قسط ۱

4.8K 125 9
                                    

سرد دنوں کی سرمئی شام! راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہورہے تھے۔ کھلی کھڑکی سے ہوتے ہوئے ہوا اس کی لٹوں کو چھیڑ رہی تھی۔ چہرہ کھڑکی کی سمت تھا اور ہاتھ میں پکڑے صفحے کو لئے وہ پرجوش کھڑی تھی۔ ڈوپٹہ مسہری پر رکھا ہوا تھا اور بال چٹیا میں قید تھے البتہ کچھ آوارہ لٹیں شرارتی ہوا کی نظر تھیں۔
"یہ سوال بھی میں نے ٹھیک کیا تھا۔ واہ! مزہ آگیا صالحہ۔ پرچہ تو تیرا بڑا زبردست ہوا ہے امید ہے نمبر بھی اچھے آجائیں ورنہ تو آگے کیسے پڑھے گی؟ نہیں نہیں صالحہ کو ابھی بہت پڑھنا ہے۔ کوئی آفسران تو ضرور بن جاؤں گی"۔ ارد گرد سے بیگانی وہ اپنی ہی کہی جارہی تھی۔
وہ اس حویلی میں نئی تو نہیں تھی۔ تو کیا وہ نہیں جانتی تھی اس حویلی کی لڑکیوں کے خواب صرف ٹوٹنے کے لئے ہی ہوتے ہیں؟۔
کمرے میں خاموشی پھیلی تو اسے گھنٹی کی آواز آئی۔ کوئی دوسرے کمرے سے گھنٹی بجا رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کون ہے اس لئے سب چھوڑ چھاڑ کر چادر سر پر پہن کر پورے وجود کو ڈھانپ کر بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ گھنٹی کی آواز میں تیزی آئی۔ وہ جو کوئی بھی تھا اب تیزی سے گھنٹی بجا رہا تھا۔ وہ اوپری منزل کے سب سے کونے والے کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑی ہوئی۔ گھنٹی کی آواز اندر سے آرہی تھی۔ صالحہ نے اردگرد نظریں دوڑائیں کہ کہیں اسے کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ اوپری منزل ویران ہی رہا کرتی تھی۔ اس نے کمرے کے باہر لٹکے جالوں کو دیکھا اور گہری سانس لیتی اندر بڑھی۔ اندھیرے میں ڈوبا کمرہ صبح کے وقت بھی وحشتوں سے بھرا ہوا تھا۔ اندر کھڑکی کی طرف کھڑا ہوا وجود مڑ کر اسے دیکھنے لگا۔ ساکت نظریں صالحہ کے وجود پر اٹک گئیں۔ اس ساکت کھڑے وجود کے لبوں پر تب تک مسکراہٹ نہیں آئی جب تک صالحہ نے مسکرا اسے نہ دیکھا۔
صالحہ مدھم سی مسکراہٹ لبوں پر لائی۔
وہ شوق سے نہیں مسکراتی تھی۔ بلکہ اس لئے مسکراتی تھی کہ اسے دیکھ کر وہ ٹہھرا وجود بھی مسکرا اٹھتا تھا۔ اس کے بکھرے بالوں پر نظر پڑی تو صالحہ سر جھٹکتی گرد میں لپٹی سنگھار میز کی طرف بڑھی۔ وہ سنگھار میز کہلانے کے قابل ہی نہیں تھی۔ بلکہ اس بوسیدہ سی لکڑیوں کو سنگھار میز کہنا سنگھار میز کی گستاخی کرنے کے مترادف تھا۔ دراز جھٹکے سے کھولی تو دھول اڑی۔ صالحہ نے ڈوپٹہ ناک پر رکھا۔ اندر رکھا ٹوٹا کنگھا تھامے وہ اس کے قریب آئی۔ ہاتھ تھام کر نرمی سے بستر پر بٹھایا۔ اس کے بکھرے بال کھولے اور برابر میں رکھا ٹیپ چلادیا۔
"کوئی دل سے پوچھے
کیا حشر ہوا ہے روح کا
یا خدا یہ تیرے بشر
ظلم ہیں ڈھاتے ہم پر بہت
سانسیں بھی بےوجہ لے لیں
تو جرمانہ ہے اس پر بھی"
دھیمی آواز پر اس کے بالوں پر ہلکے ہاتھ پھیرتی کنگھی کے ساتھ ساتھ وہ ٹیپ سے نکلتی آواز کے ساتھ دھیما گنگنارہی تھی۔ سفید کپڑوں میں لپٹے وجود نے ہاتھ میں رکھی بیل ہاتھ بڑھا کر میز پر رکھی۔ اسے اب گھنٹی کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے پاس صالحہ تھی اور یہ گھنٹی بھی اسی کی دی ہوئی تھی۔
*--------------------*--------------------*
"ہم زمینوں سے ہو آئیں ہیں داجی"۔ سفید کرتا شلوار پہنے شرٹ نفاست سے پیچھے سے اٹھا کر وہ صوفے پر بیٹھا۔
"اچھا یے! ہمیں جانے سے قبل خبر کردیا کرو!"۔ وہ اپنا مخصوص سگار کا دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے بولے۔
"جو آپ کا حکم!"۔ وہ احتراماً بولا۔
اس حویلی کے مرد اور ان کی پرکشش چہرے! اپنا مقام رکھتے تھے۔
"شرجیل اس گھر کی عورتوں کو ہوش دلاؤ۔ لگتا ہے وہ کھانا پیش کرنا بھول گئی ہیں اس حویلی کی مکینوں کو"۔ داجی نے طنز کرکے منہ دوسری جانب پھیرا۔
"داجی میں دیکھتا ہوں"۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

زنجیر (مکمل) Donde viven las historias. Descúbrelo ahora