑی اکھڑی رہتی تھی پر ایک آئمہ ہی تھی جو کچھ کچھ اس کا حال سمجھ گئی تھی۔۔آئمہ نے خود نرمل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اسے نرمل بہت اچھی لگی تھی بہت سنجیدہ سادہ مزاج اور کم گو اور اسے بھی چالاک لڑکیوں سے کوفت تھی اس لئے بھی دونوں میں کافی اچھی انڈر اسٹینڈنگ ڈیولپ ہوگئی تھی فرق بس کچھ اتنا ہی تھا کہ آئمہ اپنا ہر راز نرمل کو بتاتی اور نرمل اپنا ہر راز سوائے اللہ کے کسی کو بھی نہیں بتاتی تھی ۔۔۔۔اور یہی بات آئمہ کو پریشان رکھتی تھی کہ شاید اس کی دوست اس پر بھروسہ نہیں کرتی اسی حوالے سے بہت بار ان دونوں میں بحث بھی ہوجاتی پر وہ دونوں اتنی سمجھدار تو تھی کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے رشتے توڑنا معیوب سمجھتی تھیں۔۔۔۔
YOU ARE READING
میرا مرض مستمر
Spiritualمیرا مرض مستمر اب آپ پڑھ سکتے ہیں اردو میں بھی ۔۔ایک ایسی کہانی جو ہم سب کو زندگی کی حقیقت دکھاتی ہے۔۔عشق اے مجازی سے عشق اے حقیقی کا سفر طے کرنا سکھاتی ہے۔۔۔